ٹرمپ نے بغیر نوٹس دیے اہم ایجنسیوں کے 17 انسپکٹرز جنرل برطرف کردیے
اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT
واشنگٹن (آن لائن)امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے ایک درجن سے زائد اہم سرکاری اداروں کے آزادنہ حیثیت میں کام کرنے والے انسپکٹر جنرل کو
برطرف کر دیا۔ امریکی جریدے واشنگٹن پوسٹ نے اس معاملے سے واقف افراد کا نام ظاہر کیے بغیر حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جن ایجنسیوں کے حکام کو برطرف کیا گیا ان میں دفاع، ریاست، نقل و حمل، سابق فوجیوں کے امور، ہاؤسنگ اور اربن ڈیولپمنٹ، داخلہ اور توانائی کے محکمے شامل ہیں۔نیویارک ٹائمز نے کہا کہ برطرفی کے احکامات نے 17 ایجنسیوں کو متاثر کیا لیکن محکمہ انصاف کے انسپکٹر جنرل مائیکل ہورووٹز برطرفی سے محفوٖظ رہے۔واشنگٹن پوسٹ نے کہا کہ برطرفی کے احکامات بظاہر ان وفاقی قانون کی خلاف ورزی لگتے ہیں جن کے تحت کانگریس کو انسپکٹر جنرل کو برطرف کرنے کے ادارے سے متعلق 30 دن کا نوٹس موصول کرنا ہوگا۔وائٹ ہاؤس نے فوری طور پر رپورٹس پر رد عمل دینے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔انسپکٹر جنرل ایک آزاد عہدہ ہے جو ضیاع، فراڈ اور اختیارات کے غلط استعال سے متعلق آڈٹ، تحقیقات اور الزامات کے حوالے سے کام کرتا ہے، انہیں صدر یا متعلقہ ایجنسی کا سربراہ ہٹایا جا سکتا ہے اور اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ انہیں کس نے نامزد یا مقرر کیا۔برطرف کیے جانے والوں میں سے زیادہ تر کو ٹرمپ کے 2017-2021 کے پہلے دور میں مقرر کیا گیا تھا، واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ میں کہا گیا کہ متاثرہ افراد کو وائٹ ہاؤس عملے کے ڈائریکٹر کی جانب سے ای میلز کے ذریعے فیصلے سے مطلع کیا گیا تھا کہ انہیں فوری طور پر برطرف کر دیا گیا ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: انسپکٹر جنرل
پڑھیں:
پاک ڈیٹاکام میں مالی خورد برد پر تشویش کا اظہار کرنے والے 5 سینئر ملازمین برطرف
ملازمین نے وزارت اور پاک ڈیٹا کام کے چیئرمین سید زوما محی الدین کو ارسال کی گئی اپنی شکایت میں الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے ایم ڈی، قائم مقام چیف فنانشل افسر (سی ایف او) اور انٹرنل آڈٹ ٹیم میں بے ضابطگیوں پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ اسلام ٹائمز۔ وزارت انفارمینش ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کام کے ماتحت ادارے پاک ڈیٹاکام نے سرکاری ادارے میں مبینہ بے ضابطگیوں اور مالی خورد برد پر تشویش کا اظہار کرنے والے 5 سینئر ملازمین کو برطرف کردیا۔ نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق الزامات کی تحقیقات کرنے والی ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی 6 ماہ بعد بھی اپنی رپورٹ کو حتمی شکل دینے میں ناکام رہی ہے۔ وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذرائع نے انکشاف کیا کہ یہ معاملہ وزیر مملکت برائے آئی ٹی شزہ فاطمہ خواجہ کے سامنے اٹھایا گیا تھا جنہوں نے جولائی 2024 میں پاک ڈیٹا کام بورڈ کو ہدایت کی تھی کہ وہ منیجنگ ڈائریکٹر اور سی ای او ذوالفقار علی کے خلاف الزامات کی تحقیقات کرے، ان ہدایات کے باوجود، وزارت کو حال ہی میں مطلع کیا گیا تھا کہ رپورٹ پر ابھی بھی کام جاری ہے۔
کمپنی انتظامیہ نے وحید محمود سمیت 5 ملازمین کو برطرف کردیا جنہوں نے بورڈ ممبران کو خط لکھ کر سی ای او پر شوکاز نوٹس یا انتباہ جاری کیے بغیر غلط برطرفی کا الزام لگایا تھا، برطرف کیے گئے ملازمین پر سرکاری مراتب پر عمل نہ کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ ملازمین نے وزارت اور پاک ڈیٹا کام کے چیئرمین سید زوما محی الدین کو ارسال کی گئی اپنی شکایت میں الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے ایم ڈی، قائم مقام چیف فنانشل افسر (سی ایف او) اور انٹرنل آڈٹ ٹیم میں بے ضابطگیوں پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ شکایت کے مطابق ایم ڈی کو مبینہ طور پر بورڈ کی منظوری کے بغیر 60 لاکھ روپے اعزازیہ دیا گیا، ایم ڈی نے اس تجویز کو خود پیش کیا اور خود ہی منظور کرلیا جبکہ سی ایف او نے کوئی اعتراض نہیں کیا اور 2024 کی پہلی سہ ماہی میں رقم منتقل کردی ۔
غیر ملکی دوروں، دفتر میں ویلنٹائن ڈے منانے، غیر قانونی بھرتیوں اور قائم مقام سی ایف او کے مبینہ رشتیدار سابق ایم ڈی کو مشکوک معاوضے ادائیگی کے بارے میں بھی اعتراضات اٹھائے گئے۔ ایک شکایت کنندہ نے ڈان کو بتایا کہ سینئر تکنیکی عملے کی غفلت کی وجہ سے کمپنی نیشنل لاجسٹکس کارپوریشن (این ایل سی) کے ساتھ وی سیٹ منصوبوں سمیت بڑے معاہدوں سے ہاتھ دھو بیٹھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے وزارت آئی ٹی کو 60 لاکھ روپے کے اعزازیے سمیت ان مسائل کو اجاگر کیا تاہم اگلے ہی دن ایم ڈی نے ہمیں بلایا، ہمیں دھمکی دی اور ہماری ملازمت کو فوری طور پر ختم کر دیا۔ شکایت کنندگان نے اسسٹنٹ منیجر کے عہدے کے لیے ایک مشکوک اشتہار کی طرف بھی اشارہ کیا جس کے لیے عمر کی زیادہ سے زیادہ حد 55 سال رکھی گئی ہے اور اسے مخصوص امیدواروں کے حق میں تیار کردہ قرار دیا۔
برطرفیوں کے بعد ملازمین نے پاک ڈیٹا کام بورڈ اور وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی میں شکایات درج کرائی تھیں، بورڈ کے ڈائریکٹر اور ہیومن ریسورس کمیٹی کے رکن محمد وحید کو جولائی 2024 میں اس معاملے کی تحقیقات کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ بورڈ کے رکن محمد اعزاز خان نے اگست 2024 میں تحقیقات کی ضرورت کا اعادہ کرتے ہوئے کمیٹی پر زور دیا کہ وہ سی ای او کی جانب سے بدسلوکی کے الزامات کو حل کرے۔ ان ہدایات کے باوجود فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے ابھی تک اپنی رپورٹ پیش نہیں کی ہے، پاک ڈیٹا کام کے چیئرمین سید زوما محی الدین اور وزارت آئی ٹی و ٹیلی کام کے ترجمان نے رابطہ کرنے سے انکار کر دیا۔