ملک اشرف : پاکستان کالج آف لاء میں 12 ویں بین الاقوامی  موٹ کورٹ کے مقابلوں میں سٹوڈنٹس نے بھرپور حصہ لیا، ججز کی جانب سے نمایاں پوزیشنیں حاصل کرنے والوں میں انعامات تقسیم  کئے گئے ۔ 

تقریب میں لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس صداقت علی خان ، جسٹس  عاصم حفیظ  ،وفاقی محتسب برائےحراسگی تحفظ خواتین ، فوزیہ وقار کی بطور ججز شرکت  کی۔ 

پاکستان کالج آف لاء  گارڈن ٹاؤن میں قانون کے طلبہ کے لئے وکالت پریکٹس کے عملی مظاہرے کئے گئے۔ پاکستان کالج آف لاء میں فرضی عدالت میں قانون کے طلبہ نے وکیل بن کر بھرپور دلائل دئیے ۔

منہاج یونیورسٹی لاہور : "ورلڈ اسلامک اکنامکس اینڈ فنانس کانفرنس" کا آغاز

دو روزہ موٹ کورٹ مقابلوں  میں ملک بھر  اورآزاد کشمیر سے 32 لاء کالجز کی ٹیموں نے  شرکت کی ۔ موٹ کوٹ مقابلوں میں آزادی اظہار رائے کے متعلق گفتگو ہوئی، آزادی صحافت کے موضوع پر سٹوڈنٹس نے بھرپور دلائل دئیے،سٹوڈنٹس نے آزادی اظہار رائے اور اس کے متعلق قوانین  کے حوالے سے بھی دلائل دئیے ،ججز نے قانون کے ذہانت اور بھر پور دلائل پر سٹوڈنٹس کی کارکردگی کو سراہا ۔

جسٹس صداقت علی خان نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کالج آف لاء اور پروفیسر ہمایوں احسان کی تعریف کی ۔ تقریب سے لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس عاصم حفیظ اور وفاقی محتسب فوزیہ وقار نے بھی  اظہارِ خیال  کیا ۔ تقریب میں ڈین پاکستان کالج آف لاء پروفیسر ہمایوں احسان ،پرنسپل تسنیم کوثر ، وائس پرنسپل  بابر فرحان ،پروفیسر شبنم اسحاق ، پروفیسر محمد افضل خان ،لائبہ ارشاد ، آصف صغیر ، پروفیسر محمد مصطفی خان، علی حسنین سمیت دیگر نے شرکت کی۔ 

آسکر ایوارڈ 2025 کی نامزدگیوں کا اعلان کردیا گیا

موٹ کوٹ مقابلوں کےفائنل راؤنڈ میں نمایاں پوزیشنز حاصل کرنے والوں کو انعامات بھی دئیے گئے ۔

پرنسپل پاکستان کالج آف لاء پروفیسر تقسیم کوثر نے تقریب کے آخر میں تقریب میں شرکت پر جسٹس صداقت علی خان ،جسٹس عاصم حفیظ سمیت شرکاء ججز کا شکریہ ادا کیا۔ پاکستان کالج آف لاء کی جانب سے  جسٹس صداقت علی خان ،جسٹس عاصم حفیظ  اور وفاقی محتسب فوزیہ وقارکو سونئرز پیش کئے گئے گئے ۔ 

.

ذریعہ: City 42

کلیدی لفظ: جسٹس صداقت علی خان عاصم حفیظ

پڑھیں:

عدلیہ کا کردار

تاریخ کاسبق یہی ہے کہ اس سے کوئی کوئی ہی سبق سیکھتا ہے۔ہم تو بالکل بھی نہیں سیکھتے کہ ہم جو ٹھہرے دائروں کے مسافر۔نہ آگے بڑھنے کی لگن نہ چاہ اور نہ ہی راہ۔تھوڑے وقفے کے بعد اسی مقام پر کھڑے ہوتے ہیں یہاں سے مشکل سے گزرہوا تھا۔آج سپریم کورٹ اور حکومت کے حالات دیکھ کرانیس سو ستانوے یاد آگیا۔یہی کچھ تھاجو آج ہے بس اس وقت حکمران نوازشریف تھے آج ان کے بھائی ہیں۔
فروری 1997میں عام انتخابات میں مسلم لیگ ن دوتہائی اکثریت کے ساتھ حکومت میں آگئی ۔ نوازشریف وزیراعظم بنے جوایک بار آٹھویں ترمیم سے خود اوردوبار بے نظیر کواسی صدارتی اختیار کا شکار ہوتے دیکھ چکے تھے۔اب تہیہ کیا کہ اس اختیار کو ختم کریں گے تاکہ قصر صدارت سے جو خطرہ ہر وقت لب بام رہتا ہے اس سے تو چھٹکارا پایا جائے ۔اختیار بھی پاس تھا کہ دوتہائی اکثریت کی حکومت تھی۔موقع بھی تھا کہ فاروق لغاری صدر تھے اورایک حکومت کو شکار کرچکے تھے۔منہ کو خون تو لگ ہی چکا تھا ۔نوازشریف پیچھاچھڑانا چاہتے تھے کہ جس صدر نے اپنی پارٹی کی وزیراعظم کا خیال نہ کیا اورحکومت توڑ کر گھر بھیج دیا وہ نوازشریف کو کیونکر بخشیں گے۔اصل کشمش یہ تھی کہ اگر فاروق لغاری کوہٹانے کا کام فی الحال نہ بھی ہو لیکن کم از کم ان سے اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار فوری چھین لیا جائے۔نوازشریف نے حکم کیا ۔آئین کی تیرھویں ترمیم تیار ہوئی اوراسمبلی سے پاس ہوکر قانون بن گیا ۔فاروق لغاری نہتے صدر بن کر رہ گئے۔
اس نقطے سے عدلیہ کی انٹری ہوگئی۔ جسٹس سجاد علی شاہ چیف جسٹس تھے۔وہ تین سال سے اس عہدے پر تھے لیکن حکومتی معاملات میں ٹانگ اڑانے کا ٹریک ریکارڈ بالکل بھی نہیں تھا بلکہ یہاں تک ایک فیصلے میں کہہ چکے تھے کہ آٹھویں ترمیم ایک ڈکٹیٹرنے آئین میں ڈالی تھی اس کو ختم ہونا چاہئے لیکن اس کو ختم کرنا عدلیہ کا کام نہیں ہے ۔اسمبلی کو قانون سازی کے ذریعے اس ترمیم کوختم کرنا چاہئے۔ نوازشریف کے سامنے چیف جسٹس کایہ فیصلہ تھا اس لیے انہیں ذرا بھی خطرہ نہیں تھا کہ عدلیہ اس سیاسی معاملے میں دخل دے گی لیکن پاکستان میں کبھی کچھ بھی مستقل کہاں رہتا ہے۔
ایک طرف ایوان صدر تھا تو دوسری طرف سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے حکومت سے اختلافات ہوگئے ۔ انہوں نے سپریم کورٹ میں پانچ جج تعینات کرنے کے لیے بھجوائے تو وزیراعظم نوازشریف نے ان میں سے دونام مسترد کردیے بلکہ یہ تک کہا کہ سپریم کورٹ میں مزید ججز کی ضرورت ہی کیا ہے۔انہوں نے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد کم کرنے کی کوشش بھی کی لیکن کامیاب نہیں ہوسکے۔ ان اقدامات نے جسٹس سجاد علی شاہ کو طیش دلایا انہوں نے نوازشریف کو توہین عدالت میں سپریم کوٹ بلوالیاوزیراعظم نے توہین عدالت میں غیرمشروط معافی مانگ لی لیکن سجاد علی شاہ نے ان کی معافی قبول کرنے سے انکارکردیا۔اس بات پر حکمران جماعت نے شدید ردعمل دیا اورسپریم کورٹ پر حملہ ہی کردیا۔
اس وقت سیاسی افراتفری یہاں تک پہنچ چکی تھی کہ سب کو مارشل لا ءلگنے کا یقین ہوگیا تھا۔ آرمی چیف جہانگیر کرامت نے حکومت مخالف قوتوں کا ساتھ دینے سے انکارکردیا کہ ابھی ملک میں الیکشن کو ہوئے نو ماہ بھی نہیں گزرے ہیں تو اتنی جلدی ایک اور الیکشن کیسے ہوسکتا ہے۔اور دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ سب جانتے تھے کہ اس وقت نوازشریف اپنی مقبولیت کے عروج پر ہے اسمبلی تحلیل بھی ہوگئی تو وہ دوبارہ جیت جائیں گے اس لیے اسمبلی توڑمہم ناکام ہوگئی ۔اس مہم کے ناکام ہونے کے بعد صدر فاروق لغاری کو استعفیٰ دینے پر رضامند کرلیا گیا۔فاروق لغاری راستے سے ہٹ گئے۔ وسیم سجاد جو چیئرمین سینیٹ تھے قائم مقام صدر بن گئے۔
اس کے بعد نوازشریف حکومت چیف جسٹس سجاد علی شاہ سے نمٹنے کے لیے تیار ہوگئی۔سپریم کورٹ مکمل تقسیم ہوچکی تھی۔ سپریم کورٹ کے دس ججوں نے اپنے چیف جسٹس کو ان کی تقرری کے کیس میں بینچ کے سامنے بلوالیا۔اس کیس میں سپریم کورٹ کے باغی ججز نے اپنے ہی چیف جسٹس کو کام کرنے سے روک دیا۔یہ دسمبر 1997کا پاکستان تھا۔چیف اور صدر کو گھر بھیجنے کے بعد نوازشریف نے جسٹس اجمل میاں کو چیف جسٹس اور رفیق تارڑ کوصدربنادیا اورحکومت کرنے لگے۔انہوں نے آئین میں چودھویں ترمیم کی جس میں فلورکراسنگ پر پابندی لگادی گئی ۔تمام اختیارات صدرسے لے کر وزیراعظم کو دے دیے گئے۔آٹھویں ترمیم کا خاتمہ ہوا۔ یہ سب کچھ کرنے کے باوجود بھی نوازشریف کی حکومت مدت پوری کرنے میں ناکام رہی اور انجام مشرف کے مارشل لاپر ہوا۔
آج کی سپریم کورٹ میں بھی ستانوے جیسی صورت حال نظر آ رہی ہے۔ ملک میں جاری سیاسی تقسیم نے پاکستان کے سب سے بڑے عدل کے فورم کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ مسئلہ کسی اصولی مو¿قف سے جڑا ہوا نہ کل تھا نہ آج ہے۔ مسئلہ طاقت اور عہدے ہیں۔حکومت نے بندیال کی سپریم کورٹ اور اس سے پہلے ثاقب نثار کے ہاتھوں ”کمبل کُٹ“ کھانے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ آئینی مقدمات جن سے براہ راست حکومت کے مفلوج ہونے کا خطرہ منڈلاتا ہے اس کا بندوبست کرنے کےلئے آئینی ترمیم لائی جائے۔ حکومت نے چھبیسویں آئینی ترمیم تو کرلی لیکن معزز مائی لارڈز میں جن کو اس ترمیم کا ”فیض“ باہم نہیں مل سکا وہ اب غصے میں ہیں۔جناب معزز مائی لارڈ منصور علی شاہ صاحب جنہوں نے مخصوص نشستوں کا فیصلہ کرتے وقت آئین اور قانون کو نیپال بھیج کر آئین کی تشریح کی بجائے دوبارہ آئین تحریراس لیے کردیا کہ کہیں حکومت کو دوتہائی اکثریت نہ مل جائے کہ وہ آئین میں کوئی ترمیم کرسکے۔
حکومت تو حکومت ہوتی ہے اس نے آئینی ترمیم کا پھر بھی بندوبست کر لیا۔ چیف جسٹس بننے کے لیے ہر حد تک جانے کی جدوجہد کو دیکھتے ہوئے حکومت نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے لیے یحییٰ آفریدی کو منتخب کرلیا۔اوپر سے منصور علی شاہ صاحب کو آئینی بینچ سے بھی دورکردیا گیا۔ اب بھلے وہ قاضی ہیں جس کا کام آنکھوں پر پٹی باندھ کر انصاف کرنا ہے لیکن وہ ایک انسان بھی توہیں۔ یہ انسانی وصف ان کو چین ہی نہیں لینے دے رہا۔وہ ہر صورت اس ترمیم اور اس کے نتیجے میں ہونے والے اقدامات کو لپیٹنا چاہتے ہیں۔تازہ واردات سپریم کورٹ کے ایڈیشنل رجسٹررارکیخلاف توہین عدالت کیس ہے جس کافیصلہ محفوظ ہے لیکن سوال ہے کہ کیا سپریم کورٹ اس ملک کے عوام کا بھی کوئی بھلا کبھی کرے گی یا طاقت کی لڑائی کا مہرہ ہی بنی رہے گی؟

متعلقہ مضامین

  • پیکا ایکٹ میں ترمیم، آزادی صحافت پر حملہ نہیں ہونے دیں گے، حافظ نعیم الرحمٰن
  • آزادی صحافت پر حملہ قبول نہیں، حافظ نعیم نے پیکا ایکٹ کی مخالفت کردی
  • عدلیہ کا کردار
  • آزادی صحافت پر حملہ قبول نہیں، حافظ نعیم الرحمٰن نے پیکا ایکٹ کی مخالفت کردی
  • امریکا میں کسی بھی اینٹی چائنہ تقریب میں شرکت نہیں کی، وزیرداخلہ کی امریکا میں میڈیا سے گفتگو
  • خیبر پختونخوا اسمبلی نے پیکا ترمیمی ایکٹ کیخلاف مذمتی قرارداد منظور کرلی
  • 26 ویں آئینی ترمیم پارلیمنٹ کے سوا کسی ادارے نے ختم کی تو اسے کوئی نہیں مانے گا: بلاول بھٹو
  • سپریم کورٹ؛ قتل کے الزام میں قید مجرم کو بری کرنے کا حکم
  • اقتدار کے دوام کیلیے جعلی حکومت نے آزادیٔ صحافت کو بھی نگل لیا، بیرسٹر سیف