فلسفیانہ سوچ کی حامل شاعرہ… ڈاکٹر صغریٰ صدف
اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT
ڈاکٹر صغریٰ صدف ایک ہمہ گیر اور ہمہ جہت خاتون ہیں۔ وہ بیک وقت شاعرہ، ادیبہ، مدیرہ، نظامت کار، براڈ کاسٹر، فلسفی دانشور، منتظم اور بیورو کریٹ ہیں اور آج کل وجدان ادبی، ثقافتی تنظیم سے منسلک ہیں۔
اس سے قبل وہ پنجابی ادب و ثقافت اور فنون کی بہترین اور ترویج کے لیے کوشاں سرکاری ادارے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف لینگوئج، آرٹ اینڈ کلچر (پلاک) کی ڈائریکٹر جنرل کے طور پر اپنی ذمے داریاں بہ حسن و خوبی نبھا چکی ہیں۔
ڈاکٹر صغریٰ صدف ادب و ثقافت کا وہ روشن نام ہیں جو اپنے اشعار میں بہت دبنگ نظر آتی ہیں۔ ان کی شاعری کا بنیادی موضوع بہت سے شعرا کی طرح محبت ہیں، ان کی پُرکشش شخصیت کا اصلی جوہر ان کے ہاں محبت کے بہت سے ایسے چراغ روشن ہیں جن کی روشنی کے رنگ مختلف انداز میں رقص کرتے ہوئے ہوائوں کے مقابل جلنے کا عزم رکھتے ہیں۔
ان کا غزلیات پر مبنی شعری مجموعہ ’’ وعدہ ‘‘ ان کے مزاج کے تمام پہلوئوں کی عکاسی کرتا ہے۔ ان کی شاعری کو سمجھنے کے لیے کسی خاص تگ و دو کی بجائے ان کے مزاج کے موسموں سے آشنا ہونے کی ضرورت ہیں، وہ اپنے اندر کے موسم کا بدلتا ہُوا منظر بیان نہیں ہونے دیتیں مگر وہی اس بات کا اظہار یوں لفظوں میں کرتی دکھائی دیتی ہیں۔
حال اندر کا جانتا ہے وہ
کون کرتا ہے مخبری میری
ڈاکٹر صغرا صدف خوبصورت شعر کہتی ہیں، ان کی حمد بھی بندگی تمثال اور نعت بھی عقیدت بھری!
رہوں میں حرفِ اماں کے حصار میں آقاؐ
صدفؔ ہوں، مجھ کو ثنا کا گہر عطا کردے
ڈاکٹر صاحبہ کی حمد و نعت کے علاوہ غزلیات میں ایسی دلکشی دیکھنے کو ملتی ہیں ۔ وہ الفاظ کی مالا موتیوں کی مانند پرونے کا ہنر بخوبی جانتی ہیں۔
ان کی بعض غزلوں میں کہیں جسم و جاں پہ اَن دیکھا خوف طاری تو کہیں آنکھوں کے آئینے میں سنوارنے کی خواہش تو کہیں وصالِ ہجر کا دُکھ تو کہیں ہاتھوں سے ٹوٹے ہوئے آئینوں میں بکھرے ہوئے چہرے تو خون میں نہاتی ہوئی وادیوں کی جھلک، توکہیں صحن وطن میں اندھیروں کا سناٹا، تو کہیں بے خواب موسموں میں لیے ہوئے قافلوں کا منظر تو کہیں بے نام خیالوں کی تجسیم، توکہیں جینے کہیں مرنے اورکہیں تلخ یادوں کے ڈرنے کا خوف توکہیں محبت کا ادھورا سفر، توکہیں خوشبو کی کہانی، توکہیں خزاں رسیدہ شجر، تو کہیں درد آشنا کا غم، شدتِ جذبات کی تڑپ، تو کہیں زندہ رہنے کی خواہش میں شہرِ آرزو میں ایک گھر بنانے کی چاہ، تو کہیں احساس کے لفظوں کے چھوتے ہوئے نشتر تو دوسری طرف تتلیاں پھول جگنو اور ستاروں کے علاوہ بے جاں خواب تو کہیں بے بس ذات ، تو کہیں عشق کا معیار تو کہیں تنہائی میں اشک بہانا تو کہیں شہر ظلمت کا احوال ان کے کلام میں جا بجا پڑھنے کو ملتا ہے۔
جس کے باعث شہر، ظلمت کے حوالے ہو گئے
ہم کبھی شامل نہیں تھے وقت کی اس چال میں
ڈاکٹر صاحبہ کی شاعری میں یہ تمام وارداتیں موجودہ حالات کی عکاس ہیں۔ اس حوالے سے اُن کے نزدیک احساس کے نازک رخساروں پر بے رحم وقت کے طمانچوں سے پیدا ہونے والی آہ شاعری ہے۔ انھوں نے اپنی کتاب کا نام ’’وعدہ‘‘ رکھا ہے۔
جس میں وہ اپنی رائے میں لکھتی ہیں کہ ’’ میں بیک وقت دو جہانوں کی باسی ہوں ایک مادی دنیا اور دوسری تخیل کی دنیا، جس کی میں خود خالق ہوں۔ جس میں میرا اپنا راج قائم ہے۔ ظاہری دنیا کے ناموافق حالات سے گھبرا جائوں تو باطنی دنیا میں بسیرا کر لیتی ہوں۔ نفع ونقصان اور علت و معلول میں جکڑی دنیا میرے خوابوں کا محور نہیں ہو سکتی۔
میری بے چینی کا سبب یہی ہے کہ میں دو دنیائوں کی مسافر ہوں۔ اپنے چین کے لیے میں ان دونوں دنیائوں کو ایک بنانے کا جتن کرتی ہوں جہاں صرف محبت اور خیرکی جستجوکی جائے کیونکہ میرا سفر تو محبت اور خیر کی جستجو کا سفر ہے۔‘‘
خوشبو بنا دیا ہے محبت کی لہر کو
پرواز میری دیکھ کے دنیا ہوئی ہے دنگ
ڈاکٹر صاحبہ ایک باوقار اور با شعور شاعرہ ہیں جو انسانی نیکی و بدی کا شعور رکھتی ہیں۔ وہ عاجز و انکساری سے کام لیتے ہوئے دوسروں کے کام آنا اپنی عبادت سمجھتی ہیں۔ وہ ایک بے نیاز دردِ دل رکھتے ہوئے ہزاروں دعائوں کی طلب گار رکھتی ہے۔
کسی فقیر کو اک سکہ دے کے سوچتی ہوں
کہ میرے حق میں ہزاروں کی وہ دعا کردے
ڈاکٹر صغریٰ صدف شاعری کے علاوہ کالم نگاری اور پنجابی کہانی اور تحقیق و تنقید میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکی ہیں۔ وہی وہ دنیا بھر کی ادبی کانفرنسوں اور مشاعروں میں شرکت کر چکی ہیں۔ بہرحال انھوں نے اپنے شعری مجموعہ ’’وعدہ‘‘ کا انتساب اپنی بیٹی پریا کے نام کیا ہے۔اس کتاب کا ٹائٹل ڈاکٹر صاحبہ کی سادگی کو نمایاں کرتا ہے۔ ان کا پسندیدہ شعر دیکھی۔
قطرے سے میں بنوں گی سمندر مگر صدفؔ
یہ شرط ہے وہ جاں سے گزرنے تو دے مجھے
سمندر اور صدف (سیپ) کا بہت ساتھ ہے۔ لغت کے اعتبار سے صدف عربی زبان کا لفظ ہے۔ جس کے معنی یہ بھی ہے کہ ’’ سمندری گھونگا جس میں سے موتی نکلتا ہے۔‘‘ اس کے علاوہ بلند عمارت، دیوار یا پہاڑ کو بھی صدف کہتے ہیں۔ اس حوالے سے ’’وعدہ‘‘ کی شاعرہ ڈاکٹر صغرا صدف کی شاعری کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی شاعری پہاڑکی بلند چوٹی کے مانند ہے۔
اصل میں صدف کے بنیادی معنی جھکائوکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بلندی اور جھکائو ان کی ذات اور شاعری میں ایک ساتھ چلتے ہیں۔
لکھی ہے اس کے واسطے میں نے صدفؔ غزل
ہر حرف جس کے واسطے حرفِ دعا ہوا
وہی وہ لکھتی ہیں کہ
مرے سخن سے پرندے کلام کرتے ہیں
تو خامشی کو مری بے بسی شمار نہ کر
ڈاکٹر صغریٰ صدف کی شاعری کا جہاں محبت موضوع ہے، وہیں ان کا بنیادی مضمون فلسفہ ہے جس میں انھوں نے ڈاکٹریٹ کر رکھا ہے، اس لیے ان کی شاعری میں فلسفیانہ انداز کا در آنا حیرت کا باعث ٹھہرتا ہے۔ انھوں نے اپنی شاعری میں بہت سی چیزوں کو ایک فلسفی کی آنکھ سے دیکھنے اور ان پر غور و فکر کرنے کے لیے بہت سے نکتے بھی بیان کیے ہیں۔
اسی لیے ان کے شعری مجموعہ ’’وعدہ‘‘ میں پختگی اور اعتماد جیسی کیفیات اُسے ثابت قدم رہنے کا حوصلہ دیتی ہیں،کیوں کہ وہ وعدہ کرنا اور اُسے نبھانا بھی خوب جانتی ہیں۔ منیر نیازی کے اس شعر کے مصداق:
جانتے تھے دونوں ہم اس کو نبھا سکتے نہیں
اس نے وعدہ کر لیا میں نے بھی وعدہ کر لیا
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ڈاکٹر صاحبہ ان کی شاعری ڈاکٹر صغری کے علاوہ انھوں نے کے لیے
پڑھیں:
کپتان سے سیکھی کپتانیاں اب اس کے ساتھ ہی ہو رہی ہیں
کپتان نے تقریباً ’تمھی ہو محبوب میرے، تمھی تو میری دنیا ہو‘ والے گیت کے انداز میں ہی تسلی کرائی تھی۔ اس پر مطمئن ہونا بنتا تھا، بندہ مطمئن ہو کر نکلا تھا۔ اطمینان کی وجہ موجود تھی۔ کپتان نے اسے کہا تھا کہ میرے وزیراعلیٰ تم ہی ہو۔
یہ دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن کے بعد کی بات ہے۔ اگلی بات سن کر ہنسنا منع ہے۔ نامزد وزیر اعلیٰ فرماتے ہیں کہ تھوڑی دیر بعد جب میں اپنے دوستوں کو اپنی وزارت اعلیٰ کا بتا رہا تھا تو ہم نے محمود خان کے وزیر اعلیٰ خیبر پختون خوا نامزد کیے جانے کی خبر ٹی وی پر دیکھی۔
ہمارے یہ نامزد وزیر اعلیٰ صاحب جو مرضی محسوس کریں اور کہیں۔ اس کہانی سے کپتان ایک ہوشیار سیاستدان ہی دکھائی دیتا ہے جو اپنے ساتھیوں کو اپنے قریب رکھتا اور مرضی موقع کے مطابق سہولت سے استعمال کرتا ہے۔ آج کل 3 ڈاکٹروں کے پاکستان آنے، پی ٹی آئی اور سر جی کے درمیان برف کو پانی کرنے کی کوشش اور مہم کے چرچے ہیں۔
ڈاکٹر عثمان ملک، ڈاکٹر سائرہ بلال اور ڈاکٹر محمد منیر نامی 3 ڈاکٹر مارچ میں پاکستان آئے تھے۔ پاکستان آ کر انہوں نے مبینہ طور ایک اعلیٰ سطحی ملاقات کی اور اڈیالہ بھی گئے۔ ڈاکٹر سائرہ بلال اور ڈاکٹر عثمان ملک نے پاکستان فرسٹ گلوبل قائم کی تھی۔ یہ فرم ایڈوو کیسی، انسانی حقوق، کانگریس سے رابطے اور پی ٹی آئی کے حق میں لابنگ کرتی رہی۔ پاکستان پیک نامی ایک دوسری تنظیم کے ساتھ مل کر گلوبل فرسٹ نے امریکی کانگریس سے ایچ آر 901 قرارداد بھی پاس کرائی۔
پی ٹی آئی کی ایک 4 رکنی اوورسیز کمیٹی تھی۔ اس کے ممبران میں زلفی بخاری، سجاد برکی، عاطف خان اور شہباز گل شامل تھے۔ پی ٹی آئی کے یوٹیوبرز یہ کمیٹی اور ڈاکٹر سب اک مک ہو کر پورے جذبے سے کپتان کی گُڈی اونچا اڑانے کی کوشش کرتے رہے۔ یہ کمیٹی توڑی جا چکی ہے۔ یو ٹیوبرز ڈاکٹروں کے خلاف مہم چلا رہے ہیں۔ ڈاکٹر پی ٹی آئی لیڈر کو مشکل سے نکالنے کے مشن پر ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ باہرلے پاکستانی جو پی ٹی آئی کی ایک بڑی سپورٹ بیس ہیں وہ اب آپس میں تقسیم دکھائی دے رہے ہیں۔
ایک خبر مطابق معاملات طے کرنے کی موجودہ کوشش سے پہلے نومبر میں بھی ایک کوشش ہوئی تھی۔ تب معاملات کافی حد تک طے ہوتے دکھائی دے رہے تھے۔ تب کپتان کو جیل میں اس کے ملاقاتیوں نے پٹی پڑھائی کہ جو لانگ مارچ ہونے جا رہا ہے، اس میں کئی ملین لوگ شریک ہوں گے۔ حوالدار بشیر جم غفیر دیکھ کر سلوٹ مارے گا اور قیدی نمبر 804 کی بادشاہت کا اعلان ہو جائے گا۔ پی ٹی آئی راہنماؤں نے خود کپتان کے ساتھ وہی کپتانیاں کر دیں جو کپتان نے وزیر اعلیٰ کے امیدوار کے ساتھ کی تھیں۔
جیسی روح ویسے فرشتے۔ نتیجہ یہ ہے کہ بھائی ابھی تک اندر ہے۔ اب ڈاکٹری ہو رہی ہے۔ جب 2014 میں پی ٹی آئی کو زور سے دھرنا آیا تھا، تب اک بار سٹیج سے کپتان نے ’چودھری نثار! تم اچھے آدمی ہو، وہاں کیا کر رہے ہو، ہمارے ساتھ آ جاؤ‘ قسم کی باتیں کی تھیں۔ چودھری نثار جو اس وقت وزیر داخلہ تھے ایک پریس کانفرنس میں کہتے پائے گئے کہ کیا دھرنے میں 10 لاکھ لوگ ہیں، یہ 5 لاکھ بھی چھوڑ ایک لاکھ بھی ہیں۔ تب سیاست کو فالو کرنے والے اس ڈائیلاگ بازی سے یہی سمجھے کہ چودھری نثار کہہ رہے ہیں کہ کپتان اگر یہ 10، 5 یا ایک لاکھ بھی ہوتے تو آنے کی سوچ لیتا۔
یہ 10لاکھ کا وہی فگر ہے جس کا دعویٰ سن کر کپتان نے مذاکرات کی بجائے نومبر میں دھرنے کا آپشن لیا۔
اب تک آپ نے جو کچھ پڑھا ہے، یہ سب میڈیا میں رپورٹ ہو چکا ہے۔ حکومت جانے کے بعد مقبولیت برقرار رکھ کر پی ٹی آئی نے کارنامہ کیا ہے۔ اس کی داد بنتی ہے لیکن اصل داد پیروں میں بندوق پھسا کر اپنے سارے گل چھرے اڑانے کی دینی چاہیے۔ یہ مقبولیت یہ سپورٹ کسی سیزنڈ سیاستدان مولانا فضل الرحمان ، محمود خان اچکزئی یا کسی بھی اور سیاستدان کے پاس ہوتی تو وہ وطن عزیز میں جمہوری بادشاہ بنا ہوا ہوتا۔ پر ہوا یہ ہے کہ کپتان سے سیکھی کپتانیاں اب اپنے پرائے سب اسی کے ساتھ کر رہے ہیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔
وسی بابا