انجمن امامیہ بلتستان کے اجلاس میں مزید کہا گیا کہ بلتستان کے علماء نے ہمیشہ امن و امان اور بھائی چارگی کا درس دیا ہے لیکن اس طرح اہل البیت علیم السلام کی شان میں گستاخی کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی نہ ہو تو عاشقان اہل البیت خود راست اقدام کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ اسلام ٹائمز۔ صدر انجمن امامیہ بلتستان آغا باقر الحسینی کی صدارت میں علماء بلتستان کا ایک ہنگامی اجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں استور میں تکفیری مولوی عبد الرزاق کی جانب سے مہدی موعود (امام زمانہ) عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی شان میں گستاخی اور ہرزہ سرائی کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی۔ اجلاس میں اس طرح کی گستاخانہ تقاریر کو گلگت بلتستان میں فرقہ واریت پھیلانے کی مذموم سازش قرار دیا گیا اور حکمرانوں سے مطالبہ کیا گیا کہ ایسے سازشی عناصر کو فوری گرفتار کر کے قرار واقعی سزا دی جائے، بصورت دیگر جی بی کے حالات کی تمام تر ذمہ داری حکومت پر عائد ہو گی۔    انجمن امامیہ بلتستان کے اجلاس میں مزید کہا گیا کہ بلتستان کے علماء نے ہمیشہ امن و امان اور بھائی چارگی کا درس دیا ہے لیکن اس طرح اہل البیت علیم السلام کی شان میں گستاخی کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی نہ ہو تو عاشقان اہل البیت خود راست اقدام کرنے پر مجبور ہو جائیں گے، لہٰذا قانونی طور پر ان گستاخان اہل البیت کو گرفتار کر کے کیفر کردار تک پہنچایا جائے ورنہ گلگت بلتستان میں امن و سلامتی کی ضمانت کوئی نہیں دے سکتا۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: بلتستان کے اجلاس میں

پڑھیں:

خیبرپختوخوا واجبات: وفاقی حکام کا صوبائی حکومت کے مؤقف سے اتفاق

وفاقی حکام نے وفاق کے ذمے واجبات کے حوالے سے خیبرپختوخوا حکومت کے مؤقف سے اصولی اتفاق کرلیا۔

یہ بھی پڑھیں: واجب الادا 75 ارب روپے کی ادائیگی کے لیے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کا وزیراعظم کو خط

پریس سیکریٹری برائے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کی جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق پیر کو وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی زیر صدارت متعلقہ وفاقی اور صوبائی حکام کے ایک اجلاس میں وفاق پر صوبے کے واجبات پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی اور وفاقی حکام نے اس حوالے سے صوبائی حکومت کے مؤقف سے اصولی اتفاق کیا۔

اجلاس میں وفاقی وزیر خزانہ اور وزیر آبی وسائل کے علاوہ متعلقہ وفاقی سیکریٹریز جبکہ متعلقہ صوبائی اراکین کابینہ،  چیف سیکریٹری خیبر پختونخوا اور دیگر متعلقہ حکام نے شرکت کی۔

اس دوران پن بجلی کے خالص منافعے کی مد میں وفاق کے ذمے صوبے کے بقایاجات، نئے این ایف سی ایوارڈ اور ضم اضلاع کے ترقیاتی فنڈز کی فراہمی سے متعلق معاملات پر تفصیلی گفتگو کی گئی۔

متعلقہ صوبائی حکام کی طرف سے اجلاس کے شرکا کو مذکورہ معاملات پر بریفنگ۔ اجلاس میں ان معاملات کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کے لیے وفاقی سطح پر کوششیں کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی۔

صوبائی حکام نے اجلاس کو بتایا کہ پن بجلی کے خالص منافع کی مد میں وفاق کے ذمے صوبے کے 1900 ارب روپے کے بقایاجات ہیں جبکہ پن بجلی کے منافع کی ادائیگیوں  کے عبوری طریقہ کار کے تحت  بھی وفاق کے ذمے 77 ارب روپے واجب الادا ہیں۔

بریفنگ میں کہا گیا کہ ان ادائیگیوں کے طریقہ کار کے لیے آؤٹ آف دی باکس کمیٹی کا اجلاس جلد بلایا جائے۔

مزید پڑھیے: صوبے کو حقوق نہ دیے گئے تو تحریک چلائیں گے، وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا

صوبائی حکومت نے کہا کہ آؤٹ آف دی باکس کمیٹی کی سفارشات کی حتمی فیصلے کے لیے جلد سی سی آئی کے اجلاس میں پیش کی جائیں۔

اجلاس کو بتایا گیا کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا اس سلسلے میں وزیر اعظم کو مراسلہ بھی ارسال کرچکے ہیں۔

حکام نے بتایا کہ سابقہ قبائلی علاقوں کا صوبے کے ساتھ انتظامی انضمام تو ہوگیا لیکن مالی انضمام ابھی تک نہیں ہوا۔ قبائلی علاقوں کے انضمام سے صوبے کی آبادی مجموعی ملکی آبادی کے 14.7 فیصد سے بڑھ کر 17.7 فیصد ہوگئی لہٰذا آبادی کے تناسب سے این ایف سی میں صوبے کا حصہ 14.2 فیصد سے بڑھ کر 19.46 بنتا ہے اور اس حساب سے صوبے کو این ایف سی میں سالانہ 350 ارب روپے ملنے ہیں۔

صوبائی حکومت کا کہنا تھا کہ اس سلسلے وفاقی حکومت جلد سے جلد موجودہ این ایف سی ایوارڈ پر نظرثانی کرے۔ اس وقت ضم اضلاع کے اخراجات جاریہ بھی وفاقی حکومت کے ذمے ہیں۔ رواں مالی سال کے لیے ضم اضلاع کے اخراجات جاریہ کا حجم 127 ارب روپے ہے لیکن اس کے مقابلے میں وفاقی حکومت نے صرف 66 ارب روپے مختص کیے ہیں۔

صوبائی حکومتنے بتایا کہ باقی خسارہ صوبائی حکومت اپنے وسائل سے پورا کر رہی ہے لہٰذا وفاقی حکومت اس بجٹ کو بڑھانے کے لیے فوری اقدامات کرے۔

مزید پڑھیں: خیبرپختونخوا میں مجوزہ مائنز اینڈ منرلز بل پر پی ٹی آئی حکومت مشکل میں، اپنے ہی ارکان کی مخالفت

اجلاس میں بتایا گیا کہ ضم اضلاع کے عارضی طور پر نقل مکانی کرنے والے لوگوں کی آبادی کاری کے لیے وفاق نے مزید  66 ارب روپے دینے ہیں۔ ضم اضلاع کے 10 سالہ تیز رفتار ترقیاتی پروگرام کے لیے وفاق نے سالانہ 100 ارب فراہم کرنے تھے۔ اس مد میں وفاق نے اب تک 600 ارب روپے کے مقابلے میں صرف 122 ارب روپے فراہم کیے ہیں

صوبائی حکومت کا مؤقف تھا کہ وفاق کی طرف سے اے آئی پی پروگرام کے لیے کمیٹی کی تشکیل غیر قانونی اقدام ہے۔

 اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے علی امین گنڈاپور نے کہا کہ  پن بجلی کے منافع،  این ایف سی اور ضم اضلاع کے فنڈز سے متعلق ہمارے سارے مطالبات آئینی اور قانونی ہیں اور ہم نہ کوئی غیر قانونی مطالبہ کر رہے ہیں نہ ہی کچھ اضافی مانگ رہے ہیں لہٰذا ان معاملات سے متعلق وفاقی حکومت آئینی اور قانونی تقاضوں کو پورا کرے۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ ضم اضلاع کے مخصوص حالات وفاق کے خصوصی توجہ کے متقاضی ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ این ایف سی ایوارڈ پر نظرثانی کے لیے وفاقی حکومت جلد اجلاس بلائے۔

اس موقعے پر وفاقی حکام نے یقین دہانی کرائی کہ ضم اضلاع کے فنڈز کی فراہمی کے لیے ترجیحی بنیادوں اقدامات کیے جائیں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

خیبر پختونخوا واجبات خیبرپختونخوا وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور

متعلقہ مضامین

  • وفاقی حکومت صوبے کے آئینی و قانونی حقوق دے. علی امین گنڈا پور
  • وزیراعلٰی خیبر پختونخوا کا وفاقی حکومت سے صوبے کے آئینی و قانونی حق کا مطالبہ
  • خیبرپختوخوا واجبات: وفاقی حکام کا صوبائی حکومت کے مؤقف سے اتفاق
  • غیر قانونی افغان باشندوں، کارڈ ہولڈرز کا انخلاء تیزی سے جاری
  • امریکی ٹیرف، پاکستانی برآمدات کے حجم میں ایک ارب ڈالر سے زائد کی کمی کا خدشہ
  • حکومت نے بسنت پر عائد پابندی اٹھانے پر غور شروع کردیا
  • امریکی صدر کا سیمی کنڈکٹر انڈسٹری کی مصنوعات پر جلد محصولات عائد کرنے کا اعلان
  • گلگت بلتستان کے کسانوں کے لیے ’آئس اسٹوپاز‘ رحمت کیسے؟
  • مذاکرات ہو رہے ہیں کس سے ہو رہے ہیں یہ تو پارٹیاں بتا سکتی ہیں:شیخ رشید
  • پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹلز خالی، غیر قانونی قابضین کو سامان واپس کرنے کا فیصلہ