فاتح خیبر، شیر خدا حضرت علیؓ
اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیارے نبی حضرت محمد ﷺ کے چچا زاد بھائی اور داماد تھے۔ بچوں میں سب سے پہلے آپ ایمان لائے۔ عشرہ و مبشرہ، بیعت رضوان، اصحاب بدر و احد کے ساتھ غزوہ ’’تبوک‘‘ کے علاوہ غزوات میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیش پیش رہے۔ حضرت علیؓ کی پوری زندگی آپ ﷺ کے سایہ عاطفت میں گزری۔ آپ ﷺ کی تربیت اور شفقت نے حضرت علیؓ کو علم کی معراج بخشی، ان کی فضیلت میں بے شمار احادیث موجود ہیں، آپ ﷺ نے انھیں دنیا اور آخرت میں اپنا بھائی قرار دیا اور انھیں جنت اور شہادت کی خوش خبری سنائی۔
امیرالمومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ بنی ہاشم کے چشم و چراغ تھے، یہ خاندان حرمِ کعبہ کی خدمات کے نتیجے میں مکہ کا ممتاز خاندان تھا، حضرت علیؓ کے والد محترم جو پیارے نبی ﷺ کے چچا تھے ان کا نام ابو طالب تھا اور والدہ فاطمہ بنت اسد دونوں ہاشمی تھے، حضرت علیؓ نجیب الطرفین ہاشمی پیدا ہوئے۔ بعض علما کے نزدیک حضرت علیؓ کی ولادت مکہ شریف میں عام الفیل کے سات سال بعد ہوئی۔
بعض سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ حضرت محمد ﷺ کی پیدائش کے تیس برس بعد حضرت علیؓ اس دنیا میں تشریف لائے، حضرت علیؓ کو ابتدا ہی سے رسول پاکؐ کا ساتھ نصیب ہوا۔ حضور پاک ﷺ نے اپنے چچا کے حالات کو دیکھتے ہوئے حضرت علیؓ کو اپنی کفالت میں لے لیا تھا اور چچا کی معاشی مدد کے طور پر ان کا ساتھ دیا اور حضرت علیؓ کی پرورش و تربیت میں نمایاں کردار ادا کیا۔
جب حضرت محمد ﷺ نے اللہ کے حکم سے اسلام کی دعوت دینے کا آغاز کیا اور اپنے عزیز و اقارب کو کوہ صفا پر بلایا۔ تمام لوگوں میں حضرت علیؓ عمر کے اعتبار سے کم سن تھے۔ انھوں نے اٹھ کر کہا کہ ’’گو میں عمر میں سب سے چھوٹا ہوں اور مجھے آشوب چشم کا عارضہ ہے اور میری ٹانگیں دبلی پتلی ہیں، تاہم میں آپ کا ساتھی اور دست و بازو بنوں گا۔‘‘ حضور پاک ﷺ نے حضرت علی کی جرأت و بہادری اور محبت کو دیکھتے ہوئے فرمایا: ’’بیٹھ جاؤ، تُو میرا بھائی اور وارث ہے۔‘‘
حضرت علیؓ کو اللہ نے بہت سی خوبیوں اور اوصاف سے نوازا تھا۔ حضرت سعد ابن ابی وقاص سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علیؓ سے فرمایا: تم میری طرف سے اس مرتبے پر ہو جس مرتبے پر حضرت ہارون علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف سے تھے مگر بات یہ ہے کہ میرے بعد اب کوئی نبی نہیں آئے گا۔‘‘ (بخاری و مسلم)
نبی ﷺ نے فرمایا ’’جس کا میں مولیٰ ہوں، علیؓ بھی اس کا مولیٰ ہے۔‘‘ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’جس نے علیؓ سے محبت کی، اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی اس نے اللہ تعالیٰ سے محبت کی اور جس شخص نے بھی حضرت علیؓ سے بغض رکھا ، اس نے مجھ سے بغض رکھا اور جس نے مجھ سے بغض رکھا اس نے اللہ رب العزت سے بغض رکھا۔‘‘
حضرت علیؓ علمی اعتبار سے ایک خاص مقام رکھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علیؓ کی علم و فراست کے بارے میں فرمایا کہ ’’میں علم کا شہر ہوں اور علیؓ اس شہر کا دروازہ ہیں۔‘‘ ایک دوسرے فرمان کے مطابق ’’میں حکمت کا گھر ہوں علیؓ اس کا دروازہ ہیں۔‘‘ حضرت سیدنا حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم خاتم النبین رحمت اللعالمین نے میرے سینے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا ’’اے اللہ! علی کے سینے کو علم، عقل اور دانائی و حکمت اور نور سے بھر دے۔‘‘
حضرت علیؓ کو قرآن پاک کی ہر آیت کے بارے میں علم تھا۔ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ بے شک میں قرآن کی ہر آیت کے بارے میں جانتا ہوں کہ وہ رات میں نازل ہوئی ہے یا دن میں۔ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا کہ حضرت علیؓ ایسے عالم ہیں کہ جن کے پاس قرآن پاک کے ظاہر و باطن دونوں کے علوم ہیں، حضرت علیؓ کا علم سمندر جیسا تھا، تمام مسائل کا حل بخوبی جانتے تھے۔
حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ نبی محمد ﷺ نے مجھے علم کے ایک ہزار باب سکھائے اور میں نے ان میں سے ہر باب میں سے مزید ایک ہزار باب نکالے، درس و تدریس، علمیت و قابلیت کے حوالے سے آپؓ کی مثال نہیں ملتی ہے۔حضرت علیؓ فاتح خیبر تھے، ان کی ساری زندگی حضور پاک ﷺ کے ساتھ رہتے ہوئے گزری، تمام جنگوں میں انھوں نے حصہ لیا اور بہادری کے وہ جوہر دکھائے کہ کفار بڑی تعداد میں مارے گئے، ان کے علم و تقویٰ اور ان کی فضیلت میں صحاح ستہ میں درجنوں احادیث موجود ہیں خیبر کی فتح حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شجاعت اور بہادری کی بدولت حاصل ہوئی، اس جنگ اور فتح کا پس منظر یہ ہے۔
خیبر کا علاقہ اور اس کے کئی قلعے یہودی فوجیوں کے مرکز تھے اور یہ مسلمانوں کے خلاف خود بھی سازشیں کرتے اور مسلمانوں کے دشمنوں کے ساتھ مل کر ساز باز کرتے خیبر کے یہودیوں نے قبیلہ بنی نضیر کو بھی اپنی پناہ میں رکھا۔ خیبر میں بے شمار یہودی آباد تھے اور یہ بڑا شہر تھا۔
بنو قریظہ نے غزوہ خندق میں مسلمانوں سے عہد شکنی کرکے مشکلات کا شکار کر دیا تھا خیبر کے یہودیوں نے نجد کے قبیلے کے ساتھ بھی معاہدے کیے تھے جن کی رو سے وہ مسلمانوں کو ہر طرح سے نقصان پہنچانے کے در پر تھے۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے ہمارے پیارے نبی 1600 کی فوج کے ساتھ جن میں سے 100 سے زائد گھڑ سوار بھی شامل تھے جنگ کی نیت سے روانہ ہوئے اور پانچ چھوٹے قلعے فتح کر لیے اور اس کے ساتھ ہی خیبر کا محاصرہ کر لیا یہ قلعہ ایک اونچی پہاڑی پر بنا ہوا تھا۔
یہودیوں نے اپنا ساز و سامان اور خواتین و بچوں کو علیحدہ علیحدہ قلعوں میں حفاظت کے لیے پہنچا دیا، باقی دو قلعوں کو جن میں قلعہ قموص بھی شامل تھا ایک پہاڑی پر بنایا گیا تھا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابو بکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت سعد بن عبادہؓ کی قیادت میں افواج بھیجیں، مگر مسلمان کامیاب نہ ہو سکے۔
اس صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ ﷺ نے فرمایا ’’کل میں علم اس کے ہاتھ میں دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول صلی ﷺ سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول بھی اس سے محبت کرتے ہیں۔ اسے شکست ہوگی اور نہ وہ میدان چھوڑے گا‘‘ یہ سن کر صحابہ کرام خواہش کرنے لگے کہ یہ سعادت ان کے نصیب میں ہو۔
دوسرے دن حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو طلب کیا تو صحابہ کرام نے عرض کیا ’’یا رسول اللہ! علیؓ آشوب چشم میں مبتلا ہیں‘‘ لیکن حضرت علیؓ کو پتا چلا کہ بارگاہ نبوی ﷺ سے بلاوا آیا ہے تو آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ ﷺ نے اپنا لعاب مبارک ان کی آنکھوں پر لگایا، آپؓ اسی وقت صحت مند ہوگئے اور پھر پوری زندگی آشوب چشم میں مبتلا نہ ہوئے۔
جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ قلعہ کو فتح کرنے کے لیے پہنچے تو یہودیوں میں سے ایک شخص جوکہ پہلوان تھا اس کا نام مرحب تھا، اس کی جوانمردی کی بہت شہرت تھی، عرب میں ایک سو سواروں کے لیے اکیلا ہی کافی تھا، اس کے ساتھ جنگ شروع ہوئی، حضرت علیؓ نے ایسا وار کیا کہ اس کا سر درمیان سے دو ٹکڑے ہو گیا اور تلوار مرحب کے سر کو کاٹتی ہوئی دانتوں تک اتر آئی، اور اس وار کی گونج دور تک گئی۔
7 ہجری محرم الحرام سے شروع ہونیوالے اس معرکہ کا اختتام صفرالمظفرمیں ہوا۔ اور یہ جنگ حضرت علیؓ کے ہاتھوں کامیابی تک پہنچی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سے بغض رکھا نے حضرت علی سے محبت کی نے فرمایا کے ساتھ اور اس
پڑھیں:
محفل نعت بسلسلہ حضرت امام جعفر صادقؓ و سیدنا امیر معاویہؓ کا اہتمام
کراچی (اسٹاف رپورٹر)مرکز اہلسنت مدرسہ جامع السلیم کے زیر اہتمام محفل نعت بسلسلہ حضرت امام جعفر صادقؓ و سیدنا امیر معاویہؓ کا اہتمام کیا گیا۔محفل نعت میں پاکستان سنی تحریک کے مرکزی صدر انجینئر محمد ثروت اعجاز قادری اور مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ بلال سلیم قادری نے خصوصی شرکت کی۔ محمدطیب قادری، محمد سلمان قادری‘ جواد قادری،عمران قادری اراکین کراچی رابطہ کمیٹی اورعوام اہلسنت بھی محفل میں بڑی تعداد میں شرکت ہوئے۔مرکزی صدر پاکستان سنی تحریک انجینئر محمد ثروت اعجاز قادری نے بابرکت محفل سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حضرت امام جعفر صادقؓ اور سیدنا امیر معاویہؓ نے اسلام کے لیے وہ قربانیاں دی ہیں جس کا ہم آپ تصور بھی نہیں کر سکتے۔صحابہ کرامؓ اہلبیتؓ اور بزرگان دین کی محنت رنگ لائی ہے جس کی وجہ سے دین اسلام کا نام ہر زبان پر ہے۔آخرت کو سنوارنے کے لیے بہت محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔لوگ دنیا داری کو نبھانے کے چکر میں آخرت کو ہی بھول گئے ہیں۔صحابہ کرامؓ اہلبیتؓ اور بزرگان دین کی زندگی پر نظر ڈالیں تو ہمیں لگ پتا جائے گا کہ انہوں نے دین اسلام کے لیے کتنی محنت کی ہے۔آج کل کے دور میں ذرا سی مشکل پریشانی آ جاتی ہے تو لوگ پریشان ہو جاتے ہیں۔صبر و تحمل اور برداشت لوگوں میں بالکل ختم ہو گئی ہے۔