سکھر: مغوی علی اصغر منگریو 479 روز بعد بھی گھر نہ پہنچ سکا
اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT
سکھر (نمائندہ جسارت) ایوب گیٹ کے رہائشی ریلوے پولیس اہلکار زاہد حسین منگریو نے اپنے دیگر عزیزوں مقدم حسیب منگریو، محمد اعظم منگریو، محمد علی، علی احمد و دیگر کے ہمراہ پریس کلب کے سامنے 479 ویں روز بھی اپنے مغوی بیٹے علی اصغر منگریو کی عدم بازیابی کے خلاف علامتی بھوک ہڑتال جاری رکھتے ہوئے نعرے بازی کی۔ اس موقع پر مغوی بچے علی اصغر منگریو کے ورثاء زاہد منگریو، اعظم منگریو و دیگر نے بتایا کہ 8 سال قبل مغوی علی اصغر منگریو کو تھانہ بی سیکشن کی حدود سے اغواء کیا گیا تھا، اغواء میں جوابدار سعید منگریو، خالد منگریو، مسعود منگریو، جنید منگریو و دیگر شامل ہیں، سندھ ہائیکورٹ کے احکامات پر جے آئی ٹی کی رپورٹ اور پولیس تفتیش کے بعد کیس سپریم کورٹ میں چل رہا ہے، 2 جے آئی ٹی تشکیل دی گئی لیکن ان رپورٹ کو بھی 2 سال بیت گئے۔ ورثاء کا کہنا تھا کہ گزشتہ کئی سال سے مغوی کی بازیابی کے لیے پر امن احتجاج کیا جا رہا ہے لیکن اب تک مغوی کو بازیاب نہ کرایا جا سکا، انصاف کے لیے در در کی ٹھوکریں کھانے کے بعد علامتی بھوک ہٹرتال کا سلسلہ شروع کیا ہے، ملوث افراد کیس واپس لینے کے لیے دھمکیاں دے رہے ہیں۔ مظاہرین نے حکام سے نوٹس لے کر انصاف و تحفظ فراہمی کا پرزور مطالبہ کیا۔ جبکہ دوسری جانب سول سوسائٹی کی جانب سے کیمپ پر پہنچ کر ورثاء سے اظہارِ یکجہتی کیا گیا۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: علی اصغر منگریو
پڑھیں:
جائیں تو جائیں کہاں ….(2)
حال ہی میں، میں نے ایک کالم لکھا تھا: ایف آئی آر درج ہونے پر مٹھائی کی تقسیم۔ یعنی ایف آئی آر درج ہونے پر مٹھائی تقسیم کی گئی تھی‘ آگے کے معاملات تو بعد کی بات ہے۔ وہ کالم بڑا ہٹ ہوا تھا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک ایف آئی آر درج کرانا یہاں مشکل ہو گیا ہے۔ اہلکار جان بوجھ کر چکر لگواتے ہیں۔ انہیں سب کچھ پتا ہوتا ہے لیکن وہ مال پانی بنانے کے چکر میں رہتے ہیں۔ کاش حکومت کوئی ایسا سلسلہ شروع کرے کہ زیادہ فیس لے لے لیکن ایف آئی آر ہر حالت میں درج ہو تو بہت سوں کا بھلا ہو جائے۔ مدعی کسی معاملے میں بہت گرم بھی ہو تو پولیس اسے یہ کہہ کر ٹھنڈا کر دیتی ہے کہ مک مکا کر لو۔
مجھے ایک ماہ پہلے ایک وڈیرے کے ڈیرے پر جانے کا اتفاق ہوا۔ ویسا ہی وڈیرہ کہ جس کے خلاف کئی مقدمات ہیں‘ یعنی وہ پورا بدنام زمانہ وڈیرہ تھا۔ لوگ اس سے ڈرتے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ اس کے پاس تو رونق لگی ہوئی ہے‘ ایس ایچ او صاحب بھی بیٹھے ہوئے ہیں‘ ڈی ایس پی صاحب بھی بیٹھے ہوئے ہیں‘ قہقہے لگائے جا رہے ہیں اور کھابے وغیرہ چل رہے ہیں۔ میں سوچنے لگا کہ یہی تو وہ بندہ ہے جس کے خلاف شکایات پولیس والوں کو ملتی ہیں۔ پولیس ان شکایات کا ازالہ کرنے کے بجائے خود اسی کے پاس بیٹھی ہے تو ایسے میں انصاف کے تقاضے کیسے پورے ہو سکتے ہیں؟ اسی طرح پانچ چھ سال پہلے کا ایک اور واقعہ ہے کہ کسی کام کے سلسلے میں کسی اہل علاقہ کے ساتھ چند بار تھانے جانے کی ضرورت پیش آ گئی۔ میں نے دیکھا کہ علاقے کا جو لفنگا ترین بندہ ہے‘ لوگ جس سے تنگ اور جس کے خلاف شکایات کرتے رہتے تھے‘ روزانہ ایس ایچ او کے پاس آتا ہے۔ ایس ایچ او کا نام مجھے یاد ہے لیکن میں یہاں رازداری ہی رکھوں گا۔ پردہ داری بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ میں نے ایس ایچ او سے پوچھا کہ یہ تو علاقے کا بدنام ترین شخص ہے‘ اس کا روزانہ آپ کے پاس کیا کام ہے؟ ایس ایچ او صاحب مسکرائے اور کہا: شیخ صاحب آپ تو شریف آدمی ہیں‘ ہمارا کچن تو ان لوگوں کی وجہ سے چلتا ہے‘ آپ نے ہمیں کیا دینا ہوتا ہے؟۔
یہ کرپشن والا معاملہ کچھ تھم جائے‘ رک جائے تو ہمیں خوشی ہو کہ رک گیا ہے بڑھ نہیں رہا‘ لیکن یہاں معاملہ بڑھ رہا ہے‘ کم نہیں ہو رہا۔ آپ پیسے لیتے ہیں تو پانچ فیصد جیب میں ڈالیں اور 95 فیصد گورنمنٹ کے کھاتے میں ڈالیں‘ یہ تو ٹھیک ہے‘ لیکن یہاں اس کے الٹ ہو رہا ہے۔ یہ لوگ 95 فیصد جیب میں ڈالتے ہیں اور پتا نہیں 5 فیصد بھی حکومت کو دیتے ہیں یا نہیں۔محکمہ بجلی کو لے لیں۔ اس کی بجلی کا کنکشن لگانے کی ایک مقررہ فیس ہے‘ لیکن کوئی نہیں لگنے دے گا جب تک آپ اس سے دوگنا رشوت کے طور پر انہیں پیش نہ کر دیں۔ وہ کسی سے نہیں ڈرتے بلکہ علی الاعلان کہتے ہیں کہ جاﺅ جس کو بتانا ہے بتاﺅ۔
میرا تجزیہ یہ ہے کہ اگر کسی تھانے میں ایف آئی آر درج کرانے کے لےے 100 درخواستیں جاتی ہیں تو کارروائی کے لئے صرف دس کے قریب کورٹ تک پہنچائی جاتی ہیں۔ اور وہ 10 جو کورٹ تک چلی جاتی ہیں ان کے فیصلوں میں بھی چالیس چالیس سال لگ جاتے ہیں۔ صبح نو بجے آ جاﺅ اور شام چھ بجے تک کھڑے رہو کہ پتا نہیں کب آواز آ جائے۔ دونوں پارٹیوں کا پہنچنا ضروری ہوتا ہے۔ اگر کسی وجہ سے نہ پہنچ سکےں تو وکلا کا ایک پورا گروپ وہاں یہ بتانے کے لےے پہنچ جاتا ہے کہ جناب مدعی تو آ ہی نہیں رہا‘ اس کی ضمانت لے لیں۔ ضمانت مل جائے تو پھر کون پوچھنے والا ہے؟ حالات اس حد تک نیچے چلے گئے ہیں کہ ہمارے ملک کا پاسپورٹ دنیا کا بد ترین پاسپورٹ بن چکا ہے کہ 200 ملکوں میں اس کے بعد صرف افغانستان کا نمبر آتا ہے۔ ہمارے ملک کا نام کتنا اچھا کتنا پیارا ہے‘ اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ لیکن ہم نے اپنے اس خوبصورت پاکستان کو کتنا گندا کر دیا ہے۔ ستر برسوں سے زیادہ عرصہ ہو رہا ہے کہ ہم کچے کے علاقے کو ہی کنٹرول نہیں کر سکے۔ ہر چند ماہ کے بعد یہ سننے میں آتا ہے کہ کچے کے علاقے میں یہ آپریشن ہو رہا ہے‘ وہ آپریشن ہو رہا ہے‘ لیکن اصل میں ہوتا ہواتا کچھ نہیں۔ ان سے کچے کے ڈاکو کنٹرول نہیں ہو پا رہے’ اور کیا ہو گا؟ 20 سال پہلے کی بات ہے کہ ایک ڈی ایس پی صاحب کو ملنے سیالکوٹ گیا تو انہوں نے بڑے فخر سے بتایا کہ میں اپنی تنخواہ گن مینوں میں تقسیم کر دیتا ہوں۔ انہوں نے یہ بات بھی بڑے فخر سے بتائی کہ میں پیسے ضرور لیتا ہوں لیکن میںملزموں سے نہیں مدعیوں سے لیتا ہوں۔ میں دعائیں لیتا ہوں‘ بددعائیں نہیں لیتا ہوں۔ یہ اس ڈی ایس پی کا عالم تھا جسے قائد اعظم ایوارڈ مل چکا تھا۔ یہ کلچر بن چکا ہے ہمارے ملک میں۔ ایسے میں بندہ فریاد لے کر کس کے پاس جائے؟ ۔
ان حالات میں تو صرف دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ کوئی اللہ کا بندہ آئے جو اس ملک اور اس کے نظام کو سیدھا کر دے‘ یہ خود سے تو ٹھیک ہوتے نظر نہیں آتے۔ خدا کا خوف اور احساسِ ذمہ داری ہے نہیں اور ان پر چیک اینڈ بیلنس کا کوئی نظام بھی نہیں ہے کہ سرکاری اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے پر ان پر گرفت کی جا سکے۔ ایسے میں قومی ترقی کے خواب کیسے دیکھے جا سکتے ہیں؟ کرپشن اور رشوت کا ناسور ترقی کے خواب کو گہنائے دے رہا ہے اور ہم سب خاموش تماشائی بننے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے کہ جن کے پاس اختیارات ہیں وہ اپنے گریبانوں میں جھانکنے کے لےے تیار ہی نہیں ہیں۔ یہاں کا باوا آدم نرالا ہے۔بقول شاعر
بر باد گلستاں کرنے کو بس ایک ہی الو کافی تھا
ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہو گا