Express News:
2025-01-27@04:29:17 GMT

فلسفیانہ سوچ کی حامل شاعرہ… ڈاکٹر صغریٰ صدف

اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT

ڈاکٹر صغریٰ صدف ایک ہمہ گیر اور ہمہ جہت خاتون ہیں۔ وہ بیک وقت شاعرہ، ادیبہ، مدیرہ، نظامت کار، براڈ کاسٹر، فلسفی دانشور، منتظم اور بیورو کریٹ ہیں اور آج کل وجدان ادبی، ثقافتی تنظیم سے منسلک ہیں۔

اس سے قبل وہ پنجابی ادب و ثقافت اور فنون کی بہترین اور ترویج کے لیے کوشاں سرکاری ادارے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف لینگوئج، آرٹ اینڈ کلچر (پلاک) کی ڈائریکٹر جنرل کے طور پر اپنی ذمے داریاں بہ حسن و خوبی نبھا چکی ہیں۔

ڈاکٹر صغریٰ صدف ادب و ثقافت کا وہ روشن نام ہیں جو اپنے اشعار میں بہت دبنگ نظر آتی ہیں۔ ان کی شاعری کا بنیادی موضوع بہت سے شعرا کی طرح محبت ہیں، ان کی پُرکشش شخصیت کا اصلی جوہر ان کے ہاں محبت کے بہت سے ایسے چراغ روشن ہیں جن کی روشنی کے رنگ مختلف انداز میں رقص کرتے ہوئے ہوائوں کے مقابل جلنے کا عزم رکھتے ہیں۔

ان کا غزلیات پر مبنی شعری مجموعہ ’’ وعدہ ‘‘ ان کے مزاج کے تمام پہلوئوں کی عکاسی کرتا ہے۔ ان کی شاعری کو سمجھنے کے لیے کسی خاص تگ و دو کی بجائے ان کے مزاج کے موسموں سے آشنا ہونے کی ضرورت ہیں، وہ اپنے اندر کے موسم کا بدلتا ہُوا منظر بیان نہیں ہونے دیتیں مگر وہی اس بات کا اظہار یوں لفظوں میں کرتی دکھائی دیتی ہیں۔

حال اندر کا جانتا ہے وہ

کون کرتا ہے مخبری میری

ڈاکٹر صغرا صدف خوبصورت شعر کہتی ہیں، ان کی حمد بھی بندگی تمثال اور نعت بھی عقیدت بھری!

رہوں میں حرفِ اماں کے حصار میں آقاؐ

صدفؔ ہوں، مجھ کو ثنا کا گہر عطا کردے

ڈاکٹر صاحبہ کی حمد و نعت کے علاوہ غزلیات میں ایسی دلکشی دیکھنے کو ملتی ہیں ۔ وہ الفاظ کی مالا موتیوں کی مانند پرونے کا ہنر بخوبی جانتی ہیں۔

ان کی بعض غزلوں میں کہیں جسم و جاں پہ اَن دیکھا خوف طاری تو کہیں آنکھوں کے آئینے میں سنوارنے کی خواہش تو کہیں وصالِ ہجر کا دُکھ تو کہیں ہاتھوں سے ٹوٹے ہوئے آئینوں میں بکھرے ہوئے چہرے تو خون میں نہاتی ہوئی وادیوں کی جھلک، توکہیں صحن وطن میں اندھیروں کا سناٹا، تو کہیں بے خواب موسموں میں لیے ہوئے قافلوں کا منظر تو کہیں بے نام خیالوں کی تجسیم، توکہیں جینے کہیں مرنے اورکہیں تلخ یادوں کے ڈرنے کا خوف توکہیں محبت کا ادھورا سفر، توکہیں خوشبو کی کہانی، توکہیں خزاں رسیدہ شجر، تو کہیں درد آشنا کا غم، شدتِ جذبات کی تڑپ، تو کہیں زندہ رہنے کی خواہش میں شہرِ آرزو میں ایک گھر بنانے کی چاہ، تو کہیں احساس کے لفظوں کے چھوتے ہوئے نشتر تو دوسری طرف تتلیاں پھول جگنو اور ستاروں کے علاوہ بے جاں خواب تو کہیں بے بس ذات ، تو کہیں عشق کا معیار تو کہیں تنہائی میں اشک بہانا تو کہیں شہر ظلمت کا احوال ان کے کلام میں جا بجا پڑھنے کو ملتا ہے۔

جس کے باعث شہر، ظلمت کے حوالے ہو گئے

ہم کبھی شامل نہیں تھے وقت کی اس چال میں

ڈاکٹر صاحبہ کی شاعری میں یہ تمام وارداتیں موجودہ حالات کی عکاس ہیں۔ اس حوالے سے اُن کے نزدیک احساس کے نازک رخساروں پر بے رحم وقت کے طمانچوں سے پیدا ہونے والی آہ شاعری ہے۔ انھوں نے اپنی کتاب کا نام ’’وعدہ‘‘ رکھا ہے۔

جس میں وہ اپنی رائے میں لکھتی ہیں کہ ’’ میں بیک وقت دو جہانوں کی باسی ہوں ایک مادی دنیا اور دوسری تخیل کی دنیا، جس کی میں خود خالق ہوں۔ جس میں میرا اپنا راج قائم ہے۔ ظاہری دنیا کے ناموافق حالات سے گھبرا جائوں تو باطنی دنیا میں بسیرا کر لیتی ہوں۔ نفع ونقصان اور علت و معلول میں جکڑی دنیا میرے خوابوں کا محور نہیں ہو سکتی۔

میری بے چینی کا سبب یہی ہے کہ میں دو دنیائوں کی مسافر ہوں۔ اپنے چین کے لیے میں ان دونوں دنیائوں کو ایک بنانے کا جتن کرتی ہوں جہاں صرف محبت اور خیرکی جستجوکی جائے کیونکہ میرا سفر تو محبت اور خیر کی جستجو کا سفر ہے۔‘‘

خوشبو بنا دیا ہے محبت کی لہر کو

پرواز میری دیکھ کے دنیا ہوئی ہے دنگ

ڈاکٹر صاحبہ ایک باوقار اور با شعور شاعرہ ہیں جو انسانی نیکی و بدی کا شعور رکھتی ہیں۔ وہ عاجز و انکساری سے کام لیتے ہوئے دوسروں کے کام آنا اپنی عبادت سمجھتی ہیں۔ وہ ایک بے نیاز دردِ دل رکھتے ہوئے ہزاروں دعائوں کی طلب گار رکھتی ہے۔

کسی فقیر کو اک سکہ دے کے سوچتی ہوں

کہ میرے حق میں ہزاروں کی وہ دعا کردے

ڈاکٹر صغریٰ صدف شاعری کے علاوہ کالم نگاری اور پنجابی کہانی اور تحقیق و تنقید میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکی ہیں۔ وہی وہ دنیا بھر کی ادبی کانفرنسوں اور مشاعروں میں شرکت کر چکی ہیں۔ بہرحال انھوں نے اپنے شعری مجموعہ ’’وعدہ‘‘ کا انتساب اپنی بیٹی پریا کے نام کیا ہے۔اس کتاب کا ٹائٹل ڈاکٹر صاحبہ کی سادگی کو نمایاں کرتا ہے۔ ان کا پسندیدہ شعر دیکھی۔

 قطرے سے میں بنوں گی سمندر مگر صدفؔ

یہ شرط ہے وہ جاں سے گزرنے تو دے مجھے

سمندر اور صدف (سیپ) کا بہت ساتھ ہے۔ لغت کے اعتبار سے صدف عربی زبان کا لفظ ہے۔ جس کے معنی یہ بھی ہے کہ ’’ سمندری گھونگا جس میں سے موتی نکلتا ہے۔‘‘ اس کے علاوہ بلند عمارت، دیوار یا پہاڑ کو بھی صدف کہتے ہیں۔ اس حوالے سے ’’وعدہ‘‘ کی شاعرہ ڈاکٹر صغرا صدف کی شاعری کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی شاعری پہاڑکی بلند چوٹی کے مانند ہے۔

اصل میں صدف کے بنیادی معنی جھکائوکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بلندی اور جھکائو ان کی ذات اور شاعری میں ایک ساتھ چلتے ہیں۔

لکھی ہے اس کے واسطے میں نے صدفؔ غزل

ہر حرف جس کے واسطے حرفِ دعا ہوا

وہی وہ لکھتی ہیں کہ

مرے سخن سے پرندے کلام کرتے ہیں

تو خامشی کو مری بے بسی شمار نہ کر

ڈاکٹر صغریٰ صدف کی شاعری کا جہاں محبت موضوع ہے، وہیں ان کا بنیادی مضمون فلسفہ ہے جس میں انھوں نے ڈاکٹریٹ کر رکھا ہے، اس لیے ان کی شاعری میں فلسفیانہ انداز کا در آنا حیرت کا باعث ٹھہرتا ہے۔ انھوں نے اپنی شاعری میں بہت سی چیزوں کو ایک فلسفی کی آنکھ سے دیکھنے اور ان پر غور و فکر کرنے کے لیے بہت سے نکتے بھی بیان کیے ہیں۔

 اسی لیے ان کے شعری مجموعہ ’’وعدہ‘‘ میں پختگی اور اعتماد جیسی کیفیات اُسے ثابت قدم رہنے کا حوصلہ دیتی ہیں،کیوں کہ وہ وعدہ کرنا اور اُسے نبھانا بھی خوب جانتی ہیں۔ منیر نیازی کے اس شعر کے مصداق:

جانتے تھے دونوں ہم اس کو نبھا سکتے نہیں

اس نے وعدہ کر لیا میں نے بھی وعدہ کر لیا

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ڈاکٹر صاحبہ ان کی شاعری ڈاکٹر صغری کے علاوہ انھوں نے کے لیے

پڑھیں:

ویمن یونیورسٹی پنڈی کا مشاعرہ اور ڈاکٹر فرحت جبیں

غالباً 2004 کی بات ہے ریڈیو پاکستان لاہور کے زیرِ اہتمام 23 مارچ کے حوالے سے الحمرا آرٹس کونسل لاہور کے ہال نمبر تین میں کل پاکستان مشاعرہ تھا جس کا میں پروڈیوسر تھا۔ مشاعرے کی صدارت احمد ندیم قاسمی کر رہے تھے اور ان کے علاوہ اس مشاعرے میں ملک بھر سے منیر نیازی، احمد فراز، افتخار عارف، ظفر اقبال، شہزاد احمد، ناز خیالوی، قاسم پیر زادہ، اسلم انصاری، ریاض مجید، منیر سیفی، اسلم کولسری اور عطاء الحق قاسمی جیسے سینئر اور نامور شعراء شریک تھے۔ دور نزدیک کے سبھی مہمان شاعر ہال میں سٹیج کے سامنے پہلی رو میں کرسیوں پر تشریف فرما تھے، ہال شائقین سے کھچا کھچ بھرا تھا۔ مشاعرے کے باقاعدہ آغاز سے پہلے امجد اسلام امجد جن کے ذمے مشاعرے کی نظامت تھی سٹیج پر میرے ساتھ بیٹھے شعراء کی فہرست ترتیب دے رہے تھے کہ اسی دوران ہال کے واش روم کی طرف سے منیر نیازی آتے دکھائی دیئے۔ جیسے ہی امجد صاحب کی نظر نیازی صاحب پر پڑی تو وہ فہرست بنانا چھوڑ کر نیازی صاحب کو دیکھنے لگے جو کسی مدہوشی کے عالم میں چلتے ہوئے اب عین مشاعرے کی صدارتی کرسی کے سامنے یوں کھڑے تھے جیسے وہ اس پر بیٹھنے ہی والے ہوں۔ اس سے پہلے کہ منیر نیازی صدارتی کرسی پر براجمان ہو جاتے۔ امجد صاحب نے بروقت اس خطرے کو بھانپ کر بلند آواز میں نیازی صاحب کو مخاطب کر کے کہا ’’نیازی صاحب یہ صدر کی کرسی ہے‘‘۔ منیر نیازی نے امجد صاحب کی آواز سنی اور اسی عالم مدہوشی میں چند لمحوں کی خاموشی کے بعد پوچھا ’’وہ کون ہے‘‘۔ اس پر امجد صاحب نے دوبارہ بلند آواز میں کہا ’’احمد ندیم قاسمی صاحب‘‘۔ اب کی بار منیر نیازی نے باقاعدہ گردن موڑ کر امجد اسلام امجد کی طرف دیکھا اور پھر بڑے ڈرامائی انداز میں کہا ’’وہ کون ہے‘‘۔ جو لوگ منیر نیازی کو قریب سے جانتے ہیں وہ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ منیر نیازی ایسے ہی تھے اور ایسا سوال اور ایسا جواب وہ ہی دے سکتے ہیں۔ دلچسپ اور مزے کی بات ہے کہ یہ انوکھا انداز اُن پر جچتا بھی تھا اور سوائے ایک آدھ زود رنج کے بڑے بڑے شاعر اپنے حوالے سے اُن کے ایسے جملوں کا مزا لیتے تھے۔ منیر نیازی منفرد لب و لہجے کے ایک ایسے خوبصورت شاعر تھے جن کی شاعری، برجستہ جملوں اور شخصیت کا جادو آج بھی اردو ادب کے قارئین کے دلوں پر راج کرتا ہے۔ ہمارے ہاں اردو، پنجابی اور دیگر زبانوں میں یوں تو اچھا شعر کہنے والے بڑے بڑے باکمال شاعر پہلے بھی تھے اور آج بھی ہیں مگر وہ جو رومانوی فلموں، ناولوں اور ڈراموں میں ایک خوبصورت، خوش لباس، خوش گلو اور کرشماتی شاعر کا ایک تصوراتی خاکہ بنتا ہے۔ ہمارے ادبی منظر نامے میں اب تک اس معیار پر صرف منیر نیازی ہی پورا اُترتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ منیر نیازی کے اس فانی دنیا سے جانے کے بعد بھی اُن کی مقبولیت میں رتی بھر فرق نہیں آیا۔ اُن سے پیار کرنے والے انہیں مختلف حیلوں بہانوں سے آج بھی یاد کرتے رہتے ہیں۔ منیر نیازی کے بے شمار چاہنے والوں کی طرح میرا شمار بھی اُن کے پرستاروں میں ہوتا ہے مگر میں اس حوالے سے خود کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ مجھے اُن کے ساتھ دو تین مشاعرے پڑھنے کا موقع ملا۔ اس کے علاوہ انہوں نے 1998ء میں شائع ہونے والے میرے پہلے پنجابی شعری مجموعے ’’کون دلاں دیاں جانے‘‘ کے لیے فلیپ بھی لکھا تھا۔ میرے لیے اُن کی وہ چند لائنیں آج بھی کسی قیمتی اعزاز سے کم نہیں ہیں۔ باکمال شاعری، برجستہ جملوں اور اپنی دلکش شخصیت کے مختلف حوالوں سے یوں تو منیر نیازی مجھے بھی اُن کے دیگر بے شمار چاہنے والوںکی طرح اکثر کسی نہ کسی بہانے سے یاد آتے رہتے ہیں مگر آج اتنے عرصے بعد خاص طور پر اپنے سامنے گزرا اُن کا یہ مزیدار واقعہ مجھے فاطمہ جناح وویمن یونیورسٹی راولپنڈی میں شعبہ اردو کی سربراہ ڈاکٹر فرحت جبیں ورک کی منیر نیازی کے شعری تصورات کے حوالے سے لکھی کتاب ’’ایک نگر ایجاد کروں‘‘ دیکھ کر بس یونہی یاد آ گیا ہے۔ منیر نیازی کے فن اور شخصیت کے حوالے سے تنقید اور تحقیق کی یہ خوبصورت کتاب ڈاکٹر صاحبہ نے مجھے اپنے ہاں یونیورسٹی میں منعقدہ مشاعرے کے اختتام پر عنایت کی تھی جس میں شرکت کے لیے میں اُن کی دعوت پر خاص طور پر لاہور سے گیا تھا۔ کچھ نئے دوستوں سے پہلی بار بالمشافہ ملنے کے حوالے سے میرے لیے یہ ایک یادگار مشاعرہ تھا۔ مشاعرے کی صدارت شکیل جاذب نے کی جبکہ مہمان خصوصی صائمہ آفتاب تھیں دیگر شاعروں میں میرے علاوہ سبھی مقامی شاعر تھے جن میں میرے ’’دُورکے جاننے والوں‘‘ میں بس خالد اقبال یاسر، ڈاکٹر فاخرہ نورین اور ڈاکٹر عزیز فیصل ہی تھے۔ باقی سارا مال نیا تھا نئے شاعروں میں مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے شیدا جنٹری میں پھس گیا ہو۔ یہ ایک شاندار مشاعرہ تھا جس میں ڈاکٹر فرحت جبیں وِرک کے حسن انتظام اور اُن کی خوبصورت نظامت کے علاوہ مشاعرے کی ایک خاص بات یہ تھی کہ اس میں میری درخواست پر بطور خاص ہمارے دوست اور ممتاز مزاح نگار ڈاکٹر ذوالفقار احسن بھی ایک سامع کی حیثیت سے تشریف لائے تھے۔ مجھے نہیں پتا اُن کی مشاعرہ سننے میں کتنی دلچسپی تھی البتہ سٹیج پر بیٹھے بیٹھے میں نے ایک بات ضرور نوٹ کی کہ اپنے دائیں بائیں مشاعرہ دیکھنے میں وہ اختتام تک بھرپور دلچسپی لیتے رہے۔ حتیٰ کہ مشاعرے کے بعد جب سموسوں اور چائے کا دور چل رہا تھا وہاں بھی ڈاکٹر ذوالفقار احسن کی یہ وارفتگی پوری طرح برقرار رہی۔ ڈاکٹر صاحب مرد و زن کی تفریق کے بغیر لگا تار کسی ماہر تلوار باز کی طرح اپنے برجستہ جملوں سے کشتوں کے پشتے یا پشتوں کے کشتے لگاتے جا رہے تھے۔ اُن کے شوخ اور مزیدار جملوں سے کچھ لوگ محظوظ تو کچھ اِدھر اُدھر کھسک کر محفوظ ہوتے رہے۔ مجھے چونکہ واپسی کی جلدی تھی اور بھوک بھی شدید لگی تھی اس لیے میں نے ڈاکٹر فرحت جبیں وِرک سے یہ کہتے ہوئے اجازت طلب کی کہ ’’ڈاکٹر صاحبہ مجھے اجازت دیں میں نے لاہور پہنچ کر روٹی شوٹی بھی کھانی ہے‘‘۔ اس پر پتا نہیں کیوں ڈاکٹر ذوالفقار احسن ہنستے ہوئے لوٹ پوٹ ہو گئے۔ جہاں تک ڈاکٹر فرحت جبیں وِرک کی منیر نیازی کے فن اور شخصیت پر مبنی کتاب ’’ایک نگر ایجاد کروں‘‘ کی بات ہے تو اس حوالے عرض کروں کہ وہ جو کسی شاعر نے کہا ہے ناں ’’ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا‘‘۔ ایک تو ہم سب کے پسندیدہ شاعر منیر نیازی کا ذکر اور اس پر ڈاکٹر صاحبہ نے جس محبت، عقیدت اور لگن سے اپنے موضوع سے انصاف کیا ہے اس نے ہمارے جیسے بندے کو بھی یہ کتاب پڑھنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ایک ایسے دور میں کہ جب بازار علم و ادب میں پی ایچ ڈی کے ’’ریڈی میڈ‘‘ مقالوں کا سستا لنڈا بازار لگا ہوا ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ نے کسی ’’ریڈی میڈ‘‘ فارمولے کی بجائے ڈھیروںکتابیں کھنگال کر جس عرق ریزی سے منیر نیازی کی شخصیت، حالات زندگی اور شاعری کے مختلف پہلوئوں کا تفصیل اور استدلال سے تجزیہ کیا ہے۔ منیر نیازی کی شخصیت اور اُن کی شاعری کے مختلف پہلوئوں کو سمجھنے اور اُن سے حقیقی معنوں میں حظ اُٹھانے کے لیے اردو ادب کے قارئین اور تنقید و تحقیق کے طالب علموں کے لیے یقینا یہ ایک بہترین اور مستند کتاب ہے جس پر بلاشبہ ڈاکٹر فرحت جبیں وِرک تحسین کی مستحق ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • ویمن یونیورسٹی پنڈی کا مشاعرہ اور ڈاکٹر فرحت جبیں
  • پاکستان میں پھنسے افغان مہاجرین کی کہانی، ’امریکا نے پالیسی نہ بدلی تو کہیں کے نہیں رہیں گے‘
  • 26 ویں آئینی ترمیم نے ملک میں آئینی بحران کو جنم دیا،پیر پگاڑا
  • ذوالفقار عطرے
  • اردو کے نامور ادیب تابش مہدی کی رحلت
  • ڈاکٹر فوزیہ کا اپنی اسیر بہن کے نام خط
  • مسلسل وعدہ خلافی، پیپلز پارٹی مذاکراتی کمیٹی کے ارکان حکومتی مذاکراتی کمیٹیوں پربرہم
  • بلاول بھٹو ایک عظیم سیاسی سوچ اور دانش کے حامل رہنما ہیں، ثوبیہ مقدم
  • ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رحم کی اپیل مسترد ،اسلام آباد ہائیکورٹ میں جواب جمع کرا دیا گیا