قال اللہ تعالیٰ وقال رسول اللہﷺ
اشاعت کی تاریخ: 25th, January 2025 GMT
منہ بولے بیٹوں کو ان کے باپوں کی نسبت سے پکارو، یہ اللہ کے نزدیک زیادہ منصفانہ بات ہے اور اگر تمہیں معلوم نہ ہو کہ ان کے باپ کون ہیں تو وہ تمہارے دینی بھائی اور رفیق ہیں نا دانستہ جو بات تم کہو اس کے لیے تم پر کوئی گرفت نہیں ہے، لیکن اْس بات پر ضرور گرفت ہے جس کا تم دل سے ارادہ کرو اللہ درگزر کرنے والا اور رحیم ہے۔ بلاشبہ نبی تو اہل ایمان کے لیے اْن کی اپنی ذات پر مقدم ہے، اور نبی کی بیویاں اْن کی مائیں ہیں، مگر کتاب اللہ کی رو سے عام مومنین و مہاجرین کی بہ نسبت رشتہ دار ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں، البتہ اپنے رفیقوں کے ساتھ تم کوئی بھلائی (کرنا چاہو تو) کر سکتے ہو یہ حکم کتاب الٰہی میں لکھا ہوا ہے۔ (سورۃ الاحزاب:5تا6)
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو مکہ کے کسی راستے میں ایک اعرابی ملا، تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اسے سلام کیا، اپنے گدھے پر سوار کیا، جس پر وہ خود سوار تھے اور اپنا عمامہ اتار کر پہنایا۔ ابن دینار کہتے ہیں کہ ہم نے (عبداللہ بن عمر سے) کہا: اللہ خیر فرمائے! یہ بدو لوگ معمولی دی ہوئی چیز پر راضی ہو جاتے ہیں! تو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس شخص کا والد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا دوست تھا اور میں نے رسول اللہؐ سے سنا ہے، آپ فرما رہے تھے: ’’سب سے بڑی نیکی آدمی کا اپنے باپ کے دوست واحباب کے ساتھ حسن سلوک کرنا ہے۔ (مسلم)
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ
پڑھیں:
استقامت کا پہاڑ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ
دین اسلام زندہ و تابندہ ہے اور تاقیامت دنیا کی تاریکیاں اس کے تعلیمات سے روشن رہیں گی کیوں کہ دین اسلام کے راستے میں قربانیاں دی گئیں ان قربانیوں کا یہ صلہ ہے ۔امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا شمار بھی ان نفوس قدسیہ میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنے دین اسلام کو اپنے لہو سے سینچا۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ 164ہجری میں بغداد میں پیداہوئے۔ان کا خاندانی تعلق عرب کے ایک قبیلہ ’’شیبان‘‘ سے تھا۔والد کاسایہ کمسنی ہی میں سر سے اٹھ گیا لیکن بیوہ ماں نے اپنے بیٹے کی تعلیم وتربیت میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ابتدائی تعلیم اپنے آبائی وطن بغداد میں حاصل کرنے کے بعد عصری علوم یعنی فقہ و حدیث کے حصول کے لئے خود کو آمادہ و تیار کرلیا اور کم عمری ہی میں فقہ اور علم حدیث میں مہارت حاصل کرلی اور عظیم حافظ حدیث کہلائے جانے لگے۔
امام احمد بن حنبل فقہی اصولوں کے بارے یہ رائے رکھتے تھے کہ قرآن اور احادیث ان کے بنیادی ماخذ ہیں ۔جہاں کہیں قرآن و حدیث میں واضح دلیل دستیاب نہ ہوتی تو پہلی وآ خری ترجیح اقوال صحابہ رضی اللہ ھم اجمعین کو دیتے ۔
آپ قیاس اور اجماع کو انتہائی محدود پیمانے پر توجہ کے قابل گردانتے تھے۔آپ کی صعوبتوں کا آغاز تب ہوا جب آپ نے عباسی دور میں معتزلہ کے اٹھا ئے فتنے کہ ’’قرآن مخلوق ہے‘‘ کے عقیدے کے خلاف آواز بلند کی ۔
خلیفہ مامون کا دور تھا وہ معتزلیوں کا عقیدت مند تھا پس اس نے امام کی گرفتاری کا حکمنامہ جاری کردیا۔یہ سلسلہ یہیں تمام نہیں ہوا بلکہ مامون کے بعد جب معتصم نے خلافت سنبھالی تواس نے سزا کا سلسلہ تیز تر کردیا۔اہل سنت کے عقیدے کا دفاع کرنے پر امام علیہ الرحمت کوکوڑے مارے گئے اتنے کہ ان کا جسم ادھڑ کر رہ گیا مگر انہوں نے صدائے حق پر وہ استقامت دکھائی کہ دنیا حیران زدہ رہ گئی۔قیدو بند کی صعوبتیں امام احمد بن حنبل کی استقامت کو متزل نہ کر سکیں۔
معتصم کے اقتدار کے خاتمے کے بعد متوکل خلافت کے سنگھاسن پر براجمان ہوا تو حالات کا رخ بدل گیا ۔اب امام احمد کی سزائیں ختم کی گئیں انہیں عزت و احترام کے ساتھ رہا کیا گیا یوں عوام دل و جان سے ان کی قدر کرنے لگی۔
امام احمد بن حنبلؒکی مشہور تصنیف ’’المسند‘‘ ہے ۔جواحادیث نبویﷺ کا عظیم مجموعہ ہے جس میں احادیث کو راویوں کے اعتبار سے مرتب کیا گیا ہے ۔یہ مجموعہ تقریبا ً چالیس ہزار احادیث اپنے اندر سمائے ہوئے ہے۔جسے امام نے اصحاب رسول ﷺ کے اسمائے گرامی کے مطابق ترتیب دیا ہے ۔جس میں ہر صحابیؓ کی روایات کا جدا جدا ذکر کیا ہے۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ علیہ نے المستند کے مضامین انتہائی سلیقے سے بیان کئے ہیں جن میں عقائد و توحید، سیرت النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم، فقہ و احکام،اخلاق و آداب ، فضائل و اعمال اور فتنوں سے متعلق پیش گوئیاں فرمائی گئی ہیں۔ مذکورہ مجموعے میں انتہائی جامعیت کے ساتھ احادیث کو ان کے مقام و اقسام مثلاً ضعیف، حسن اور صحیح احادیث جمع کی ہیں ۔
امام احمد کا نقطہ نظر یہ تھا کہ’’ ہر وہ حدیث جو کسی نہ کسی طرح نبی علیہ السلام سے منسوب ہواسے ضائع نہیں کرنا چاہیے‘‘ امام نے اپنے مجموعہ احادیث میں سند کی مضبوطی کو ملحوظ خاطر رکھا، مسند میں صحیح اور حسن درجے کی احادیث کو فوقیت دی تاہم بعض ضعیف روایات شامل کیں جن کی وضاحت بعد کے محدثین نے کی۔اس مجموعے میں سات سو سے زائد صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی مرویات جمع کی گئی ہیں۔
امام احمد نے متعدد ایسی احادیث جو حدیث کی دیگر کتب میں ناپید ہیں انہیں اس مجموعے میں محفوظ کیا گیا ہے۔امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ 241ھ میں اپنی جنم بھومی بغداد ہی میں مالک حقیقی سے جاملے ،ان کی نماز جنازہ میں لاکھوں لوگوں نے جوق در جوق شرکت کرکے امام کے علمی مقام پر مہر تصدیق ثبت کی۔انا للہ وانا الیہ راجعون