ٹرمپ اور پاکستانی… کیوں ہے کھینچاتانی؟
اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT
انسان ہو یا قوم، اپنی ترجیحات سے مسقبل کا تعین کرتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخابات جیتنے کے بعد پاکستانی میڈیا اور سیاست پر پاک امریکا اسٹریٹجک تعلقات میں ممکنہ نشیب وفراز اور امکانات کا ذکر تو خال خال ہی رہا تاہم سیاسی میدان میں خوب رونق لگی رہی۔ امریکا میں پی ٹی آئی کے بہی خواہوں نے اس دوران کئی ارکان کانگریس سے بانی پی ٹی آئی کے حق میں اور پاکستان کی سیاسی صورتحال پر تشویش کے بیانات دلوا کر سیاسی بحث و تمحیص پر غلبہ قائم رکھا۔ دوسری طرف حکومت دفاعی پوزیشن پر نظر آئی۔
پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا نے یہ تاثر بہت کامیابی سے قائم کر کیا کہ ادھر ڈونلڈ ٹرمپ نے حلف اٹھایا اور ادھر انھوں نے اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے بانی پی ٹی آئی کے لیے اڈیالہ جیل کے دروازے کھلوانے میں لمحہ بھر تاخیر نہیں کرنی۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی بطور صدر حلف برداری کے فوراً بعد امریکا میں پی ٹی آئی کے ارکان نے کیپیٹل ہل میں چند ارکان کانگریس سے پی ٹی آئی کے حق میں بیانات دلوا کر کامیاب لابنگ کو جاری رکھا۔ دوسری طرف پاکستان کی نمائندگی کے لیے، واشنگٹن آئے وزیر داخلہ محسن نقوی نے بھی دو تین ارکان کے ساتھ ناشتہ کیا اور تصاویر بھی پوسٹ کیں۔
پاک امریکا تعلقات کے ضمن میں مین اسٹریم اور سوشل میڈیا پر حسب معمول مقابلہ پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے تناظر ہی میں برپا رہا۔ یہ پس منظر واضح کرنے کا مقصد یہ ہے کہ دنیا بھر میں ڈونلڈ ٹرمپ کے دوسرے دور صدارت کے حوالے سے ممالک اپنی اپنی ترجیحات کو نئے سرے سے ترتیب دینے اور صدر ٹرمپ کے ممکنہ پالیسی فیصلوں کے اثرات پر غور و فکر اور تیاری میں مصروف ہیں جب کہ ہمارے ہاں یہ بحث زیادہ تر پی ٹی آئی اور حکومت کی سیاسی کھینچاتانی تک ہی مرکوز رہی ہے۔
گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں ایک سیمینار میں سابق پاکستانی سفارتکاروں نے پاک امریکا تعلقات کے حوالے سے کئی خدشات کا اظہار کیا۔ انھیں اندیشہ ہے کہ ٹرمپ کے دوسرے دور صدارت کے دوران پاکستان اور امریکا کے درمیان تعاون محدود رہے گا۔
امریکا کی خارجہ پالیسی میں چائنہ اور انڈیا کا کردار بہت اہم ہے۔ امریکا اور چین کے درمیان ٹریڈوار کے علاوہ جیواسٹریٹجک اور جیو پولیٹیکل معاملات اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ امریکا بھارت کو چین کے اثر و نفوذ کے ’’توڑ‘‘ کے طور پر دیکھتا ہے۔ امریکا پاکستان کو بہت حد تک چین کے ساتھ امریکی تعلقات کی عینک سے دیکھتا ہے جو پاکستان کے دوطرفہ تعلقات کے لیے نیک شگون نہیں ہے۔
انڈو پیسفک خطے میں برتری قائم رکھنے کے لیے امریکا نے کواڈ (QUAD) نامی اتحاد میں بھارت کو شامل کیا ہے۔ خطے میں امریکا کے مفادات اور اسٹریٹجک دلچسپی کو بھارت نے چالاکی سے استعمال کرتے ہوئے نہ صرف جدید ترین ملٹری ہتھیار حاصل کیے بلکہ امریکا کے ساتھ تعلقات کو مزید مضبوط کیا۔ اس کا واضح ثبوت بھارت کا کواڈ کے علاوہ دیگر اہم علاقائی معاہدوں میں شریک کار ہونا ہے جن میں COMCASA, LEMOA , BECA شامل ہیں۔
دوسری طرف پاک امریکا تعلقات میں کئی رخنے بدستور چلے آ رہے ہیں۔ دہشت گردی کی جنگ کے دوران پاک امریکا تعلقات میں قریبی تعاون رہا تاہم یہ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے کہ امریکا نے پاکستان کے نیوکلیئر اثاثوں کو ہمیشہ تشویش کی نظر سے دیکھا ہے۔
پاکستان کے میزائل پروگرام پر بھی اس نے اپنی ناخوشی کا اظہار بار بار کیا۔ چند ہفتے قبل پاکستان کی چند کمپنیوں پر امریکا نے پابندیاں بھی عائد کیں۔ بدلتی ہوئی عالمی اور علاقائی صورتحال میں پاک بھارت تعلقات اسٹریٹجک پارٹنرشپ کی سطح پر ہیں جب کہ پاک امریکا تعلقات پر سرد وگرم کا موسم چل رہا ہے۔
صدر ٹرمپ کی حلف برداری کے فوراً بعد سیکریٹری آف اسٹیٹ مارک روبیو نے دفتر میں پہلے دن بھارت کے وزیر خارجہ جے شنکر سے ملاقات کی جس سے امریکا کی ترجیحات کا صاف اظہار ہوتا ہے۔ خبروں کے مطابق سفارتی سطح پر سرتوڑ کوششیں جاری ہیں کہ فروری میں صدر ٹرمپ اور وزیراعظم مودی کی ملاقات کا اہتمام کیا جا سکے۔
بھارت اور امریکا کے سفارتی تعلقات کے ساتھ ساتھ امریکا میں بھارت نژاد امریکیوں کا اثر ونفوذ امریکا کی سیاست اور قیادت میں وقت کے ساتھ ساتھ بہت موثر انداز میں پھلا پھولا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی حلف برداری کی تقریب میں بھی بھارتی اثر ونفوذ قابل ذکر ہے۔
نئے امریکی نائب صدر کی اہلیہ اوشا وانس بھارت نژاد امریکی ہیں۔ صدر ٹرمپ کی کابینہ میں شامل ویوک رام سوامی بھی بھارت نژاد ہیں۔ تقریب حلف برداری میں دنیا کی بڑی ٹیک کمپنیز کے سی ای اوز میں بھی گوگل کے سی ای او بھارت نژاد ہونے کے ناطے نمایاں تھے۔ امریکی سیاست اور کاروبار میں بھارت کا یہ اثرو نفوذ اب ایک نئی حقیقت ہے۔
ایسا نہیں کہ بھارت اور امریکا کے تعلقات میں ہر چہ باداباد ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے دوسرے دور میں اٹھائے گئے کئی اقدامات کا اثر براہ راست بھارت کے مفادات پر بھی ہوا ہے۔ صدر ٹرمپ نے برتھ رائٹ کے قانون کو ختم کرنے کا ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا ہے۔ بھارت کے ہاں کافی عرصے سے برتھ ٹورزم امریکی شہریت حاصل کرنے کا آسان راستہ رہا ہے۔
اس قانون کے خاتمے کے بعد بھارتی کمیونٹی میں تشویش ہے۔ امریکا کے ایچ ون بی کیٹیگری کے ویزوں میں سب سے زیادہ حصہ بھارت حاصل کرتا رہا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ میں ایچ ون بی ویزوں کو محدود کرنے کی پالیسی پر بھی بھارت کو شدید تشویش ہے۔ غیرقانونی طور پر مقیم لوگوں کو بزور ڈی پورٹ کرنے کے سلسلے میں بھی بھارت کے ہزاروں تارکین وطن زد میں آئیں گے۔
ایک طرف بھارت اور امریکا کے تعلقات میں اسٹریٹجک تعاون وقت کے ساتھ ساتھ مضبوط سے مضبوط تر ہو رہا ہے، ان تعلقات کو بھارت سفارت اور تجارت میں اپنے فائدے کے لیے بھرپور طریقے سے استعمال کر رہا ہے۔
دوسری طرف پاک امریکا تعلقات میں امریکی مفادات، ترجیحات اور ضروریات بدلنے کے ساتھ ہی پاک امریکا تعلقات میں اتار چڑھاؤ در آتا ہے۔ عوامی سطح پر پاک امریکا تعلقات میں تجارتی اور صنعتی تعاون کی بجائے صرف اور صرف ملکی سیاست میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے بھرپور کھینچاتانی فخریہ طور پر جاری ہے۔ یہی فرق یہ واضح کرنے کے لیے کافی ہے کہ قومیں اپنی ترجیحات سے اپنا مقدر طے کرتی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاک امریکا تعلقات میں اور امریکا کے پی ٹی ا ئی کے حلف برداری ڈونلڈ ٹرمپ بھارت نژاد تعلقات کے بھی بھارت بھارت کے ٹرمپ کے ٹرمپ کی کے ساتھ رہا ہے کے لیے
پڑھیں:
سابقہ اہلیہ سے طلاق کیوں ہوئی؟ عمران خان نے بالآخر راز کھول دیا
ممبئی(شوبز ڈیسک)بالی ووڈ اداکار عمران خان، جو اپنی سادگی اور منفرد اداکاری کی وجہ سے مداحوں کے دلوں میں خاص مقام رکھتے ہیں، انہوں نے حال ہی میں ایک انٹرویو میں اپنی سابقہ شادی، بیٹی امامہ کے ساتھ تعلق، اور ذاتی جدوجہد کے حوالے سے دل کی باتیں بیان کیں۔
عمران خان نے 2011 میں اونتیکا ملک سے شادی کی تھی اور 2014 میں ان کی بیٹی امامہ کی پیدائش ہوئی۔ تاہم، 2019 میں عمران اور اونتیکا کے درمیان علیحدگی ہو گئی۔ اب عمران خان اداکارہ لیکھا واشنگٹن کے ساتھ تعلق میں ہیں۔
’ہم ایک دوسرے کو بہتر انسان بننے میں مدد نہیں دے پا رہے تھے‘ – عمران خان
فلم فیئر کو دیے گئے حالیہ انٹرویو میں عمران خان نے اپنی اور اونتیکا کی شادی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ رشتہ انہوں نے محض انیس سال کی عمر میں شروع کیا تھا، اور اُس وقت اُن کے ارادے نیک تھے، لیکن وقت کے ساتھ وہ رشتہ ایک جگہ آ کر رُک گیا۔
ان کے بقول: ’میں نے یہ رشتہ بہت چھوٹی عمر میں شروع کیا۔ اُس وقت ہم دونوں کی نیت نیک تھی۔ لیکن جب آپ نوعمری میں کوئی طویل مدتی رشتہ شروع کرتے ہیں تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آپ کے تعلق کے انداز وہی کے وہی رہ جاتے ہیں اور وقت کے ساتھ وہ بہتر نہیں ہو پاتے۔ ہم ایک دوسرے کو بہتر انسان بننے میں مدد نہیں دے پا رہے تھے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ جب انہوں نے اونتیکا سے علیحدگی کا فیصلہ کیا تو وہ اپنی ذہنی صحت کی بحالی کے سفر کے وسط میں تھے۔
بیٹی امامہ کے ساتھ قریبی رشتہ عمران کی زندگی کا قیمتی ترین پہلو
عمران خان نے انٹرویو میں اپنی بیٹی امامہ کے ساتھ رشتے پر بھی کھل کر بات کی۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنی بیٹی کے ساتھ ایک کھلا، دوستانہ اور پُراعتماد رشتہ بنانا چاہتے تھے اور خوشی ہے کہ وہ اس میں کامیاب رہے۔
ان کے الفاظ میں، ’میری اور امامہ کی بہت ہی قریبی اور کھلی ڈھلی دوستی ہے، جو میں ہمیشہ چاہتا تھا۔ میں چاہتا تھا کہ اسے میرے ساتھ مکمل راحت محسوس ہو، کہ میں اُس کے لیے ہوں، اور وہ بلا جھجک مجھ سے ہر بات کر سکے۔‘
’رات کو جب وہ دل کی باتیں کرتی ہے، تو وہ لمحات میرے لیے انمول ہیں‘
عمران نے مزید بتایا کہ وہ لمحے جب وہ اپنی بیٹی کو سونے کے لیے لٹاتے ہیں، اُن کے لیے جذباتی طور پر بے حد قیمتی ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا، ’رات کے وقت جب امامہ سونے جا رہی ہوتی ہے اور کمرے کی روشنی مدھم ہوتی ہے، وہ اپنے دل کی باتیں کرتی ہے۔ ان چند منٹوں میں جب وہ اپنی جذباتی کیفیات میرے ساتھ بانٹتی ہے، تو میں بے حد جذباتی ہو جاتا ہوں۔ ایسے لمحات واقعی انمول ہوتے ہیں۔‘
عمران خان کا یہ کھرا انداز، اپنے جذبات اور رشتوں کے بارے میں کھلے دل سے بات کرنا، اُن کی شخصیت کو مزید منفرد اور متاثر کن بناتا ہے۔
مزیدپڑھیں:پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج پنک مون کا شاندار نظارہ کیاجا سکےگا