’گریز پا موسموں کی خوشبو‘ اب بدصورتی کے مقابل آن کھڑی ہوئی ہے اور ایک سوال کر رہی ہے:
تمام ہو گا یہ آزمائش کا مرحلہ کیا
کہ تا قیامت رہے گا یوں ہی یہ سلسلہ کیا
واوین میں درج عنوان قبلہ عرفان صدیقی کے مجموعہ کلام کا نام ہے اور سوالات کے حشر اٹھاتا ہوا یہ شعر بھی ان ہی کا ہے۔ یہ کتاب اور شعر ان کے ایک حالیہ بیان سے یاد آیا۔ بیرسٹر گوہر نے عمران خان کی ہدایت پر اچانک مذاکرات کے خاتمے کا اعلان کیا تو سینیٹر عرفان صدیقی نے ایک بات کہی۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی طرف سے مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کسی نئی مہم جوئی، کسی نئے منصوبے کی خبر دیتا ہے۔
ایک مذاکرات کار نیز اس عمل کے ترجمان کی طرف سے اگر ایسی بات کہی جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ معاملہ نازک ہے اور کچھ نہ کچھ ایسا ضرور ہے جس کے بارے میں خدشہ ہے کہ حدود سے تجاوز ہو رہا ہے۔
اشارہ تو وہی ہے جس کا ذکر عرفان صدیقی کے حالیہ بیان میں ہے کہ اب پی ٹی آئی کے پیش نظر کوئی اور منصوبہ ہے۔ یہ منصوبہ کیا ہو سکتا ہے؟
یہ بھی پڑھیں:عمران خان کی پارسائی کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟
زیادہ دن نہیں گزرے جب جاوید احمد غامدی پی ٹی آئی اور اس کے ہم دردوں کے نشانے پر تھے۔ غامدی صاحب صرف علوم اسلامیہ کے محقق اور عالم ہی نہیں بلکہ وہ صاحب بصیرت مدبر بھی ہیں۔ حال ہی میں ان کا ایک سلسلہ گفتگو ’فوج کا بیانیہ‘ کے عنوان سے سامنے آیا ہے، جس میں انہوں نے ریاست و سیاست کے معاملات میں فوج کے کردار پر اظہار خیال کیا ہے۔
اس طویل سلسلہ گفتگو میں انہوں نے بڑی تفصیل کے ساتھ واضح کیا ہے کہ فوج جب اپنے پیشہ وارانہ دائرے سے نکل کر دیگر دائروں میں داخل ہوتی ہے تو اس کے نتیجے میں کیا مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
ان کا تجزیہ یہ ہے کہ پاکستان آج جن مسائل میں پھنس چکا ہے، اس کی وجہ اسٹیبلشمنٹ کا یہی طرز عمل رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ غامدی صاحب اپنے طویل علمی کیریئر اور غور و فکر کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ سیاسی امور اور نظام مملکت کے غیر عسکری شعبوں میں عسکری شعبے کی مداخلت درست نہیں۔
یہ گویا اسی مؤقف کی تائید تھی جسے میاں محمد نواز شریف سویلین سپرمیسی کا عنوان دیتے ہیں۔ پھر یکایک ایسا کیا ہوا کہ سویلین سپرمیسی پر یقین کامل رکھنے والے بزرگ نے یہ محسوس کیا کہ پاکستان میں اس وقت فوج کو کمزور کرنے کا عمل جاری ہے جو ملک و قوم کی کمزوری اور نقصان کا باعث بنے گا۔
ان کا یہی بیان تھا جس پر ان کے خلاف مہم شروع ہوگئی۔ کچھ لوگوں نے انہیں اسٹیبلشمنٹ کا معذرت خواہ قرار دیا، تو کچھ نے بہ اندازِ دگر ان کی کردار کشی کی۔
غامدی صاحب زیر عتاب کیوں آئے؟ اس پر تفصیل کے ساتھ اظہار خیال ان ہی کالموں میں کیا جا چکا ہے۔ اب پی ٹی آئی نے جس افراتفری میں مذاکرات سے علیحدگی کا اعلان کیا ہے، اس کی وجہ سے یہ واقعہ ایک بار پھر تازہ ہو گیا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ خدشات اب حقیقت بنتے دکھائی دیتے ہیں جن کے بارے میں غامدی صاحب نے کنایتاً بات کی تھی۔ 2-3 ہفتے قبل اس کالم میں بھی ان عوامل کا تفصیل کے ساتھ تذکرہ ہوا تھا۔ اس میں ملک کے اندر دہشتگردی کے بڑھتے ہوئے رجحان کی وجوہات شامل تھیں۔ معاملات صرف یہیں تک محدود نہیں۔ کچھ اور امور بھی ہیں۔ یہاں اسی کا تذکرہ مطلوب ہے لیکن اس سے قبل 2014 کی ایک یاد۔
یہ بھی پڑھیں:رچرڈ گرینل پریشان کیوں ہیں؟
پی ٹی آئی نے 2014 میں 4 حلقوں اور 35 پنکچر کے نام پر دھرنا دے کر جو ہنگامہ برپا کیا، اس کے اثرات اور نتائج پر بہت بات ہو چکی ہے، لیکن اس وقت ریاست کی ایک انتہائی باخبر شخصیت کے ایک تبصرے کی طرف توجہ مبذول کرنا مطلوب ہے۔
ایوان صدر میں ہونے والی ایک نشست میں انہوں نے کہا تھا کہ عمران خان نے اس دھرنے کے ذریعے پاکستان کے ہاتھ پاؤں باندھ کر اسے اقتصادی راہ داری کے دشمنوں کے سامنے پھینک دیا ہے۔ واضح رہے کہ اس وقت تک چین کے صدر کا دورہ منسوخ نہیں ہوا تھا۔ چینی صدر کے دورے کی منسوخی اور بعد میں پی ٹی آئی کی حکومت بننے کے بعد اس حکومت کے وزیروں نے سی پیک کے خلاف کھلم کھلا پروپیگنڈا کیا اور اس پر کام روک دیا گیا تو اس انکشاف کے درست ہونے میں کوئی شبہ نہ رہا۔
اس وقت دیکھیے، صورت حال تھوڑے سے فرق کے ساتھ 2018 جیسی بنتی دکھائی دیتی ہے۔ عمران خان 2914 میں اقتدار میں آئے تو امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ اقتدار میں آ چکے تھے۔ اب وہ ایک بار پھر صدر منتخب ہو چکے ہیں اور اقتدار سنبھالتے ہی انہوں نے کچھ ایسے اقدامات کیے ہیں جن کے اثرات دنیا بھر میں محسوس کیے جا رہے ہیں۔
یوکرین کی جنگ کے بارے میں وہ کہہ چکے ہیں کہ اب وہ اس کا بوجھ اٹھانے پر آمادہ نہیں ہیں۔ روس کے صدر پیوٹن کو انہوں نے کہہ دیا ہے کہ جنگ ختم کرنے کے لیے کام کریں۔ مشرق وسطیٰ میں انہوں نے جنگ بندی کرا دی ہے اور اسرائیل سمیت اپنے تمام حلیفوں سے انہوں نے کہہ دیا ہے کہ وہ اپنا دفاعی بوجھ خود اٹھائیں۔
یورپ کے حلیفوں کو بھی انہوں نے اسی قسم کا پیغام دیا ہے۔ رہ گیا جنوبی ایشیا اور چین، تو اس ضمن میں بھی ان کی ترجیحات واضح ہیں۔ وہ چین کا راستہ روکنا چاہتے ہیں۔ اس منصوبے میں ون بیلٹ ون روڈ نیز اقتصادی راہ داری کی گنجائش صرف اسی صورت میں نکل سکتی ہے جب امریکا کی اقتصادی شرائط پوری کر دی جائیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ امریکا اس ضمن میں چین اور اس کے حلیفوں کا بازو مروڑنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
خاص طور پر پاکستان کی بات کی جائے تو یہ راز سمجھنا مشکل نہیں کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو امریکا نے ابھی تک قبول نہیں کیا۔ باب وڈورڈز نے اپنی کتاب Obama Wars میں لگی لپٹی رکھے بغیر یہ بتا دیا ہے کہ امریکا، پاکستان کا ایٹمی پروگرام ختم کرانا چاہتا ہے۔ امریکا میں تازہ تبدیلی کے بعد پی ٹی آئی کے پیش نظر اس وقت یہی چیز ہے۔
یہ بھی پڑھیں:وسائل کے بغیر جنگ جیتنے کی حکمت عملی
یہ خبریں مل رہی ہیں کہ پی ٹی آئی 9 مئی اور 26 نومبر جیسے واقعات کی بنیاد پر پاکستان کے خلاف عالمی سطح پر مہمات چلانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ منصوبہ یہ ہے کہ انسانی حقوق کی پامالی کا ڈھنڈورا پیٹا جائے تاکہ پاکستان کی معیشت کی بحالی کا جو عمل شروع ہوا ہے، اس میں رخنہ ڈالا جا سکے اور ممکن ہو سکے تو پاکستان پر کچھ پابندیاں لگوا دی جائیں۔ سیاسی مفادات کے لیے بعض لوگ اس سطح پر بھی جا پہنچتے ہیں۔
سفارتی ذرائع یہ بات تو وثوق کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ عمران خان کی رہائی کے لیے صدر ٹرمپ کی طرف سے کسی مداخلت کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے، لیکن امریکا اپنے اصل ایجنڈے پر کام کرنے کا ارادہ بہرحال رکھتا ہے۔ پی ٹی آئی اسی موقع سے فائدہ اٹھانے کی خواہشمند ہے۔ مذاکرات کے خاتمے کے اعلان کا پس منظر بھی یہی ہے۔
بیرسٹر گوہر نے مذاکرات کے خاتمے کے اعلان کے بعد بات چیت کے احیا کا عندیہ دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پی ٹی آئی امید و بیم کی کیفیات پیدا کرے گی تاکہ اس کے بارے میں قومی اور عالمی سطح پر یہ ثابت نہ کیا جا سکے کہ یہ ایک ہٹ دھرم گروہ ہے، جو مفاہمت کے بجائے تصادم پر یقین رکھتا ہے۔ اس جماعت کے اس مزاج اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورت حال پر عرفان صدیقی کا شعر ہی صادق آتا ہے یعنی ؎
تمام ہو گا یہ آزمائش کا مرحلہ کیا
کہ تا قیامت رہے گا یوں ہی یہ سلسلہ کیا
یہ الگ بات کہ مذاکرات کار کی حیثیت سے وہ اس وقت کوئی سخت بات کہنے سے گریز کریں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ڈاکٹر فاروق عادلفاروق عادل ادیب کا دل لے کر پیدا ہوئے، صحافت نے روزگار فراہم کیا۔ ان کی گفتگو اور تجزیہ دونوں روایت سے ہٹ کر ہوتے ہیں۔
اسرائیل امریکا بیرسٹر گوہر پی ٹی آئی چین ڈونلڈٹرمپ روس سی پیک عمران خان مذاکرات مشرق وسطیٰ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسرائیل امریکا بیرسٹر گوہر پی ٹی ا ئی چین ڈونلڈٹرمپ سی پیک مذاکرات اس کا مطلب یہ میں انہوں نے عرفان صدیقی کے بارے میں کہ پاکستان پی ٹی آئی یہ ہے کہ کے ساتھ ہے اور بھی ان بات کہ اور اس کے لیے دیا ہے کے بعد ہیں کہ کی طرف
پڑھیں:
ڈ ی کاربونائزیشن پاکستان کے معاشی استحکام کی کلیدہے. ویلتھ پاک
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔25 جنوری ۔2025 )پاکستان کو کم کاربن والی معیشت کی طرف منتقلی کو آسان بنانے کے لیے کلین ٹیکنالوجیز کے لیے موزوں حل اور اسٹریٹجک سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے توانائی کے ماہر ڈاکٹر خالد ولیدنے ویلتھ پاک کو بتایاکہ کم کاربن والے مستقبل کی طرف منتقلی سے ملک کی معیشت کو مستحکم کرنے میں مدد ملے گی جو کم پیداواری، تجارتی خسارے اور توانائی کے غیر پائیدار اخراجات کے چکر میں الجھی ہوئی ہے.(جاری ہے)
انہوں نے خاص طور پر کاربن بارڈر ایڈجسٹمنٹ میکانزم جیسے بین الاقوامی ریگولیٹری فریم ورک کی روشنی میں توانائی کے روایتی طریقوں سے پائیدار حل کی طرف فوری منتقلی کی وکالت کی یہ طریقہ کار ملک کے ٹیکسٹائل سیکٹر کے لیے اہم چیلنجز پیش کرتا ہے جو اس کی معیشت کا ایک اہم جزو ہے جس کو کم مسابقت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جب تک کہ یہ ڈیکاربونائزیشن کی حکمت عملیوں کے مطابق نہیں ہو جاتا. انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ صنعتی ڈیکاربنائزیشن نہ صرف ملک کے معاشی اور توانائی کے بحرانوں سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے بلکہ ماحولیاتی اثرات کو کم کرنے کے لیے بھی ضروری ہے انہوں نے دلیل دی کہ پاکستان جیسی ترقی پذیر قوموں کو اس منتقلی کو آسان بنانے کے لیے ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز اور مالیاتی آلات تک رسائی حاصل ہونی چاہیے پائیداری کے لیے قانون سازی کی کوششوں اور ترغیبات کے درمیان ایک متوازن نقطہ نظر ضروری ہے اس کے لیے مختلف سطحوں پر صلاحیت کی تعمیر اور حکمت عملیوں کے انضمام کی ضرورت ہے جو زراعت سمیت متعدد شعبوں کو گھیرے ہوئے ہیںجو اخراج سے متعلق متنوع ڈیٹا سیٹس کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں. انہوں نے کہاکہ وہ پاکستان کے لیے صنعتی ڈیکاربنائزیشن میں ایک رہنما کے طور پر ابھرنے کا ایک اہم موقع دیکھ رہے ہیں ضروری انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کرکے اور تعلیم کو ترجیح دے کر ملک اس عالمی تحریک میں سب سے آگے کھڑا ہوسکتا ہے ان کا خیال ہے کہ یہ اقدامات نہ صرف ماحولیاتی استحکام میں معاون ثابت ہوں گے بلکہ پاکستان کی معیشت کے لیے ایک اوپر کی رفتار کو بھی سپورٹ کریں گے، پائیدار ترقی اور جدت کو فروغ دیں گے. پرائیویٹ فنانسنگ ایڈوائزری نیٹ ورک کے سابق قومی تکنیکی ماہرحماد بشیر نے اس خیال کو تقویت دی کہ ڈیکاربونائزیشن کو محض گرین واشنگ کے بجائے ایک جائز کاروباری معاملے کے طور پر دیکھا جانا چاہیے انہوں نے صنعتوں کو درپیش چیلنجوں کو تسلیم کیا لیکن اپنی مرضی کے مطابق حل تیار کرنے کی اہمیت پر زور دیا جو ماحولیاتی مقاصد کو اقتصادی حقائق سے ہم آہنگ کرتے ہیں. انہوں نے راک فیلر فاﺅنڈیشن کے کول ٹو کلین پروگرام جیسے کامیاب عالمی اقدامات کا حوالہ دیتے ہوئے کوئلے سے قابل تجدید توانائی کے ذرائع تک منتقلی کی ضرورت پر بھی روشنی ڈالی انہوں نے نشاندہی کی کہ ترقی یافتہ ممالک بھی کم کاربن والی صنعتوں کی طرف منتقلی سے دوچار ہیں اور اسٹیل اور سیمنٹ جیسے شعبوں کو اہم شعبوںکے طور پر شناخت کیا جہاں اختراعی پیداواری عمل اخراج میں خاطر خواہ کمی حاصل کر سکتے ہیں. انہوں نے کاربنائزیشن کی کوششوں کو آگے بڑھانے کے لیے سرکاری اور نجی شعبوں کے درمیان تعاون پر زور دیا انہوں نے دلیل دی کہ شراکت قائم کرنے سے علم کے اشتراک، وسائل کو متحرک کرنے اور مقامی سیاق و سباق کے مطابق اختراعی ٹیکنالوجیز کی ترقی میں سہولت ہو سکتی ہے ایک ماحولیاتی نظام کو فروغ دینے سے جو سبز ٹیکنالوجی اور بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، ملک نہ صرف اپنی صنعتی مسابقت کو بڑھا سکتا ہے بلکہ ابھرتے ہوئے شعبوں میں روزگار کے مواقع بھی پیدا کر سکتا ہے.