Jasarat News:
2025-04-15@09:55:28 GMT

آزادیٔ اظہار پر نئی حکومتی پابندیاں

اشاعت کی تاریخ: 25th, January 2025 GMT

آزادیٔ اظہار پر نئی حکومتی پابندیاں

وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ حکومتی پالیسیوں پر ذرائع ابلاغ کی تعمیری تنقید حکومتی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے بہت ضروری ہے، حکومت اور ذرائع ابلاغ کے مابین اعتماد کا رشتہ ہے، حکومت ذرائع ابلاغ کی تعمیری تنقید کا خیر مقدم کرتی ہے۔ ایوان وزیر اعظم سے جاری اعلامیہ کے مطابق وزیر اعظم نے ان خیالات کا اظہار پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن کے وفد سے اسلام آباد میں ملاقات کے دوران کیا۔ وزیراعظم نے اس ملاقات میں دعویٰ کیا کہ اس وقت ملک میں اظہار رائے کی مکمل آزادی ہے اور حکومت ذرائع ابلاغ کے ریاست کا چوتھا ستون ہونے پر یقین رکھتی ہے۔ ’’ اڑان پاکستان‘‘ ملکی ترقی کا مقامی طور پر تیار کردہ منصوبہ ہے جس کو ذرائع ابلاغ اور تمام دیگر متعلقہ فریقوں کے تعاون سے کامیاب بنائیں گے۔ محترم وزیر اعظم کے برقی ذرائع ابلاغ کے مالکان کے روبرو یہ دل خوش کن ارشادات اپنی جگہ، تاہم دوسری جانب حقائق کی دنیا کی صورت حال کچھ یوں ہے کہ قومی اسمبلی سے جمعرات کے روز حکومت نے اپنی اکثریت کے بل بوتے پر ایک ترمیمی بل منظور کرایا ہے،یہ ترمیمی بل وفاقی وزیر رانا تنویر نے پیش کیا۔ جبکہ صحافیوں اور اپوزیشن نے پیکا ترمیمی بل کے خلاف ایوان زیریں سے واک آؤٹ کیا۔ سائبر کرائم قوانین میں تبدیلیوں کا تازہ ترین مسودہ جس کا عنوان الیکٹرونک جرائم کی روک تھام (ترمیمی) بل 2025ء تھا کو ایک روز قبل وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے قومی اسمبلی میں پیش کیا تھا۔ اپوزیشن جماعت جے یو آئی (فضل الرحمن) کے ارکان نے بھی بل کی مخالفت کی۔ پاکستان تحریک انصاف کے اراکین پارٹی کے بانی عمران خان کی نظر بندی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے پہلے ہی ایوان کی کارروائی سے واک آؤٹ کر چکے تھے۔ علاوہ ازیں صحافیوں کی مختلف تنظیموں نے اپنے الگ الگ بیانات میں پیکا ترمیمی بل کی مذمت کی ہے۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) اور آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی (اے پی این ایس) سمیت صحافیوں کے حقوق کے گروپوں کی نمائندگی کرنے والی تنظیم جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا ہے جس میں اس ترمیم کی مذمت کی گئی۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’جوائنٹ ایکشن کمیٹی پیکا کی کسی بھی ایسی ترمیم کو مسترد کرتی ہے جو میڈیا اداروں کے ساتھ مشاورت کے بغیر منظورکی گئی۔ واضح رہے کہ وفاقی حکومت نے گزشتہ روز پیکا ایکٹ ترمیمی بل2025ء قومی اسمبلی میں پیش کیا تھاجس کے تحت سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی قائم کی جائے گی، جھوٹی خبر پھیلانے والے شخص کو 3 سال قید یا20 لاکھ جرمانہ عائد کیا جا سکے گا۔پیکا ایکٹ ترمیمی بل2025ء کے مطابق سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی کا مرکزی دفتر اسلام آباد جبکہ صوبائی دارالحکومتوں میں بھی دفاتر قائم کئے جائیں گے۔ ترمیمی بل کے مطابق اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی رجسٹریشن اور رجسٹریشن کی منسوخی، معیارات کے تعین کی مجاز ہوگی جبکہ سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم کی سہولت کاری کے ساتھ صارفین کے تحفظ اور حقوق کو یقینی بنائے گی۔ پیکا ایکٹ کی خلاف ورزی پر اتھارٹی تادیبی کارروائی کے علاوہ متعلق اداروں کو غیر قانونی مواد ہٹانے کی ہدایت جاری کرنے کی مجاز ہوگی۔ سوشل میڈیا پر غیر قانونی سرگرمیوں کا متاثرہ فرد24 گھنٹے میں درخواست دینے کا پابند ہوگا۔ قومی اسمبلی سے ترمیمی بل کی منظوری سے قبل قائمہ کمیٹی سے بل کی منظوری حاصل کی گئی جہاں تحریک انصاف کی رکن زرتاج گل نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے اجلاس سے واک آؤٹ کیا جب کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے بھی بل کی مخالفت کی تاہم یہی بل جب قومی اسمبلی کے ایوان میں منظوری کے لیے پیش کیا گیا تو ان دونوں جماعتوں کے ارکان نے بل کے حق میں ووٹ دیا۔ جس سے ان جماعتوں کے دہرے کردار کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ نے تازہ ترامیم کا دفاع کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ یہ ترمیمی بل سماجی ذرائع ابلاغ کے حوالے سے ہے‘ جس سے عامل صحافیوں کو تحفظ ملے گا، پارلیمنٹ ہاؤس میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ برقی اور ورقی ذرائع ابلاغ کے متعلق قواعد و ضوابط پہلے سے موجود ہیں جبکہ ڈیجیٹل ذرائع ابلاغ کے بارے میں قواعد وضوابط وقت کی ضرورت ہیں، یہاں صحافت کے نام پر الزام تراشی کی جاتی ہے کیونکہ جھوٹ اور پروپیگنڈے کی کوئی جواب دہی نہیں، ترمیمی ایکٹ میں سماجی ذرائع ابلاغ کی تعریف کی گئی ہے‘ برقی اور ورقی ذرائع ابلاغ اس ایکٹ سے متاثر نہیں ہوں گے، سماجی ذرائع ابلاغ سے لاکھوں کمانے والے ٹیکس بھی نہیں دیتے، جو انتہا پسندانہ نقطۂ نظر کہیں بیان نہیں ہو سکتا وہ سماجی ذرائع ابلاغ پر زیادہ مقبولیت حاصل کرتا ہے‘ وفاقی وزیر اطلاعات نے اپنے مؤقف کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ سماجی ذرائع ابلاغ پر الزام تراشی اور کردار کشی ہوتی ہے مگر اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا جاتا، ترمیمی بل سے ذمہ دارانہ صحافت کو فروغ ملے گا، عامل صحافیوں کو موقع ملے گا کہ اپنا روزگار محفوظ بنا سکیں، سماجی ذرائع ابلاغ کے نام پر خود ساختہ صحافی نفرت پھیلانے کے علاوہ کچھ نہیں کرتے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ ہم مشاورت پر یقین رکھتے ہیں اس لیے تمام صحافتی تنظیموں کو دعوت ہے کہ وہ آئیں اور بیٹھ کر بات کریں…!

وزیر اعظم ہوں یا وفاقی وزیر اطلاعات ان کی باتیں بظاہر بہت دل خوش کن ہیں اور ان میں کسی حد تک وزن بھی محسوس ہوتا ہے مگر حقائق ان کے علاوہ بھی بہت کچھ ہیں۔ جناب محمد شہباز شریف نے براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن کے وفد کے ارکان سے گفتگو زمینی حقائق اور دعوؤں کی نفی کرتے ہیں، جتنی سخت پابندیاں موجودہ دور میں صحافت اور اہل صحافت کو برداشت کرنا پڑ رہی ہیں ماضی میں ان کی مثال نہیں ملتی، صحافیوں کو نامعلوم افراد کے ہاتھوں اغوا، بے بنیاد مقدمات اور قید وبند کی جو صعوبتیں برداشت کرنا پڑ رہی ہیںجس کا آمرانہ ادوار میں تصور تک نہیں کیا جا سکتا تھا۔ وزیر اعظم اور ان کے وزیر اطلاعات کیا نشاندہی کر سکتے ہیں کہ مملکت کی گزشتہ تاریخ میں ملک کی ایک مقبول سیاسی جماعت کے سربراہ کا نام برقی ذرائع ابلاغ پر زبان یا ورقی ذرائع ابلاغ پر نوک قلم پر لانے پر پابندی عائد کی گئی ہو اور انہیں بانی، والد فلاں یا شوہر فلاں وغیرہ کی اصطلاحات اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کے لیے استعمال کرنا پڑی ہوں۔ جہاں تک متنازع ترمیمی پیکا ایکٹ کا تعلق ہے، وفاقی وزیر اطلاعات کے بعض خدشات یقینادرست ہوسکتے ہیں مگر ان کی بنیاد پر آزادی اظہار کا گلا گھونٹنے کی اجازت کسی بھی حکومت کو بہرحال نہیں دی جا سکتی۔ یہی وجہ ہے تمام صحافتی تنظیموں اور مدیران جرائد کی انجمن نے اس ایکٹ کو ناقابل قبول قرار دے دیا ہے اور الزام عائد کیا ہے کہ حکومت اس قانون کی منظوری کے ضمن میں وعدہ خلافی کی مرتکب ہوئی ہے۔ صحافیوں کی مشترکہ مجلس عمل نے پیکا ایکٹ ترمیمی بل کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اس کے خلاف احتجاجی تحریک چلانے اور عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ اب بھی ہوش کے ناخن لے اور ایوان بالا سے بل کی منظوری کو مؤخر کر کے صحافتی تنظیموں، سول سوسائٹی اور دیگر متعلقہ فریقوں کو اعتماد میں لے کر ان کے اطمینان کے مطابق مزید پیش قدمی کرے تاکہ ملک میں رہی سہی آزادی اظہار، آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق اور حکومت کی بچی کھچی ساکھ کا تحفظ کیا جا سکے… ورنہ مولانا الطاف حسین حالیؔ کے الفاظ میں حقیقت اس سے مختلف نہیں کہ:

اک دسترس سے تیری، حالی بچا ہوا تھا
اس کے بھی دل کو تو نے چرکا لگا کے چھوڑا

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: وفاقی وزیر اطلاعات سماجی ذرائع ابلاغ ذرائع ابلاغ پر ذرائع ابلاغ کے قومی اسمبلی سوشل میڈیا کرتے ہوئے پیکا ایکٹ کی منظوری کے مطابق پیش کیا کے لیے کی گئی

پڑھیں:

معروف سکالر‘ معیشت دان پروفیسر خورشید احمد کا برطانیہ میں انتقال‘ وزیر اعظم کا اظہار افسوس 

 اسلام آباد (خبرنگار+ خبرنگار خصوصی) پاکستان کے معروف سکالر، معیشت دان، سیاستدان، مصنف، محقق، سابق سینیٹر‘ جماعت اسلامی کے سابق نائب امیر اور انسٹیٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیزکے بانی پروفیسر خورشید احمد برطانیہ کے شہر لیسٹر میں طویل علالت کے بعد انتقال کرگئے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے پروفیسر خورشید احمد کی وفات پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے کہا کہ پروفیسر خورشید احمد کی اسلامی معاشیات کی ترویج کے لیے قابل قدر خدمات ہیں۔ اللہ تعالی مرحوم کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔ پروفیسر خورشید احمد 23مارچ 1932کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ جماعتِ اسلامی کے ساتھ ان کی طویل وابستگی رہی۔ پروفیسر خورشید احمد 1985سے 2012  تک سینٹ کے رکن رہے۔ انہوں نے وزیر منصوبہ بندی اور منصوبہ بندی کمیشن کے وائس چیئرمین کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دی ہیں۔ 1979میں انہوں نے اسلام آباد میں انسٹیٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز (آئی پی ایس)کی بنیاد رکھی اور 2021تک اس کے چیئرمین کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ وہ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے بانی ٹرسٹی تھے۔ مارک فیلڈ انسٹیٹیوٹ آف ہائیر ایجوکیشن، لیسٹر، برطانیہ کے صدر رہے۔ یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز لاہور کے بورڈ آف گورنرز کے رکن اور اسلامی فائونڈیشن برطانیہ کے صدر رہے۔ پروفیسر خورشید احمد نے اردو اور انگریزی میں 100سے زائد کتابیں مرتب اور تصنیف کی ہیں۔ ان کی یہ کتابیں اور مضامین عربی، فرانسیسی، ترکی، بنگالی، جاپانی، جرمن، انڈونیشی، ہندی، چینی، کورین، فارسی اور دیگر زبانوں میں ترجمہ اور شائع ہو چکے ہیں۔ پروفیسر خورشید احمد پر ملائیشیا، ترکی اور جرمنی کی اہم یونیورسٹیوں میں پی ایچ ڈی کے مقالے لکھے گئے۔ ان کی علمی اور تحقیقی خدمات کے اعتراف میں انہیں ملائیشیا کی یونیورسٹی آف ملایا سے اسلامی معیشت میں پی ایچ ڈی، 2004میں لفبرو یونیورسٹی برطانیہ سے ادب میں پی ایچ ڈی اور ملائیشیا کی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی سے تعلیم میں پی ایچ ڈی دی گئی۔ پروفیسر خورشید احمد کو 1989میں اسلامی ترقیاتی بینک کی جانب سے اسلامی معیشت میں ان کی خدمات پر ایوارڈ دیا گیا، جبکہ سعودی حکومت نے 1990میں اسلام کی بین الاقوامی سطح پر خدمات کے اعتراف میں انہیں شاہ فیصل ایوارڈ سے نوازا۔ 1990ہی میں حکومت پاکستان نے ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں اعلیٰ شہری اعزاز ’’نشان امتیاز‘‘ سے نوازا۔ پروفیسر خورشید احمد کی وفات نا صرف پاکستان بلکہ مسلم امہ کیلئے ایک بڑا سانحہ ہے۔ پاکستان اور اسلام کے لیے ان کی خدمات کو ہمیشہ بہترین لفظوں میں یاد رکھا جائے گا۔

متعلقہ مضامین

  • مہنگائی 60 سال کی کم ترین سطح پر آنے کے حکومتی دعووں کی قلعی کھل گئی
  • پاکستانی ہیڈ آف مشن کی افغان وزیر خارجہ سے ملاقات، مہاجرین کی واپسی پر گفتگو
  • ترسیلات زر کا ریکارڈ سطح پر پہنچنا حکومتی پالیسیوں پر اعتماد کی عکاسی ہے، وزیرِاعظم
  • معروف سکالر‘ معیشت دان پروفیسر خورشید احمد کا برطانیہ میں انتقال‘ وزیر اعظم کا اظہار افسوس 
  • نامور کامیڈین جاوید کوڈو کا انتقال، وزیر اعظم اور اسپیکر قومی اسمبلی کا اظہار افسوس
  • وزیرِ اعظم شہباز شریف کا کامیڈین جاوید کوڈو کے انتقال پر اظہارِ افسوس
  • وزیرِ اعظم کا ایران میں 8 پاکستانیوں کے قتل پر دکھ کا اظہار
  • وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف کی چوہدری شجاعت حسین کو مسلم لیگ ق کا صدر منتخب ہونے پر مبارکباد و نیک خواہشات کا اظہار
  • پی ٹی آئی رہنماوں پر مائنز اینڈ منرل بل سے متعلق بیانات پر پابندی عائد
  • وزیرِ اعظم شہباز شریف کا صفدر جاوید سید کے انتقال پر دکھ اور رنج کا اظہار