Express News:
2025-01-27@04:48:12 GMT

دریائے سندھ: ترقی یا تباہی؟ فیصلہ ہمارا

اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT

دریائے سندھ ہماری زمین کا وہ جیتا جاگتا حصہ ہے جو ہزاروں برس سے زندگی کو اپنے سینے سے لگا رہا ہے۔ یہ صرف پانی کا بہاؤ نہیں بلکہ ایک مکمل تہذیب ہے جو ماضی کی گہرائیوں سے لے کر آج تک ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ ہے۔ ہم اسے سندھ کی شریان کہتے ہیں کیونکہ اس کے بغیر اس سرزمین کا وجود ہی ممکن نہیں۔ یہ دریا ہمیں زراعت، روزگار، رہن سہن اور تہذیبی ورثے کی گہری بنیاد فراہم کرتا ہے، لیکن افسوس، آج ہم خود اپنے اس دریا کی اہمیت کو فراموش کرتے جا رہے ہیں۔

دریائے سندھ کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ یہ دریا ہماری تہذیب کی جڑوں میں بسا ہوا ہے۔ 5,000 سال پہلے، انڈس ویلی سویلائزیشن کا مرکز بھی اس دریا کے کنارے پر تھا۔ موہنجو داڑو اور ہڑپہ جیسے تاریخی شہر دریائے سندھ کے پانیوں کے قریب آباد تھے۔

 ان کے درمیان تجارت، زراعت اور فنون کا ایک مضبوط رشتہ تھا، اور یہ سب کچھ دریائے سندھ کی فیاضی سے ممکن تھا۔ اس دریا کا پانی سندھ کی زمینوں کو سیراب کرتا تھا اور یہاں کی معاشرت کو خوشحال بناتا تھا۔ آج بھی، یہ دریا سندھ کے کسانوں کی زندگی کا حصہ ہے، جن کی فصلیں اس کے پانی سے سیراب ہوتی ہیں۔

آج کل حکومت کے کچھ منصوبے اس دریا کے وجود کے لیے خطرہ بنتے جا رہے ہیں۔ ان منصوبوں میں چھ نئی نہریں بنانے کی بات ہو رہی ہے جوکارپوریٹ فارمنگ کے لیے استعمال کی جائیں گی۔ یہ نہریں نکالنے کا مطلب ہے دریائے سندھ کے پانی کو مخصوص علاقوں کی طرف موڑ دینا اور وہاں کی زمینوں کو زرخیزکرنا۔ بظاہر یہ منصوبہ اچھا لگتا ہے، لیکن اس کے پیچھے چھپی حقیقت انتہائی خوفناک ہے۔

پہلا سوال یہ ہے کہ کیا یہ منصوبے مقامی لوگوں کی مرضی سے بن رہے ہیں؟ ظاہر ہے، ایسا نہیں ہے۔ سندھ کے لوگ ہمیشہ سے اپنے دریا سے جڑے رہے ہیں۔ یہ ان کی زمین، ان کی زندگی اور ان کی تہذیب کا حصہ ہے، اگرکسی بھی ترقیاتی منصوبے میں ان کی رائے شامل نہ ہو، تو اسے ترقی کا نام دینا کہاں کی عقل مندی ہے؟ سندھ کے لوگ کئی دہائیوں سے ان نہروں کے اثرات کا سامنا کر رہے ہیں۔ انھیں اس بات کا بخوبی علم ہے کہ یہ نہریں کس طرح زمینوں کو بنجر اور قدرتی وسائل کو ضایع کرتی ہیں۔

دوسری بات یہ کہ ایک زمین کو بنجر کر کے دوسری زمین کو زرخیز بنانا کوئی سمجھداری نہیں۔ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے ایک ہاتھ کاٹ کر دوسرے کو مضبوط کرنے کی کوشش کی جائے۔ دریائے سندھ کا پانی پورے سندھ کے لیے ایک جیسی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ پانی نہ صرف زمینوں کو زرخیز بناتا ہے بلکہ اس کے کنارے رہنے والے لاکھوں لوگوں کی زندگی کا سہارا ہے۔

اگر اس پانی کو مخصوص نہروں کے ذریعے کہیں اور موڑ دیا جائے تو کیا ان لوگوں کی زندگیوں کا کوئی حساب کتاب ہوگا؟ اس سوال کا جواب نہ صرف سندھ کے کسانوں بلکہ پورے پاکستان کے شہریوں کو دینا ہوگا۔

حکومت کے اس منصوبے پر ابھی عملدرآمد نہیں ہوا، لیکن یہ حقیقت ہے کہ اگر یہ منصوبے حقیقت بن گئے تو اس کے نتائج خطرناک ہوں گے۔ دریائے سندھ پہلے ہی پانی کی کمی کا شکار ہے۔ ہندوستان کی جانب سے دریاؤں پر بند باندھنے کے بعد پاکستان کو ملنے والا پانی پہلے ہی کم ہوچکا ہے۔ ایسے میں مزید نہریں نکالنے کا مطلب ہوگا کہ سندھ کی زمینیں مزید بنجر ہو جائیں گی اور پانی کے لیے ترسنے لگیں گی۔

پانی کی کمی کا اثر نہ صرف زراعت پر بلکہ ماحولیاتی نظام پر بھی ہوگا۔ سندھ کے لوگ، جو پہلے ہی پانی کی قلت سے نبرد آزما ہیں، مزید مسائل کا شکار ہونگے اور اگر یہ منصوبہ آگے بڑھتا ہے تو قدرتی وسائل کا استحصال اور مقامی لوگوں کا استحصال دونوں ایک ساتھ ہونگے۔

یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دریا صرف پانی کی روانی کا نام نہیں، بلکہ یہ زمین کی زندگی ہے۔ جب دریا کو نقصان پہنچتا ہے تو پورا علاقہ اس کے اثرات جھیلتا ہے۔ جنگلی حیات، ماحول، زمین اور لوگوں کی روزمرہ زندگی سب کچھ متاثر ہوتی ہے۔ یہاں ایک بات ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ دریا قدرت کا وہ تحفہ ہے جو ہمیں زندگی فراہم کرتا ہے اور ہم اسے خود تباہ کرنے جا رہے ہیں۔

سندھ کے لوگ اس وقت اپنی تہذیب اور وسائل کو بچانے کے لیے آواز اٹھا رہے ہیں۔ ان کا مطالبہ یہ ہے کہ انھیں اس فیصلے میں شامل کیا جائے، کیونکہ یہ ان کی زمین، ان کی روزی روٹی اور ان کی زندگی کا مسئلہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ’’ ایک زمین کو بنجر کر کے دوسری زمین کو زرخیز کرنا کوئی عقل مندی نہیں ہے۔‘‘

بین الاقوامی سطح پر بھی دریائی وسائل کے تحفظ کے حوالے سے کئی مثالیں موجود ہیں۔ جیسے نیل اور گنگا کے درمیان معاہدے، جنھیں بین الاقوامی سطح پر متوازن پانی کے استعمال کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ یہی نظریہ ہمیں بھی اپنانا چاہیے کہ دریاؤں کے پانی کا استعمال کسی بھی علاقے کی اجتماعی بھلائی کے  لیے ہونا چاہیے۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ عوام کی آواز سنے اور ان منصوبوں پر عملدرآمد سے پہلے عوامی مشاورت کو یقینی بنائے،کیونکہ کسی بھی علاقے میں ترقیاتی منصوبے وہاں کے لوگوں کی مرضی کے بغیر نہ توکامیاب ہو سکتے ہیں اور نہ ہی دیرپا۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ قدرتی وسائل کی حفاظت ہی اصل ترقی ہے۔

دریائے سندھ ہمیں پکار رہا ہے۔ اس کی خاموش آوازکو سننے کی ضرورت ہے۔ یہ دریا ہم سب کا ہے اور اس کی حفاظت ہم سب پر فرض ہے۔ آئیں، اس کی حفاظت کے لیے ایک مضبوط قدم اٹھائیں، تاکہ یہ دریا آنے والی نسلوں کے لیے بھی اسی طرح زندگی کا ذریعہ بنا رہے جیسا کہ یہ صدیوں سے ہے۔

یہ وقت ہے کہ ہم اپنی سوچ کو بدلیں۔ ترقی کے نام پر قدرتی وسائل کی بربادی کا سلسلہ اب رکنا چاہیے۔ اگر ہم نے آج اپنے دریاؤں کو نہ بچایا تو کل ہماری نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔ آج سندھ کے لوگ اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھا رہے ہیں۔  یہ صرف ان کی نہیں، بلکہ ہم سب کی ذمے داری ہے کہ ہم ان کے ساتھ کھڑے ہوں اور قدرتی وسائل کا تحفظ کریں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: دریائے سندھ قدرتی وسائل سندھ کے لوگ زمینوں کو ا رہے ہیں زندگی کا کی زندگی لوگوں کی کے لیے ا کے پانی سندھ کی یہ دریا اس دریا پانی کی زمین کو کی زمین حصہ ہے

پڑھیں:

سندھ کے پانی پر کوئی سمجھوتا نہیں کرینگے،میئر سکھر

سکھر (نمائندہ جسارت ) ترجمان سندھ حکومت و میئر سکھر بیرسٹر ارسلان اسلام شیخ نے کہا ہے کہ سندھ کے پانی کے ایک قطرے پر سمجھوتا نہیں کریں گے، وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے مشترکہ مفادات کونسل میں اس معاملے کو اٹھایا ہے، اگر مشترکہ مفادات کونسل سے ہمارا معاملہ حل نہیں ہوا تو آئینی عدالت سے لیکر عوامی عدالت تک پاکستان پیپلز پارٹی کے دروازے کھلے ہیں۔ یہ بات انہوں نے آج ہفتے کے روز نارا کینال کی لائننگ اور پچنگ کے کام کا معائنہ کرنے کے بعد اسی مقام پر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ اس موقع پر ڈپٹی کمشنر سکھر ڈاکٹر ایم بی راجا دھاریجو ، ڈائریکٹر نارا کینال اشفاق نوح میمن بھی موجود تہے۔ انہوں نے کہا کہ صدر آصف زرداری اور چیئرمین بلاول کے ویژن کے مطابق نارا کینال کی 2 کلومیٹر پچنگ اور لائٹنگ کا کام جاری ہے ، جوکہ ریکارڈ مدت میں مکمل کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس منصوبے پر 2 ارب 80 لاکھ روپے کی لاگت کا تخمینہ لگایا گیا ہے ، منصوبہ مکمل ہونے کے بعد نارا کینال کی گنجائش 13649 کیوسک سے بڑھا کر 18000 کیوسک تک پہنچایا جائے گا۔ جس سے سندھ کے 8 سے 9 اضلاع کو فائدہ ہوگا اور زراعت ترقی کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ اس منصوبے کو ریکارڈ مدت میں فروری کے پہلے ہفتے میں مکمل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ، اس منصوبہ پر 7 جنوری 2025ء کو کام کا آغاز کیا گیا تھا۔21 دن کے اندر 95 فی صد کام مکمل ہوچکا ہے، ان شاء اللہ فروری کے پہلے ہفتے میں کام مکمل کر کے کینال کو کھول دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس منصوبے سے خیرپور ، نوشہرو فیروز ، نواب شاہ ، میرپور خاص ، سانگھڑ ، عمر کوٹ سمیت دیگر اضلاع کے کسان مستفید ہوںگے۔ اس سے پچڑی (ٹیل) کے آبادگاروں کو فائدہ ہوگا۔ جس کا کریڈٹ صدر آصف زرداری ، چیئرمین بلاول ، فریال تالپور اور وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کو جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان شاء اللہ مستقبل میں 364 کلومیٹر طویل نارا کینال کی لائننگ اور پچنگ کو مکمل کیا جائے گا۔ ترجمان سندھ حکومت و میئر سکھر بیرسٹر ارسلان اسلام شیخ نے کہا کہ ان لوگوں کے لیے بھی پیغام ہے کہ جو سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا کر رہے ہیں ، دھرنوں کی بات کر رہے ہیں اور عورتوں اور نوجوانوں کو اکساکر ایک پیغام دے رہے ہیں کہ شاید سندھ حکومت دریائے سندھ کے پانی پر کسی قسم کا سمجھوتا کرنے کو تیار ہے۔ ان کیلیے پیغام ہے کہ وہ نارا کینال کا دورہ کریں اور دیکھیں کہ سندھ کے پانی کے ایک ایک قطرے کی حفاظت کے لیے 8 ہزار سے زائد مزدور دن رات کام کر رہے ہیں۔ 800 سے زائد ہیوی مشینری کام کر رہی ہے تاکہ پانی کے ایک ایک قطرہ بچاسکیں۔

متعلقہ مضامین

  • سندھ کے پانی پر کوئی سمجھوتا نہیں کرینگے،میئر سکھر
  • میرپورخاص: جماعت اسلامی کے وفد کی مختلف رہنمائوں کو پانی کانفرنس میں شرکت کی دعوت
  • سندھ یونیورسٹی میں پانی کی قلت ‘گورنر نے نوٹس لے لیا
  • سندھو دریا پر ناجائزقبضہ برداشت نہیں کرینگے،حافظ طاہر مجید
  • دریائے سندھ پر متنازع نہریں نکالی جارہی ہیں، شاہ محمد شاہ کا وزیر اعظم کو خط
  • دریائے سندھ پر متنازع نہریں نکالی جارہی ہیں، شاہ محمد شاہ کا شہباز شریف کے نام خط
  • دریائے سندھ پر متنازع نہریں نکالی جا رہی ہیں، وزیراعظم شہباز شریف کے نام خط
  • سندھ میں شہداد ایکس ون سے گیس کی پیداوار میں نمایاں اضافہ
  • پیپلزپارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی نے دریائے سندھ میں نئی نہریں بنانے کی مخالفت کردی