سن 2024: شدید موسم کی وجہ سے 250 ملین طلبہ اسکول نہ جا سکے
اشاعت کی تاریخ: 25th, January 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 25 جنوری 2025ء) عالمی ادارہ برائے اطفال (یونیسیف) کی طرف سے جمعرات 23 جنوری کو جاری کردہ ایک نئی رپورٹ میں اسکولوں کی بندش اور ان کو درپیش آپریشنل رکاوٹوں پر ''انتہائی موسمیاتی واقعات‘‘ کے اثرات پر روشنی ڈالی گئی ہے، جس میں گرمی کی لہروں کو تعلیم کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا گیا ہے۔
یونیسیف کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کیتھرین رسل نے کہا، ''گزشتہ برس سخت اور شدید موسم کی وجہ سے ہر سات میں سے ایک طالب علم کلاس سے باہر رہا۔ شدید موسم طلبہ کی صحت اور حفاظت کے لیے خطرہ تھا اور طالب علموں کی تعلیم طویل المدتی بنیادوں پر متاثر ہوئی۔‘‘
شدید موسم کی وجہ سے جہاں سب سے زیادہ اسکول متاثر ہوئے، ان ممالک میں افغانستان، بنگلہ دیش، موزمبیق، پاکستان اور فلپائن شامل ہیں۔
(جاری ہے)
اس تجزیاتی رپورٹ کے مطابق کوئی بھی خطہ انتہائی موسمیاتی واقعات کے اثرات سے محفوظ نہیں تھا لیکن متاثرہ طالب علموں میں سے 74 فیصد کم یا درمیانی آمدنی والے ممالک میں رہتے ہیں۔ جنوبی ایشیا سب سے زیادہ متاثرہ خطہ تھا، جہاں 128 ملین طلبہ متاثر ہوئے۔
مشرقی ایشیا اور بحرالکاہل کے علاقے میں 50 ملین طلبہ کو اپنے تعلیمی سلسلے میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا، جبکہ افریقہ نے ال نینو موسمیاتی رجحان سے منسلک تباہ کن نتائج کا سامنا کیا۔
مشرقی افریقہ کو سیلاب اور جنوبی افریقہ کے کچھ حصوں کو شدید خشک سالی نے متاثر کیا۔یونیسیف کے مطابق یورپ میں طوفانی بارشوں اور سیلاب نے ستمبر کے دوران اٹلی میں نو لاکھ سے زائد طلبہ کے اسباق کو متاثر کیا، جب کہ اکتوبر کے سیلاب سے اسپین میں تیرہ ہزار بچے اور نوجوان متاثر ہوئے۔
رپورٹ کے مطابق تعلیم اُن خدمات میں سے ایک ہے، جو موسمیاتی خطرات کی وجہ سے سب سے زیادہ اور اکثر متاثر ہوتی ہیں۔ کیتھرین رسل کے مطابق اس کے باوجود بچوں کو پالیسی مباحثوں میں اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ وہ کہتی ہیں، '' آب و ہوا سے متعلق تمام منصوبوں اور کاموں میں بچوں کا مستقبل سب سے آگے ہونا چاہیے۔‘‘
ا ا/ا ب ا (ڈی پی اے، روئٹرز)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کی وجہ سے کے مطابق
پڑھیں:
عالمی معاشی ترقی میں ایشیا الکاہل ممالک کا حصہ 60 فیصد، رپورٹ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 11 اپریل 2025ء) گزشتہ سال عالمی معیشت کی ترقی میں ایشیائی الکاہل کا حصہ 60 فیصد رہا لیکن اب بھی خطے میں بہت سے ترقی پذیر ممالک موسمیاتی دھچکوں اور ماحول دوست معیشت کی جانب تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔
ایشیائی الکاہل کے لیے اقوام متحدہ کے معاشی و سماجی کمیشن (یو این ایسکیپ) کی جاری کردہ نئی رپورٹ کے مطابق، خطے کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات پر قابو پانے کے معاملے میں کئی طرح کی عدم مساوات کا سامنا ہے۔
بعض ممالک نے موسمیاتی مالیات کو متحرک کر کے ماحول دوست اقتصادی پالیسیاں اپنا لی ہیں لیکن متعدد ایسے بھی ہیں جنہیں اس معاملے میں دیگر کے علاوہ مالیاتی رکاوٹوں کمزور مالی نظام اور سرکاری سطح پر مالی انتظام کی محدود صلاحیت جیسے مسائل کا سامنا ہے۔(جاری ہے)
Tweet URLرپورٹ میں یہ جائزہ لیا گیا ہے کہ معیشت اور موسمیاتی مسائل کا آپس میں کیا تعلق ہے اور کون سے مسائل خطے کے معاشی استحکام کے لیے خطرہ ہو سکتے ہیں جن میں سست رو پیداواری ترقی، سرکاری قرضوں سے متعلق خدشات اور بڑھتا ہوا تجارتی تناؤ خاص طور پر نمایاں ہیں۔
معیشت اور موسم'یو این ایسکیپ' کی ایگزیکٹو سیکرٹری جنرل آرمیڈا علیشابانا نے کہا ہے کہ مالیاتی پالیسی سازوں کو مشکل مسائل درپیش ہیں کیونکہ دنیا کی معیشت کو غیریقینی حالات اور بڑھتے ہوئے موسمیاتی خطرات کا سامنا ہے۔
اس تبدیل ہوتے منظرنامے میں ترقی کے لیے ناصرف قومی سطح پر مضبوط پالیسیاں درکار ہیں بلکہ طویل مدتی معاشی امکانات کو تحفظ دینے اور موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے علاقائی سطح پر اقدامات کی بھی ضرورت ہے۔
رپورٹ کی تیاری میں 30 ممالک کا جائزہ لیا گیا ہے جن میں 11 کو موسمیاتی حوالے سے سنگین خطرات درپیش ہیں۔ ان ممالک میں افغانستان، کمبوڈیا، ایران، قازقستان، لاؤ، منگولیا، میانمار، نیپال، تاجکستان، ازبکستان اور ویت نام شامل ہیں۔
رپورٹ کے ذریعے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ ممالک موسمیاتی تبدیلی سے متعلقہ متنوع معاشی مسائل پر قابو پانے کے لیے کون سی پالیسیاں اختیار کر رہے ہیں۔
مثال کے طور پر، جمہوریہ کوریا میں موسمیاتی اہداف کو صنعتی ترقی سے جوڑا گیا ہے، لاؤ میں زراعت اور قازقسان میں معدنی ایندھن پر انحصار کے نتیجے میں پیدا ہونے والے موسمیاتی مسائل پر قابو پانے کے اقدامات کیے جا رہے ہیں، جبکہ بنگلہ دیش اور وینوآتو جیسی ساحلی معیشتوں میں ترقی کے لیے موثر پالیسیاں بنائی جا رہی ہیں۔
سست رو اقتصادی ترقیرپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگرچہ ایشیائی الکاہل کی معاشی کارکردگی دیگر دنیا سے بہتر رہی ہے لیکن خطے کی ترقی پذیر معیشتوں میں اوسط معاشی نمو گزشتہ برس کم ہو کر 4.8 فیصد پر آ گئی جو کہ 2023 میں 5.2 فیصد تھی۔
کم ترین ترقی یافتہ ممالک میں گزشتہ برس اوسط معاشی ترقی 3.7 فیصد رہی جو کہ پائیدار ترقی کے حوالے سے 7 فیصد سالانہ کے ہدف سے کہیں کم ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2008 کے عالمی مالیاتی بحران کے بعد ایشیائی الکاہل میں افرادی قوت کی پیداواری ترقی میں تیزی سے کمی آئی ہے۔ 2010 اور 2024 کے درمیان اس خطے کے 44 میں سے 19 ترقی پذیر ممالک امیر معیشتوں کے ساتھ آمدنی کا فرق کم کرنے کو تھے جبکہ 25 ممالک ابھی بہت پیچھے ہیں۔