پاکستان کا اقوام متحدہ اور عرب لیگ کے تعاون کو مضبوط بنانے پر زور
اشاعت کی تاریخ: 25th, January 2025 GMT
ویب ڈیسک: پاکستان نے اقوام متحدہ اور عرب لیگ کے تعاون کو مضبوط بنانے پر زور دیا ہے۔
اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے سلامتی کونسل میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یواین اورعرب لیگ کے مضبوط روابط عالمی چیلنجزسے نمٹنے میں معاون ہوں گے، پاکستان عرب دنیا کے ساتھ تاریخی اور گہرے تعلقات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔
منیر اکرم نے کہا کہ علاقائی تنازعات کے پر امن حل کیلئے عرب لیگ کی کوششوں کی حمایت کرتے ہیں، فلسطینیوں اور جموں وکشمیر کے تنازعات کا حل پاکستان کی کلیدی ترجیح ہے، عرب لیگ نے فلسطین کے مسائل سے نمٹنے کیلئے قائدانہ کردار ادا کیا۔
ویسٹ انڈیز کا پاکستان کے خلاف ٹاس جیت کر بیٹنگ کا فیصلہ
ان کا مزید کہنا تھا کہ جنگ بندی کے بعد مغربی کنارے خاص طور پر جنین میں اسرائیلی کارروائیاں دیکھ رہے ہیں۔
ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: عرب لیگ
پڑھیں:
طالبان کے اخلاقی قوانین یا انسانی حقوق کی پامالی؟ اقوام متحدہ کی رپورٹ جاری
اقوام متحدہ نے طالبان کے زیرِ اقتدار افغانستان میں نافذ کیے گئے اخلاقی قوانین پر ایک چشم کشا رپورٹ جاری کی ہے، جس میں ان قوانین کے نتیجے میں خواتین اور عام شہریوں کے انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کو اجاگر کیا گیا ہے۔
افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن (UNAMA) کی رپورٹ کے مطابق، اگست 2024 سے طالبان حکومت کی جانب سے قائم کردہ وزارت "امر بالمعروف و نہی عن المنکر" کے تحت افغان عوام پر سخت پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ اس وزارت نے ملک کے 28 صوبوں میں 3,300 سے زائد اہلکار تعینات کیے ہیں اور ہر صوبے میں گورنر کی سربراہی میں خصوصی کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں تاکہ ان ضوابط کو زبردستی نافذ کیا جا سکے۔
رپورٹ کے مطابق، خواتین کی سیاسی، سماجی اور معاشی زندگی کو نشانہ بنایا گیا ہے، ان کی نقل و حرکت، تعلیم، کاروبار اور عوامی زندگی میں شمولیت پر سخت پابندیاں لگائی گئی ہیں۔ صرف محرم کے بغیر سفر کرنے کی ممانعت سے خواتین کی آمدنی میں کمی، کاروباری روابط میں رکاوٹ اور فلاحی اداروں کی امدادی سرگرمیوں پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
اقوام متحدہ نے انکشاف کیا کہ 98 فیصد علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم بند ہے جبکہ خواتین کی عوامی وسائل تک رسائی 38 فیصد سے بڑھ کر 76 فیصد تک محدود ہو چکی ہے۔ مزید برآں، 46 فیصد خواتین کو فیلڈ وزٹ سے روکا گیا اور 49 فیصد امدادی کارکنان کو مستحق خواتین سے ملاقات کی اجازت نہیں ملی۔
اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ طالبان کی یہ پالیسیاں نہ صرف عالمی انسانی حقوق کے قوانین کی خلاف ورزی ہیں بلکہ ایک مکمل ریاستی جبر کی صورت اختیار کر گئی ہیں۔ یہ سوال اب شدت سے اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا عالمی برادری ان مظالم پر خاموش تماشائی بنی رہے گی یا کوئی عملی اقدام کرے گی؟