Jasarat News:
2025-01-26@09:29:28 GMT

ڈاکٹر فوزیہ کا اپنی اسیر بہن کے نام خط

اشاعت کی تاریخ: 25th, January 2025 GMT

ڈاکٹر فوزیہ کا اپنی اسیر بہن کے نام خط

ڈاکٹر فوزیہ صدیقی گزشتہ سال جب اپنی بہن سے ایف ایم سی کارسویل جیل میں ملاقات کر کے وطن واپس لوٹی تھیں تو انہوں نے واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ میں امریکہ اپنی بہن سے ملنے نہیں بلکہ اسے واپس وطن لانے کے لیے جانا چاہتی ہوں۔

گزشتہ برس ڈاکٹر عافیہ کی سزا کے خاتمے کے لیے امریکی صدر جوبائیڈن کے دفتر میں ان کے وکیل کلائیو اسمتھ نے Clemency Petition # C310439 دائر کی تھی۔ اس پٹیشن کی کامیابی کے لیے دنیا بھر میں موجود ڈاکٹر عافیہ کے لاکھوں سپورٹرز نے رضاکارانہ طور پر کئی ماہ تک دن رات انتھک محنت کی ۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے احکامات کے تحت دسمبر2023 میں ایک سرکاری وفد کو امریکہ روانہ ہونا تھا جس میں ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کوبھی شامل ہونا تھا۔ مگر ایک سازش کے تحت ان کو جانے سے روک دیا گیا ۔پھر اس وفد کو اس طرح بھیجا گیا کہ امریکی حکام سے ملاقاتیں نامکمل رہیں جس کے باعث 8 قیمتی دن ضائع ہوگئے۔ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کئی ہفتوں کی تاخیر کے بعد12 جنوری 2024 کو امریکہ روانہ ہو سکیں۔ 19 جنوری کو اپنی بہن عافیہ سے جیل میں ایک اذیت ناک ملاقات کر کے واپس آنے کے بعدبھی انہوں نے پٹیشن کی منظوری کے لیے کوششیں جاری رکھیں۔ نئے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے حلف اٹھانے سے صرف چند منٹ قبل Clemency Petition کو منظور کرنے سے انکار کر دیا گیا ۔ ایک طویل عرصہ سے کہا جارہا ہے کہ عافیہ کی رہائی کی چابی اسلام آباد میں ہے اور رکاوٹ کہیں اور نہیں پاکستان میں ہے۔

پٹیشن کی نامنظوری کے بعد ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کی جدوجہد اب ایک نئے مرحلہ میں داخل ہوگئی ہے۔ ڈاکٹر عافیہ کا کوئی سپورٹرپٹیشن کی نامنظوری سے مایوس نہیں ہوا ہے ، الحمدللہ۔ ہاں وہ افسردہ ضرور ہے اور اب وہ بہت کچھ جان بھی چکا ہے۔ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے اس موقع پر جس حوصلے کا مظاہرہ کیا اس نے ڈاکٹر عافیہ کے سپورٹرز کو ایک نیا عزم و حوصلہ عطا کردیا ہے۔ پٹیشن کی نامنظوری کے بعد انہوں نے اپنی اسیر بہن عافیہ کو ایک خط لکھ کر اپنے جذبات کا اظہار جس طرح کیا ہے ، اس کا علم سارے پاکستان کو ہونا چاہئے۔

میری پیاری عافیہ السلام علیکم….

. کل تمہیں جیل میں چھوڑ کر آنا میری زندگی کا سب سے مشکل کام تھا۔ یہ ہمیشہ سے ہی مشکل ہوتا ہے لیکن میری آرزو نے آپ کو مضبوطی سے تھاما ہوا ہے اور آپ کو گلے سے لگانا اور تسلی دینے کی خواہش اب اتنی شدت سے ہے کہ میں اب لفظ اضطراب کا اصل مفہوم سمجھنے لگی ہوں…..میں تو آپ کے درد کی شدت اور آپ کے ایمان کی گہرائی کو محسوس کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔ آپ کی طاقت اور اذیت کو برداشت کرنے کی صلاحیت مجھے بے حد متاثر کرتی ہے، اور میں آپ سے بہت پیار کرتی ہوں اور مجھے آزادی کی طرف آپ کے سفر کا حصہ بننے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس بارے میں کبھی شک نہ کریں اور میں کبھی نہیں رکوں گی!…..قرآن کی طاقت کو یاد رکھیں۔ یہ واقعی سکون، رہنمائی اور طاقت کا ذریعہ ہے۔ اس کے الفاظ کو مضبوطی سے تھام لیں، اور انہیں یقین کے ساتھ دہرائیں: اپنے ہاتھ اٹھائیں اور کہتے رہیں “قرآن میرے ساتھ ہے” (قرآن میرے ساتھ ہے)، اور سکون محسوس کریں، اس کی آیات سے قوت حاصل کریں، اور جان لیں کہ اللہ ہمیشہ آپ کے ساتھ، آپ کی رہنمائی اور حفاظت کے لیے موجود ہے…..جیسا کہ ہم نے تبادلہ خیال کیا تھا کہ ہم صاف دل اور عاجزی کے ساتھ اللہ کو پکارتے ہیں۔ اللہ، اللہ جوحئی (ہمیشہ زندہ رہنے والا) اور القیوم (کائنات کا نظام چلانے والا) ہے۔ وہ الطیف (نرم) اور الخبیر (سب سے باخبر) ہے۔ رحمان اور قوی! عزیز اور جبار۔ اس کی حکمت اور رحمت پر بھروسہ رکھیں، اور جان لیں کہ وہ آپ کو اس مشکل وقت سے نکالے گا …..عافیہ تم اکیلی نہیں ہو۔ دنیا بھر میں لاکھوں لوگ آپ کی آزادی کے لیے جدوجہد اور دعا کر رہے ہیں اور آپ کا حوصلہ بن رہے ہیں۔ ہم سب اس کاوش میں ایک ساتھ ہیں، اور اللہ کی مدد سے، ہم جلد ہی آپ کو اپنے پیاروں سے ملتے ہوئے دیکھیں گے، ان شا اللہ….. اپنے دل کو امید کی طاقت سے معمور رکھیں اور اپنی روح کو ایمان کی قوت سے بلند رکھیں۔ آپ ہمت اور برداشت رکھنے کی روشن مثال ہیں، اور میں آپ سے پیار کرتی ہوں اور انصاف اور آزادی کی اس لڑائی میں آپ کے ساتھ کھڑی رہوں گی…..آپ سے بے حد پیار کرنے والی بجو

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ڈاکٹر فوزیہ صدیقی ڈاکٹر عافیہ پٹیشن کی کے ساتھ کے لیے

پڑھیں:

نظامِ حکمرانی کے تضادات

یہ بات سوچنی ہوگی یا اس پر غور و فکر کیا جانا چاہیے، کیا وجہ ہے کہ ہم دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں سے سیکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں؟اجتماعی طور پر ہم کیوں بضد ہیں کہ وہی کام کریں گے جو ہمارے مسائل میں مزید اضافہ کرنے کا سبب بنے گا۔اس سوچ اور فکر کی وجہ سے سفید پوش لوگ حکومتی منصوبوں سے استفادہ حاصل کرنے کے لیے بھی تیارنہیں ہوتے۔بنیادی طور پر سیاسی جماعتوں کی قیادت کے پاس کوئی ایسا حکمرانی یا گورننس کا ماڈل نہیں ہے جس کو وہ عوام اور دنیا کے سامنے پیش کر سکیں۔

سیاسی جماعتوں کا کام اس پر بہت کمزور ہے بلکہ سول سوسائٹی کے بحث و مباحثہ میں بھی یہ موضوعات کم دیکھنے کو ملتے ہیں ۔میڈیا بھی مسائل کی نشاندہی تو ضرور کرتا ہے لیکن وہ اس بات کو نظر انداز کر رہا ہے کہ اصل وجوہات کیا ہیں۔ ہم گورننس کے نظام کوموثر نہیں بنا پارہے تو اس میں ہماری اپنی خامیاں کیا ہیں؟ انسانی ترقی یا انسانوں پر خرچ کرنے کی سوچ بہت کمزور نظر آتی ہے۔

عام آدمی کو ترقی کے نام پر خیراتی سوچ اور فکر کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے اور ایسے لگتا ہے جیسے ہم ان کی ترقی سے زیادہ ان کو بھکاری بنانا چاہتے ہیں۔ جب تک افرادکی ذاتی ترقی اور ریاست کے اختیارات کے درمیان توازن پیدا نہیں ہوگا ، اچھی حکمرانی کے تصور کو ممکن نہیں بنایا جاسکتا۔

یہ جو ہم نے عالمی سطح پر مختلف نوعیت کے معاہدے کیے ہوئے ہیں جس کا مقصد عام لوگوں کی ترقی ہے، وہ بھی اس وقت تک ممکن نہیں ہوگااگر ہم نے اپنی ترجیحات میں ایک مضبوط اور خود مختار مقامی حکومتوں کی اہمیت کو تسلیم نہیں کریں گے۔عورتیں، بچیاں، نوجوان، مزدور، کسان، اقلیتیں اور خواجہ سرا جو کمزور طبقات ہیں، ان کے مسائل پر توجہ نہ دینا بھی بری حکمرانی کے زمرے میں آتا ہے۔

اصل مسئلہ مرض کی درست تشخیص کا ہے، مرض کچھ اور ہے اور ہم اس کا علاج کچھ اور طریقے سے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔یہ بات سمجھنی ہوگی کہ صوبائی خود مختاری بھی اس وقت تک ممکن نہیں ہوتی جب تک اضلاع کو خود مختار نہیں کیا جاتا۔ہمارے جیسے ملکوں میں سیاسی اور سماجی سطح پر ایسی کوئی بھی تحریکیں نہیں ہیں جو حکمرانی کے نظام میں شفافیت کے سوالات اٹھائیں یا حکمرانوں کو مجبور کریں کہ وہ اپنی سمت درست کریں۔

ایک رد عمل کی سیاست ہے اور اسی رد عمل کے اندر ہی ہم حکمرانی کے نظام کو چلانے کی کوشش کر رہے ہیں مگر ہماری ہر کوشش بے نتیجہ ثابت ہو رہی ہے۔

یہ جو ہم پاکستان میں سیاسی ،معاشی استحکام اور ادارہ جاتی توازن کی بات کر رہے ہیں، یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم حکمرانی سے جڑے مسائل کو اپنی سیاسی ترجیحات کا حصہ بنائیں۔ہمیں اپنی موجودہ ترجیحات کو بدلنا ہے اور اس میں بنیادی نوعیت کی تبد یلی کو تبدیلیوں کو لے کر آنا ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کی سیاسی اشرافیہ یا طاقت کے مراکز اپنی طاقت اپنی طاقت چھوڑنے کے لیے تیار ہیں اور عام آدمی کو خود مختار بنانا چاہتے ہیں۔یہ وہ سوال ہے جو ہمارے ریاستی حکومتی اور سیاسی نظام کے دائرہ کار کے گرد گھوم رہاہے اور یہ عمل سنجیدگی کی بحث کا تقاضہ کرتا ہے۔

 پراپیگنڈا مہم کی بنیاد پر ترقی کا ماڈل کچھ وقت کے لیے تو لوگوں پر اپنا اثر چھوڑتا ہے مگر طویل مدت کے لیے اس میں لوگوں کے لیے کوئی اچھائی کا پہلو نہیں ہے۔لوگوں کو لگتا ہے کہ ان کو بے وقوف بنایا گیا ہے اور سیاست کا نام ہی بے وقوف بنانا ہے۔

اچھی حکمرانی کا تصور سیاسی قیادت اور سیاسی جماعتوں کے اپنے اندر اصلاحات سے جڑا ہوا ہے۔محض حکمرانی کے نظام میں نہیں بلکہ سیاسی جماعتوں کے داخلی نظام میں جب تک اصلاحات نہیں ہوں گی اس وقت تک ہم بڑی تبدیلی کا عمل بھی نہیں دیکھ سکیں گے۔

اس وقت سیاسی جماعتوں کو یہ سمجھنا ہوگا اگر وہ اس نظام میں اپنی سیاسی بقا چاہتی ہیں تو ان کو گورننس کے نظام میں خودکو ایک بہتر ماڈل کے طور پر پیش کریں۔فرسودہ طور طریقے اور پرانے خیالات کے ساتھ وہ اب نئی نسل کو سیاست میں آپ نہ تو متاثر کرسکتے ہیں اور نہ ہی اپنے قریب لاسکتے ہیں۔

ماضی میں ہم نے حکومتی سطح پر گورننس کے نظام میں اصلاحات کے لیے کئی کمیشن بنائے اور ان کمیشنوں کی تجاویز پرمبنی کئی رپورٹس بھی منظر عام آئیںمگر کمزورسیاسی کمٹمنٹ، کمزور سیاسی نظام اور مخلوط حکومتیں اور درست سیاسی ترجیحات کا تعین سمیت مربوط منصوبہ بندی اوروسائل کی بہتر منصفانہ تقسیم،محاذآرائی یا سیاسی نظام کے عدم تسلسل نے وہ کچھ نہیں کیا جو اس ملک میں ہونا چاہیے تھا۔

پاکستان کو گورننس کے نظام میں بہتری کے لیے مضبوط سیاسی نظام اور ایسی حکومتیں درکار ہیںجوبڑے فیصلے کرسکیں کیونکہ کمزور اور اتحادیوں پرکھڑی حکومتیںبڑے فیصلے خود کرنے سے قاصر ہوتی ہیں اور آسانی سے سمجھوتوں کی سیاست کا شکار ہوتی ہیں۔

گورننس کے نظام میں ہماری ترجیحات میں بیوروکریسی اور پولیس،تعلیم، صحت ،انصاف،سماجی اور معاشی تحفظ،عام آدمی کی اداروں تک رسائی،شفافیت، جوابدہی ،احتساب اور کمزور طبقات کی ترقی کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنا ہوگا۔گورننس کی خرابی کے ان غیر معمولی حالات میں غیرمعمولی اقدامات درکار ہیں۔

یہ جو شاہانہ اخراجات یاعیاشی پر مبنی نظام ہے، اس میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔پاکستان کا موجودہ انتظامی اور ادارہ جاتی ڈھانچہ کم ہونا چاہیے اور 18ویں ترمیم کے بعد وفاق میں وزارتوں کا بوجھ کم اورغیر ضروری وزارتوں کا خاتمہ،پہلے سے موجود اداروں کے مقابلے میں نئے اداروں کی تشکیل سمیت بڑے ترقیاتی منصوبوں کی پارلیمنٹ سے منظوری،چھوٹے اور دیہی ترقی کا جامع منصوبہ بندی،نئی نسل کے لیے روزگار پیدا کرنا اور بالخصوص ڈیجیٹل گورننس کے مسائل کا حل ہماری ترجیح ہونی چاہیے۔

آج کی گلوبل دنیا میں گورننس کی بنیاد پر ملکوں کی ترقی کی درجہ بندی کی جاتی ہے اور اسی بنیاد پر ہماری گورننس پربھی اعتراضات سامنے آتے ہیں یاہماری درجہ میں کمی دکھائی جاتی ہے۔یاد رکھیں گورننس سے مراد ایک ایسا نظام جو شفافیت کی بنیاد پر لوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرے اور ان کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرے یا اس کی ریاستی نظام میں سیاسی،سماجی اور معاشی حیثیت کو مضبوط بنائے۔

یہ عمل ایک مکمل سیاسی اور جمہوری نظام کا پیکیج ہے جہاں سیاست،جمہوریت اور گورننس کے معاملات میں بہتری پیدا ہوتی ہے اور ترقی کے نئے امکانات پیدا ہوتے ہیں۔گورننس کا بہتر نظام لوگوں کو مچھلیاں کھلانا نہیں بلکہ پکڑنا سکھاتا ہے تاکہ لوگ خود اپنے قدموں پر کھڑے ہوسکیں۔

اگر پاکستان میں سب ریاستی یا حکومتی ادارے اپنے اپنے سیاسی، قانونی اور انتظامی ڈھانچوں میں کام کرنا شروع کردیں تو ہم گورننس کے نظام میں بہتری کی طرف پیش رفت کو ممکن بناسکتے ہیں۔اگرچہ یہ کام مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں۔اصل مسئلہ جدید طرز کی حکمرانی اور دنیا کے بہتر تجربات سے خود کو جوڑنا ہے یا دنیا کے تجربات سے سیکھ کر اپنی اصلاح کرنا ہے۔گورننس کے موجودہ نظام کے مقابلے میںاب ایک نیا نظام ہماری ضرورت بن گیا ہے اور جتنی جلدی ہم اجتماعی طور پر یہ با ت سمجھ سکیں ہمارے حق میں بہتر ہوگا۔

لیکن اگر ہم یہ سب کچھ نہیں کرتے تو پرانے نظام کی سیاسی ضد گورننس کے نظام میں مزید خرابیوں کو جنم دے گی۔یہ سب کچھ اس لیے ہوگا کہ ہماری ریاست ، سیاسی اشرافیہ اور حکمران طبقات کسی بڑی تبدیلی کے لیے تیار نہیں اور اس کی بھاری قیمت ریاست عوام سمیت کمزور طبقات کو ادا کرنا پڑرہی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • نظامِ حکمرانی کے تضادات
  • بائیڈن نے بیٹے کی سزا معاف کردی، عافیہ کی نہیں، امریکا ہماری اوقات دکھا رہا ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ
  • جوبائیڈن نے عافیہ کی اپیل مسترد کر دی: امریکہ ہمیں ہماری اوقات دکھا رہا ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ
  • ڈاکٹر عافیہ کو رہا نہ کر کے امریکا ہمیں ہماری اوقات بنارہا ہے،اسلام آباد ہائیکورٹ
  • عافیہ صدیقی کو رہا نہ کر کے امریکہ ہمیں ہماری اوقات دکھا رہا ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ
  • بائیڈن نے اپنے بیٹے کی سزا تو معاف کر دی لیکن عافیہ صدیقی کو رہا نہیں کیا: عدالت
  • ڈاکٹر عافیہ کی رحم کی اپیل مسترد، وکیل درخواستگزار نے عدالت کو آگاہ کردیا،جج کے سخت ریمارکس
  • عافیہ کو رہا نہ کرکے امریکا ہمیں ہماری اوقات دکھا رہا ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ
  • ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رحم کی اپیل مسترد ،اسلام آباد ہائیکورٹ میں جواب جمع کرا دیا گیا