Jasarat News:
2025-01-26@09:30:01 GMT

جنگ بندی

اشاعت کی تاریخ: 25th, January 2025 GMT

جنگ بندی

اسرائیل اور فلسطین کے درمیان بالآخر جنگ بندی کا اعلان کر دیا گیا ہے، جو ہفتوں کی تباہ کن جنگ کا خاتمہ لے کر آیا۔ یہ جنگ، ماضی کی جنگوں کی طرح اپنے پیچھے تباہی کے آثار، بے پناہ انسانی تکالیف اور گہرے سیاسی و سماجی زخم چھوڑ گئی ہے۔ دونوں فریق اپنی کارروائیوں کے جواز کے دعوے کرتے ہیں، لیکن انسانی جانوں اور بنیادی ڈھانچے پر اس جنگ کے اثرات انتہائی شدید ہیں، اور ان کے اثرات دہائیوں تک محسوس کیے جائیں گے۔فلسطین میں نقصان انتہائی تباہ کن رہا۔ ہزاروں شہری، جن میں خواتین اور بچے شامل ہیں، اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ پوری کی پوری بستیاں ملبے کا ڈھیر بن گئیں کیونکہ فضائی حملوں اورتوپ خانے کی گولہ باری نے رہائشی علاقوں، بازاروں اور پناہ گاہوں کو نشانہ بنایا۔ طبی سہولیات،بشمول اسپتال اور کلینکس، شدید نقصان یا مکمل تباہی کا شکار ہوئیں، جس کی وجہ سے زخمیوں کو مناسب علاج میسر نہیں آ سکا۔ اسکولوں کو بھی تباہ کر دیا گیا، جس سے بچوں کو تعلیم اور تحفظ سے محروم کر دیا گیا۔ اقتصادی نقصان بھی شدید ہے، اور تخمینے کے مطابق یہ اربوں ڈالرز تک پہنچ چکا ہے۔ پانی کے نظام، بجلی کے گرڈز، اور نقل و حمل کے نیٹ ورک جیسی بنیادی ضروریات تباہ ہو چکی ہیں، جس کی وجہ سے کئی علاقے انسانی بحران کا شکار ہیں۔اسرائیل نے بھی نقصانات کا سامنا کیا، اگرچہ پیمانہ فلسطین کے مقابلے میں کم تھا۔ فلسطینی گروپوںکے راکٹ حملوں سے شہریوں میں ہلاکتیں اور زخمی ہونے کے واقعات پیش آئے، اور لوگ مستقل خطرے کے ماحول میں رہنے کے ذہنی دباؤ کا شکار ہوئے۔ رہائشی عمارتوں اور عوامی بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچا، اگرچہ غزہ کے مقابلے میں یہ نقصان کم رہا۔ اسرائیلی حکومت نے اپنی فوجی کارروائیوں اور شہری دفاع پر بہت زیادہ وسائل خرچ کیے، جس سے قومی معیشت پر دباؤبڑھا۔ دونوں طرف ہزاروں زخمی ہوئے، جن میں سے کئی جسمانی اور ذہنی زخموں کے ساتھ زندگی گزاریں گے۔ دونوں طرف گھروں، اسپتالوں، اسکولوں اور عبادت گاہوں کی تباہی جدید جنگوں کی بے رحم فطرت کی عکاسی کرتی ہے۔ تاہم، تباہی میں عدم مساوات دونوں فریقوں کی طاقت اور کمزوریوں کے فرق کو ظاہر کرتی ہے۔احتساب اور انصاف کے سوالات زور پکڑ رہے ہیں۔ بین الاقوامی قوانین شہریوں اور شہری بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنانے کی ممانعت کرتے ہیں، اور دونوں فریقوں پر جنگی جرائم کے الزامات عائدکیے گئے ہیں۔ کیا بین الاقوامی برادری مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لائے گی؟ تاریخ بتاتی ہے کہ عالمی طاقتیں اکثر انصاف کے بجائے سفارتکاری کو ترجیح دیتی ہیں، اور جنگی جرائم کی تحقیقات سیاسی مصلحتوں کے باعث ملتوی یا ترک کر دی جاتی ہیں۔ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو ایک بار پھر تنقید کا سامنا ہے کہ وہ تنازع کو روکنے اور شہریوں کے تحفظ میں ناکامرہے۔کیا یہ جنگ بندی مستقبل میں ایسی جنگوں کے اعادے کو روکنے کے لیے کوئی اقدامات شامل کرے گی؟ بدقسمتی سے، معاہدہ تنازع کی بنیادی وجوہات جیسے کہ علاقائی تنازعات، سیاسی کشیدگی، اور غزہ کی ناکہ بندی کو حل کرتا ہوا نظر نہیں آتا۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے واضح اور قابل عمل میکانزم کے بغیر، یہ جنگ بندی محض ایک عارضی وقفہ ثابت ہو سکتی ہے۔کیا جنگ واقعی مسائل کا حل ہے؟ یہ تنازع ہمیں ایک بار پھر یاد دلاتا ہے کہ جنگ صرف تفریق کو گہرا کرتی ہے، زندگیاں تباہ کرتی ہے، اور مصائب کے سلسلے کو جاری رکھتی ہے۔ ہر جنگ اپنے پیچھے نہ ختم ہونے والے زخم اور حل نہ ہونے والے تنازعات چھوڑ جاتی ہے۔ سفارتی کوششیں اور پرامن مذاکرات ہی دیرپا حل کا واحد راستہ ہیں، لیکن ان راستوں کو اکثر فوجی طاقت کے تباہ کن فریب کی وجہ سے نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی اس جنگ کو روکنے اور اس کے اثرات کو کم کرنے میں ناکامی کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ عالمی حکمرانی میں اصلاحات کی فوری ضرورت ہے تاکہ تنازعات کو روکا جا سکے، جارحیت کرنے والوں کو جوابدہ ٹھہرایا جا سکے، اور متاثرین کو انصاف فراہم کیا جا سکے۔ امن کا راستہ طویل اور مشکلات سے بھرا ہوا ہے۔ دونوں فریقوں کو بنیادی مسائل کو حل کرنے اور اعتماد کی تعمیر کے لیے بامعنی مکالمے میں شامل ہونا ہوگا۔ عالمی برادری کو امن کی کوششوں میں ثالثی اور معاونت کا فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔ فلسطین میں تعمیر نو کو ترجیح دی جانی چاہیے، اورشفاف طریقہ کار کے ذریعے یہ یقینی بنانا چاہیے کہ امداد مستحق افراد تک پہنچے۔ آخر کار، اس جنگ کی اصل قیمت محض اعداد و شمار میں نہیں ماپی جا سکتی۔ جانوں کے نقصان،زخمیوں، اور عمارتوں کی تباہی کے علاوہ، نفسیاتی صدمے، اعتماد کے نقصان، اور برادریوں کے درمیان گہری تقسیم ناقابل پیمائش ہیں۔ اس جنگ بندی کو ایک اختتام کے بجائے ایک آغاز کے طورپر دیکھا جانا چاہیے تاکہ ان بنیادی مسائل کو حل کیا جا سکے جو تشدد کی طرف لے جاتے ہیں۔ دنیا کو اجتماعی طور پر اس بات پر غور کرنا ہوگا کہ آیا وہ جنگوں کو نسلوں کی تباہی کا باعث بننے دے گی یا پھر ایک ایسا مستقبل تعمیر کرے گی جہاں مکالمہ اور انصاف تباہی پر غالب ہوں۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کی تباہ کرتی ہے کر دیا اور ان جا سکے

پڑھیں:

کراچی کی تباہی کا ذمہ دار عوامی مینڈیٹ پرقابض ٹولہ ہے: سیف الدین ایڈوکیٹ

کراچی: شہرقائد میں بلدیاتی امور کے جائزے کے لیے ہفتہ وار جائزہ اجلاس اپوزیشن لیڈر سیف الدین ایڈوکیٹ کی زیر صدارت میں ان کے چیمبر میں منعقد ہوا، اجلاس میں ڈپٹی پارلیمانی لیڈر قاضی صدر الدین، کوآر ڈی نیٹر نعمان الیاس، یوتھ اسپورٹس کوآر ڈ ی نیٹر تیمور احمد، شاہد فرمان، ابرار احمد، طلحہ خان شریک ہوئے۔ اجلاس میں پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر مبشر حافظ الحق حسن زئی بھی موجود تھے۔ اجلاس میں کراچی کے مختلف محکموں کی صورتحال اور ترقیاتی اسکیموں کا جائزہ لیا گیا جس کے بعد اجلاس اس نتیجے پر پہنچا کہ کراچی کی تباہی و بربادی اور مسائل کی اصل جڑ عوام کی حقیقی مینڈیٹ کو جعل سازی سے تبدیل کر کے عوام کی رائے کے خلاف مسلط کردہ میئر اور وہ ٹاؤن و یوسی چیئر مین ہیں جن کو جیتے ہوئے نمائندوں کی جگہ زبردستی بیٹھا دیا گیا ہے،کراچی کا انتظام چلانے والوں کے پاس کوئی وژن ہے نہ صلاحیت، حکومت کی کرپشن اور نا اہلی پر وائٹ پیپر تیار کیا جائے گا۔ سیف الدین ایڈکیٹ نے اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی ایک جونک ہے جو عوام کا خون چوس رہی ہے،16سال میں سندھ اور کراچی مزید پیچھے چلے گئے ہیں، ان تمام مسائل کا حل عوام کے منتخب کردہ جائز اور حقیقی نمائندوں کے سپرد شہر کے معاملات کرنا ہے، صورتحال اس نہج پر پہنچ گئی ہے کہ موجودہ میئر اور جعلی چیئر مین مسلط کرنے والوں کو بھی اب عوام کومصیبت سے نکالنے کی سبیل کرنی ہو گی۔ ان کا کہنا تھا کہ جنوری 2023کے بلدیاتی انتخابات میں دھاندلی کے ذریعے مسلط کردہ میئر کو اب دو سال گزر چکے ہیں، اس سے قبل وہ ڈیڑھ سال ایڈمنسٹریٹر کے طور پر کام کرتے رہے، ان کے ماتحت ہر محکمہ کرپشن اور تباہی کا منظر پیش کر رہا ہے، واٹر کارپوریشن سے پانی کی لائنیں نہیں سنھبالی جا رہی، ہر ہفتے دو ہفتے میں کوئی نہ کوئی پانی کی لائین پھٹتی ہے اور شہر کو پانی کی سپلائی بند ہو جاتی ہے اور اس صورتحال میں سندھ حکومت و کے ایم سی کی طرف سے شہریوں کی داد رسی کا کوئی انتظام نہیں ہوتا بلکہ عوام کو ٹینکر مافیا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھا کہ ، 1.6بلین ڈالرز کے قرضے کے باوجود پورے شہر میں پانی اور سیوریج کے نظام میں بہتری کے لیے واٹر کارپوریشن کا عملاً کوئی کردار نہیں بلکہ ہر کام یوسی اور ٹاؤن کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے جو اپنے معمولی وسائل میں سے واٹر کارپوریشن کے کاموں میں خرچ کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میئر کراچی کے واٹر کارپوریشن کے سربراہ ہونے کا فائدہ بھی اسی لیے نہیں ہو رہا کہ وہ جائز طریقہ پر منتخب میئر نہیں۔ سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کے نام پر صفائی کا نظام پرائیویٹ ٹھیکیداروں کے سپرد کرکے یونین کمیٹی اور ٹاؤن کو اس نظام سے باہر کر دیا گیا ہے، میئر کراچی واٹر کارپوریشن کی سربراہی کے باوجود شہر میں صفائی ستھرائی کا کوئی بہتر اور مؤثر نظام بنانے سے قاصر ہیں اور پورا شہر کچرے کے ڈھیر میں تبدیل ہو گیا ہے۔ سیف الدین ایڈوکیٹ کا مزید کہنا تھا کہ یونیورسٹی روڈ پر BRTکی تعمیر جس بھونڈے طریقے سے جاری ہے اس کی سالوں میں بھی تکمیل ہوتی نظر نہیں آرہی،جس علاقے میں BRTکی تعمیر ہو رہی ہے وہ جنگ زدہ علاقے کا منظر پیش کر رہا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • قاسم آباد کے پارک تباہ، جھولے ،بیٹھنے کیلیے سیٹ بھی نہیں
  • دریائے سندھ: ترقی یا تباہی؟ فیصلہ ہمارا
  • تحریک انصاف نے 26 ویں آئینی ترمیم سپریم کورٹ میں چیلنج کر دی
  • ایران کے جوہری ہتھیاردنیا کو تباہی کی طرف لے جائیں گے، ٹرمپ
  • دوسرا ٹیسٹ میچ: ویسٹ انڈیز کی بیٹنگ جاری، نعمان علی کی تباہ کن بولنگ، ہیٹرک کرڈالی۔
  • برطانیہ میں طوفان سے تباہی کا خطرہ،امریکا میں ٹھنڈ سے 10 ہلاک
  • الحشد الشعبی عراق کے قومی دفاع کی بنیادی رکن ہے، سید عمار الحکیم
  • کراچی کی تباہی کا ذمہ دار عوامی مینڈیٹ پرقابض ٹولہ ہے: سیف الدین ایڈوکیٹ
  • برطانیہ کا جاسوسی پر روس کو انتباہ، یوکرین میں پاور پلانٹ تباہ