UrduPoint:
2025-01-27@16:50:38 GMT

خواتین مردوں پر بوجھ بنیں

اشاعت کی تاریخ: 25th, January 2025 GMT

خواتین مردوں پر بوجھ بنیں

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 25 جنوری 2025ء) پاکستان جیسے پدر شاہی معاشروں میں مرد اور عورت کے مابین تعلق میں مرد کا فائدہ اور عورت کا نقصان ہوتا ہے۔ اس لیے یہاں وہی خواتین بہتر رہتی ہیں، جو اس معاشرے کے رسم و رواج کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔

ایسی خواتین خود مختار ہو سکتی ہیں لیکن وہ اپنی خود مختاری کو مردوں کی نظروں اور خیالات سے اوجھل رکھتی ہیں اور انہیں ایسے تاثر دیتی ہیں جیسے وہی ان کی زندگی چلا رہے ہوں اور وہ ان کے بغیر اپاہج اور لاچار ہوں۔

وہ مردوں کے ساتھ ایک بوجھ بن کر رہتی ہیں۔ ایسا بوجھ جسے وہ خوشی خوشی اپنے اوپر لادتے ہیں اور پوری زندگی لادے رکھتے ہیں۔

میری ایک جاننے والی خاتون خواتین کے گاڑی چلانے کے سخت خلاف ہیں۔

(جاری ہے)

ان کا ماننا ہے کہ اگر مردوں کو پتہ ہو کہ ان کی بیوی، بہن یا بیٹی خود گاڑی چلا کر کہیں بھی جا سکتی ہیں تو وہ ان کے ساتھ آنا جانا ہی ختم کر دیں گے۔

انہیں گاڑی چلانی آتی ہے لیکن اپنی شادی کے بعد انہوں نے کبھی گاڑی کی چابی بھی نہیں پکڑی۔ انہوں نے کہیں جانا ہو تو وہ کئی دن پہلے سے اپنے شوہر کے کان کھانا شروع ہو جاتی ہیں۔ ان کے شوہر ان کے شیڈول کے مطابق انہیں جہاں جانا ہو لے کر جاتے ہیں۔

دوسری طرف میری ایک سری لنکن دوست ہیں۔ یہ ایک یونیورسٹی میں پڑھاتی ہیں۔ ان کی تنخواہ ان کے شوہر سے زیادہ ہے۔

گھر کا کرایہ ان کی تنخواہ سے جاتا ہے۔ گروسری کے پیسے بھی یہ دیتی ہیں۔ اکثر بِلوں کی ادائیگی بھی ان کی تنخواہ سے ہوتی ہے۔ گاڑی ان کی ہے لیکن اس پر قبضہ ان کے شوہر کا ہے۔ وہ صبح انہیں یونیورسٹی چھوڑ کر اپنے دفتر جاتے ہیں۔ اگر کبھی یہ گھر سے نکلنے میں دیر کر دیں تو وہ غصے میں گاڑی بھگا کر لے جاتے ہیں۔ انہیں پھر بس سے یونیورسٹی جانا پڑتا ہے۔

ان کے شوہر گھر کے کسی کام میں ان کا ہاتھ نہیں بٹاتے۔ انہیں گھر آ کر اپنے اور ان کے لیے کھانا بنانا پڑتا ہے، صفائی کرنی پڑتی ہے اور اگلے دن کے لیکچر کی تیاری بھی کرنی ہوتی ہے۔ ان کے شوہر پھر بھی ان سے خوش نہیں ہوتے۔ کبھی غصہ آئے تو ایک دو تھپڑ بھی جڑ دیتی ہیں۔ ہر ویک اینڈ پر اپنے دوستوں کی دعوت رکھ لیتے ہیں جس کی تیاری میری دوست کو ہی کرنی پڑتی ہے۔

پدرشاہی معاشروں میں خواتین ایک لمبی جدوجہد کے بعد خود مختار ہوتی ہیں۔ اس کے بعد بھی معاشرہ ان کا پیچھا نہیں چھوڑتا۔ وہ ان سے مختلف طریقوں سے ان کی خود مختاری کی قیمت وصول کرتا ہے۔ یہاں وہی عورت کامیاب رہتی ہے جو اپنی خود مختاری کے فائدے اپنے آپ تک محدود رکھتی ہے اور اپنے سے منسلک مردوں کو یہی تاثر دیتی ہے کہ وہ اب بھی اپنی کئی ضروریات کے لیے ان پر انحصار کرتی ہے۔

وہ اپنی بہت سی ضروریات اور ذمہ داریاں مردوں پر ڈالتی ہے۔ مرد خوشی خوشی، روتے دھوتے یا غصے میں اس کی ذمہ داری اٹھاتے ہیں۔ اگر وہ عورت ایسے نہ کرے تو اس کا حال بھی میری سری لنکن دوست جیسا ہوگا۔

جو مرد اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں کے اخراجات ادا کر رہا ہے، وہ بیوی اور بچوں کے اخراجات بھی برداشت کر سکتا ہے۔ اسے ان اخراجات سے آزادی دینے کی ضرورت نہیں ہے۔

اگر اس کا یہاں ساتھ دینا ہے تو اسے کئی دیگر جگہوں سے ایک طرف کرنا ہوگا۔ وہ بیوی کے اوپر حکم نہیں چلائے گا۔ اس کی زندگی کے فیصلے نہیں کرے گا۔ اس پر اپنے گھر اور گھر والوں کی ذمہ داری نہیں ڈالے گا۔ گھر کے کچھ کام اپنے ذمے لے گا تاکہ وہ ہر جگہ اپنی بیوی کے ساتھ برابری میں ہو۔ نہ اس کا نقصان ہو رہا ہو نہ بیوی کا۔ جہاں اس کا فائدہ ہو رہا ہے اسے صرف وہیں برابری کیوں دی جائے؟

جب تک خواتین کو مردوں کے ساتھ ہر میدان میں برابری نہیں ملتی انہیں مردوں پر بوجھ بن کر رہنا چاہیے۔

مرد عورت کی معاشی ذمہ داری اٹھائیں۔ اسے کہیں جانا ہو تو اسے وہاں لے کر جائیں۔ چھٹی والے دن اس کے بتائے گئے کام مکمل کریں۔ وہ روئے تو پریشان ہو جائیں، وہ ہنسے تو سکھ کا سانس لیں۔

اس کے لیے خواتین کو مردوں کے سروں پر سوار ہونا ہوگا۔ انہیں اپنی ضروریات بتانی ہوں گی۔ انہیں ان ضروریات کو پورا کرنے کا کہنا ہوگا۔ خواتین بولیں گی تو مرد سنیں گے۔

اس لیے شرمانا چھوڑیں اور مردوں پر بوجھ بنیں۔

یہ پدر شاہی ہے۔ یہاں مرد دنیا چلاتے ہیں۔ انہیں دنیا چلانے دیں اور خود بیک سیٹ پر بیٹھ کر آرام کریں۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ان کے شوہر کے ساتھ کے لیے

پڑھیں:

ماؤں نے مردوں کی تربیت ٹھیک نہیں کی جسٹس محسن اختر

اسلام آباد (آن لائن) اسلام آباد ہائیکورٹ نے بچے کی حوالگی سے متعلق کیس میں ریمارکس دیے ہیں کہ بدقسمتی سے پاکستان میں ماؤں نے مردوں کی تربیت ٹھیک نہیں کی، عدالت نے کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا، جج نے وکلا سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ مجھے لگتا ہے، ماں باپ دونوں کو سائیکاٹرسٹ کے پاس بھیجنا چاہیے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے بچے کی حوالگی سے متعلق کیس کی سماعت کی جس میں انہوں نے نو عمر بچے کو اپنے ساتھ کرسی لگوا کر بٹھا لیا۔ انہوں نے کہا کہ بچوں یا ماں باپ کو عدالتوں میں نہیں آنا چاہیے، فیصلہ آسان ہے لیکن کسی کے اندر محبت نہیں ڈال سکتے، بچوں کو ہینڈل کرنا بہت آسان ہے، ماں کرے، باپ یا کوئی تیسرا، بچہ جس کے ساتھ بھی ہو دوسرے کے خلاف ہوجاتا ہے۔ عدالت نے والدین سے سوال کیا کہ آپ کیا کرتے ہیں اور کیا ڈیوٹی ٹائمنگ ہے جس پر والد نے کہا کہ میں سرکاری ادارے میں ڈائریکٹر ہوں
اور 9 سے 4 ڈیوٹی ٹائمنگ ہیں جبکہ والدہ نے کہا کہ میں بھی سرکاری ادارے کام کرتی ہوں اور ان کے ماتحت ہوں۔ اس پر عدالت نے والد کو ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ اہلیہ کی اپنے فیملی ممبران سے ملاقات کرائیں تاکہ غلط فہمیاں نہ ہوں۔ اس کے ساتھ ہی عدالت نے وکلا سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ سب کچھ آپ کے سامنے ہے، ساری وہ باتیں ہیں جو اس بچے کو جج بنا کر حل کی جاسکتی ہیں، ماں باپ دونوں نے بچے کو اس سطح پر لانا ہوتا ہے جہاں وہ آسانی محسوس کرے، مجھے لگتا ہے، ماں باپ دونوں کو سائیکاٹرسٹ کے پاس بھیجنا چاہیے۔

متعلقہ مضامین

  • ہنزہ کی باہمت خواتین کارپینٹرز کی کہانی
  • عام انتخابات پر فافن کی ایک اور رپورٹ جاری، خواتین کے رجحانات شامل
  • عام انتخابات، ملک بھر میں خواتین کی مقبول جماعت کونسی ؟، فافن کی رپورٹ جاری
  • عام انتخابات، ملک بھر میں خواتین کی مقبول جماعت بارے فافن کی رپورٹ جاری
  • 44فیصد افراد حکومت اور پی ٹی آئی مذاکرات کے حامی، گیلپ سروے
  • ادب کے فروغ میں خواتین تخلیق کاروں کا اہم کردار ہے
  • ثنا خان اور سید انس نے اپنے دوسرے بچے کا نام بتادیا
  • ماؤں نے مردوں کی تربیت ٹھیک نہیں کی جسٹس محسن اختر
  • لوگوں کی اپنے گھروں کو واپسی اسرائیل کی ایک اور ناکامی ہے، حماس