سکھر: ریلوے انجن شیڈ کالونی میں گندگی کے ڈھیرو نکاسی آب کا نظام مفلوج دکھائی دے رہا ہے.

ذریعہ: Jasarat News

پڑھیں:

 ریاست بہاول پور (آخری قسط)

ایک قبر کا ذکر ضروری ہے جس کو کھلے آسمان کے نیچے سنگے مرمر کی لطیف خوب صورت جالیوں کی چار دیواری میں بنایا گیا ہے۔ یہ قبر نواب صادق محمد خان عباسی کی دوسری بیوی، لِنڈا فلورینس سیئس کی ہے جنہیں ان کی خواہش کے عین مطابق اپنے شوہر نواب صادق محمد خان پنجم کے بالکل پاؤں کی طرف دفن کیا گیا ہے۔

یوں سمجھیے نواب صادق صاحب کے پاؤں اور ملکہ کے سر کے درمیان بس ایک دیوار حائل ہے۔ 3 تیسرا حصہ عام قبروں کا ہے جن میں اب تک چار دیواری کے اندر تدفین کا سلسلہ جاری ہے۔ پورے قبرستان میں قبریں پہلے سے تیار ہے اور اوپر سنگ مرمر کی تختیاں لگا کر بند کیا ہوا ہے جب کوئی نفس موت کا ذائقہ چکھتا ہے تو قبر خدائی کی بجائے پہلے سے تیار قبر کشائی کرتے ہوئے تختیاں ہٹا کر تدفین کی جاتی ہے۔ نواب خاندان کو خبر ہو کہ شہزادی صاحبہ کے مقبرے کی چھت گر چکی ہے جس کی وجہ سے ان کی قبر کا ایک حصہ بھی متاثر ہوا ہے۔

اگر خاندانی عورتوں کی قبروں کو احترامً چار دیواری میں بند رکھا جاتا ہے اور کسی کو بھی وہاں جانے کی اجازت نہیں کہ کسی نامحرم یہاں تک کہ کسی پرندے کی بھی نظر ان قبور پر نہ پڑے تو شہزادی صاحبہ کی قبر کو اس قدر بے پردگی میں کیوں رکھا گیا ہے؟ ان کی قبر پر دوبارہ سے چھت کیوں نہیں بنائی جاتی؟ متاثرہ قبر کے تعویذ کی مرمت کیوں نہیں کی جاتی؟ بعض اوقات میری سمجھ ہی میں نہ آتا کہ کیا لکھا جائے اور کیسے لکھا جائے۔ معلوم نہیں کہ ستلج کی ریت میں ایسی کون سی نمی ہے جو وسیب واسیوں کو اس قدر منفرد بنا رہی ہے۔ پہلے پہل تو جنوبی پنجاب کے کچھ پس ماندہ علاقوں میں جاتا تھا تو گمان گزرتا تھا کہ شاید پس ماندہ علاقوں کے لوگوں اتنے سادے ہوتے ہوں گے مگر اب کی بار تو اخیر ہی ہوگئی۔ واللہ میں شرمندہ شرمندہ سا تھا کہ مجھے جیسے انسان کو بہاول پور جیسے شہر میں اس قدر عزت کیوں کر مل رہی ہے۔

بہاول پور شہر میں سورج طلوع ہوتا ہے اور میں زبیر صاحب کے یہاں آنکھیں مَلتا ہوا اٹھتا ہوں۔ زبیر صاحب ایک طرف آن لائن کلاس لے رہے ہیں، ساتھ ساتھ میری پورے دن کا شیڈول ترتیب دے رہے ہیں۔ ان کے چھوٹے بھائی کے دوست فاروق عظیم صاحب ہیں جو سمہ سٹہ اسپشل برانچ میں سب انسپکٹر ہیں۔ اب آپ ذرا غور کریں کہ میں پہلی بار زبیر صاحب سے مل رہا ہوں، وہ مجھے ہوٹل سے اٹھا کر گھر لاتے ہیں اور صبح سویرے اپنی بائیک دے کر سمہ سٹہ روانہ کر دیتے ہیں کہ میں فاروق عظیم صاحب کے پاس چلا جاؤں جو سمہ سٹہ میں میرے منتظر ہیں۔ یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ زبیر صاحب اور فاروق صاحب آپس میں کبھی نہیں ملے، کوئی ملاقات نہیں مگر چوں کہ ان کے بھائی کے دوست ہیں، اس لیے ان پر اعتماد کرتے ہوئے مجھے اپنی موٹر سائیکل پر سمہ سٹہ روانہ کر دیتے ہیں۔

آگے اب فاروق صاحب پر ذرا غور کریں۔ جس شخص سے وہ کبھی نہیں ملے، اس کے کہنے پر وہ مجھے سمہ سٹہ ریلوے اسٹیشن پر ملتے ہیں۔ وہاں کی نہ صرف ورک شاپ دکھاتے ہیں بلکہ ڈرائیور حضرات کے اسکول کا بھی وزٹ کرواتے ہیں اور پھر فاروق صاحب کی بدولت ایسے پروٹوکول بھی ملے جن کا سیکورٹی رسک کی بنیاد پر ذکر نہیں کیا جا سکتا۔ بات صرف یہیں ختم نہیں ہوئی۔ اب میں ذرا شرمندہ شرمندہ سا ہوں کہ ایک مکمل طور پر اجنبی وسیب واسی جو مجھے میری بساط سے بڑھ کر عزت دے رہا ہے، بہاول پور یونیورسٹی کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ پروفیسر ڈاکٹر رانا شہزاد سے ملوانے واپس بہاول پور لاتے ہیں۔

اب کہاں میں ساشے پیک آوارہ گرد اور کہاں بہاول پور یونیورسٹی کے ڈاکٹر رانا شہزاد صاحب۔ ڈاکٹر صاحب نے جو میرا شیڈول پوچھا تو عرض کی کہ بس شہر دکھا دیں۔ ڈاکٹر صاحب نے شہر کا طائرانہ جائزہ زمین پر رہتے ہوئے ہی کروا دیا اور میرے منع کرنے کے باوجود گاڑی یونیورسٹی کی جانب موڑ دی۔ سوچا تھا کہ بہاول پور یونیورسٹی میں میرا کیا کام مگر وہاں جا کر تو جیسے روح ہی خوش ہو گئی۔ چولستانی ٹیلوں پر جنگل میں منگل تو کیا ہی گیا تھا، وہ صرف دیکھ کر یا وہاں کھڑے ہو کر ہی محسوس کیا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر صاحب کی محبت کہ وہ مجھے لے کر پورا دن گھومتے پھرتے رہے۔ وقت کی کمی کے باعث تو زیادہ تر عمارات ہم نے باہر سی ہی دیکھیں مگر مسجد الصادق نے جی خوش کر دیا اور پھر ڈاکٹر صاحب نے جو حیرت انگیز معلومات ہر شے بارے فراہم کیں وہ الگ۔ اب مجھے بتائیں کہ وسیب کے علاؤہ آپ کو یہ محبت کے رنگ اور کہاں ملتے ہیں؟ وہ پہلی پہلی ملاقات میں کسی کو اتنے بڑے پروٹوکول کے ساتھ لور لور لئے پھرتا ہے۔ یہ کام صرف اور صرف وسیب واسی ہی کر سکتے ہیں۔ اگر میں کبھی پھر سے بہاول پور گیا تو اس کی وجہ صرف اور صرف ڈاکٹر رانا شہزاد صاحب ہی ہوں گئے اور اگر روہی چولستان گیا جو کہ میں نے جانا ہے تو وجہ زبیر صاحب کی کتاب ’’مسافر لوگ‘‘ ہوگی جس میں روہی چولستان کے ایک ایک قلعے کے بارے میں انتہائی مفصل معلومات درج ہیں۔ مجھے بس ایک دن بہاول پور جانا ہے، اپنے منہ پر ٹیپ لگالینا ہے اور ڈاکٹر صاحب سے کہہ دینا ہے کہ جتنا ہو سکتا ہے مجھے بہاول پور دکھا دیں۔ وہ یکم جنوری کا دن تھا جب میں صبح سویرے زبیر صاحب کی موٹر سائیکل پکڑے سمہ سٹہ ریلوے اسٹیشن کی طرف روانہ ہو گیا۔

اگرچہ کہ انگریزوں نے برصغیر پاک و ہند میں ریل کی پٹری بچھانے کا آغاز کلکتہ سے کیا مگر ریل کی پٹری کا یہ جال پھر رفتہ رفتہ پورے برصغیر میں پھیلتا چلتا گیا یہاں تک کہ انگریز بہادر اس پٹری کو طور خم اور چمن کے راستے افغانستان میں لے گیا۔ برصغیر میں ریل کا موضوع تو طویل تر ہے مگر فی الحال ہم اس شہر تک محدود رہتے ہیں جو دو سگے بھائیوں کے نام پر بسایا گیا تھا۔ نہ جانے یہ بات کس صدی کی ہے، کتنی پرانی ہے۔ دونوں بھائیوں نے ایسے کون کون سے کارنامے سر انجام دیے یا ایسا کون سا بڑا عہدہ رکھتے تھے کہ دونوں کے نام پر نہ صرف آباد ہوا بلکہ آج تک قائم ہے۔ ریاست بہاولپور کی تاریخ اگر نوابوں کے ذکر کے بغیر ادھوری ہے تو ان دو بھائیوں کا ذکر بھی ضروری ہے۔ کہتے ہیں بھلے وقتوں میں دو بھائی تھے۔ ایک کا نام ’’سمہ‘‘ تھا اور ایک کا نام ’’سٹہ۔‘‘ عین ممکن ہے کہ دونوں کا اصل نام کچھ اور ہو جو لاڈ پیار سے بگڑا اور نام سمہ اور سٹہ ہو۔ بات خواہ کچھ بھی ہو مگر حقیقت یہ ہے کہ دونوں بھائیوں کے نام پر آباد یہ علاقہ قائم ہے بلکہ ریلوے کی تاریخ میں بہت اہمیت کا بھی حامل ہے۔

ریلوے لائن جب ریاست بہاولپور تک پہنچی تو اس وقت ریاست پر حکم رانی نواب صادق چہارم کی تھی۔ انھوں نے بہاول پور ریلوے اسٹیشن کے لیے شہر سے سولہ کلو میٹر دور سمہ سٹہ میں ریلوے اسٹیشن بنانے کا فیصلہ کیا جس کا مقصد شہر کی فضا کو کالے انجن کے دھواں سے دور رکھنا تھا۔ ایک چھوٹے سے قصبے سمہ سٹہ میں ریلوے اسٹیشن کیا بنا، گاؤں کی حالت ہی بدل گئی اور رفتہ رفتہ اس نے ایک شہر کی شکل اختیار کرلی۔ بعد میں بہاول پور شہر کے لیے الگ سے ریلوے اسٹیشن بنایا گیا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ سمہ سٹہ سے لاہور اور دہلی دونوں کا فیصلہ تقریباً برابر ہے۔بہاولنگر کے راستے بھارت تک ریلوے لائن یہیں سے جاتی تھی۔

1947 میں دلی سے پاکستان کے حصے کے اثاثے بھی اسی راستے سے آئے۔ یہیں سے بٹھنڈہ ٹرین جاتی تھی، جس کی وجہ سے ’’وایا بٹھنڈہ‘‘ کا محاورہ وجود میں آیا۔ قیام پاکستان سے پہلے دہلی کی بھی ساری تجارت اسی راستے سے ہوتی تھی۔ دہلی سے سمندر تک جانے کے لیے یہی راستہ سب سے محفوظ اور قریب تھا۔ سمہ سٹہ میں ہی ریل کی بڑی ورک شاپ بھی قائم ہے جہاں بوگیوں اور انجن کی ضروری مرمت کی جاتی ہے۔ یہ ورک شاپ ریلوے اسٹیشن سے ذرا ہٹ کر ہے جہاں ڈرائیور حضرات کے لیے اسکول بھی قائم ہے۔ یہاں ایک ریلیف ٹرین بھی کھڑی ہے جسے کسی ریل حادثے کی صورت میں استعمال کیا جاتا ہے۔

یہاں ایک کالا بھاپ سے چلنے والا انجن بھی کھڑا ہے جسے بہاول پور ریلوے اسٹیشن پر نصب ہونا تھا مگر یہ منصوبہ بھی ہمارے بہت سے منصوبوں کی طرح کسی نہ کسی فائنل میں دب گیا۔ میں بڑے شوق سے ریلوے سکول کے ہیڈ ماسٹر صاحب سے سوال کرنے لگا کہ آخر سمہ سٹہ پیسنجر ٹرین سمیت بہت سی ٹرینوں کو کیوں بند کر دیا گیا۔ صاحب فرمانے لگے کہ اول تو بی بی کی شہادت پر بہت سی ٹرینوں کو جلا دیا گیا۔ اس کے بعد جو بلور صاحب وزیر ریلوے بنے تو انھوں نے پوری کوشش کی ریلوے بند ہو جائے۔ اللّہ کا خاص کرم کے وہ اپنے منصوبے میں مکمل طور پر کامیاب نہ ہو سکے۔ انجن یا بوگیاں ضروری مرمت کے واسطے فاؤنڈیز میں جاتے تھے اور پھر واپس نہ آتے تھے۔ جان بوجھ کر ریلوے انجنز کو ناکارہ بنایا گیا۔ انھیں روک دیا گیا۔ مقصد صرف اور صرف یہ تھا کہ ان کا اپنا ٹرانسپورٹ کا کاروبار ترقی کرے۔ ہیڈ ماسٹر صاحب نوے کی دہائی اور 2007 تک کا ریلوے کا شیڈول دکھانے لگے تو ہم دونوں کی آنکھیں نم ہوگئیں۔ بے تحاشہ ریل گاڑیاں ہر روز سمہ سٹہ ریلوے اسٹیشن سمیت گزرتی تھیں۔

ریلوے اسٹیشن آباد تھے، چائے پکوڑوں سمیت یہاں اخبارِ جہاں، تعلیم و تربیت اور نہ جانے کون کون سے رسائل فروخت ہوا کرتے تھے جنھیں مسافر شوق سے خریدتے اور پڑھتے تھے۔ مگر پھر سوچی سمجھی سازش کے تحت سب ختم کر دیا گیا۔ ریلوے اسٹیشن برباد ہونے لگے، ٹرینیں ختم ہونے لگیں۔ بلور صاحب کا دل چیرنے والا بیان مجھے آج بھی یاد ہے کہ ’’افغانستان میں کون سا ریل کا نظام ہے مگر پھر بھی ملک زندہ ہے، قائم ہے۔‘‘ جیسا کہ پہلے بھی بات ہوچکی کہ سمہ سٹہ ایک اہم ریلوے اسٹیشن تو ہے ہی ہے مگر ساتھ ساتھ جنکشن بھی ہے۔ کراچی سکھر سے آنے والی لائن یہاں سے دو مختلف سمتوں میں چلی جاتی ہے۔ ایک بہاولنگر، چشتیاں، امروکا، فیروز پور سے ہوتی ہوئی دہلی چلی جاتی تھی جب کہ دوسری بہاولپور، ملتان، لاہور سے ہوتی ہوئی دہلی جاتی تھی۔ سمہ سٹہ سے ایک برانچ لائن صحرائے چولستان کے دوسرے سرے پر فورٹ عباس کی طرف جاتی تھی۔ بد قسمتی کی انتہا یہ ہے کہ یہ لائن اب مکمل طور پر بند ہے۔ اپنے بہت ہی بچپن میں میں جن جن شہروں سے آشنا تھا ان میں سے سمہ سٹہ بھی ایک تھا۔ اگرچہ کہ صرف نام کی حد تک ہی تھا مگر تھا تو سہی۔ بلکہ مجھے تو یہ بھی علم نہ تھا کہ سمہ سٹہ کسی شہر کا نام ہے۔ میں جس سمہ سٹہ سے آشنا تھا وہ ایک ٹرین کا نام تھا۔ سمہ سٹہ ایکسپریس جو کہ صرف نام کی حد تک ہی ایکسپریس تھی مگر چلو ریل تو پھر۔ سمہ سٹہ ٹرین سہ پہر میں کہیں سیال کوٹ سے چلتی اور سمہ سٹہ جاتی تھی۔ سمہ سٹہ سے آنے والی ریل صبح سویرے تقریباً سات بجے وزیر آباد سے ہوتے ہوئے سیال کوٹ پہنچ جاتی۔ وزیر آباد پہنچ کر سمہ سٹہ کا انجن تبدیل ہوتا، دوسری جانب لگتا اور گاڑی سیال کوٹ کو چل دیتی۔

وزیر آباد جنکشن میں تین اطراف کو پٹری جاتی ہے۔ اگر آپ راولپنڈی، گجرات کہ جانب سے آ رہے ہیں تو ایک پٹری سیدھی لاہور کو چلی جائے گی۔ دوسری دائیں جانب مڑتے ہوئے حافظ اباد، فیصل آباد کی جانب مڑ جاتی ہے جب کہ تیسری بائیں جانب سیال کوٹ کو چلی جائے گی۔ سمہ سٹہ ریل جب فیصل آباد سے ہوتے ہوئے وزیرآباد آتی تو سیال کوٹ آنے کے لیے پٹری تبدیل کرنا پڑتی۔ شہرِ اقتدار کو جاتی پٹری سے یہ منہ موڑتی اور وزیر آباد، سیال کوٹ، جموں ٹریک پر آتے ہوئے سیال کوٹ تک آتی۔ دسمبر 2007 میں جب بی بی کی شہادت ہوئی اور سڑکیں بند کر دی گئیں تو ان دنوں میں فیصل آباد ہاسٹل میں ہی قیام پزیر تھا۔

تمام تعلیمی ادارے بند کر دئیے گئے تھے۔ تب میں اسی ریل کے ذریعے فیصل آباد سے سیال کوٹ پہنچا تھا۔ سمہ سٹہ ریلوے اسٹیشن سے جو نکلے تو پروفیسر ڈاکٹر شہزاد رانا صاحب نے آن لیا اور یونی ورسٹی کے مختلف ڈیپارٹمنٹس کا دورہ کروایا جب کہ میں بغداد ریلوے اسٹیشن دیکھنے کے لیے بے چین ہو رہا تھا۔ بعد میں پتہ چلا کہ بہاول پور شہر اور خاص کر بہاول پور اسلامیہ یونی ورسٹی اس قدر پھیل چکی ہیں کہ بغداد ریلوے اسٹیشن اب تقریباً اس کے ساتھ ہی ہے۔ نواب جب یہاں آئے تو انھوں نے اپنے آباؤ اجداد کے ناموں کو مختلف طریقوں سے زندہ رکھنے کی کوشش کی جن میں سے ایک بغداد شہر کا قیام بھی تھا اور ظاہر سی بات ہے کہ اسی شہر کا ریلوے اسٹیشن بغداد ریلوے اسٹیشن کہلاتا ہے۔

بہاول پور شہر اب اتنا پھیل چکا ہے کہ سمجھیں بغداد شہر ختم ہو کر بہاول پور میں ہی ضم ہو چکا ہے البتہ ریلوے اسٹیشن کی عمارت ابھی موجود ہے مگر یہ ریلوے لائن اب متروک ہے۔ یہی وہ ریلوے لائن تھی جو بغداد، حاصل پور، چشتیاں، بہاول نگر، منڈی صادق گنج، منچن آباد اور امروکا سے ہوتی ہوئی دلی جاتی تھی۔ بھارت سے جو تھوڑے بہت اثاثہ جات پاکستان آئے، وہ بھی اسی لائن سے ہی آئے۔ امروکا اس ریلوے لائن کا پاکستان کی طرف سے آخری ریلوے اسٹیشن ہے۔ بہاول پور شہر پر تو نہ جانے کتنے مضامین لکھیں جائیں مگر وہ بھی کم ہوں گے۔ تاریخی جگہیں نہ جانے کتنی ہیں مگر سب سے زیادہ جو عمارت قابلِ قبول ہے وہ نوابوں کی بنائی ہوئی مسجد ہے۔

مسجد الصادق جس کا سنگِ بنیاد 1860 میں رکھا گیا تھا، ایک انتہائی خوب صورت مسجد ہے جس کا اوپر والا مین ہال مسجدِ قرطبہ کی طرز پر بنایا گیا ہے۔ مسجد الصادق حیرت انگیز فنِ تعمیر کی حامل مسجد ہے جس میں ایک ہی وقت میں پچاس سے ساٹھ ہزار افراد نماز ادا کر سکتے ہیں۔ مسجد کے دو بڑے مینار ہیں جب کہ نواب صاحب نے دوراندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسجد کے نیچے دکانوں کو تعمیر کروایا تھا جن کا کرایہ مسجد کے اخراجات کو برداشت کرنے میں استعمال ہوتا تھا۔ مسجد مکمل طور پر سفید سنگِ مرمر میں نہائی ہوئی ہے جو اس کی خوب صورتی کو مزید چار چاند لگا دیتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • امریکا کا اسرائیل کو نیا تحفہ! 18 کروڑ ڈالر کے فوجی انجن دینے کی منظوری
  • امریکا کی اسرائیل کو 18 کروڑ ڈالرز کے انجن فروخت کرنے کی منظوری
  • پرانا گولیمار یونائیڈ کالونی میں 13 سالہ لڑکی نے گلے میں پھندا لگا کر خودکشی کر لی
  • کراچی حیدرآباد موٹر وے نئے راستے پر بنائی جائے گی، احسن اقبال
  •  ریاست بہاول پور (آخری قسط)
  • غزہ: الاہلی ہسپتال پر اسرائیلی حملے سے شہر کا نظام طب بری طرح متاثر
  • ابوظہبی کی معروف شاہراہ پر کم از کم سپیڈ لمٹ کا نظام ختم
  • کراچی؛ جانوروں کے فضلے سے بائیو گیس کے بڑے منصوبے کیلیے حکمت عملی مرتب
  • امن و امان کی بگڑتی ہوئی کیفیت نے عوام کی زندگی کو مفلوج کیا ہے، علامہ مقصود ڈومکی
  • ٹیکس نظام کو انتہائی سادہ بنانے جا رہے ہیں؛ محمد اورنگزیب