Express News:
2025-04-15@08:00:23 GMT

ریڈ کیفے کا مہدی

اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT

 جنرل ایوب نے جب اپنے جبر کے بل بوتے پر کراچی کی طلبہ تحریک کے اہم مورچے ناظم آباد کے ’’کیفے الحسن‘‘کی طلبہ سیاست کو ختم کرنے کی کوشش کی تو ترقی پسند سوچ کے طلبہ نے صدر کے ’’کیفے جہان‘‘اور ناظم آباد کے ’’کیفے لارڈ‘‘ کو اپنی سیاسی سرگرمیوں کا ٹھکانہ بنالیا، جب طلبہ کی سرگرمیوں کو تمام تر ریاستی جبر کے باوجود نہ روکا جا سکا تو کیفے لارڈز کو ’’ریڈ کیفے‘‘ کے نام سے دوبارہ ترقی پسند دوستوں کی بیٹھک کے نام سے زندہ کیا گیا۔ریڈ کیفے کی رونقوں کی آبیاری میں ترقی پسند ادب اور اس کے تحریکی عمل میں پیش پیش اصغر مہدی نظمی ہی رہے۔

ہر جمعرات کو طے تھا کہ مہدی نظمی جھمپیر ڈملوٹی سے کراچی آئیں گے اور مجھ سمیت آرٹسٹ لیاقت حسین کی ذمے داری تھی کہ ہم دوستوں کی آمد کو یقینی بنائیں گے،جس میں ذکی عثمانی، ڈاکٹر مظہر حیدر، حسن عابد، محمد علی صدیقی،رضی مجتبیٰ، عزیز حامد مدنی، قمر جمیل، احمد ہمیش و دیگر دوست گاہے گاہے ریڈ کیفے کی سرگرمیوں کو آباد رکھیں گے، اس ذمے داری سے وہ کبھی غافل نہ رہے ، اس سب کے باوجود مجال جو مہدی نظمی نے اپنے وقت اور کراچی آمد پر کوئی سمجھوتا کیا ہو، مہدی نظمی کی سرکردگی میں ریڈ کیفے پر شام کو سجنے والی یہ محفل رات گئے تک جاری رہتی اور یوں سب اپنی پھٹپھٹیا پر گھر کو سدھارتے۔

 جہاں ریڈ کیفے کی اس محفل میں ادبی محاسن پر گفتگو رہتی، وہیں سیاست میں در آنے والی تنگ نظری اور لسانیت پر کراچی کے سیاسی و تہذیبی ماحول کو برباد کرنے پر بھی کف افسوس ہوا کرتا تھا، اس محفل میں جلد جدا ہو جانے والے افسانہ نگار قمر عباس ندیم کی ادبی اور طلبہ سیاست اہم موضوع ہوا کرتی، مہدی نظمی کی استقامت نے ہمیشہ دوستوں کے حوصلوں کو جلا بخشی اور باہمت کیا، سفر کی تکان کے باوجود مہدی نظمی کی خوش دلی اور تازگی کبھی نہ مرجھائی نہ کبھی رات واپسی کے خوف نے مہدی نظمی کے پائے استقامت میں لغزش آنے دی اور ہر جمعرات کی یہ ادبی و سیاسی بیٹھک برسہا برس جاری رہی۔
 یہ وہ زمانہ تھا جب مہدی نظمی اپنے کنبے کے ساتھ بفرزون میں رہا کرتے تھے اور اپنے بڑے بیٹے وقار مہدی کے سیاسی طور سے متحرک ہونے پر نہ صرف مطمئن بلکہ فاخر بھی ہوتے تھے انھیں اطمینان تھا کہ کم از کم ان کا وقار سیاسی طور سے جمہوریت پسند اور ایک باشعور سیاسی طالبعلم تھا ، مہدی نظمی نوجوان نسل اور خاص طور پر طلبہ کی تعلیم میں تشدد پسند ماحول پر ہمیشہ دل گرفتہ رہتے تھے تو دوسری جانب وہ وقار مہدی کی سیاسی و جمہوری فکر پر کسی حد تک مطمئن بھی تھے یہی وجہ رہی کہ مہدی نظمی کی عوام دوست اور مزدور دوست سوچ کے زیر اثر وقار نے ٹریڈ یونین سیاست میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا اور تمام طبقات سے رابطے میں رہنے کے علاوہ مختلف طبقہ ہائے فکر کے جمہوریت پسند دوستوں کے ساتھ رابطوں میں رہنے کو ترجیح دی۔

مجھے کبھی کبھی وقار مہدی کی خاموش طبع طبیعت میں مہدی نظمی جھلکتے دکھائی دیتے ہیں، مہدی نظمی نے ہمیشہ اپنی شاعری میں سماج کے المیوں اور انسانی آزادی کے ترقی پسند نظریے کا واضح اظہار کیا اور ہمیشہ آمرانہ ذہن کے سامنے شمشیر ننگ بنے رہے، مہدی نظمی کے مزاج اور خاموش طبعی کو یوں بیان کرنا زیادہ بہتر ہے کہ ’’جب مہدی نظمی کے مقابل کوئی پوری طرح کھلتا نہیں تھا وہ اس شخص سے گفتگو نہیں کرتے تھے بلکہ اگر محفل میں کسی نے درست اردو کی ادائیگی نہ کی تو سمجھئے کہ مہدی نظمی اس سے گفتگو نہیں کریں گے۔

 اپنی سوچ اور مزاج میں کھرے ہونے کی بنا پر ہم تین یعنی لیاقت حسین، مہدی نظمی اور میں ہر صورت ہر جمعرات ملتے اور ایک دوسرے سے ہر طرح کی گفتگو کرتے تھے،مہدی نظمی کی یاد میں اس کالم کے لکھنے کی بنیادی وجہ مہدی نظمی کی سخن ور روح کا ان کے پوتے سجاد مہدی میں حلول کر جانا ہے ،یعنی مہدی کا پورا کنبہ تہذیب و شائستگی کا نشان بنا ہوا ہے۔
 یہ جان کر میری خوشی دو چند ہو گئی کہ مہدی نظمی کے کلام اور نگارشات کا وارث سجاد کی سی صورت گھر ہی میں موجود ہے اور دادا کے تمام کلام کی کلیات مرتب کرنے کی تگ و دو میں جتا ہوا ہے، اب آپ بتائیے کہ ایسا پوتا دادی کا نازنین اور جنم دینے والی ماں کا جاں نثار ہی تو ہوگا اور کچھ بعید نہیں کہ تہذیب کے نشان کے طور سجاد باپ سمیت سب کا وقار بھی ہو.


چلتے چلتے یاد آیا کہ مہدی نظمی آمر ضیا کے شدید ناقد اور ضیا کی تنگ نظر مذہبی اور شدت پسند لسانی تقسیم کے ساتھ طلبہ سیاست پر پابندی کے شدید مخالف تھے،مہدی نظمی کا نکتہ نظر تھا کہ طلبہ سیاست ہی سماج میں درگزر، تہذیب و شائستگی کا ذریعہ ہوا کرتی ہے اور طلبہ سیاست پر پابندی دراصل سماج کی سیاسی اور سماجی پیش رفت کو روکنا ہے جس کے نتیجے میں سماج بانجھ ہو جاتا ہے اور طلبہ یونین پر پابندی کے بعد یہ ہوا کہ آج تک سماج کی قدریں بے چین روح کی طرح بھٹک رہی ہیں۔

سینیٹر مسرور احسن کی طرح وقار مہدی کو بھی طلبہ سیاست کی بحالی کے لیے سینیٹ میں بھرپور آواز اٹھانی ہوگی اور سندھ حکومت کو سمجھانا ہوگا کہ وہ جامعات کے تعلیمی نظام میں نوکر شاہی کے نمائندوں کی سرکاری تعیناتی سے باز رہے تاکہ آمرانہ نظام کی باقیات کا نکالا ہمیشہ کے لیے کیا جا سکے کہ یہی مہدی نظمی کی سوچ کی کامیابی ہوگی اور یہی کوشش ایک بہتر سیاسی سماج کی بنیاد فراہم کرنے کا باوقار انداز ہو گا۔
 

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

حکومت سندھ کی بے حسی؛ گریس مارکس کا نوٹیفکیشن تاخیر کا شکار، طلبہ کا مستقبل داؤ

کراچی:

سندھ حکومت کی روایتی سست روی اور غیر سنجیدگی نے کراچی کے ہزاروں طلبہ کے تعلیمی مستقبل کو داؤ پر لگا دیا ہے پورے سندھ کی طرح کراچی میں بھی انٹر سال اول و دوئم کے سالانہ امتحانات طے شدہ فیصلے کے تحت 28 اپریل سے شروع ہونے ہیں اور اس پہلے مرحلے کے امتحانات میں 1 لاکھ کے قریب طلبہ صرف انٹر بورڈ کراچی کے تحت امتحانات دیں گے امتحانات میں اب صرف 13 روز باقی ہیں لیکن چیئرمین بورڈ نہ ہونے سے امتحانی شیڈول اور مراکز کی تفصیلات جاری ہوسکی ہیں اور نا ہی اراکین اسمبلی کی سفارشات پر انٹر سال اول کے طلبہ کو گریس مارکس دیے گئے ہیں۔

انٹر سال دوئم پری انجینئرنگ اور پری میڈیکل کے پرچوں میں شرکت کے خواہشمند تقریبا 50 ہزار طلبہ یہ بات ہی نہیں جانتے کہ انھیں اپنے فیل شدہ انٹر سال اول کے پرچے بھی دوبارہ دینے ہیں یا پھر سندھ اسمبلی کی جانب سے بنائی گئی کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں انھیں انٹر سال اول میں گریس مارکس دے کر پاس کردیا جائے گا۔

وزیر تعلیم سندھ سید سردار شاہ کی کنوینر شپ میں مختلف سیاسی جماعتوں کے اراکین اسمبلی پر مشتمل کمیٹی کراچی کے انٹر سال اول پری انجینئرنگ اور پری میڈیکل کے نتائج کا جائزہ لیتے ہوئے فزکس، کیمسٹری اور ریاضی کے پرچوں میں طلبہ کو 20 فیصد تک گریس مارکس دینے کی سفارش کر چکی ہے۔

 یہ سفارش این ای ڈی یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر سروش لودھی کی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی تجویز پر کی گئی تھی اور اس حوالے سے 25 مارچ کو سندھ اسمبلی میں منعقدہ اجلاس کے بعد ایک پریس کانفرنس کے ذریعے اراکین اسمبلی نے اس بات سے آگاہ کیا تھا کہ طلبہ کو یہ گریس مارکس دیے جارہے ہیں اور محکمہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈز اس سلسلے میں سمری بنا کر وزیر اعلیٰ سندھ سے منظوری کے بعد اس فیصلے کو نوٹیفائی کردے گا۔تاہم اب کم از کم 20 روز گزرنے کےبعد بھی معاملہ جوں کا توں ہے اور محکمہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈز تاحال اس فیصلے کا نوٹیفکیشن جاری نہیں کرسکا۔

"ایکسپریس" نے اس سلسلے میں سیکریٹری محکمہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈز عباس بلوچ سے رابطہ کیا، تاہم ان کی جانب سے جواب موصول نہیں ہوا۔

ادھر صورتحال یہ ہے کہ اب اگر اس فیصلے کا نوٹیفکیشن جاری ہوتا ہے تو انٹر بورڈ کراچی کو انٹر سال اول کے نتائج تبدیل کرنے اور طلبہ کو گریس مارکس دینے میں ایک بڑی مشق سے گزرنا ہوگا نتائج کی ٹیبولیشن دوبارہ ہوگی ایک بار پھر مارک شیٹس پرنٹ ہوں گی اور طلبہ کو جاری کی جائیں گی جس کے لیے کم از کم 1 ماہ کا وقت درکار ہے جبکہ 28 اپریل سے انٹر سال دوئم کا امتحان دینے والے طلبہ اپنے امتحانی فارم پر انٹر سال اول کے فیل شدہ پرچوں کی تفصیلات درج کرچکے ہیں۔

مزید براں گزشتہ تقریبا دو ہفتے سے انٹر بورڈ کراچی میں کوئی چیئرمین موجود نہیں ہے حکومت سندھ قائم مقام چیئرمین پروفیسر شرف علی شاہ کو سبکدوش کر چکی ہے جس کے بعد نئے چیئرمین کی تقرری کی گئی تھی انھوں نے چارج نہیں سنبھالا، اب حکومت سندھ متوقع امیدوار ریجنل ڈائریکٹر کالجز کراچی فقیر لاکھو کو چارج دینے میں تذبذب کا شکار ہے۔

 امتحانات میں 13 روز باقی ہیں لیکن چیئرمین بورڈ نہ ہونے سے اب تک امتحانی شیڈول کا اجراء ہوسکا ہے اور نہ ہی سینٹر لسٹ جاری کی گئی ہے کیونکہ ان دونوں اہم فیصلوں کی منظوری چیئرمین بورڈ کی جانب سے دی جاتی ہے اور امتحانات سے 13 روز قبل بھی کراچی کے طلبہ یہ نہیں جانتے کہ ان کا امتحانی سینٹر کہاں بنایا گیا ہے اور 28 اپریل اور ازاں بعد انھیں کس مضمون کا پرچہ کس تاریخ کو دینا ہے۔

"ایکسپریس" نے قائم مقام ناظم امتحانات زرینہ چوہدری سے بھی اس سلسلے میں بات کی جس پر ان کا کہنا تھا کہ ہمارا ہوم ورک تو مکمل ہے لیکن چیئرمین بورڈ ہمارا انتظامی سربراہ ہوتا ہے اس کی منظوری کے بغیر امتحانات کا شیڈول جاری کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی سینٹر کی تفصیلات طلبہ کو بتائی جا سکتی ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • نہریں نہیں بننے دینگے ہمارا کیس مضبوط، کوئی مسترد نہیں کر سکتا: مراد شاہ 
  • پیپلز پارٹی اور نون لیگ حکومت کا حصہ، وہی فیصلہ کرتے ہیں جو ملکی مفاد میں ہو، احسن اقبال
  • حکومت سندھ کی بے حسی؛ گریس مارکس کا نوٹیفکیشن تاخیر کا شکار، طلبہ کا مستقبل داؤ
  • اترپردیش میں مسلم لڑکی کا برقعہ زبردستی اتارا گیا، 6 ہندو انتہا پسند گرفتار
  • نواز شریف سیاست سے نکلے کب تھے؟ وہ پوری طرح متحرک ہیں، اسحاق ڈار
  • سرینگر میں رکن پارلیمنٹ آغا سید روح اللہ مہدی کی اہم پریس کانفرنس
  • نواز شریف سیاست میں بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں، اسحاق ڈار
  • فلسطین اور اسرائیل کے معاملے میں ڈپلومیسی ناکام ہوگئی ہے؛ماہر بین الاقوامی امور محمد مہدی
  • کرک میں پی ٹی آئی یوتھ کنونشن بد نظمی کا شکار، کارکنوں کا اپنی ہی حکومت کے خلاف احتجاج
  • سینئر ترین سیاستدان چودھری شجاعت حسین کا سیاست میں اپنا مقام ہے؛ محسن نقوی