روزنامہ جسارت حق وسچائی کا ترجمان سمجھا جاتا ہے: اے ایچ خانزادہ
اشاعت کی تاریخ: 25th, January 2025 GMT
کراچی (رپورٹ:منیر عقیل انصاری)پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس دستور کے سیکرٹری جنرل اے ایچ خانزادہ نے کہا کہ کراچی سے شائع ہونے والا جسارت ایک مشہور روزنامہ ہے۔ جسارت کو حق و سچائی کا ترجمان سمجھا جاتا ہے۔ جسارت کی اشاعت 1970ء میں شروع ہوئی اس وقت سے اس روزنامے کو دائیں بازو کی قوتوں کا حقیقی ترجمان سمجھا جاتا ہے۔جبکہ جسارت کی خصوصیات میں شامل ہے کہ یہاں سے ہو کر گزرنے والے صحافیوں نے بڑے اداروں میں بہترین مقام حاصل کیا ہے۔
اے ایچ خانزادہ نےان خیالات کا اظہار ہفتے کےروز روزنامہ جسارت کراچی کے دفتر کے دورے کے موقعے پرکیا۔ جسارت کے دورے کے موقعے پر انہوں نے جسارت کے سابق چیف رپورٹر قاضی جاوید باسط ،رپورٹر منیرعقیل انصاری ،محمد علی فاروق ،سب ایڈیٹر محمد ایوب ،کمال اشرف سمیت دیگر لوگوں سے ملاقات کی او ر ملازمین کے مسائل کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا ۔
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس دستور کے سیکرٹری جنرل اے ایچ خانزادہ نےروزنامہ جسارت کراچی کے ماضی و حال کے بارے میں تفصیلی گفتگو کی اور کہا کہ جسارت سے میری خوشگوار یادیں وابستہ ہیں ۔ جسارت پیشانی سے لیکر پرنٹ لائن تک ہر سطر جسارت ہے جو حقائق کو بلا خوف و خطر سامنے لاتا ہے ۔ جسارت اپنی روایت کے مطابق حق اور سچ کی آواز ہے اور عام آدمی کی آواز اقتدار کے ایوانوں تک پہنچاتا ہے ،جسارت کراچی کے شہریوں اور مظلوم طبقات کی نمائندگی کرتا ہے ۔
ان کا کہنا تھاکہ روزنامہ جسارت کراچی پرعمومی طور پرجماعت اسلامی کی طرف داری کا الزام لگایا جاتا ہے مگر اس میں جماعت اسلامی کے رہنماؤں و تنظیم کے خلاف بھی خبروں کی اشاعت ہوتی ہے ۔دوسری طرف پاکستان کے ان چند صحافتی اداروں میں روزنامہ جسارت سر فہرست ہے جنھوں نے زرد صحافت کا قلع قمع کیا ہے۔
انہوں نے روزنامہ جسارت کراچی کے حوالے سے تفصیلی اظہار خیال کے دوران کہا کہ جسارت اخبار کراچی سمیت پاکستان کےدیگر شہروں سے شائع ہو رہا ہے اور اپنی صحت مند صحافت بہتر طباعت اور مثبت رجحان کی وجہ سے بے حد مقبول ہے ۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: روزنامہ جسارت کراچی جسارت کراچی کے جاتا ہے
پڑھیں:
مختلف نظریات اور ان کا مفہوم
گزشتہ دنوں میرا ایک کالم بہ عنوان چند اہم نظریات اور ان کا مفہوم شایع ہوا جس پر دوستوں بالخصوص طلبا کی بڑی تعداد نے اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا۔ ایک طالبعلم نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ اس موضوع پر مزید کالم لکھا جائے، طالبعلم کی خواہش کو مدنظر رکھ کر اس موضوع پر دوسرا کالم حاضر خدمت ہے۔ انسانی معاشروں کی تکمیل میں نظریات کا اہم کردار رہا ہے، نظریات کی تبدیلی سے زندگی کا لائحہ عمل تبدیل ہوجاتا ہے۔ اس لحاظ سے نظریات کے مطالعے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ آئیے! چند مزید اہم نظریات اور ان کے مفہوم کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
مارکسزم : کارل مارکس کے نظریات کے مجموعہ کو مارکسزم کا نام دیا جاتا ہے، اس کے نزدیک معاشرے کی انقلابی تبدیلی لانے والے عوامل معاشی ہیں ان کو ہی اولین حیثیت حاصل ہے۔ یہ نظریہ مزدوروں پر حکمران طبقے کے اثرات کا تجزیہ کرتا ہے اور دولت و مراعات کی غیر مساوی تقسیم پر مزدوروں کو ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرنے کی تلقین کرتا ہے۔
مادیت پرستی: اس نظریے کی رو سے مادہ ہی کائنات کا بنیادی عنصر ہے غیر مادی ہستی کا کوئی وجود نہیں جس طرح توانائی مادہ کی ترقی یافتہ صورت ہے اسی طرح ذہن، شعور اور روح بھی مادے کی ترقی یافتہ صورت ہے جو لطیف صورت اور حرکت کی صورت میں موجود ہے۔ اس نظریے کو Metrealism کا نام دیا جاتا ہے۔
انسانیت : یہ نظریہ بنیادی طور پر اس تصور کا نام ہے جو ایک انسان کو دوسرے انسان سے جوڑتا ہے۔ اس نظریے کے تحت کرہ ارض پر بسنے والے تمام انسان یکساں طور پر بنیادی ضروریات اور سہولتوں کے لحاظ سے مساوی حقوق کے حق دار ہیں، یعنی یہ نظریہ عظیم تر انسانی فلاح و بہبود پر زور دیتا ہے۔
امن پسندی: امن کا تصورکسی بھی معاشرے میں تشدد کی غیر موجودگی سے تعبیرکیا جاتا ہے۔ اس کیفیت میں معاشرے کے تمام افراد کو سماجی، سیاسی اور معاشی حقوق اور تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ امن پسندی کا نظریہ تنازعات کو جنگ اور تشدد کے ذریعے حل کرنے کی شدید مخالفت کرتا ہے اور تمام تنازعات کو پرامن اور خوشگوار ماحول میں حل کرنے کا خواہش مند ہوتا ہے۔
تاریخیت : یہ نظریہ واقعات اور مظاہرکو تاریخی تناظر میں سمجھنے پر زور دیتا ہے۔ یہ ایک ادبی اصطلاح ہے، ہر ادیب اور شاعر اپنی معاشرتی فضا اور مخصوص عقلی رویوں کے تحت ادب تخلیق کرتا ہے، اس فضا اور رویوں کا عکس کسی نہ کسی حد تک اس کی تحریروں میں دکھائی دیتا ہے۔ اس لیے اس دورکے ادب کا جائزہ لیتے وقت اس دورکے تصورات اور خیالات کے سیاق و سباق کو سامنے رکھنا چاہیے۔ انگریزی میں اسےHistoricism کہتے ہیں۔
عقلیت پرستی : کسی بھی معاملے کی منطقی تشریح کرنے پھر اس سے نتیجہ اخذ کرنے کے عمل کی صلاحیت کو عقل کہتے ہیں جو کسی نہ کسی حد تک ہر انسان میں فطری طور پر موجود ہوتی ہے جو انسان اپنے تجربات اور مشاہدات سے حاصل کرتا ہے جب یہ نظریہ رکھنا کہ وہی بات درست ہے جسے عقل تسلیم کرتی ہے اس نظریے کو عقلیت پرستی کا نام دیا جاتا ہے۔
رجائیت : رجائیت کے لفظی معنی محبت، پرامید، پرعزم اور حوصلے کے ہیں، یہ نظریہ رکھنا کہ ہم تمام ممکن دنیاؤں کی نسبت بہترین دنیا میں رہتے ہیں اس نظریے کو رجائیت کا نام دیا جاتا ہے۔
قنوطیت : قنوطیت کے لفظی معنی مایوسی، ناامیدی اور نامرادی کے ہیں یعنی یہ رجائیت کی ضد ہے۔ اصطلاح میں چیزوں اور واقعات کو تاریک اور بدترین پہلو کو دیکھنے کا رجحان اور یہ یقین رکھنا کہ خوشی اور امید ناقابل حصول ہے، اس لیے اس کی کوشش رکھنا بے کار ہے یہ نظریہ قنوطیت کہلاتا ہے۔
انتہا پسندی : اس نظریے کی سادہ سی تعریف کی جائے تو اپنے نظریات و عقائد، خیالات پر دیگر عقائد پر مقدم رکھنا اور انھی کے درست ہونے پر اصرار کرنا انتہا پسندی کہلاتا ہے۔ اس نظریے کے ماننے والوں میں اختلاف رائے کا فقدان ہوتا ہے وہ دوسروں کے خیال کو قبول نہیں کرتے۔
وحدت الوجود : یہ تصور رکھنا کہ کائنات اور خدا علیحدہ نہیں بلکہ باہم ایک ہیں جس طرح قطرہ اور سمندر ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں اسی طرح کائنات اور خدا علیحدہ نہیں، انسان خدا کی ذات کا جز ہے۔
وحدت الشہود : یہ تصور رکھنا کہ خدا اورکائنات الگ ہیں سب موجودات خدا کے مظاہر ہیں مثال مصور اور تصویر کی ہے مصور تصویر بناتا ہے مصور اور تصویر علیحدہ وجود رکھتے ہیں۔
کلیت پسندی : یہ انسانی فطرت ہے کہ انسان جب کسی چیزکا مشاہدہ کرتا ہے تو اس کی تمام جزئیات پر غورکرتا ہے لیکن کلیت پسندی کا نظریہ اس بات کی نفی کرتا ہے اور وہ یہ بتاتا ہے کہ کسی چیز کے اجزا کو کل کے حوالے سے ہی سمجھا جاسکتا ہے، یہ ایک فلسفیانہ نقطہ نظر ہے جو نظاموں کو محض ان کے حصوں کے مجموعے کے بجائے مربوط اور مکمل طور پر دیکھنے پر زور دیتا ہے۔ اس نظریہ کا اطلاق مختلف شعبوں بالخصوص طب کے شعبے میں زیادہ ہوتا ہے۔
تخفیف پسندی : یہ نظریہ کلیت پسندی کی ضد ہے۔ یہ نظریہ اس بات کو نظراندازکرتا ہے کہ اجزا بڑے تناظر میں کیسے کام کرتے ہیں، یہ نظریہ مخصوص عناصرکو آسان اجزا میں توڑ کر الگ الگ مطالعہ کرنے پر زور دیتا ہے۔
عملیت : یہ نظریہ رکھنا کہ تصورات عقائد اور صداقتوں کی نتائج کے حوالے سے وضاحت ضروری ہے، اگر تصورات واضح نہ ہوں اور انھیں عمل کی کسوٹی پر پرکھا نہ جاسکے تو ان کی کوئی اہمیت نہیں، اس لیے اس نظریے کو نتائجیت کا نام بھی دیا جاتا ہے۔
تعاملیت : Inteactionism اس نظریے کے تحت طبعی وقوعہ دینی وقوعہ اور ذہنی وقوعہ طبعی وقوعہ کا سبب بنتے ہیں، اگر آپ کے جسم پر چوٹ لگی ہے تو یہ طبعی وقوعہ ہے آپ درد محسوس کرتے ہیں تو یہ ذہنی وقوعہ ہے۔ آپ غصہ کرتے ہیں تو ذہنی وقوعہ اور اس کے نتیجے میں آپ کا چہرہ سرخ ہو جاتا ہے تو یہ طبعی وقوعہ ہے۔ دوسرے الفاظ میں ذہن اور جسم میں تعامل پایا جاتا ہے، اس نظریے کو تعاملیت کا نام دیا جاتا ہے۔
ساختیات : ہماری ذہنی کیفیت سے دوسری ذہنی کیفیت جڑی ہوئی ہے، ایک واقعہ دہرانے سے دوسرا وقوعہ یاد آجاتا ہے۔ ساختیات نظریہ کے تحت ہر چیزکسی دوسری چیز کے حوالے سے سمجھ میں آ سکتی ہے محض ایک عنصر خود سے محسوس نہیں کیا جاسکتا، گویا ساختیات کا نظریہ انفرادی اشیا کے انفرادی اجزا کے بجائے رشتوں میں دلچسپی رکھتا ہے۔ اسے انگریزی میں Structuralism کا نام دیا جاتا ہے۔
کرداریت : ہمارے عمال ماحولیاتی محرکات سے تشکیل پاتے ہیں، یہ نظریہ رکھنا کرداریت Behaviourism کہلاتا ہے۔