جو ہوتا ہے، اچھے کے لیے ہوتا ہے
اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا مشہور قول ہے، ’’ میں نے اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے اپنے رب کو پہچانا ہے۔‘‘ اس جہانِ فانی میں تشریف لانے والا ہر انسان یہاں اپنے پاؤں جماتے ہی اپنی زندگی میں آنے والے ہر دن، ہفتے، مہینے اور سال کے حوالے سے منصوبہ بندی شروع کردیتا ہے۔
یہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ اپنے ہرکام کے حوالے سے ایک لائحہ عمل تشکیل دیتا ہے، پھر چاہے وہ کام معمولی نوعیت کا ہو یا خاص توجہ کا طلبگار۔ انسان کی زندگی کے مختلف ادوار میں اْس کی عقل اور فہم و فراست کے اْتار چڑھاؤ کی مناسبت سے اْس کے ارادوں اور منصوبوں میں ردوبدل کا عمل جاری رہتا ہے مگر عمر کے ہر حصے میں اْن ارادوں کو حقیقت کا روپ دھارتے دیکھنے کی انسانی خواہش ہمیشہ ایک سی ہی رہتی ہے۔
یہ دنیا مختلف اقسام کے مذاہب اور اْن کے ماننے والوں سے بھری پڑی ہے، اس کے علاوہ یہاں اْن افراد کی بھی کثیر تعداد موجود ہے جو کسی بھی مذہب کا حصہ بننے میں قطعی دلچسپی نہیں رکھتے ہیں۔ دینی اور لادینی دونوں گروہوں میں ایک مماثلت پائی جاتی ہے کہ دونوں ہی غیبی طاقت سے یہ اْمید لگائے رکھتے ہیں کہ وہ اْن کی ہر حکمتِ عملی پر اپنا دستِ شفقت رکھے، بصورت دیگر انسان قدرت سے خفا خفا رہنے لگتا ہے جس کا برملا اظہار وہ اپنے اطوار وگفتار سے کرتے دکھائی دیتا ہے۔
قرآنِ کریم میں سورۃ الانبیاء میں خالقِ کائنات ارشاد فرماتے ہیں، ’’ انسان جلد باز مخلوق ہے میں تمہیں اپنی نشانیاں ابھی ابھی دکھاؤں گا تم مجھ سے جلد بازی نہ کرو۔‘‘ہم انسانوں کی زندگیوں میں ہمیشہ ہماری منشا کے مطابق حالات و واقعات رونما نہیں ہوتے ہیں۔
سوچنے، منصوبے بنانے اور منزل تک پہنچنے کے دوران ہمارا بہت سے حادثات اور سانحات سے آمنا سامنا ہوتا ہے اور ہمیں کئی مرتبہ اپنا راستہ تبدیل کرنا پڑتا ہے تب جا کر کبھی کبھار ہم نے جیسا سوچا ہوتا ہے ویسا ہوجاتا ہے مگر زیادہ تر ہماری ساری کی ساری منصوبہ بندی خدا تعالیٰ کے فیصلوں کے آگے دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔
بیشک اور بلاشبہ رب العالمین کی تدبیریں انسان کے بنائے زندگی کے نقشوں سے لاکھ درجے بہتر ہوتی ہیں لیکن بِنا چوں چراں کیے، اْن کے آگے اپنا سر تسلیمِ خم کرنے کا حوصلہ کم ہی انسانوں کے اندر موجود ہوتا ہے۔
صابر مومنین کے بارے میں رسولِ خدا فرماتے ہیں،’’ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ جب میں کسی مومن بندے کی محبوب چیز اس دنیا سے اْٹھا لیتا ہوں پھر وہ ثواب کی نیت سے صبرکرے، تو اس کا بدلہ جنت ہی ہے۔‘‘ مومن کو اْس کے صبر و شکر کے صلے میں ملنے والی جزا کی بخوبی آگاہی ہوتی ہے، ساتھ ربِ کبریائی کے فیصلوں کے پیچھے چھپی اْس کی بہتری کا بہت نہ سہی تھوڑا تو اِدراک ہوتا ہی ہے۔
انسان طبیعت سے چونکہ بے صبرا ہے اس لیے وہ کم سے کم وقت میں آسمان کو چھو لینا چاہتا ہے۔ بِنا یہ سوچے سمجھے کہ کئی بار لمبی چھلانگ لگانے سے منہ کے بل زمین پرگرنے کے امکانات زیادہ ہو جاتے ہیں۔ ہر چمکتی ہوئی چیز سونا نہیں ہوتی ہے، ہم جس طرح کی زندگی کا اپنے لیے انتخاب کر رہے ہوتے ہیں وہ آگے جاکر کتنی بھیانک ہو سکتی ہے اْس کا علم صرف خالقِ حقیقی کو ہوتا ہے۔ وہ باعلم ذاتِ خداوندی اپنی تخلیق کو اْس کی نادانیوں کا خمیازہ بھگتنے کے لیے تنہا نہیں چھوڑتی بلکہ اْس کی راہِ زندگی میں اْسی کے بچھائے کانٹوں سے اْسے لہولہان ہونے سے بچاتی ہے اور بدلے میں صرف شْکرکا مطالبہ کرتی ہے۔
ہر وہ انسان جو اپنے عہد وکردار میں بے داغ ہوتا ہے، پھر خواہ وہ خدا کی عبادت کرے یا پرستش، اْس کی معبود سے یہی اْمید وابستہ رہتی ہے کہ ’’ وہ‘‘ اْس کے راہِ حق و سچ پر چلنے کے بدلے اْس کی ہر التجا کو بہترین انداز میں قبول فرمائے گا۔قدرت سے سودے بازی کو دنیا کے تمام مذاہب ہی گناہِ کبیرہ تصورکرتے ہیں۔
اس دنیا میں زندگی گزارنے کے حوالے سے اللہ سبحان و تعالیٰ کے بنائے اصول و قوانین اور حدود و ضوابط کا احترام کرنا اگر ایک سہل، خوشحال اور پْرسکون زندگی کا ضامن ہوتا تو انبیاء و رسولوں کو اپنی زندگیوں میں کسی قسم کی مشکلات کا سامنا ہی نہیں کرنا پڑتا۔ رب کی بارگاہ میں اْس کا جو بندہ جتنا نیک ہوتا ہے اْس کا اْتنا ہی کٹھن امتحان لیا جاتا ہے۔
سورۃ البقرہ میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں،’’ کیا تم خیال کرتے ہو کہ یونہی جنت میں داخل ہو جاؤ گے حالانکہ ابھی تمہیں اس قسم کے حالات پیش نہیں آئے جو تم سے پہلوں کو پیش آئے تھے، انھیں سختیاں اور تکالیف پہنچیں اور وہ اس حد تک جھنجھوڑے گئے کہ (وقت کا) رسول اور اس کے مومن ساتھی پکار اٹھے کہ آخر اللہ کی نصرت کب آئے گی؟ ( انھیں بشارت دے دی گئی کہ) دیکھو اللہ کی نصرت عنقریب آنے والی ہے۔‘‘
جب ہر سیاہ رات کے بعد جگمگاتی روشن صبح کا وعدہ خود آزمائش دینے والی ذات اپنے خلق سے کر رہی ہے تو پھر اْن کے وسوسوں اورگمان کی کوئی گنجائش ہی نہیں بچتی ہے۔اللہ تعالیٰ کے ہر فیصلے پر سر تسلیمِ خم کرنا اور اْس ذاتِ بابرکت پر توکل کرنے کا جذبہ انسان میں باآسانی پیدا نہیں ہوتا ہے، یہ کام ذرا مشکل ہے لیکن ناممکن بالکل نہیں ہے۔
یہ فطری امر ہے کہ کسی انسان نے جو خواب مدتوں اپنے آنکھوں میں سموئے ہوں وہ لمحے دو لمحے میں ٹوٹ کر کِرچی کِرچی ہوجائیں اور اْسے آگے سے کہا جائے جو ہونا تھا وہ ہوگیا ہے لٰہذا اب برداشت کرو، یقین جانیے ایسے موقعوں پر صبرکرنا، انگاروں پر چلنے کے مترادف ہے۔ صبر اور توکل من اللہ کسی کے کہنے یا سیکھنے سکھانے سے انسان کے وجود میں داخل ہو ہی نہیں سکتے ہیں، جب تک کہ اس میں خالقِ انسانی کی مرضی شامل نہ ہو، ربِ کریم ان دوکرشماتی احساسات کو محسوس کروانے کے لیے اپنے خاص بندوں کا انتخاب خود کرتے ہیں اور خوش قسمت ترین افراد ہی ان جذبوں کو اپنی زندگی کا مستقل جْز بنا پاتے ہیں۔
ہر قسم کی تکلیف و رنج سے نجات حاصل کرنے کے دو طریقے ہوتے ہیں، ایک آسان اور دوسرا کٹھن۔ آسان طریقہ یہ ہے کہ اپنی حالت کو سدھارنے کے لیے کچھ نہ کیا جائے اور تکلیف کو پالا جائے، آپ کے وجود کو جلد اْس اذیت کو سہنے کی عادت پڑ جائے گی اور آہستہ آہستہ اْس اذیت کی شدت کم سے کم ہوتے ہوتے ایک دن مکمل طور پر ختم ہو جائے گی۔
دوسرا طریقہ کٹھن ضرور ہے لیکن اْس میں جلد افاقہ شرطیہ ہے، اپنی زندگی میں آنے والی ہر آزمائش پر اْس کو لانے والی ذات سے سوال کیے جائیں، اپنا قصور دریافت کیا جائے، تکلیف کے اسباب معلوم کیے جائیں، سکون کے حصول کی فریاد کی جائے اور آخر میں خود کو ڈھیلا چھوڑ دیا جائے۔ بلامبالغہ وہ ذاتِ عظیم آپ کے ہر سوال کا جواب اس طرح دے گی کہ تمام ان دیکھی باتوں سے پردے ہٹ جائیں گے۔
انسان کے ہر کیوں، کیا اور کس لیے کی وضاحت اس طرح کی جائے گی کہ وہ اپنے رب کے ہر فیصلے پر عش عش کر اْٹھے گا اور ماضی میں جن خواہشات کے پورا نہ ہونے پر شکوہ بجا لا رہا تھا اْن پر تشکر کا پیکر بنتے نظر آئے گا۔ بیشک اللہ تعالیٰ کی ہر نہ میں ’’ اْس‘‘ کے بندوں کی خیر چھپی ہوتی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اپنی زندگی اللہ تعالی نے والی ہوتا ہے کے لیے
پڑھیں:
وقت گزر جاتا ہے
وقت کا مزاج بھی عجیب ہے۔ یہ کبھی نرم اور مہربان معلوم ہوتا ہے تو کبھی سخت اور بے رحم لگتا ہے۔ کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ زندگی خوشیوں سے بھر گئی ہے اور دنیا کے سارے رنگ ہماری جھولی میں ڈال دیے گئے ہیں تو کبھی یوں لگتا ہے جیسے ہر راستہ بند اور ہر امید دم توڑ چکی ہو۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ وقت کبھی ایک حال پر نہیں رہتا۔
جو لمحہ آج مسکراتا ہوا ہمارے ساتھ ہے، کل یہی لمحہ کسی اور کے حصے میں ہوگا اور جو دکھ، تکلیف اور آزمائش آج ہماری دہلیز پر دستک دے رہی ہے، کل وہ کسی اور کے دروازے پر جا کھڑی ہوگی۔ وقت کے قدم کبھی رکتے نہیں، نہ یہ کسی کے لیے ٹھہرتا ہے، نہ کسی کے کہنے پر اپنی رفتار بدلتا ہے۔
یہ اپنی مخصوص چال میں آگے بڑھتا رہتا ہے۔ خوشیوں کے لمحے ہوں یا دکھوں کی گھڑیاں، راحت ہو یا تکلیف، وقت سب کو بہا کر لے جاتا ہے، مگر انسان اکثر اس حقیقت کو بھول جاتا ہے۔ جب خوشی کا دور آتا ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ ہمیشہ قائم رہے گا اور جب آزمائشوں کا سامنا ہوتا ہے تو لگتا ہے جیسے یہ کبھی ختم نہیں ہوں گی۔
زندگی کا اصول یہی ہے کہ ہر رات کے بعد صبح طلوع ہوتی ہے، ہر خزاں کے بعد بہار آتی ہے اور ہر مشکل کے بعد آسانی مقدر بنتی ہے۔ خوشی اور غم، کامیابی اور ناکامی، عروج اور زوال، سبھی وقت کے دھارے میں بہتے رہتے ہیں۔ کسی بھی انسان کی زندگی میں وقت ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا، اگر ہم یہ حقیقت سمجھ لیں کہ ہر مشکل وقت کے بعد آسانی آتی ہے تو زندگی کے نشیب و فراز ہمیں زیادہ تکلیف نہیں دیں گے، بلکہ ان سے حوصلہ، استقامت اور ہمت ملے گی۔
زندگی میں کئی بار ہمیں لگتا ہے کہ سب کچھ ختم ہوگیا، لیکن کچھ عرصہ بعد وہی مسئلہ اتنا معمولی محسوس ہوتا ہے کہ حیرت ہوتی ہے کہ ہم اس پر اتنا پریشان کیوں تھے؟ مشکل وقت ہمیں صبر، استقامت، حوصلہ اور بردباری کا سبق دیتا ہے۔
دنیا کے تمام کامیاب لوگ اپنی مشکلات کے دور میں ہمت نہیں ہارتے۔ آپ نے زندگی میں ایسے کئی افراد دیکھے ہوں گے جو کبھی شدید مشکلات میں تھے، مگر وقت بدلا اور وہ کامیابی کی بلندیوں پر پہنچے۔ نیلسن منڈیلا نے 27 سال قید و بند میں گزارے، مگر وہی شخص جنوبی افریقہ کا صدر بنا۔
ابراہام لنکن کئی بار انتخابی ناکامیوں کا سامنا کرنے کے بعد امریکا کا صدر بنا۔ انھوں نے اپنی زندگی میں بے شمار مشکلات دیکھیں، لیکن وہ جانتے تھے کہ مشکل وقت گزر جائے گا۔ زندگی میں بعض اوقات انسان کو لگتا ہے کہ اب کوئی راستہ نہیں بچا اور ہر دروازہ بند محسوس ہوتا ہے، لیکن جب ایک دروازہ بند ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ کئی نئے دروازے کھول دیتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ انسان صبر کرے، ہمت نہ ہارے اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھے۔
جس طرح مشکل وقت ہمیشہ نہیں رہتا، اسی طرح خوشی کے لمحات بھی مستقل نہیں ہوتے، جو لوگ کامیابی کی بلندیوں پر پہنچ کر یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ یہ وقت کبھی نہیں بدلے گا، وہ دراصل بہت بڑی غلط فہمی میں ہوتے ہیں، اگر آج زندگی میں سب کچھ اچھا چل رہا ہے تو ہمیں گھمنڈ نہیں کرنا چاہیے، بلکہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔
بعض لوگ جب خوشحالی اور کامیابی حاصل کر لیتے ہیں تو وہ دوسروں کو کمتر سمجھنے لگتے ہیں، اپنی دولت اور شہرت پر فخر کرنے لگتے ہیں، مگر بھول جاتے ہیں کہ وقت بدلتے دیر نہیں لگتی۔ کتنے ہی لوگ تھے جو کل تک تخت پر تھے، آج وہ زمین پر بھی نظر نہیں آتے۔
ہماری تاریخ ایسے بادشاہوں، سیاستدانوں اور دولت مند افراد سے بھری پڑی ہے جنھوں نے اپنی طاقت اور دولت کو ہمیشہ قائم رہنے والا سمجھا، مگر جب وقت بدلا تو ان کا نام تک مٹ گیا۔ جب ہم خوشی اور کامیابی کے وقت میں ہوتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ ہم شکر گزار رہیں اور دوسروں کے ساتھ بھلائی کریں، اگر ہمیں یہ احساس ہو کہ یہ کامیابی اور خوشی بھی مستقل نہیں تو ہم غرور اور تکبر سے بچ سکتے ہیں۔
تاریخ میں بڑے بڑے بادشاہ، حکمران اور مالدار لوگ آئے، مگر وقت نے سب کچھ بدل دیا۔ آج ان کے نام صرف کتابوں میں ملتے ہیں، ان کا جاہ و جلال سب مٹی میں دفن ہوگیا، جو شخص دولت اور طاقت کے نشے میں مبتلا ہو کر دوسروں کو کمتر سمجھنے لگتا ہے، وہ بھول جاتا ہے کہ وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا۔ .
زندگی میں سب سے بڑی دانائی یہی ہے کہ ہم نہ تو خوشی میں خود کو ناقابلِ شکست سمجھیں اور نہ غم میں خود کو برباد محسوس کریں۔ ہر حال میں اعتدال اور توازن رکھنا سب سے بڑی کامیابی ہے، اگر ہم کسی مشکل میں ہیں تو ہمیں یہ سوچ کر حوصلہ رکھنا چاہیے کہ یہ وقت بھی ہمیشہ نہیں رہے گا۔ اسی طرح اگر ہم کسی کامیابی پر ہیں تو ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ یہ کامیابی بھی ہمیشہ نہیں اور ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔
انسان کو وقتی جذبات میں بہہ کر فیصلے نہیں کرنے چاہیے۔ زندگی کے نشیب و فراز میں سب سے زیادہ نقصان وہ لوگ اٹھاتے ہیں جو وقتی جذبات میں بہہ کر غلط فیصلے کر لیتے ہیں۔ کئی لوگ غصے، مایوسی یا بے بسی میں ایسے اقدامات کر بیٹھتے ہیں جو ان کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں، اگر وہ یہ سوچ لیں کہ یہ وقت بھی گزر جائے گا تو وہ کبھی بھی وقتی جذبات میں غلط فیصلے نہیں کریں گے۔
اگر ہم زندگی کو ایک سفر سمجھیں تو ہمیں وقت کی حقیقت کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔ کوئی بھی مسافر ہمیشہ ایک ہی جگہ نہیں رکتا، وہ چلتا رہتا ہے، کبھی دھوپ میں، کبھی چھاؤں میں، کبھی اونچائی پر، کبھی نشیب میں۔ یہی زندگی کا قانون ہے، اگر آج کوئی مشکل میں ہے تو وہ ہمیشہ نہیں رہے گی، اگر آج کوئی خوش ہے تو وہ ہمیشہ اسی حال میں نہیں رہے گا۔
بس ہمیں چاہیے کہ ہم ہر حال میں اللہ پر بھروسا رکھیں، محنت کرتے رہیں اور صبر و شکر کے ساتھ زندگی گزاریں۔ مایوسی دراصل انسان کے حوصلے کو ختم کردیتی ہے، جب کہ امید اس کی ہمت کو زندہ رکھتی ہے۔ جو لوگ مشکلات میں بھی امید کا دامن تھامے رکھتے ہیں، وہی اصل میں کامیاب ہوتے ہیں۔
درخت خزاں میں بے برگ و بار ہو جاتے ہیں، لگتا ہے جیسے وہ مرچکے ہیں، مگر بہار آتے ہی وہی درخت پھر سے ہرے بھرے ہو جاتے ہیں۔ بالکل اسی طرح، زندگی میں بھی کبھی خزاں آتی ہے، کبھی بہار۔ اگر آج وقت سخت ہے تو کل یقیناً بہتر ہوگا۔
کبھی سوچیں، وہ مشکل وقت جس نے آپ کو رلایا تھا، جس نے آپ کو بے چین کیا تھا، وہ بھی گزر گیا اور وہ خوشی کے لمحات جنھیں آپ نے ہمیشہ کے لیے سنبھالنا چاہا تھا، وہ بھی گزرگئے، یہی وقت کی فطرت ہے۔ اس لیے نہ غم میں مایوس ہوں، نہ خوشی میں مغرور۔ بس اللہ پر یقین رکھیں، اپنا کام کرتے رہیں اور صبر و شکر کے ساتھ زندگی گزاریں، کیونکہ یہ وقت بھی گزر جائے گا۔