Jasarat News:
2025-01-27@04:28:01 GMT

عوامی لیگ پر انتخابات کے دروازے بند کیے جانے کا امکان

اشاعت کی تاریخ: 25th, January 2025 GMT

عوامی لیگ پر انتخابات کے دروازے بند کیے جانے کا امکان

بنگلا دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ ڈاکٹر محمد یونس کے معاونِ خصوصی نے کہا ہے کہ عوامی لیگ کو انتخابات میں حصہ لینے سے روکنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ اس حوالے سے جو بھی فیصلہ ہوگا وہ قانون کے مطابق ہوگا۔ عوامی لیگ نے ملک کے ساتھ جو کچھ کیا ہے اُس کا بھرپور جائزہ لے کر قانونی اقدامات کے حوالے سے تیاریاں جاری ہیں۔

کچھ دن قبل بنگلا دیش نیشنلسٹ پارٹی کے سیکریٹری جنرل مرزا فخرالاسلام عالمگیر نے کہا تھا کہ بنگلا دیش کی عبوری حکومت اصلاحات کا جو ایجنڈا لے کر چل رہی ہے اُس کی تکمیل میں تو دس سال لگ سکتے ہیں اور ملک کو اِتنی طویل مدت تک غیر منتخب انتظامیہ کے تحت نہیں چلایا جاسکتا۔

ڈاکٹر یونس کے معاونِ خصوصی اور امتیازی کوٹے کے خلاف چلائی جانے والی تحریک میں کلیدی کردار ادا کرنے والے محفوظ عالم کا کہنا ہے کہ بنگلا دیش میں ہونے والا انتخابات میں صرف وہ جماعتیں حصہ لے سکیں گی جو بنگلا دیش کی حامی ہیں اور اُس سے محبت کا اظہار بھی کرتی ہیں۔

ملک کے وسطی ضلع چاندپور میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے فخرالاسلام نے کہا کہ سابق وزیرِاعظم بیگم خالدہ ضیا کی بنگلا دیش نیشنلسٹ پارٹی، جماعتِ اسلامی اور دیگر محبِ وطن جماعتیں ہی انتخابات میں حصہ لے کر ایسی حکومت بناسکتی ہیں جو ملک کو امن، ترقی اور استحکام کی راہ پر ڈالے۔ ملک کو شفاف انتخابات کی ضرورت ہے۔ عوامی لیگ انتخابات میں دھاندلی کی تاریخ رکھتی ہے۔ اب اُسے ایسا کرنے کا موقع نہیں دیا جاسکتا۔

فخرالاسلام نے، جو کوئی قلم دان نہ رکھنے کے باوجود بنگلا دیش کی عبوری انتظامیہ میں وزیر کا منصب رکھتے ہیں، کہا کہ عوامی لیگ کی بحالی اب کسی بھی صورت برداشت نہیں کی جاسکتی۔ کم از کم طے شدہ اصلاحات کے واقع ہونے اور تباہ حال ریاستی اداروں کی معقول حد تک بحالی کے بغیر انتخابات نہیں کرائے جاسکتے۔

فخرالاسلام کو بنیادی طور پر ڈاکٹر یونس کے معاونِ خصوصی کے طور پر کابینہ میں لیا گیا تھا اور بعد میں انہوں نے مشیر کی حیثیت سے کام شروع کردیا تھا۔ گزشتہ برس اقوامِ متحدہ میں ایک تقریب کے دوران بنگلا دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ ڈاکٹر یونس نے فخرالاسلام کا تعارف کراتے ہوئے انہیں شیخ حسینہ کی حکومت کا تختہ الٹنے والی طلبہ تحریک کا ذہن، منصوبہ ساز اور روحِ رواں قرار دیا تھا۔

5 اگست 2024 کے بعد سے عوامی لیگ بنگلا دیش کے سیاسی منظرنامے سے غائب ہے۔ عوامی لیگ کے خلاف عوامی سطح پر اس قدر احتجاج کیا گیا تھا کہ شیخ حسینہ کی معزولی کے بعد پارٹی کے رہنما کھل کر کچھ کہنے اور کام کرنے کی ہمت اپنے اندر اب تک پیدا نہیں کرسکے ہیں۔

شیخ حسینہ اور اُن کے قریبی لوگوں کو قتل سمیت سنگین جرائم کے متعدد مقدمات کا سامنا ہے۔ ان مقدمات کا فیصلہ ہونے تک بنگلا دیش میں حقیقی امن و استحکام بہت دور کی منزل دکھائی دیتا ہے۔

بنگلا دیش نیشنلسٹ پارٹی کا کہنا ہے کہ وہ کسی بھی سیاسی جماعت پر انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی عائد کیے جانے کے حق میں نہیں۔ ساتھ ہی ساتھ پارٹی کا یہ بھی کہنا ہے کہ کم از کم اصلاحات نافذ کرنے کی صورت ہی میں انتخابات کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: بنگلا دیش کی عبوری انتخابات میں عوامی لیگ

پڑھیں:

پاکستان اور بنگلا دیش کے تعلقات: مثبت پیش رفت

پاکستان اور بنگلا دیش کے درمیان بڑھتی قربتیں جنوبی ایشیا میں ایک نئی صف بندی کی طرف اشارہ کر رہی ہیں۔ خطے میں بھارت کے غلبے کو چیلنج کرتے ہوئے یہ تعلقات نہ صرف دونوں ممالک کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتے ہیں بلکہ پورے خطے میں جغرافیائی اور سیاسی حرکیات کو بھی تبدیل کر سکتے ہیں۔ تاریخی طور پر 1971 کے سانحے کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات کشیدہ رہے ہیں۔ شیخ حسینہ واجد کے دورِ حکومت میں ان تعلقات میں مزید دراڑیں پڑیں، کیونکہ ان کے دور میں بنگلا دیش کا جھکاؤ بھارت کی طرف زیادہ رہا۔ لیکن حسینہ واجد کی اقتدار سے بے دخلی اور ڈاکٹر محمد یونس کی عبوری حکومت کے قیام کے بعد ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے، جہاں دونوں ممالک کے درمیان تعاون کے مختلف پہلوؤں پر کام جاری ہے۔ گزشتہ کچھ مہینوں میں پاکستان اور بنگلا دیش کے تعلقات میں نمایاں پیش رفت دیکھی گئی ہے۔ دونوں ممالک کے عسکری وفود کے تبادلوں، دفاعی تعاون کے فروغ، اور تجارتی معاہدوں نے نہ صرف باہمی اعتماد کو بڑھایا ہے بلکہ ایک دوسرے کے لیے نئی معاشی اور سیاسی راہیں بھی ہموار کی ہیں۔ بنگلا دیشی فوج کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے، پرنسپل اسٹاف آفیسر لیفٹیننٹ جنرل ایس ایم قمر الحسن کی قیادت میں، پاکستان کا دورہ کیا۔ اس دورے کے دوران وفد نے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا، اور پاک فضائیہ کے سربراہ ائر مارشل ظہیر احمد بابر سندھو سے ملاقاتیں کیں۔ ان ملاقاتوں میں باہمی عسکری تعاون اور علاقائی سلامتی کے امور پر تبادلہ خیال اور جے ایف 17 تھنڈر طیاروں میں دلچسپی اس بات کا ثبوت ہے کہ بنگلا دیش اپنی دفاعی ترجیحات میں پاکستان کو اہم پارٹنر کے طور پر دیکھ رہا ہے۔ اس پیش رفت پر بھارتی میڈیا کی تشویش قابل ِ فہم ہے، کیونکہ بھارت نے ہمیشہ بنگلا دیش کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی۔ لیکن آج کی حقیقت یہ ہے کہ بنگلا دیش بھارت سے دور اور پاکستان کے قریب ہوتا جا رہا ہے۔ بی بی سی کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، انڈین میڈیا میں کچھ خبروں کے دوران یہ دعویٰ سامنے آیا ہے کہ مستقبل میں پاکستانی فوج کی جانب سے بنگلا دیشی فوج کو تربیت فراہم کیے جانے کے امکانات زیر غور ہو سکتے ہیں۔ تاہم، اس دعوے کی کوئی باضابطہ تصدیق یا تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔ دونوں ممالک نے باہمی تجارت کو بڑھانے کے لیے کئی معاہدے کیے ہیں۔ خاص طور پر، بنگلا دیش نے پاکستان سے چاول اور دیگر اشیاء کی درآمد کے معاہدے کیے ہیں، جو دونوں معیشتوں کے لیے فائدہ مند ہیں۔ پاکستان نے بنگلا دیشی مصنوعات کے لیے اپنی منڈی کھولنے کی بھی پیشکش کی ہے، جو بنگلا دیش کے لیے ایک اہم موقع ہے، اگر دونوں ممالک اپنی تجارتی پالیسیوں کو مزید ہم آہنگ کریں اور مشترکہ منصوبے شروع کریں، تو دونوں کی معیشتوں کو بڑا فائدہ ہو سکتا ہے۔ خاص طور پر پاکستان کی بندرگاہیں بنگلا دیش کی تجارت کے لیے اہم کردار ادا کر سکتی ہیں، جبکہ بنگلا دیش کی ٹیکسٹائل انڈسٹری پاکستان کے لیے ایک منفعت بخش بن سکتی ہے۔ پاکستان اور بنگلا دیش مل کر جنوبی ایشیا میں ایک نیا توازن قائم کر سکتے ہیں، جہاں بھارت کے بجائے علاقائی تعاون کو فروغ دیا جا سکے۔ سارک (SAARC) جیسے پلیٹ فارمز پر دونوں ممالک کا تعاون اس خطے میں امکانات اور نئے دروازے کھول سکتا ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ تعلقات میں بہتری کی امید ہے، لیکن چیلنجز بھی موجود ہیں۔ ماضی کے تاریخی تنازعات اور عوامی سطح پر موجود غلط فہمیاں ان تعلقات کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ بھارت کی جانب سے ممکنہ دباؤ اور سازشیں بھی ایک چیلنج ہیں، جن کا دونوں ممالک کو سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ تعلقات بھارت کے لیے ایک چیلنج ہیں، کیونکہ بنگلا دیش اب بھارت کے بجائے پاکستان سے اپنے دفاعی اور معاشی تعاون کو مضبوط کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ بنگلا دیش اور میانمر کے درمیان جاری کشیدگی کے دوران، بنگلا دیش کو اپنے دفاع کے لیے نئے اتحادیوں کی تلاش ہے، اور پاکستان اس میں ایک قدرتی پارٹنر کے طور پر سامنے آ رہا ہے۔یہ تعلقات نہ صرف دونوں ممالک کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتے ہیں بلکہ خطے میں امن، ترقی، اور استحکام کے لیے بھی ایک اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر اور مستقبل پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے، دونوں ممالک ایک مشترکہ ویژن کے ساتھ آگے بڑھ سکتے ہیں۔ اگر یہ تعاون جاری رہا تو یہ نہ صرف پاکستان اور بنگلا دیش کے عوام کے لیے خوشحالی لائے گا بلکہ خطے کے دیگر ممالک کے لیے بھی ایک مثال بنے گا۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان اور بنگلا دیش کے تعلقات: مثبت پیش رفت
  • پاکستانی لڑکی سے ملنے آنے والے ہندو نوجوان نے اسلام قبول کرلیا، بھارت جانے سے انکار
  • پی ٹی آئی کے دروازے مذاکرات کیلیے ہمیشہ کھلے تھے، علی محمد خان
  • پی ٹی آئی جوڈیشل کمیشن مطالبہ: 28 جنوری سے پہلے کسی بھی قسم کے اعلان کا ایک فیصد بھی امکان نہیں، عرفان صدیقی
  • بنگلا ،برمی اور بہادری کمیونٹی کیساتھ ہیں،شناختی کارڈ میں رکاوٹیں دور کی جائیں،منعم ظفر
  • ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان دشمنی پھیلانے والے ہندو نہیں ہوسکتے، ادھو ٹھاکرے
  • کراچی کی تباہی کا ذمہ دار عوامی مینڈیٹ پرقابض ٹولہ ہے: سیف الدین ایڈوکیٹ
  • بنگلا، برمی اور بہاری کمیونٹی کے شناختی کارڈ اجرا میں رکاوٹیں دُور کی جائیں، منعم ظفر خان
  • حکومت اور اپوزیشن میں معاملات طے پا گئے، پی اے سی کا اجلاس طلب ،، جنید اکبر یا حامد ڈوگر کو چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی بنائے جانے کا امکان