Daily Ausaf:
2025-01-27@04:33:05 GMT

انسانی حقوق کا مغربی فلسفہ اور امتِ مسلمہ

اشاعت کی تاریخ: 25th, January 2025 GMT

آج کا دور انسانی حقوق کا دور کہلاتا ہے اور مغرب کا دعوٰی ہے کہ اس نے دنیا کو انسانی اقدار اور انسانی حقوق سے متعارف کرایا اور نسل انسانی کے مختلف طبقات بالخصوص کمزور طبقوں کو حقوق کا شعور بخشا۔ اس سے قبل انسانی معاشرہ جہالت، جبر، ظلم اور تشدد کی ظلمتوں اور تاریکیوں کا شکار تھا، مغرب نے اس تاریکی اور ظلمت سے نسل انسانی کو نجات دلا کر روشن خیالی اور علم کے نئے دور کا آغاز کیا۔ مغرب کے معاشرتی، سائنسی اور ثقافتی انقلاب سے پہلے کا دور تاریکی، جبر اور جہالت کا دور کہلاتا ہے، جبکہ انقلاب فرانس کے بعد سے شروع ہونے والا دور روشنی، انصاف اور علم کا دور سمجھا جاتا ہے۔
مغرب اس دعوے کے ساتھ پوری دنیا کو مسخر کرنے میں مصروف ہے اور نسل انسانی کی مختلف ثقافتوں اور تہذیبوں کو ہمہ گیر یلغار کا نشانہ بنائے ہوئے ہے۔ آج کی گفتگو میں ہم مغرب کے اس دعوے کا ایک نظر میں جائزہ لینا چاہتے ہیں اور یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ مغرب، دنیا کو تہذیب و ثقافت اور انسانی حقوق سے متعارف کرانے کے اس دعوے میں کہاں تک صداقت رکھتا ہے؟
جہاں تک مغربی ممالک کے اپنے پس منظر کا تعلق ہے، یہ بات تسلیم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ یورپ میں بادشاہت، جاگیرداری اور پاپائیت کی تکون نے صدیوں تک عام انسانی آبادی کو انسانی عزت و وقار اور بنیادی حقوق سے محروم کیے رکھا ہے۔ اس دور میں مغربی معاشرے میں انسانی شرف اور شہری حقوق کا تصور کرنا بھی جرم سمجھا جاتا تھا اور عام انسان کی زندگی جانوروں سے بدتر دکھائی دیتی تھی۔ چنانچہ اس تکون کے خلاف عوامی بغاوت کے شعلے بھڑکے تو بادشاہت، جاگیرداری اور پاپائیت کے تینوں اداروں کو پسپائی کا سامنا کرنا پڑا اور ان کے خلاف نفرت کی بنیاد پر جس انقلاب نے مغربی معاشرے کو اپنے دامن میں سمیٹا، اس نے بادشاہت، جاگیرداری اور پاپائیت کو کارنر ہونے پر مجبور کر دیا۔ صدیوں کو محیط اس زمانے میں، جسے تاریک صدیوں کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، اگر عام آدمی کی زندگی، اس کی بے بسی اور مجبوری کو دیکھا جائے تو ان میں سے کسی ایک کا نام لینے پر بھی مغربی باشندوں پر اضطراب اور بے چینی کی جو کیفیت دکھائی دینے لگتی ہے اس کی وجہ سمجھنا مشکل نہیں ہے۔
اس حوالے سے مغربی دنیا کا ماضی بلاشبہ قابل رحم ہے، لیکن کیا باقی دنیا کا پس منظر بھی یہی تھا؟ بالخصوص عالم اسلام کی صورتحال بھی کیا اسی طرح کی تھی، جسے مغرب تاریک دور قرار دے کر اپنے ردعمل کی لاٹھی سے ہانکنا چاہتا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ تاریخ اس سوال کا جواب اثبات میں نہیں دیتی اور اس پہلو سے دیکھا جائے تو مغرب کا یہ طرز عمل سراسر دھاندلی نظر آنے لگتا ہے اور وہ اپنے مخصوص پس منظر کو پوری دنیا کا پس منظر قرار دے کر اس کے ردعمل میں اپنے اقدامات کو پوری دنیا پر مسلط کرنے کے درپے ہے۔ خاص طور پر امت مسلمہ کا گزشتہ ڈیڑھ ہزار سالہ دور تو قطعی طور پر اس سے مختلف بلکہ متضاد ہے۔
اس موضوع پر بات کو آگے بڑھانے سے قبل ایک اور پہلو کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ مغرب کو چونکہ تاریک صدیوں کا سامنا کرنا پڑا اور شدید کرب و مجبوری کے طویل دور سے گزرنا پڑا ہے، اس لیے اس کا ردعمل بھی اتنا ہی شدید ہے جس میں وہ اعتدال اور توازن کا دامن ہاتھ میں نہیں رکھ سکا اور جبر کے مقابلے میں آزادی کی اس انتہا تک نسل انسانی کے ایک بڑے حصے کو لے جا کر اب پچھتانے پر مجبور نظر آتا ہے، جس انتہا نے انسانی معاشرے کی بنیادی اقدار کو پامال کر کے رکھ دیا ہے اور فرد کی آزادی اور انڈویجول ازم کے ہاتھوں خاندانی سسٹم کی تباہی مغربی معاشرے کا المیہ بن کر رہ گئی ہے۔ جبکہ اس سے ایک ہزار سال قبل اسلام نے جبر و ظلم اور وحشت و جہالت کی نفی کرتے ہوئے انسانی معاشرے کے ہر طبقے اور ہر فرد کو اس کے جائز حقوق سے نہ صرف روشناس کرایا تھا بلکہ عملاً وہ حقوق حقداروں کو دے کر اس کا عملی نمونہ بھی پیش کر دیا تھا۔
مثال کے طور پر عورت کے حقوق کو دیکھ لیجئے کہ جاہلیت کے دور میں عورت پر ہونے والے مظالم کا سدباب کر کے اسلام نے اسے انصاف اور حقوق سے بہرہ ور کیا، لیکن خاندانی نظام کے ناگزیر تقاضوں کو کراس کرنے کی بجائے مرد اور عورت دونوں کو اس فطری دائرے میں رکھتے ہوئے خاندانی نظام کا تحفظ بھی کیا۔ اس سلسلہ میں دور نبویؐ کے دو واقعات کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا جو امام بخاریؒ نے بخاری شریف میں روایت کیے ہیں۔
حضرت عمر بن الخطابؓ فرماتے ہیں کہ ہم قریش کے لوگ جاہلیت کے دور میں عورت کو کسی معاملے میں رائے کا حق نہیں دیتے تھے، مگر جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ آئے تو انصار کی عورتوں میں رائے دینے اور کسی بات پر خاوند کو ٹوک دینے کا ماحول پایا جاتا تھا جس سے ہماری عورتوں نے بھی رنگ پکڑا۔ ایک روز کسی بات پر میری بیوی نے مجھے ٹوک دیا تو مجھے سخت غصہ ایا اور میں نے اسے ڈانٹ دیا کہ تم عورتوں کا اِن کاموں میں کیا دخل ہے؟ اس نے مجھ سے کہا کہ مجھ پر ناراض ہونے کی بجائے اپنی بیٹی کی خبر لو کہ وہ بھی رسول اکرمؐ کے ساتھ سوال و جواب کرتی ہے اور نبی اکرمؐ کی ازواج مطہرات میں عام طور پر ایسا ہوتا رہتا ہے۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ میں فوری طور پر اپنی بیٹی حفصہؓ کے پاس گیا اور اس سے پوچھا کہ کیا جناب نبی اکرمؐ کی بیویاں کسی بات پر آپؐ کے ساتھ بحث کرتی ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں اس طرح ہوتا ہے اور بسا اوقات بطور میاں بیوی ہمارے درمیان ناراضگی بھی ہو جاتی ہے۔ حضرت عمرؓ کا ارشاد ہے کہ میں نے حفصہؓ کو سختی سے منع کیا کہ کم از کم تم نبی کریمؐ کے ساتھ اس طرح نہ کیا کرو، جو ضرورت ہو مجھ سے کہہ دیا کرو مگر آپؐ کے ساتھ کوئی سوال جواب نہ کیا کرو۔
حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ حفصہؓ سے بات کرنے کے بعد جناب نبی اکرمؐ کی ایک اور زوجہ محترمہ ام المومنین ام سلمہؓ کے پاس گیا جو رشتہ میں حضرت عمرؓ کی کزن لگتی تھیں، ان سے بھی وہی بات کی تو ام المومنین ام سلمہؓ نے ناراضگی کا اظہار کیا اور الٹا حضرت عمرؓ کو ڈانٹ دیا کہ آپ ہر معاملے میں مداخلت کرتے ہیں اور اب میاں بیوی کے معاملات میں بھی دخل اندازی کے لیے آ گئے ہیں۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ ام سلمہؓ کی بات سن کر میرا حوصلہ ٹوٹ گیا اور میں کسی اور سے بات کرنے کی بجائے سیدھا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا اور سارے واقعہ کی رپورٹ دی۔ جب میں نے ام سلمہؓ کی بات کا ذکر کیا تو حضورؐ مسکرائے اور فرمایا کہ ’’ھی ام سلمہ‘‘ (وہ آخر ام سلمہ ہے)۔
یہ واقعہ بیان کر کے حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ ہم جاہلیت کے دور میں عورتوں کو کسی درجہ میں شمار نہیں کرتے تھے اور نہ ہی ان کا کوئی حق سمجھتے تھے۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تشریف لا کر ہمیں عورت کے مقام و مرتبہ اور حقوق سے آگاہ کیا اور ہم نے عورتوں کو اہمیت دینا شروع کی۔
اس کے ساتھ بخاری شریف میں مذکور ایک اور واقعہ پر نظر ڈال لیجئے کہ بریرہؓ نامی ایک صحابیہ جو لونڈی تھی اور مغیثؓ نامی نوجوان کے نکاح میں تھی۔ اس لونڈی کو حضرت عائشہؓ نے خرید کر آزاد کر دیا تو آزاد ہونے کے بعد اس عورت نے اپنا ایک حق استعمال کرتے ہوئے مغیثؓ کی بیوی کے طور پر اس کے ساتھ رہنے سے انکار کر دیا۔ مغیثؓ بہت پریشان ہوئے اور مختلف لوگوں سے سفارشیں کروائیں مگر بریرہؓ نے کسی کی بات سننے سے انکار کر دیا۔ جناب نبی اکرمؐ نے ایک دن مدینہ منورہ کی گلیوں میں مغیثؓ کو گھومتے دیکھا کہ وہ روتے ہوئے جا رہے ہیں اور یہ آوازیں دے رہے ہیں کہ کوئی ہے جو بریرہؓ کو منا دے اور وہ مجھ سے الگ نہ ہو؟ یہ کیفیت دیکھ کر حضورؐ نے خود بریرہؓ سے بات کرنے کا فیصلہ کیا اور اس سے پوچھا کہ کیا وہ اپنے فیصلے پر نظرثانی کر سکتی ہے؟ بریرہؓ نے صرف اتنا پوچھا کہ یا رسول اللہؐ! کیا آپ مجھے حکم دے رہے ہیں یا بطور مشورہ یہ بات کہہ رہے ہیں؟ حضورؐ نے فرمایا کہ میری یہ بات حکم نہیں بلکہ صرف مشورہ ہے۔ تو بریرہؓ نے بے ساختہ کہہ دیا کہ مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ چنانچہ وہ مغیثؓ کے پاس واپس نہیں گئی اور آزادی کے بعد حاصل ہونے والا حق پوری آزادی کے ساتھ استعمال کیا۔
یہ دو واقعات میں نے اس لیے عرض کیے ہیں کہ عورت کے حقوق کا تصور مغربی دنیا نے شروع نہیں کیا بلکہ اس سے بارہ سو سال قبل جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے حقوق اور ظلم و جبر سے اس کی آزادی کی بات کی اور معاشرے میں عورت کی عزت و وقار کو بحال کیا۔ عورت کے حقوق اور آزادی کے حوالے سے اس نوعیت کے بیسیوں واقعات کا حوالہ دیا جا سکتا ہے جو دور نبویؐ اور خلافت راشدہ کے دور میں پیش آئے جن کی تفصیلات کا موقع نہیں ہے۔
(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: عورت کے حقوق کے دور میں رسول اللہ نبی اکرم رہے ہیں نہیں ہے کے ساتھ حقوق کا دیا کہ کے بعد کے پاس کا دور اور ان کی بات کر دیا ہے اور

پڑھیں:

مغربی کنارے میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 31 مزاحمتی کارروائیاں

مرکز اطلاعات فلسطین کی ایک رپورٹ کے مطابق ان مزاحمتی کارروائیوں میں 6 شوٹنگ آپریشنز، مسلح جھڑپیں، 12 دھماکہ خیز آلات کے زریعے دھماکے شامل ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ فلسطین کے مغربی کنارے میں گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران قابض فورسز کیخلاف 31 مزاحمتی کارروائیاں عمل میں لائی گئیں۔ مرکز اطلاعات فلسطین کی ایک رپورٹ کے مطابق ان مزاحمتی کارروائیوں میں 6 شوٹنگ آپریشنز، مسلح جھڑپیں، 12 دھماکہ خیز آلات کے زریعے دھماکے شامل ہیں۔ صیہونی آباد کاروں کا مقابلہ کرنے اور ان کی گاڑیوں کو تباہ کرنے کے لیے ایک آپریشن بھی کیا گیا، اس کے علاوہ مغربی کنارے میں 11 الگ الگ مقامات پر تصادم شروع ہونے کے ساتھ ایک مظاہرہ بھی ہوا۔ قابض فوج کا ایک سپاہی القسام کے مجاہدین کے ساتھ جھڑپ کے دوران زخمی ہوا۔ علاقے میں مسلح جھڑپیں بھی جاری رہیں، جن میں قابض فوج کی جانب سے جنین کے شہر اور کیمپ اور قباطیہ، الیمون، عربہ اور فہما کے قصبوں پر دھاوا بولنے کے دوران 12 بارودی مواد کا دھماکہ بھی کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق نابلس پر قابض فوج کے دھاوے کے دوران مسلح جھڑپیں بھی ہوئیں۔ دریں اثنا، دیر استیا قصبے کے لوگوں نے آباد کاروں کے حملے کا جواب دیتے ہوئے ان کی گاڑی کو تباہ کر دیا۔ جیریکو شہر اور ہیبرون میں بنی نعیم اور حلول کے قصبوں میں نوجوانوں اور قابض افواج کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔

متعلقہ مضامین

  • پیکا بل بنیادی حقوق کو محدود کرتا ہے، انسانی حقوق کمیشن کے تحفظات
  • پیکا بل کی قومی اسمبلی سے منظوری، ایچ آر سی پی کا اظہارِ تشویش
  • انسانی حقوق کمیشن کا پیکا ترمیمی بل 2025ء کی منظوری پر شدید تحفظات کا اظہار
  • اقوام متحدہ کا مغربی کنارے میں اسرائیل کے جنگ لڑنےکے طریقوں پر اظہار تشویش
  • پیکا بل بنیادی حقوق کو محدود کرتا ہے، انسانی حقوق کمیشن کا قانون سازی پر تحفظات کا اظہار
  • آغا علی کیخلاف بے بنیاد ایف آئی آر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے، علامہ راجہ ناصر
  • ہمیں مغربی کنارے میں اسرائیلی کارروائیوں پر تشویش ہے، ہیومن رائٹس ہائی کمشنر
  • بانی پی ٹی آئی نے مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کیوں کیا؟ بیرسٹر علی ظفر نے بتادیا
  • مغربی کنارے میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 31 مزاحمتی کارروائیاں