پی اے سی کی چیئرمین شپPTIکیلئے بڑی کامیابی
اشاعت کی تاریخ: 25th, January 2025 GMT
اسلام آباد (طارق محمودسمیر) پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی جنید اکبر خان کو چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) منتخب کر لیا گیا، اس سے پہلےشیخ وقاص اکرم کا نام پی اے سی کی چیئرمین شپ کیلئے تجویزکیا گیا تھا لیکن شیخ وقاص اکرم نے چونکہ پولیس سے بچنے کے لئے پشاورمیں ڈیرے ڈال لیے ہیں جس پر ان کی جگہ جنیداکبرخان کا نام دیاگیا جس کی حکومتی ارکان نے بھی تائیدکی، یاد رہے کہ جنید اکبر خان وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کے مخالف دھڑے سے سمجھے جاتے ہیں، علی امین گنڈا پور نے ان کو ماضی میں کمیٹیوں سے نکالا تھا اور ان کی جگہ شوکت خٹک کو شامل کیا تھا، تجزیہ نگاروں کے مطابق جنید اکبر خان کو چیئرمین پی اے سی بنوانے کا مطلب یہ ہے کہ عمران خان وزیراعلیٰ گنڈا پور سے ناراض ہیں، یقیناً پی اے سی کی چیئرمین شپ پی ٹی آئی کیلئے اہمیت کی حامل ہے اس کمیٹی کا کردار احتساب کے فریم ورک کے لحاظ سے اہم ہے، جو عوامی وسائل کے ذمہ دارانہ استعمال کو یقینی بنانے کیلئے کام کرتی ہے، قومی اسمبلی کے اندر ایک قانون ساز ادارے کے طور پر کام کرتے ہوئے اس کمیٹی کا بنیادی مقصد تمام عوامی اداروں اور آئینی اداروں میں شفافیت اور جواب دہی کو برقرار رکھنا ہے۔ اپنے کاموں کے ذریعے، پی اے سی کا مقصد ان اداروں کی واضح اور جواب دہ نمائندگی پیش کرنا، مالی سالمیت اور اچھی حکمرانی کو فروغ دینا ہوتاہے،اب پی ٹی آئی کے رکن ہی اپنی جماعت کے پانچ سالہ دورحکومت کاآڈٹ کریں گے لیکن سوال یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی ایک طرف حکومت سے مل بیٹھنے کوتیارنہیں اوراس نے مذاکرات بھی ختم کردینے کااعلان کردیادوسری جانب اس نے حکومت کی حمایت سے پی اے سی کی چیئرمین شپ حاصل کرلی جوبظاہردہرامعیارہے،ادھرپیکاایکٹ میں ترمیم کے معاملے پر مسلم لیگ ن کی اہم اتحادی جماعت پیپلزپارٹی بھی تحفظات کااظہارکررہی ہے حالانکہ قومی اسمبلی اس پیکاایکٹ کی ترمیم کے لیے اس نے حکومت کا ساتھ دیاچنانچہ یہ صورت حال پیپلزپارٹی کی دوغلی سیاست کوظاہررہی ہے اور یہ جماعت ایسی سیاست سے عوام کودھوکانہیں دے سکتی اگر پیپلزپارٹی کوصحیح معنوں میں پیکاایکٹ پر جائزتحفظات ہیںتووہ پارلیمان سے منظورسے پہلے حکومت کوان ترامیم میں تبدیلی کی تجاویزدیتی اورقومی اسمبلی سے منظوری میں اسے حکومت کا ساتھ نہیں دیناچاہئے تھا۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
ٹرمپ انتظامیہ کی شرائط نہ ماننے پر ہارورڈ یونیورسٹی کی 2.2 ارب ڈالر کی امداد منجمد
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے ہارورڈ یونیورسٹی کے لیے مختص 2.2 ارب ڈالر (قریباً 616 ارب روپے)کی مالی امداد کو منجمد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ اقدام اس وقت سامنے آیا جب یونیورسٹی نے حکومتی درخواست پر پالیسی میں مجوزہ تبدیلیوں کو مسترد کردیا تھا۔
امریکی میڈیا کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ نے ہارورڈ سمیت دیگر اعلیٰ تعلیمی اداروں پر زور دیا تھا کہ وہ اپنی داخلہ پالیسیوں، فیکلٹی بھرتیوں اور تحقیقی منصوبوں میں حکومت کی وضع کردہ نئی اصلاحات نافذ کریں۔ انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ ان پالیسیوں کا مقصد تعلیم کے شعبے میں مواقع کی مساوی فراہمی اور مالی شفافیت کو یقینی بنانا ہے۔
مزید پڑھیں: الیکٹرانکس پر امریکی ٹیرف سے بچنا ممکن نہیں، ٹرمپ کی چین کو تنبیہ
ہارورڈ یونیورسٹی نے اپنی پوزیشن واضح کرتے ہوئے کہا کہ تعلیمی اداروں کی خودمختاری، تحقیقی آزادی اور میرٹ پر مبنی داخلے کے اصولوں پر کسی بھی قسم کا دباؤ قبول نہیں کیا جائے گا۔ یونیورسٹی کے ترجمان کے مطابق، ’ہارورڈ کا ہمیشہ سے مؤقف رہا ہے کہ علم، تحقیق اور تدریس کسی سیاسی دباؤ یا حکومتی شرائط کے تابع نہیں ہو سکتے۔‘
ٹرمپ انتظامیہ کے اس فیصلے نے امریکی تعلیمی اور سیاسی حلقوں میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے اعلیٰ تعلیم کی آزادی اور خودمختاری کو سخت خطرات لاحق ہو سکتے ہیں، جبکہ حکومت کا کہنا ہے کہ سرکاری فنڈز صرف انہی اداروں کو دیے جائیں گے جو قومی پالیسیوں اور شفاف ضابطوں پر عمل درآمد کرتے ہیں۔
مزید پڑھیں: معیشت اور افراط زر کے معاملے پر صدر ٹرمپ کی حمایت میں کمی
یہ پیشرفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب امریکا میں تعلیمی اداروں اور حکومتی اداروں کے درمیان پالیسیوں پر اختلافات شدت اختیار کر رہے ہیں۔ ہارورڈ یونیورسٹی کا کہنا ہے کہ وہ قانونی راستے سے اپنے حقوق کا تحفظ یقینی بنائے گی، جبکہ وائٹ ہاؤس حکام کے مطابق امداد کی معطلی عارضی نہیں بلکہ پالیسی عمل درآمد سے مشروط ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہارورڈ یونیورسٹی\