اسرائیل اور فلسطین کے درمیان بالآخر جنگ بندی کا اعلان کر دیا گیا ہے، جو ہفتوں کی تباہ کن جنگ کا خاتمہ لے کر آیا۔ یہ جنگ، ماضی کی جنگوں کی طرح اپنے پیچھے تباہی کے آثار، بے پناہ انسانی تکالیف اور گہرے سیاسی و سماجی زخم چھوڑ گئی ہے۔ دونوں فریق اپنی کارروائیوں کے جواز کے دعوے کرتے ہیں، لیکن انسانی جانوں اور بنیادی ڈھانچے پر اس جنگ کے اثرات انتہائی شدید ہیں، اور ان کے اثرات دہائیوں تک محسوس کیے جائیں گے۔فلسطین میں نقصان انتہائی تباہ کن رہا۔ ہزاروں شہری، جن میں خواتین اور بچے شامل ہیں، اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ پوری کی پوری بستیاں ملبے کا ڈھیر بن گئیں کیونکہ فضائی حملوں اورتوپ خانے کی گولہ باری نے رہائشی علاقوں، بازاروں اور پناہ گاہوں کو نشانہ بنایا۔ طبی سہولیات،بشمول اسپتال اور کلینکس، شدید نقصان یا مکمل تباہی کا شکار ہوئیں، جس کی وجہ سے زخمیوں کو مناسب علاج میسر نہیں آ سکا۔ اسکولوں کو بھی تباہ کر دیا گیا، جس سے بچوں کو تعلیم اور تحفظ سے محروم کر دیا گیا۔ اقتصادی نقصان بھی شدید ہے، اور تخمینے کے مطابق یہ اربوں ڈالرز تک پہنچ چکا ہے۔ پانی کے نظام، بجلی کے گرڈز، اور نقل و حمل کے نیٹ ورک جیسی بنیادی ضروریات تباہ ہو چکی ہیں، جس کی وجہ سے کئی علاقے انسانی بحران کا شکار ہیں۔اسرائیل نے بھی نقصانات کا سامنا کیا، اگرچہ پیمانہ فلسطین کے مقابلے میں کم تھا۔ فلسطینی گروپوںکے راکٹ حملوں سے شہریوں میں ہلاکتیں اور زخمی ہونے کے واقعات پیش آئے، اور لوگ مستقل خطرے کے ماحول میں رہنے کے ذہنی دباؤ کا شکار ہوئے۔ رہائشی عمارتوں اور عوامی بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچا، اگرچہ غزہ کے مقابلے میں یہ نقصان کم رہا۔ اسرائیلی حکومت نے اپنی فوجی کارروائیوں اور شہری دفاع پر بہت زیادہ وسائل خرچ کیے، جس سے قومی معیشت پر دباؤبڑھا۔ دونوں طرف ہزاروں زخمی ہوئے، جن میں سے کئی جسمانی اور ذہنی زخموں کے ساتھ زندگی گزاریں گے۔ دونوں طرف گھروں، اسپتالوں، اسکولوں اور عبادت گاہوں کی تباہی جدید جنگوں کی بے رحم فطرت کی عکاسی کرتی ہے۔ تاہم، تباہی میں عدم مساوات دونوں فریقوں کی طاقت اور کمزوریوں کے فرق کو ظاہر کرتی ہے۔احتساب اور انصاف کے سوالات زور پکڑ رہے ہیں۔ بین الاقوامی قوانین شہریوں اور شہری بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنانے کی ممانعت کرتے ہیں، اور دونوں فریقوں پر جنگی جرائم کے الزامات عائدکیے گئے ہیں۔ کیا بین الاقوامی برادری مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لائے گی؟ تاریخ بتاتی ہے کہ عالمی طاقتیں اکثر انصاف کے بجائے سفارتکاری کو ترجیح دیتی ہیں، اور جنگی جرائم کی تحقیقات سیاسی مصلحتوں کے باعث ملتوی یا ترک کر دی جاتی ہیں۔ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو ایک بار پھر تنقید کا سامنا ہے کہ وہ تنازع کو روکنے اور شہریوں کے تحفظ میں ناکامرہے۔کیا یہ جنگ بندی مستقبل میں ایسی جنگوں کے اعادے کو روکنے کے لیے کوئی اقدامات شامل کرے گی؟ بدقسمتی سے، معاہدہ تنازع کی بنیادی وجوہات جیسے کہ علاقائی تنازعات، سیاسی کشیدگی، اور غزہ کی ناکہ بندی کو حل کرتا ہوا نظر نہیں آتا۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے واضح اور قابل عمل میکانزم کے بغیر، یہ جنگ بندی محض ایک عارضی وقفہ ثابت ہو سکتی ہے۔کیا جنگ واقعی مسائل کا حل ہے؟ یہ تنازع ہمیں ایک بار پھر یاد دلاتا ہے کہ جنگ صرف تفریق کو گہرا کرتی ہے، زندگیاں تباہ کرتی ہے، اور مصائب کے سلسلے کو جاری رکھتی ہے۔ ہر جنگ اپنے پیچھے نہ ختم ہونے والے زخم اور حل نہ ہونے والے تنازعات چھوڑ جاتی ہے۔ سفارتی کوششیں اور پرامن مذاکرات ہی دیرپا حل کا واحد راستہ ہیں، لیکن ان راستوں کو اکثر فوجی طاقت کے تباہ کن فریب کی وجہ سے نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی اس جنگ کو روکنے اور اس کے اثرات کو کم کرنے میں ناکامی کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ عالمی حکمرانی میں اصلاحات کی فوری ضرورت ہے تاکہ تنازعات کو روکا جا سکے، جارحیت کرنے والوں کو جوابدہ ٹھہرایا جا سکے، اور متاثرین کو انصاف فراہم کیا جا سکے۔ امن کا راستہ طویل اور مشکلات سے بھرا ہوا ہے۔ دونوں فریقوں کو بنیادی مسائل کو حل کرنے اور اعتماد کی تعمیر کے لیے بامعنی مکالمے میں شامل ہونا ہوگا۔ عالمی برادری کو امن کی کوششوں میں ثالثی اور معاونت کا فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔ فلسطین میں تعمیر نو کو ترجیح دی جانی چاہیے، اورشفاف طریقہ کار کے ذریعے یہ یقینی بنانا چاہیے کہ امداد مستحق افراد تک پہنچے۔ آخر کار، اس جنگ کی اصل قیمت محض اعداد و شمار میں نہیں ماپی جا سکتی۔ جانوں کے نقصان،زخمیوں، اور عمارتوں کی تباہی کے علاوہ، نفسیاتی صدمے، اعتماد کے نقصان، اور برادریوں کے درمیان گہری تقسیم ناقابل پیمائش ہیں۔ اس جنگ بندی کو ایک اختتام کے بجائے ایک آغاز کے طورپر دیکھا جانا چاہیے تاکہ ان بنیادی مسائل کو حل کیا جا سکے جو تشدد کی طرف لے جاتے ہیں۔ دنیا کو اجتماعی طور پر اس بات پر غور کرنا ہوگا کہ آیا وہ جنگوں کو نسلوں کی تباہی کا باعث بننے دے گی یا پھر ایک ایسا مستقبل تعمیر کرے گی جہاں مکالمہ اور انصاف تباہی پر غالب ہوں۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کی تباہ کرتی ہے کر دیا اور ان جا سکے
پڑھیں: