علی اکبر ناطق: ایک معمار چوٹی کا ادیب کیسے بنا؟
اشاعت کی تاریخ: 25th, January 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 25 جنوری 2025ء) ناطق محض حرف و حکایت کی دنیا میں نہیں فن تعمیر میں بھی انقلاب برپا کر رہے ہیں۔ سرخ اینٹوں سے بنی دلفریب عمارتیں جن میں اے سی کی ضرورت ہے نہ ہیٹر کی۔ بظاہر معمولی پس منظر رکھنے والا ایک فنکار پاکستان کی زرخیز مٹی اور بے پناہ ٹیلنٹ کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔
مطالعے اور مشاہدے کی عادت جو طاقت ثابت ہوئیاگر آپ ناطق کی خود نوشت ' آباد ہوئے، برباد ہوئے‘ پڑھیں تو اس میں پدی، اچھو، جیدا اور ماکھی جیسے لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے، جن کے نام سے ان کے سماجی پس منظر کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
انہیں میں سے ایک علی اکبر میں ایسا کیا تھا کہ وہ آج چوٹی کے ادیبوں کی صف میں نمایاں مقام پر کھڑا ہے؟ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے علی اکبر ناطق کہتے ہیں، ”میرے گھر اور سکول کا فاصلہ بمشکل سو ڈیڑھ سو قدم تھا۔
(جاری ہے)
سکول سے چھٹی کے بعد شاید ہی کبھی میں سیدھے راستے سے واپس آیا ہوں۔ ہمیشہ ادھر ادھر نکل جاتا اور واپسی پر میرا دل نئی حیرتوں سے بھرا ہوتا۔
ادیب یہی کام کرتا ہے، وہ بنے بنائے اور روٹین کے راستوں پر نہیں چلتا۔"ناطق کی خود نوشت سے پتہ چلتا ہے کہ اوکاڑہ کے معمولی چک بتیس ایل۔ ٹو کی بے چین روح اسلام آباد میں آنے سے پہلے مزدوری کے لیے سعودی عرب گئی۔ ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے ناطق کہتے ہیں، ”ایک خیال تھا کہ جو اینٹ روڑہ یہاں لگانا ہے وہ سعودیہ میں جا کر لگایا جائے تو بہتر آمدن ہو گی۔
وہاں دیکھا کہ مزدور کی حالت گدھے سے بھی بدتر ہے۔ ایک رات خیال آیا اگر دل خوش نہیں تو پوری دنیا کی دولت بھی بیکار ہے، کہاں میں چند سو ریال کے لیے خود کو گروی رکھوا چکا۔ یہ کوئی زندگی نہیں۔"سعودیہ سے واپسی کے بعد کچھ عرصے اوکاڑہ، لاہور اور اسلام آباد میں مزدوری کرتے رہے۔ بھینسوں کے باڑے میں بھی کام کیا۔ یومیہ اجرت کے دن ہوں یا نری بھوک اور افلاس، کہتے ہیں ”یاد نہیں کبھی مطالعے کے بغیر سویا ہوں۔
زندگی کے دھکے اس لیے برے نہیں لگتے کہ تجربے کا بے پناہ خزانہ ہاتھ لگا۔ ورنہ میں بھی آج اپنا لکھنے کے بجائے فیشن کے طور پر مغربی تھیوریوں کی جگالی کر رہا ہوتا۔" اکادمی ادبیات میں 'حادثاتی انٹری‘ جس نے زندگی بدل کر رکھ دییہ 2005 کی بات ہے جب اسلام آباد میں ناطق بھینسوں کے باڑے سے اکادمی ادبیات جا پہنچے۔
وہ ڈی ڈبلیو اردو کو بتاتے ہیں، ”کوئی بہت سوچا سمجھا منصوبہ نہ تھا، بس ویسے ہی تجسس تھا کہ شاعر ادیب کیسے ہوتے ہیں۔ آوارہ گردی کے دوران بورڈ نظر آیا تو اندر چلا گیا۔"وہ کہتے ہیں، ”جب حلقہ اربابِ ذوق میں ادیبوں کو دیکھا اور ان کی تخلیقات سنیں تو مجھے لگا ان سے بہتر تو میں لکھ سکتا ہوں۔ یوں لکھنے کا سفر شروع ہوا۔
”کسوٹی پروگرام دیکھ رکھا تھا اس لیے افتخار عارف جانا پہچانا چہرہ تھے۔
ان سے ملاقات ہوئی تو وہ بہت متاثر ہوئے۔ ان کا احسان ہے کہ مجھے دیہاڑیوں سے نکال کر اکادمی ادبیات کی بک شاپ میں لائے۔ یہ ساتویں گریڈ کی نوکری تھی۔ کتابیں کون خریدتا ہے؟ سو فرصت ہی فرصت تھی، دن بھر کتابیں پڑھتا، رات کو لکھنے کی کوشش کرتا۔" پانچ افسانے، دس نظمیں: ایک ہمہ گیر ادیب کا تاثراردو کی ادبی دنیا کے لیے اجمل کمال کا رسالہ 'آج‘ اور آصف فرخی کا 'دنیا زاد‘ کسی تعارف کے محتاج نہیں۔
کراچی سے شائع ہونے والے یہ دونوں رسالے اکادمی ادبیات کی بک شاپ پر باقاعدہ سے آتے۔ 2009 میں ناطق ایک طرح سے شہر اقتدار میں ان کے ڈسٹری بیوٹر تھے۔ناطق کہتے ہیں، ”آج میں صرف تراجم چھپ رہے تھے، میں نے ایک دن اجمل کمال کو اپنے دو افسانے بھیجے اور ساتھ خط لکھا کہ پسند آئیں تو شائع کر دیں ورنہ پھینک دیجیے گا۔ انہوں نے کہا کچھ اور افسانے ہیں تو وہ بھی بھیج دو۔
میں نے مزید تین کہانیاں بھیج دیں۔ اس طرح میرے پانچ افسانوں پر مشتمل گوشہ خاص شائع ہوا۔ آج کے معیار کو دیکھتے ہوئے یہ غیر معمولی کامیابی تھی۔"چند ہفتوں کے فرق سے 'دنیا زاد‘ میں ناطق کی دس نظمیں ایک ساتھ شائع ہو گئیں۔ انڈیا سے شمس الرحمن فاروقی جیسے بڑے نقاد نے تعریف کرتے ہوئے پنجاب کے اس نوجوان کی حوصلہ افزائی کی۔
ناطق نے اکادمی کی بک شاپ کو چھوڑ کر اسلام آباد کے مرکز آئی ایٹ میں 'مرزا غالب کتاب گھر‘ کے نام سے رونق لگا لی۔
اس دوران ناطق مسلسل لکھتے اور شائع ہوتے رہے۔ ادبی دنیا ناطق کی رفتار، تنوع اور اثرانگیزی پر حیران و پریشان تھی۔محمد حنیف نے ناطق کے ایک افسانے کا ترجمہ کیا جسے معروف ادبی میگزین گرانٹا نے 2012 میں شائع کیا۔ناطق کہتے ہیں، ”اس کے بعد مجھے پینگوئن بکس کی طرف سے کال آئی۔ وہ میری کتابیں شائع کرنا چاہتے تھے۔ بعد میں انہوں نے افسانوں کی کتاب 'قائم دین‘ اور ناول 'نو لکھی کوٹھی‘ شائع کیا۔
"اب تک علی اکبر ناطق کی 16 کتابیں شائع ہو چکی ہیں جن میں دو افسانوی مجموعے، تین ناول، سات شعری مجموعے، تین تحقیقی و تنقیدی کتابیں اور ایک خود نوشت شامل ہے۔
فکشن، نان فکشن، شاعری اور تنقید جیسی مختلف اصناف میں ناطق نے اپنا آپ منوایا جو ان کی ہمہ گیر شخصیت کی عکاسی کرتا ہے۔
عمارتیں جنہیں گرمیوں میں اے سی اور سردیوں میں ہیٹر کی ضرورت نہ ہو گیعلی اکبر ناطق قلم کے مزدور ہوئے تو مٹی روڑے سے رشتہ نہ توڑا۔
وہ فن تعمیر میں بھی ایک الگ پہچان بنا رہے ہیں۔ اگرچہ راج مستری ان کے خون میں شامل ہے مگر کتابی دنیا سے وہ دوبارہ مٹی گارے میں کیسے اترے۔؟اس حوالے سے وہ ڈی ڈبلیو اردو کو بتاتے ہیں، ”مرزا غالب کتاب گھر میں ایک معمول کی محفل جمی تھی۔ ایک دوست نے کہا وہ گھر بنوا رہا ہے لیکن سارے مستری کنکریٹ کا قید خانہ کھڑا کر دیتے ہیں، کچھ سمجھ نہیں آ رہا کیا کروں۔
میں نے اسے آفر کی اور اس کا گھر بنا ڈالا۔”بعد میں امریکہ گیا تو ادبی محفلوں اور پرستاروں کے سبب مالی آسودگی حاصل ہوئی، واپس آیا تو کورونا کی بلا پنجے گاڑھ چکی تھی۔ بیٹھے بیٹھے گھر تعمیر کرنے کا خیال آیا جس کی انفرادیت سوشل میڈیا پر کیش ہو گئی۔"
ناطق کا خیال ہے دنیا کو تباہ کرنے میں سب سے زیادہ کردار سرمایہ دار کا ہے جو ہر چیز کی قدر و قیمت مالی نفع نقصان سے ماپتا ہے، ادب اور فن تعمیر بھی اس کے دست ہوس سے نہ بچ سکے۔
ناطق کے بقول، ”سیمنٹ کے گھر ہمارے ماحول سے ہم آہنگ ہو ہی نہیں سکتے، سرمایہ کار نے ہمیں اس پہ لگا دیا۔ پہلے سیمنٹ اور بجری فروخت ہوتی ہے، پھر اے سی اور ہیٹر۔ ہمارا قدیم فن تعمیر جمالیاتی اعتبار سے زیادہ خوبصورت اور ماحول کے موافق تھا۔ میں نے اسی قدیم فن تعمیر کو زندہ کرنے کی کوشش کی۔"
ان کے بقول، ”فن تعمیر میں بھی ندرت خیال کام آئی۔
فنکار ہر رنگ میں فنکار ہوتا ہے۔"اسلام آباد میں جامعہ ولایہ کی شاندار عمارت تعمیر کرنے کے بعد ناطق کا اگلا پڑاؤ سکردو ہے جہاں وہ قدیم طرز کی چار عمارتیں تعمیر کرنے جا رہے ہیں۔
سولہ کتابیں لکھنے کے بعد ناطق کا تخلیقی مانجھا ڈھیلا نہیں پڑا۔ وہ کہتے ہیں،”پانچ کتابیں تیاری کے مختلف مراحل میں ہیں۔ مجھے کائنات کی کوکھ سے ابھی بہت کچھ برآمد کرنا اور لفظوں میں قید کرنا ہے۔"
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اسلام آباد میں اکادمی ادبیات علی اکبر ناطق ناطق کہتے ہیں شائع ہو میں بھی ناطق کی کے بعد
پڑھیں:
نرملا سیتارامن کی ساڑھی کا رنگ بجٹ کی شناخت کیسے کرتا ہے؟
نئی دہلی (انٹرنیشنل ڈیسک) نرملا سیتارامن کی ساڑھی کا رنگ بجٹ کی شناخت کیسے کرتا ہے؟
ایپ میں تصاویرہر بجٹ خصوصی ہوتا ہے اور اس سے ملک کی ترقی کی رفتار تیز ہوتی ہے۔ وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن کی ساڑھی ان تمام نشانیوں سے جڑی ہوئی ہے۔
ایپ میں تصاویرآئیے جانتے ہیں کہ گزشتہ 7 بار بجٹ پیش کرنے کے لیے وزیر خزانہ نے کس رنگ کی ساڑھی پہنی اور اس کا کیا پیغام تھا؟
ایپ میں تصاویرسال 2019 میں ہندوستان کی وزیر خزانہ نرملا سیتارامن نے گلابی رنگ کی ساڑھی پہن کر بجٹ پیش کیا۔ گلابی رنگ کو استحکام اور سنجیدگی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
ایپ میں تصاویرسال 2020 میں وزیر خزانہ نرملا سیتارامن نے پیلے رنگ کی ساڑھی میں عام بجٹ پیش کیا۔ پیلا رنگ جوش اور توانائی کی علامت ہے۔
ایپ میں تصاویرسال 2021 کے عام بجٹ کے دوران نرملا سیتارامن نے سرخ رنگ کی سا ڑھی پہن کر بجٹ پیش کیا۔ سرخ رنگ کو طاقت اور عزم کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
ایپ میں تصاویرسال 2022 میں بجٹ کی پیشکشی کے دوران وزیر خزانہ نرملا سیتارام ن نے بھورے رنگ کی ساڑھی پہنی تھی۔ یہ رنگ تحفظ کی علامت ہے۔
ایپ میں تصاویرسال 2023 میں ملک کی وزیر خزانہ نرملا سیتارامن نے سرخ اور کال ی ساڑھی میں بجٹ پیش کیا۔ یہ رنگ ہمت اور طاقت کی علامت ہے۔
ایپ میں تصاویرسال 2024 کے عبوری بجٹ کے دوران وزیر خزانہ نرملا سیتارامن کو نیلے رنگ کی ساڑھی میں دیکھا گیا تھا۔ اسے پرسکون رنگ بھی سمجھا جاتا ہے۔
ایپ میں تصاویروزیر خزانہ نرملا سیتارامن نے 2024-25 کا مکمل بجٹ پیش کرنے کے لیے میجنٹا بارڈر والی آف وائٹ ساڑھی پہنی تھی، یہ رنگ جذباتی توازن برقرار رکھتا ہے۔
مزیدپڑھیں:معاون امریکی وزیر خارجہ ڈونلڈ لو مدت مکمل ہونے پر عہدے سے سبکدوش