اسرائیل کے علاوہ تمام ممالک کے لئے امریکا کی غیرملکی امدادی پروگرامز کی فنڈنگ بند WhatsAppFacebookTwitter 0 25 January, 2025 سب نیوز

نیویارک:امریکا نے تمام غیر ملکی امدادی پروگراموں کی نئی فنڈنگ روک دی۔
عالمی میڈیا کے مطابق امریکی وزارت خارجہ نے دنیا بھرمیں تقریباً تمام امدادی پروگراموں کے لیے نئے فنڈز معطل کرنے کا حکم دیا ہے۔

امریکی میڈیا کے مطابق وزیرخارجہ مارکو روبیو کی جانب سے جاری کیے گئے حکم میں خوراک سے متعلق ہنگامی پروگراموں اور اسرائیل کے علاوہ مصر کو فوجی امداد کو استثنیٰ دیا گیا ہے۔ امریکا کے اس اقدام سے دنیا بھر میں امریکی امداد سے چلنے والے ہونے والے اربوں ڈالر کے صحت، تعلیم، جاب ٹریننگ، انسداد بدعنوانی اور سکیورٹی سے متعلق منصوبوں کے لیے خطرات پیدا ہو گئے ہیں۔

عالمی سطح پر امریکا سب سے زیادہ امدادی فنڈز جاری کرتا ہے اور 2023 کے دوران یہ فنڈز 60 ارب ڈالر تھے جو کہ امریکی بجٹ کا ایک فیصد بنتا ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کی جانب سے ایگزیکٹو آرڈر کا حوالہ دیا گیا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایگزیکٹو آرڈر پر کچھ روز قبل دستخط کیے تھے۔

امریکی وزیر خارجہ کے حکم نامے میں میں زندگی بچانے کے صحت کے پروگراموں، کلینکس اور حفاظتی ٹیکوں کے پروگراموں کو بھی کوئی چھوٹ نہیں دی گئی ہے۔ جن منصوبوں کے لیے فنڈز منجمد کیے گئے ہیں ان میں عالمی طور پر بہت زیادہ سراہا جانے والا ایڈز کے خلاف پروگرام بھی شامل ہے جو اب مزید تین ماہ تک ہی جاری رہ پائے گا۔ سابق صدر جارج ڈبلیو بش کے دور میں شروع ہونے والے اس پروگرام کو ڈھائی کروڑ جانیں بچانے کا کریڈٹ دیا جاتا ہے جن میں 55 لاکھ بچے بھی شامل ہیں۔

.

ذریعہ: Daily Sub News

پڑھیں:

غاصب صیہونی رژیم پر غزہ جنگ کے اثرات

اسلام ٹائمز: علاقائی سطح پر بھی غزہ جنگ نے غاصب صیہونی رژیم پر گہرے اثرات ڈالے ہیں۔ اہم ترین اثر عرب ممالک اور غاصب صیہونی رژیم کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کے عمل کا رک جانا ہے۔ بنجمن نیتن یاہو نے جب جنوری 2022ء میں نئی کابینہ تشکیل دی تو اس کا اہم ترین ہدف خطے کے عرب ممالک سے تعلقات معمول پر لانا تھا۔ اس کی توجہ کا مرکز بھی سعودی عرب سے سفارتی اور دوستانہ تعلقات بحال کرنا تھا۔ اس مقصد کے لیے ابراہیم معاہدہ انجام پایا جس میں چند عرب ممالک جیسے متحدہ عرب امارات اور بحرین نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات بحال کیے۔ لیکن طوفان الاقصی آپریشن کے بعد جب غزہ پر صیہونی فوجی جارحیت کا آغاز ہوا تو یہ عمل بھی تعطل کا شکار ہو گیا جو اب تک رکا ہوا ہے۔ سعودی عرب نے بھی اسرائیل سے سفارتی تعلقات کی شرط آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست کا قیام قرار دیا ہے جو پوری ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ تحریر: سید رضی عمادی
 
گذشتہ تقریباً ڈیڑھ سال تک جاری رہنے والی غزہ جنگ نے غاصب صیہونی رژیم پر گہرے اثرات ڈالے ہیں جن کا تین مختلف سطح یعنی اندرونی، علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر جائزہ لیا جا سکتا ہے:
1)۔ اندرونی سطح پر ظاہر ہونے والے اثرات
اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم پر غزہ جنگ کا ایک اہم اثر یہ ہے کہ صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی موجودہ کابینہ شدید سیاسی بحران کا شکار ہو چکی ہے۔ جنگ بندی کے اعلان کے بعد اب تک کئی وزیر استعفی دے چکے ہیں جن میں قومی سلامتی کا وزیر اتمار بن گویر بھی شامل ہے۔ بن گویر نے جنگ بندی کو حماس کی فتح اور اسرائیل کی شکست قرار دی ہے۔ بن گویر کے ساتھ ساتھ اس کی پارٹی کے دو دیگر وزیر، اسحاق واسرلاوف اور عامیحای الیاہو نے بھی استعفی دے دیا ہے۔ بن گویر نے صیہونی وزیر خزانہ بیزلل اسموٹریچ کو بھی استعفی دینے پر راضی کرنے کی کوشش کی لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ دوسری طرف صیہونی فوج کے سربراہ جنرل ہرتزے ہالیوے نے بھی استعفی دے دیا ہے۔ اسی طرح بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ شاباک کا سربراہ بھی عنقریب اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائے گا۔
 
ایسے میں بعض ماہرین کا خیال ہے کہ غزہ جنگ اور اس کے بعد جنگ بندی کا غاصب صیہونی رژیم پر ایک اہم اثر حکمران طبقے میں پڑنے والی گہری دراڑ ہے۔ یاد رہے بنجمن نیتن یاہو نے 2022ء میں دائیں بازو کے انتہاپسند سیاسی رہنماوں بن گویر اور بیزلل اسموٹریچ سے مل کر اتحادی حکومت تشکیل دی تھی لیکن اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اس کے دو بنیادی اتحادی غزہ میں جنگ بندی کے شدید مخالف ہیں۔ دوسری طرف مقبوضہ فلسطین میں اسموٹریچ اور بن گویر کا ووٹ بینک بھی کم ہو گیا ہے۔ اس بارے میں تازہ ترین سروے رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیزلل اسموٹریچ کی سربراہی میں مذہبی صیہونزم پارٹی 3.25 فیصد عوامی حمایت حاصل نہیں کر پائی جس کے باعث آئندہ الیکشن میں اسے کینسٹ میں کوئی سیٹ ملنے کا امکان نہیں ہے۔ لہذا توقع کی جا رہی ہے کہ آئندہ کچھ مہینوں میں نیتن یاہو کی کابینہ تحلیل ہو جائے گی اور وقت سے پہلے مڈٹرم الیکشن منعقد کروائے جائیں گے۔
 
2)۔ علاقائی سطح پر اثرات
علاقائی سطح پر بھی غزہ جنگ نے غاصب صیہونی رژیم پر گہرے اثرات ڈالے ہیں۔ اہم ترین اثر عرب ممالک اور غاصب صیہونی رژیم کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کے عمل کا رک جانا ہے۔ بنجمن نیتن یاہو نے جب جنوری 2022ء میں نئی کابینہ تشکیل دی تو اس کا اہم ترین ہدف خطے کے عرب ممالک سے تعلقات معمول پر لانا تھا۔ اس کی توجہ کا مرکز بھی سعودی عرب سے سفارتی اور دوستانہ تعلقات بحال کرنا تھا۔ اس مقصد کے لیے ابراہیم معاہدہ انجام پایا جس میں چند عرب ممالک جیسے متحدہ عرب امارات اور بحرین نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات بحال کیے۔ لیکن طوفان الاقصی آپریشن کے بعد جب غزہ پر صیہونی فوجی جارحیت کا آغاز ہوا تو یہ عمل بھی تعطل کا شکار ہو گیا جو اب تک رکا ہوا ہے۔ سعودی عرب نے بھی اسرائیل سے سفارتی تعلقات کی شرط آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست کا قیام قرار دیا ہے جو پوری ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔
 
دوسری طرف غزہ جنگ اور اس میں صیہونی رژیم کی بربریت اور انتہائی درجہ وحشیانہ پن نے بھی عرب ممالک سے تعلقات کی بحالی کے عمل کا بیڑہ غرق کر دیا ہے۔ متحدہ عرب امارات اور بحرین، جنہوں نے ابراہیم معاہدے کے تحت اسرائیل سے سفارتی تعلقات بحال کیے تھے، اسلامی دنیا میں اسرائیل کی ایک اچھی تصویر پیش کرنے کے درپے تھے۔ لیکن گذشتہ ڈیڑھ برس کے دوران اسرائیل کی جانب سے غزہ میں فلسطینیوں کے وحشیانہ قتل عام اور نسل کشی نے ان کوششوں پر بھی پانی پھیر دیا ہے۔ متحدہ عرب امارات اور بحرین، جنہوں نے 2020ء میں اسرائیل سے سفارتی تعلقات بحال کیے تھے، یہ تاثر دینے کی کوشش میں مصروف تھے کہ اسرائیل سے سفارتی تعلقات کی بحالی خطے میں امن اور استحکام کا باعث بنے گی اور اسرائیل بھی یہی چاہتا ہے، لیکن غزہ جنگ کے دوران جو کچھ بھی ہوا اس نے دنیا والوں کے سامنے اسرائیل کا حقیقی چہرہ کھول کر رکھ دیا۔
 
3۔ عالمی سطح پر سیاسی اثرات
غزہ جنگ سے پہلے، غاصب صیہونی رژیم دنیا پر مسلط مغربی ذرائع ابلاغ کے ذریعے عالمی سطح پر اسرائیل کا مثبت اور اخلاقی چہرہ پیش کرنے کی کوشش میں مصروف تھی۔ لیکن غزہ جنگ میں اسرائیل نے ایسے جنگی جرائم انجام دیے ہیں جو بہت واضح تھے اور حتی عالمی عدالت انصاف اور بین الاقوامی فوجداری عدالت نے صیہونی حکمرانوں پر فرد جرم عائد کی اور ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے۔ یاد رہے کہ مختلف عالمی قانونی دستاویزات جیسے بین الاقوامی قانونی معاہدوں، کنونشنز اور منشورات میں ایسے اقدامات یقینی طور پر جنگی جرائم اور انسانی حقوق کی مخالفت قرار پا چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس دوران بڑے بڑے مغربی ممالک میں وسیع پیمانے پر عوامی احتجاجی مظاہرے منعقد ہوتے رہے جن میں صیہونی رژیم کے ظالمانہ اقدامات می مذمت کی گئی اور فلسطینی قوم کی حمایت کا اعلان کیا گیا۔
 
عالمی سطح پر غزہ جنگ کا ایک اہم اثر اسرائیل کے خارجہ تعلقات پر پڑا ہے۔ غزہ جنگ سے پہلے تمام یورپی ممالک غیر مشروط طور پر اسرائیل کی بھرپور حمایت کا اعلان کرتے تھے لیکن گذشتہ ڈیڑھ برس تک غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی انجام پانے کے بعد یورپی ممالک کی رائے عامہ میں اسرائیل کی حیثیت اس قدر خراب ہوئی ہے کہ اب حتی یورپی حکومتیں بھی کھل کر اسرائیل کی حمایت کرنے سے کتراتی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ 470 دنوں میں مختلف یورپی ممالک میں 30 ہزار سے زیادہ اسرائیل مخالف مظاہرے اور ریلیاں منعقد ہوئی ہیں۔ دوسری طرف عالمی عدالت انصاف اور بین الاقوامی فوجداری عدالت کی جانب سے صیہونی حکمرانون کے وارنٹ گرفتاری جاری ہو جانے کے بعد اب بہت سے مغربی ممالک بھی صیہونی حکمرانوں کو اپنے ملک آنے کی اجازت نہیں دیتے۔ عالمی سطح پر اسرائیل کے گوشہ نشین ہو جانے کی یہ واضح دلیل ہے۔

متعلقہ مضامین

  • غاصب صیہونی رژیم پر غزہ جنگ کے اثرات
  • ٹرمپ نے اسرائیل اور مصر کے علاوہتمام غیرملکی امدادی فنڈنگ روک دی
  • یوکرین اسرائیل جنگ، امریکی اسلحے کی فروخت میں ریکارڈ اضافہ
  • امریکا ہتھیاروں کی برآمدات میں 318 ارب ڈالر مالیت کے ساتھ تاریخ کی بلند ترین سطح پر
  • ٹرمپ انتظامیہ نے فوجی امداد سمیت یو ایس ایڈ اور دیگر اداروں کے تحت تمام منصوبوں کے لیے فنڈنگ پر پابندی عائد کر دی
  • امریکا نے تقریباً تمام غیر ملکی امدادی پروگرام عارضی طورپر معطل کردیے ہیں
  • اسرائیل کے علاوہ تمام ممالک کیلیے امریکا کی غیرملکی امدادی پروگرامز کی فنڈنگ بند
  • امریکا نے تمام غیر ملکی امدادی پروگرام عارضی طور پر معطل کردیے
  • امریکا نے تمام غیر ملکی امدادی پروگرام عارضی طور پر معطل کر دیئے