حیدرآباد (اسٹاف رپورٹر) پاکستان ٹیلی ویژن کی معروف رائٹر و مصنفہ نور الہدیٰ شاہ نے کہا ہے کہ کاروکاری سندھ کا کلچر نہیں، سماج اور قوم کے سدھارنے کی شروعات گھر سے ہوتی ہے، یہ تاثر ختم ہونا چاہیے کہ سندھ کی لڑکیاں ان پڑھ ہوتی ہیں۔ وہ معروف رائٹر و ماہر تعلیم ایڈووکیٹ زینت عبداللہ چنہ کی 50 ویں برسی کے موقع پر بسنت ہال کے زیر اہتمام منعقدہ تقریب سے خطاب کر رہی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے بچے سندھی چھوڑ کر انگریز بن گئے، سندھ کی خواتین کو باشعور بنانے میں بیگم زینت چنہ کا بہت اہم کردار ہے جنہوں نے ماروی رسالہ بھی نکالا اور ایوب کی بدترین آمریت کے دور میں جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نکالے گئے احتجاجی جلوس کی قیادت بھی کی۔ معروف رائٹر مہتاب اکبر شاہ راشدی نے تقریب کے شرکاء کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا سندھیمعاشرہ آج موجود ہے؟ تمام رسم و رواج ختم ہو گئے، کوئی معاشرہ مرد اور عورت کے بغیر چل نہیں سکتا، بیگم زینت عبداللہ چنہ نے اس دور میں سندھ کی خواتین کو شعور دیا جس زمانے میں اس کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا، ان کی خصوصیات ان کی اولاد میں پائی جاتی ہیں۔ مہتاب اکبر راشدی نے کہا کہ کاروکاری ہماری رسم نہیں، اس مرد سے بڑا بے غیرت ہو نہیں سکتا جو اپنے گھر کی خواتین کو بے لباس کرے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

پڑھیں:

مریم نواز کے خواتین کیلئے اقدامات

سچ بات تو یہ ہے کہ خاتون وزیراعلیٰ محترمہ مریم نواز شریف کی آمد کے ساتھ ہی خواتین پر تشدد کے واقعات ختم نہیں تو کم ضرور ہوئے ہیں میری عام ورکنگ کلاس اور گھریلو ملازمین خواتین سے بات ہوتی رہتی ہے ویمن پروٹیکشن سینٹر کی دہلیز پر داخل ہونے والی ہرخاتون کو انصاف ملتا ہے۔ وہاں محض قانونی ہی نہیں بلکہ طبی اور نفسیاتی مدد بھی فراہم ہوتی ہے ۔ اس سلسلے میں جنسی تشدد کے واقعات میں کمی مریم نواز کی پنجاب پربھرپور گرپ Gripاور دسترس ہے۔
ریپ کے مجرم کس قدر ظالم ہوتے ہیں کہ انہیں اپنی بھی اس توہین کا احساس نہیں ہوتا جو وہ سرزد کرکے کرتے ہیں اس ضمن میں محترمہ پروین شاکر نے عمدہ مرد کی عظمت کو بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ
میں اس کی دسترس میں ہوں مگروہ
مجھے میری رضا سے مانگتا ہے
محترمہ مریم نواز نے حال ہی میں تمام ڈویژن کے ہونہار طلباءسے ملاقات کرنے اور وظائف کی فراہمی کیلئے دورے کیے ہیں وہ خود نوجوان بچیوں سے ملنے اور ان کے مالی معاشی اور اقتصادی مسائل کے حل کیلئے ان کی درسگاہوں تک خود پہنچی ہیں یہ وہ بچیاں نہیں تھیں جنہیں خوشحالی نے ڈی جے کی تھاپ پر مشرقی تقاضے نظرانداز کرنے ہوں یہ نہایت باوصف گھروں کی نمائندہ مڈل کلاس گھرانوں کی بچیاں تھیں جو جانتی ہیں کہ حالات سے لڑنے اور اقتصادی بدحالی سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے وہ ہے تعلیم آخر میں محترمہ جب ڈی جی خان کے ڈویژن میں تعلیمی اداروں میں وسائل کی بھرمار لے کر پہنچیں توبچیاں ان کے گلے لگنے کو بے تاب تھیں دور سے آوازیں لگارہیں تھیں کہ ہم آپ کے قریب آنا چاہتی ہیں پوری سکیورٹی کونظر انداز کرکے مریم نوازان بچیوں کو اس پیار سے گلے لگاتے ہوئے ہجوم کا حصہ ہو جاتی ہیں بے چارے سکیورٹی ایجنسیز والے گھبراجاتے ہیں۔
لیہ کی ڈی سی امیرا بیدار صاحبہ نے بتایا کہ ڈی جی خان ڈویژن میں نوجوان طلباءبچیوں نے جو محترمہ مریم نواز کی پذیرائی کی ہے اس کی مثال نہیں ملتی مریم نواز محبت سے بچیوں کے مسائل سنتی اور حل کرتی رہیں بلکہ ایسے ہی جیسے ایک ماں اپنی بیٹیوں کو سردوگرم سے بچاتی ہے۔
وہاں ایک بچی نے سرائیکی میں لکھی گئی محترمہ مریم نواز کیلئے خوبصورت نظم پڑھی جس کا مفہوم تھا ہماری ماں آگئی ہماری ماں آگئی ….
اور کیوں نہ ماں کہیں اس موقع پر بالکل ایک ماں کی طرح مریم نواز نے آبدیدہ ہوکر اپنے ہاتھ اپنی آنکھوں پر رکھ لیے۔
حدتو یہ ہے صدیوں سے خواتین پر تشدد کے ہوتے کیسز کے بعد 2016ءمیں قانون پروٹیکشن آف وومن اگنیٹ وائلنس ایکٹ عمل میں آیا اور کیسز رپورٹ ہونے شروع ہوئے یعنی اس سے قبل فیض احمد فیض کے مصرعے کی مانند
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے ….
دارکی خشک ٹہنی پہ وارے گئے
سولیوں پر ہمارے لبوں سے پرے
اس کے ہونٹوں کی خوشبو مہکتی رہی
اس کے ہاتھوں کی چاندی دمکتی رہی
نجانے کتنے سیاہ دن اورتاریک راتیں گناہوں پر پردہ ڈالتے گزرگئیں ….کتنی چیخیں بندکوٹھریوں میں لبوں کے اندرہی لرزکررہ گئیں اور اس ابن آدم کے ہاتھوں عورتوں اور بچیوں نے اپنا مان سمان بچپنا اور غرور کھو دیا اور یہ بھی بعد کی بات ہے کہ اس بل کے بعد خواتین پرتشدد کی روک تھام کیلئے تیزاب اور دیگر نقصان دہ اشیاءکی خریدوفروخت پرپابندی لگائی گئی مگر تاحال یہ جرائم جاری تھے اب بھی کلی طورپر ختم نہیں ہوئے مگر کم ازکم پنجاب کی مہارانیوں مریم نواز عظمیٰ بخاری اور دیگر گنڈپور جیسے جعلی مردانگی کے شاہکار سمیت اس نوع کے مردوں کو نکیل ضرور ڈال دی ہے۔
مجھے یادہے کہ پرویز الہٰی کے گزشتہ دور میں ملتان میں ایک برن سینٹر کا افتتاح ہوا تو ٹی وی پر مجھے ان سے سوال کرنے کو کہا گیا میں نے ان سے کہا کہ عورتیں جل کر آئیں گی پھر وہاں ان کے علاج کا بندوبست آپ کریں گے۔
تو آپ ہاتھ کیوں نہیں توڑ دیتے ان مردوں کے جو اپنے ہاتھوں سے عورتوں کو وہ آگ دکھاتے ہیں جن میں جھلسنے سے پہلے وہ انہی کیلئے کھانے بناتی رہیں۔
لاہور میں اب ملتان کی طرز پر وائلنس اگنیٹ ویمن سینٹر کا افتتاح 25نومبر 2024ءکو کردیا گیا اس کی ہیلپ لائن 1737ہے جو چوبیس گھنٹے خواتین کو فوری مدد قانونی مشورہ فراہم کرتی ہے رہائش تحفظ اور دیگر سہولتوں کے علاوہ ….
ضرورت اس امر کی ہے کہ چیف منسٹر صاحبہ تشدد کرنے والے مردوں کے سدباب اور ارتقاءسے پہلے جرم کو روکنے کیلئے قوانین یا ایپس یا طریقے متعارف کروائیں سزائیں تو ایسی ہونی چاہیں کہ کوئی مرد عورت پر تشدد کرنے سے پہلے خودکانپ جائے میں نہیں سمجھتی کہ تشدد صرف لوئر کلاس یا ان پڑھ طبقے میں ہوتا ہے ذہنی تشدد سے لے کر جسمانی تشدد تک انٹلیکچوئل اور پڑھے لکھے طبقے میں بھی بے تحاشہ ہے اور شاید ہی کوئی خاتون اپنی ازدواجی زندگی میں اس تشدد سے بچی ہو کامیاب شادی کا مطلب بھی تشدد برداشت کرکے وقت پورا کرنے کو کہتے ہیں اپنے والدین کو گالیاں پڑوانا تھپڑ ٹھڈے کھانا اور بے عزت ہوکر رہنے کو کامیاب شادی کہتے ہیں مگر خواتین کی حکومت اور مریم نواز عظمیٰ بخاری جیسی دلیر خواتین کے ہونے سے خواتین کے حوصلے بڑھے ہیں اور وہ سمجھ گئیں ہیں کہ بے عزتی سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے پڑھ لکھ کر طاقت حاصل کی جائے آخر میں شرارتی نوٹ یہ کہ بے وفائی کرنے والے مردوں کیلئے بھی کوئی سزامتعین ہونی چاہئے۔

متعلقہ مضامین

  • شام ادریس کے معروف یوٹیوبر ڈکی بھائی پر سنگین الزامات، ثبوت بھی سامنے لے آئے
  • مریم نواز کے خواتین کیلئے اقدامات
  • حیدرآباد: کلچر سینٹر بسنت ہال میں رائٹرز زینت عبداللہ کی 50 ویں برسی میں شریک شرکاء
  • سکھر: عمران خان اور بشریٰ بی بی کی رہائی کیلیے تحریک انصاف کا احتجاج
  • معروف اداکارہ نے ’’ سنیاس’’ لے لیا، نیا نام کیا ہوگا؟
  • 2020 میں ٹرمپ کی فتح نہ چھین لی جاتی تو یوکرین کی جنگ نہ ہوتی، پوتن
  • یہ ہم کیوں نہیں کر سکتے؟
  • بیٹے کو قتل کی دھمکی ملنے کے 2 دن بعد معروف بھارتی اداکار کے والد انتقال کرگئے
  • اسلامی سماج اور عورت کا حقِ وراثت