خیبر پختونخوا کی یونیورسٹیوں میں حروف تہجی کی ترتیب سے چانسلرز کی تعیناتی، لمحہ فکریہ ہے
اشاعت کی تاریخ: 25th, January 2025 GMT
خیبر پختونخوا میں یونیورسٹیوں سے متعلقہ قانون میں کی گئی حالیہ ترامیم بہت سی مضمرات کی حامل ہیں۔ ان ترامیم کی رو سے صوبے میں پبلک سیکٹر کی یونیورسٹیوں میں اب گورنر کے بجائے وزیراعلٰی بطور چانسلر اختیارات استعمال کریں گے۔ جامعات کے وائس چانسلرز اب چار سال کی مدت کے لیے تعینات کیے جائیں گے اور 2سال کے بعد وہ اپنی کارکردگی کی رپورٹ چانسلر کو پیش کریں گے اور چانسلر کو اختیار حاصل ہوگا کہ اطیمنان بخش کارکردگی نہ دکھانے پر وائس چانسلر کو 2سال بعد عہدے سے ہٹا دے۔
وائس چانسلر کی تعیناتی کے لیے بنائی گئی سرچ کمیٹی 3نام شارٹ لسٹ کرکے چانسلر کو حروف تہجی کی ترتیب سے ارسال کرے گی اور اس میں میرٹ کی بنیاد پر کوئی ترتیب نہیں رکھی جائے گی۔ حالیہ ترامیم میں رجسٹرار کے آفس کو مزید مضبوط کیا گیا ہے اور یونیورسٹی کے انتظامی معاملات کے سربراہ کے طور پر رجسٹرار کو معاہدوں اور یادداشتوں وغیرہ پر دستخط کرنے کے اختیارات بھی تفویض کیے گئے ہیں۔
یونیورسٹیوں کے انتظامی کیڈر کے 3سینئر افسران میں سے ایک کو چانسلر رجسٹرار مقرر کرے گا اور مناسب اندرونی امیدواروں کی عدم موجودگی میں ایڈمنسٹریٹو کیڈر کے سول سرونٹس کو بھی رجسٹرار مقرر کیا جاسکتا ہے۔
صوبہ سندھ میں بھی صوبائی حکومت یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کی کوالیفیکیشن میں ترمیم کر کے پی ایچ ڈی کی ڈگری کی شرط کو ختم کر رہی ہے جس کی مخالفت فیڈرل ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے بھی کی جا رہی ہے۔ پچھلے کچھ ماہ کے دوران پنجاب کی مختلف جامعات کے وائس چانسلرز کی تعیناتی کے حوالے سے جو تنازعہ صوبائی حکومت اور گورنر کے درمیان کھڑا ہوا تھا اس کے بعد قوی امکان ہے کہ وزیراعلٰی کو بطور چانسلر اختیارات منتقل کرنے کے بارے میں قانون سازی پنجاب میں بھی سامنے آئے گی۔
یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب ملک بھر کی پبلک سیکٹر جامعات (کسی حد تک سندھ کے استثنیٰ کے ساتھ کہ سندھ کی صوبائی حکومت نے صوبے کی جامعات کے لیے خاطرخواہ فنڈز مختص کیے ہیں) شدید نوعیت کے مالیاتی بحران کا شکار ہیں۔ گزشتہ کچھ سالوں سے وفاقی حکومت کی طرف سے ایچ ای سی کو اعلٰی تعلیم کے لیے دیے جانے والے جاری اخراجات سے متعلقہ فنڈز میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔
دوسری طرف مہنگائی اور اخراجات میں اضافے کی وجہ سے یونیورسٹیوں کے مالیاتی خسارے میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ جامعات تیزی سے فیسوں میں اضافہ کرنے پر مجبور ہیں اور اس کا براہ راست نشانہ غریب طلباء بن رہے ہیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ جامعات میں وقت کے ساتھ جو اصلاحات درکار تھیں وہ بھی نہیں ہوسکیں جس کا نتیجہ اس وقت ایک بڑے بحران کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔
کیا صوبائی حکومتوں کی طرف سے اٹھائے گئے حالیہ اقدامات یونیورسٹیوں کو اس بحران سے نکال سکیں گے؟ ہمارے خیال میں ان اقدامات کے نتیجے میں بحران میں مزید اضافہ ہوگا۔ جس قسم کے صوابدیدی اختیارات اور بیوروکریسی کی براہ راست مداخلت کا دروازہ صوبائی حکومتیں قانون سازی کے ذریعے کھول رہی ہیں، اس کے نتیجے میں صورتحال مزید ابتری کی طرف جائے گی۔
حکومتی کنٹرول کے کون سے اداروں میں اس وقت متبادل ذرائع سے فنڈنگ کے راستے ڈھونڈے جا رہے ہیں یا کون سا حکومتی ادارہ گڈ گورننس کی اعلٰی اور امتیازی مثال پیش کرتا ہے؟ حکومتی اداروں کا زوال اور بدانتظامی کے بارے میں کسی مزید گواہی کی ضرورت نہیں ہے کہ حکومت خود کئی اداروں کو بند کرنے کا منصوبہ بنائے بیٹھی ہے۔ اس صورتحال میں بیوروکریسی کے افسران کے لیے متبادل تعیناتی کی راہ اگر جامعات میں وائس چانسلر اور رجسٹرار کی صورت میں نکالنی ہے تو یہ بہت ہی سطحی نوعیت کی سوچ ہے۔
گو کہ پبلک سیکٹر جامعات بھی اس وقت کوئی بہت شاندار اور قابل فخر کارکردگی نہیں دکھا پا رہیں مگر اکیڈمک فریڈم کے حوالے سے بیشتر اداروں میں کسی حد تک گنجائش موجود ہے۔ مذکورہ ترامیم کے بعد تو اکیڈمک فریڈم کا مکمل گلا گھونٹے جانے کے سنجیدہ خدشات موجود ہیں کہ براہ راست حکومتی کنٹرول، وائس چانسلرز کے سر پر ہٹائے جانے کی لٹکتی تلوار، بیوروکریسی میں سے تعیناتی وغیرہ کی صورت میں بربادی کا مکمل سامان نئی قانون سازی میں موجود ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ڈاکٹر عزیز الرحمانڈائریکٹر اسکول آف لاء قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: صوبائی حکومت وائس چانسلرز وائس چانسلر چانسلر کو کی طرف کے لیے
پڑھیں:
بیوروکریٹس کی بطور وی سی تعیناتی معاملہ، سندھ کی جامعات میں مزید 2 دن تدریسی عمل بند، فپواسا
فوٹو: فائلفیڈریشن آف آل پاکستان یونیورسٹیز اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشنز (فپواسا) نے آج ہونے والے اجلاس میں فیصلہ کیا کہ سندھ کی تمام سرکاری جامعات میں تعلیمی سرگرمیاں مزید دو دن کےلیے معطل رہیں گی۔
فپواسا کے آن لائن اجلاس میں سندھ حکومت کو سندھ کی سرکاری جامعات میں جاری بحران کا براہ راست ذمہ دار ٹھہرایا گیا اور کہا گیا کہ حکومت کے غیر سنجیدہ اور متکبرانہ رویے نے بحران کو مزید سنگین کردیا ہے۔
اجلاس میں کہا گیا کہ حکومت کی لاپرواہی اور اشتعال انگیز رویے کی وجہ سے اساتذہ کو تعلیمی سرگرمیاں معطل کرنے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ تدریسی برادری بیوروکریٹس کی بطور وائس چانسلر تعیناتی کی شدید مخالفت کرتی ہے کیونکہ اس طرح کے فیصلے تعلیمی معیار اور اداروں کی خود مختاری کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
فپواسا سندھ شاخ وزیراعلیٰ سندھ کے اساتذہ اور اکیڈمی کے بارے میں توہین آمیز ریمارکس کی سخت الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔ اس طرح کے بیانات تدریسی پیشے کے احترام کی کمی کو ظاہر کرتے ہیں اور اساتذہ کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں جس سے سندھ میں اعلیٰ تعلیم کا وقار خطرے میں پڑ جاتا ہے۔
اجلاس میں کراچی یونیورسٹی، سندھ مدرسۃ الاسلام یونیورسٹی کراچی، این ای ڈی یونیورسٹی، مہران انجینئرنگ یونیورسٹی جامشورو، سندھ یونیورسٹی جامشورو، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی حیدرآباد، سندھ ایگریکلچر یونیورسٹی ٹنڈوجام، یونیورسٹی آف سوفزم اینڈ ماڈرن سائنسز، قائد عوام یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی نوابشاہ، شاہ عبداللطیف یونیورسٹی خیرپور، مہران یونیورسٹی کیمپس خیرپور، ٹیکنیکل یونیورسٹی خیرپور، شیخ ایاز یونیورسٹی شکارپور اور دیگر اداروں کے نمائندگان نے شرکت کی۔
سندھ کی جامعات میں آج بھی کلاسز کا بائیکاٹجامعات ایکٹ میں ترمیم کے خلاف فیڈریشن آف آل پاکستان اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن سندھ (فپواسا) کا احتجاج آج بھی جاری ہے۔
اجلاس میں طے کیا گیا کہ منگل، 28 جنوری کو، سندھ کی تمام سرکاری جامعات کی اساتذہ کی تنظیمیں، فپواسا سندھ شاخ کے بینر تلے، کراچی پریس کلب پر بڑے پیمانے پر احتجاج کریں گی۔
فپواسا سندھ شاخ دیگر تنظیموں، جیسے سندھ پروفیسرز اینڈ لیکچررز ایسوسی ایشن (سپلا)، کراچی بار ایسوسی ایشن اور سول سوسائٹی گروپس کو بھی احتجاج میں شرکت کی دعوت دے گی تاکہ تدریسی برادری کے مطالبات کی حمایت کی جا سکے۔
فپواسا سندھ شاخ نے فیصلہ کیا کہ فپواسا پاکستان کے صدر اور جنرل سیکریٹری کو گزارش کی جائے گی کہ وہ اپنے اسلام آباد میں ہونے والے پیر کے اجلاس اور پریس کانفرنس میں سندھ کی جامعات کے بحران کو اُجاگر کریں۔
مرکزی تنظیم سے یہ بھی درخواست کی جائے گی کہ وہ سندھ کی تدریسی برادری کے ساتھ اظہار یکجہتی کےلیے پورے ملک میں ’یوم سیاہ‘ منانے کا اعلان کرے۔
یہ بھی پڑھیے بیورو کریٹس کی بطور وی سیز تقرری، سندھ کی جامعات میں تدریسی عمل 5 دن سے معطل فپواسا کی اساتذہ کے 25فیصد ٹیکس چھوٹ منسوخی کیلئے خطوط پر تشویشمزید برآں فپواسا پاکستان سے کہا جائے گا کہ وہ صدر اور وزیراعظم پاکستان کو ایک خط ارسال کرے جس میں سندھ کی سرکاری جامعات کو درپیش سنگین مسائل پر روشنی ڈالی جائے، سندھ کی قیادت اسی نوعیت کا خط ارسال کرے گی۔
فپواسا سندھ چیپٹر نے فیصلہ کیا کہ سندھ کے معروف وکلاء سے مشاورت کی جائے گی تاکہ سرکاری جامعات کی خود مختاری اور مؤثریت کو خطرے میں ڈالنے والے مجوزہ ترمیمی بل کے خلاف قانونی درخواست دائر کرنے کا امکان تلاش کیا جا سکے۔
فیڈریشن تمام متعلقہ فریقین، بشمول وفاقی حکومت، عدلیہ اور سول سوسائٹی سے اپیل کرتی ہے کہ وہ بحران کو فوری طور پر حل کرنے اور سندھ میں اعلیٰ تعلیم کے مستقبل کو محفوظ بنانے کےلیے فوری مداخلت کریں۔