میکسیکو کی حکومت نے امریکا سے نکالے جانے والے اُن میکسیکن باشندوں کو قبول کرنے سے انکار کردیا ہے جو غیر قانونی طور پر امریکا میں داخل ہوئے تھے اور وہاں سکونت اختیار کرکے کام کر رہے ہیں۔ ان میکسیکن باشندوں کو ایک فوجی طیارے میں سوار کرکے میکسیکو بھیجا گیا تھا۔

امریکی فوج کے ایک C-17 طیارے کے ذریعے میکسیکو کے 80 غیر قانونی تارکنِ وطن کو بھیجا گیا تھا۔ امریکی حکام کے مطابق اس طیارے کو میکسیکو میں اترنے کی اجازت نہیں دی گئی جس کے بعد معاملہ اٹک کر رہ گیا۔

برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے امریکی فوجی طیارے کو میکسیکو میں لینڈ کرنے کے اجازت دینے کی استدعا کی تھی۔ امریکا کے فوجی طیاروں کے ذریعے غیر قانونی تارکینِ وطن کو میکسیکو بھیجے جانے سے متعلق خبر سب سے پہلے این بی س نیوز نے جاری کی تھی۔

میکسیکو کی وزارتِ خارجہ نے ہفتے کو ایک بیان میں کہا کہ امریکا اور میکسیکو کے تعلقات بہت خوش گوار ہیں اور تارکینِ وطن کے حوالے سے میکسیکو کی حکومت امریکا سے تعاون کے لیے ہر وقت تیار رہتی ہے۔ میکسیکن وزارتِ خارجہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ جب بھی امریکی حکومت میکسیکن تارکینِ وطن کو وطن واپس بھیجے گی تو اُنہیں بخوشی قبول کرلیا جائے گا۔

ٹرمپ انتظامیہ نے اِسی ہفتے اعلان کیا تھا کہ میکسیکو میں انتظار کرو کی پالیسی بحال کی جارہی ہے۔ دنیا بھر سے میکسیکو پہنچنے والے جو لوگ امریکا میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں اُنہیں میکسیکو ہی میں ٹھہرائے رکھنے کی پالیسی اپناتے ہوئے ٹرمپ انتظامیہ دراصل اپنے انتخابی وعدوں کی تکمیل میں مصروف ہے۔

امریکا کا کہنا ہے کہ جو لوگ میکسیکو سے امریکا میں داخل ہوتے ہیں وہ بنیادی طور پر میکسیکو کی ذمہ داری ہیں اس لیے انہیں واپس قبول کرنا چاہیے۔ میکسیکو نے اس حوالے سے کوئی بھی بیان جاری کرنے سے اب تک گریز کیا ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: میکسیکو کی

پڑھیں:

ٹرمپ کی واپسی۔۔۔۔۔۔۔۔ایک نئی دنیا کا آغاز؟

ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت ہمیشہ تنازعات کا مرکز رہی ہے، اور ان کے موجودہ اقدامات اس تسلسل کو مزید نمایاں کر رہے ہیں۔ تازہ ترین معاملے میں ایک امریکی فیڈرل جج نے ان کے اس ایگزیکٹو آرڈر کو عارضی طور پر معطل کر دیا ہے جس کے تحت پیدائشی شہریت کے قانون میں تبدیلی کی جا رہی تھی۔ یہ قانون جو امریکی آئین کی چودھویں ترمیم کے تحت قائم ہے، امریکا میں پیدا ہونے والے ہر بچے کو شہریت کا حق دیتا ہے۔ دوسری جانب صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل کریں گے، جس سے ایک نیا قانونی تنازع کھڑا ہوسکتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی بطور صدر واپسی امریکی سیاست کا ایک غیر معمولی موڑ ہے، لگتا ہے وہ ایک نئی دنیا کی تشکیل کرنے جارہے ہیں، امریکی محکمہ خارجہ کی ایک لیک شدہ اندرونی دستاویز کے مطابق امریکا نے تمام جاری غیر ملکی امداد کو معطل کر دیا ہے اور کسی بھی نئی امداد کی عملدرآمد پر بھی پابندی عائد کر دی ہے، یہ میمو امریکی حکام اور بیرونِ ملک امریکی سفارتخانوں کو ارسال کیا گیا تھا، مذکورہ دستاویز میں واضح کیا گیا ہے کہ صرف خوراک کی ہنگامی امداد اور اسرائیل ومصر کے لیے فوجی امداد کو اس فیصلے سے استثنیٰ حاصل ہے۔ امریکا بین الاقوامی امداد فراہم کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے جو سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2023 میں 68 ارب ڈالر خرچ کر چکا ہے۔ اسی طرح انہوں نے اپنی افتتاحی تقریر میں نہ صرف گزشتہ انتخابات کو ’’تاریخ کے نتیجہ خیز ترین انتخابات‘‘ قرار دیا بلکہ امریکا کے زوال کو ختم کرنے اور سنہری دور کے آغاز کا اعلان کیا۔ ان کے اس بیان میں سیاسی ایجنڈے کی جھلک نظر آتی ہے جو ایک مرتبہ پھر صرف امریکی مفادات کو ترجیح دینے سے متعلق ہے۔

ٹرمپ کے اس فیصلے میں امریکا کے بیرونِ ملک سفارت خانوں اور مشن کے دفاتر پر پرائیڈ فلیگ (ہم جنس پرستوں کا جھنڈا) یا بلیک لائیوز میٹر (سیاہ فاموں کی حمایت میں) کے جھنڈوں پر پابندی عائد کر کے ’’پرچمِ واحد‘‘ کی پالیسی نافذ کرتے ہوئے صرف امریکی پرچم لہرانے کی ہدایت بھی شامل ہے، جس سے کئی اہم مغربی ایشوز پر امریکا کی پریشانی اور داخلی کشمکش کا پتا چلتا ہے، بلکہ ان کی نئی پالیسی کی ترجیحات بھی واضح ہو رہی ہیں، ٹرانس جینڈرز سے متعلق بائیڈن کا یہ ایگزیکٹو آرڈر 2021ء میں جاری ہوا تھا، جس کا بظاہر مقصد صنفی شناخت کو فوج میں خدمات انجام دینے میں رکاوٹ کے طور پر ختم کرنا تھا۔ لیکن متعلقہ لوگوں کا خیال ہے کہ بائیڈن کی پالیسی کی منسوخی کے باوجود اِس وقت خدمات انجام دینے والے ٹرانس جینڈر اہلکاروں پر فوری طور پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ تاہم ٹرمپ کی یہ کارروائی مستقبل میں ان کے لیے مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دورِ حکومت میں توانائی کے شعبے میں خودانحصاری، سرحدی سیکورٹی کو بہتر بنانا اور مشرق وسطیٰ میں امن معاہدے جیسے اقدامات اہم کامیابیاں سمجھی جاتی ہیں تاہم ان کی پالیسیوں پر کثرت سے تنقید بھی ہوئی، خاص طور پر امیگریشن پالیسیوں کے حوالے سے۔ ان کی جانب سے میکسیکو بارڈر پر ایمرجنسی لگانے اور غیر قانونی تارکین وطن کی ملک بدری کی مہم نے امریکا کے اندر اور باہر ایک بڑی بحث چھیڑ دی تھی، صدر ٹرمپ کے نئے دور کی ابتدا ہی ایگزیکٹو آرڈرز کے ساتھ ہوئی ہے، ان کے پہلے دن جاری کیے گئے ایگزیکٹو آرڈرز کی تعداد ریکارڈ توڑنے والی رہی ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔

ٹرمپ کے خیالات اور اقدامات بین الاقوامی تعلقات پر بھی گہرے اثرات ڈال سکتے ہیں، نہر پاناما کے حوالے سے بیان کہ امریکا کو اسے واپس لینا چاہیے اُن کے جارحانہ رویے کا عکاس ہے۔ اسی طرح ڈیووس میں ورلڈ اکنامک فورم سے خطاب میں کینیڈا کو امریکی ریاست بنانے کی حیرت انگیز پیشکش نے بحث کو جنم دیا ہے۔ صدر ٹرمپ کے دورِ حکومت میں جمہوری اقدار اورعدالتی نظام کے درمیان کشمکش بھی جاری رہی ہے، سابقہ دور میں ان کے کئی فیصلے عدالتوں میں چیلنج کیے گئے تھے اور نئے دور میں بھی ایسی ہی توقعات ہیں، مثال کے طور پر مارٹن لوتھر کنگ جونیئر اور کینیڈی برادران سے متعلق فائلوں کو منظر عام پر لانے کے حکم کو ان کے ناقدین سیاسی حربہ قرار دے رہے ہیں۔ ٹرمپ کے نئے دور کے آغاز نے ایک بات واضح کردی ہے کہ ان کی پالیسیوں کا مرکز ’’پہلے امریکا‘‘ اور ’’خودمختاری کا تحفظ‘‘ ہوگا۔ تاہم ان کی متنازع پالیسیاں، امیگریشن کے سخت قوانین اور عالمی معاہدوں پر نظرثانی جیسے اقدامات مستقبل میں امریکا کی داخلی سیاست اور عالمی حیثیت پر کیا اثر ڈالیں گے یہ وقت ہی بتائے گا۔ لیکن ماہرین موجودہ حالات اور فیصلوں کو دیکھتے ہوئے یہ ضرور کہہ رہے ہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ مسلمانوں کے لیے کسی طور سازگار نظر نہیں آتی۔ مشرق وسطیٰ کے تناظر میں ان کی پالیسیوں کا محور اسرائیل کو عرب اور اسلامی دنیا سے تسلیم کرانا ہے اس مقصد کے حصول کے لیے وہ سفارتی دباؤ سے لے کر جبر کا ہر ممکنہ ہتھکنڈا اپنانے کے لیے تیار دکھائی دیتے ہیں۔ اب دیکھنا ہے کہ کیا ٹرمپ کی پالیسیاں داخلی طور پر امریکا کے لیے بہتری کی علامت ثابت ہوسکتی ہیں؟ اس کا جواب جلد سامنے آنا شروع ہوجائے گا۔ ٹرمپ کی پالیسیوں کے اثرات نہ صرف امریکا بلکہ پوری دنیا کے سیاسی اور اقتصادی نظام پر محسوس کیے جائیں گے، اس ضمن میں پوری دنیا کو ہوشیار رہنا ہوگا کیونکہ ٹرمپ کچھ بھی کرسکتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • ٹرمپ کا اردن اور مصر سے غزہ کے مزید فلسطینی پناہ گزینوں کو قبول کرنیکا مطالبہ
  • امریکی صدر کے عزائم
  • وزیر داخلہ کا امریکا میں چین مخالف کسی تقریب میں شرکت نہ کرنے کا اعلان
  • پاکستانی لڑکی سے ملنے آنے والے ہندو نوجوان نے اسلام قبول کرلیا، بھارت جانے سے انکار
  • میکسیکو، تارکین وطن کو لانے والے امریکی فوجی طیارے کو لینڈنگ کی اجازت دینے سے انکار
  • ٹرمپ کی واپسی۔۔۔۔۔۔۔۔ایک نئی دنیا کا آغاز؟
  • 2020 میں ٹرمپ کی فتح نہ چھین لی جاتی تو یوکرین کی جنگ نہ ہوتی، پوتن
  • غزہ کے باشندوں کا اپنے گھروں کو واپس جانا اسرائیل کے لیے ایک اور شکست ہے، حماس
  • بائیڈن نے اپنے بیٹے کی سزا تو معاف کر دی لیکن عافیہ صدیقی کو رہا نہیں کیا: عدالت