گوانزو سے ایو کی فلائٹ میں ایک بھارتی ہمسفر ہوئے، تعارف پر معلوم ہوا کہ وہ دہلی سے ہیں اور خواتین کے فینسی پرس بناتے ہیں اور یہاں سے ان کے لیے رنگدار ریگزین خریدنے آتے ہیں۔ مزید کا سلسلہ آگے بڑھا تو مزید معلوم ہوا کہ وہ ہر 3 ماہ بعد چین آتے ہیں۔ ہم نے حیرت سے پوچھا کہ وہاں سے ہی آرڈرز کیوں نہیں دے دیتے، ہر 3 ماہ بعد آنا کیوں ضروری ہے؟ تو اس پر انہوں نے ایک حیران کردینے والی بات بتائی۔
’کہنے لگے کہ گوانزو میں خواتین کے پرس بیچنے والی مارکیٹ میں ہر دکان پر ہر 3 ماہ بعد سب کچھ بدلا ہوا ہوتاہے، پرس کا میٹیریل، ڈیزائن، رنگ، ٹیکسچر سب کے سب نئے ہوئے ہوتے ہیں‘۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ہر 3 ماہ بعد سب سے پہلے مارکیٹ جاتا ہوں وہاں نئے میٹیریل اور ڈیزائن کی تصاویر لیتا ہوں پھر ’ایو‘ کے قریب فیکٹریوں میں جاتا ہوں اور جو ڈیزائن وہاں دکانوں پر چنے ہوتے ان کا خام مال آرڈر کرتا ہوں۔
اس طرح ہم اپنے شہر میں ہر تیسرے ماہ نئے میٹیریل اور نئے ڈیزائن متعارف کرواتے ہیں جس کی وجہ سے ہم اس وقت اپنی مارکیٹ کے لیڈر ہیں۔
آپ ان دونوں باتوں کا تصور کریں کہ وہ کیسے لوگ ہیں؟، جو ہر تیسرے ماہ نئے ڈیزائن کے حصول کے لیے دہلی سے گوانزو کا سفر کرتے ہیں اور وہ کیا لوگ ہوں گے جو ہر 3 ماہ بعد نئی چیزیں سوچ کر ان کو بناکر دکانوں میں لے آتے ہیں اور پھر اس سوچ کا موازنہ اپنے رویوں سے کریں۔
پچھلے دنوں لاہور میں خواتین کی مصنوعات کی بہت بڑی نمائش تھی، 2 سو کے قریب اسٹال ہوئے ہوں گے، سارے اسٹال صرف اسی آس پر دیکھے کہ شاید کوئی نیا آئیڈیا کوئی، نئی چیز، کوئی متاثر کن تخیل کی عملی صورت نظر آجائے۔۔۔۔۔مگر وہی سلے ان سلے کپڑے، چٹنی اچار، مربے، چائنہ کی بنی جیولری، پرس اور ڈیکوریشن آئٹم۔۔۔اور۔۔۔بس‘۔
صرف ایک صاحبہ شاید حیدرآباد سے تشریف لائیں تھیں، جنہوں نے کچھ مینیچر بنا رکھے تھے جو مقناطیس کی مدد سے فریج کے باہر لگائے جاسکتے ہیں، ان کا کام مختلف، تخیل نیا اور اشیا خوبصورت اور قابل ستائش تھیں، یا پھر ایک ڈی ہائیڈریٹڈ فوڈ کا اسٹال تھاجو ہماری ایک بہن فوزیہ بدر نے لگا رکھا تھا، اس میں کچھ نیا اور مختلف دیکھنے کو ملا اور پھر باقی سب وہی کچھ۔
بہرحال میں یہ نہیں کہہ رہا کہ خواتین کو یہ کام نہیں کرنا چاہییں، ضرور کریں مگر، مگر انہوں نے خود پر جدید ٹیکنالوجی اور جدید اشیا بنانے کے دروازے بند کیوں کررکھے ہیں؟۔ جو سینکڑوں ہزاروں نئے میدان ہیں، شعبے ہیں ان میں کام کیوں نہیں کرتیں۔
مثال کے طور پر بیجنگ میں ایک فیکٹری سے ہم نے لوہے کی جانچ کرنے والی جدید الیکٹرانکس مشینیں خریدیں وہ فیکٹری ایک عورت کی ملکیت تھی۔ گوانزو میں سلیکان ربر سے بنی اشیا کی ایک بہت بڑی فیکٹری خاتون چلارہی تھی۔
یوہان میں انجن کے عالمی معیار کے پرزے بنانے اور آدھی دنیا کو برآمد کرنے والی فیکٹری خاتون کی تھی۔ شنگھائی میں ایک خاتون جہازوں کے بہت ہی زبردست چھوٹے پلاسٹک کے ماڈلز بنارہی تھیں جو ہر ٹریول ایجنسی میں پڑے ہوتے ہیں، شوقین لوگ گھروں میں بھی رکھتے ہیں۔
ٹھیک ہے سرِ دست ہم توقع نہیں کرسکتے کہ آپ اُٹھ کر لیپ ٹاپ اور موبائل بنانا شروع کردیں مگر بہت سے نہایت سادہ اور آسان کام ہیں جو کیے جاسکتے ہیں۔
مثلا مصنوعی جیولری، ہیربینڈز اور کلپس، موتی، لیسز، باورچی خانے کی اشیا، برتنوں کے اسٹینڈز، ٹوتھ پکس، نمک مرچوں والی چھوٹی بوتلیں، پلاسٹک کی دیگر اشیا، اسی طرح سرامکس کے گلدان آرٹ پیسز اورگملے وغیرہ۔
چھوٹے سی این سی راؤٹر پر لکڑی، پلاسٹک اور پیتل کی سینکڑوں اشیا بنائی جاسکتی ہیں۔ تھری ڈی پرنٹنگ سے لاتعداد اشیا بنائی جاسکتی ہیں۔
چھوٹی خود کار پلاسٹک کی مولڈنگ مشینوں پر ہزاروں اشیا بنائی جاسکتی ہیں۔ ڈیجیٹل شوگر پرنٹرز سے کیکس، بسکٹس اور کھانے پینے کی دیگر اشیا پر تصاویر اور کارٹون وغیرہ بنا کر بچوں کی سالگرہ کو یاد گار بنایا جاسکتا ہے۔
چھوٹی ڈیجیٹل پرنٹر مشینوں اور چھوٹی کمپیوٹرائزڈ کڑھائی کی مشینیں جن کی قیمت 5 سے 7 لاکھ ہوتی ہے کو کسٹمائزڈ ڈیزائن کے کپڑے بنانےکے کام میں لایا جاسکتا ہے۔ موبائل فون کے کورز اور فینسی اسیسریز بنائی جاسکتی ہیں۔ دنیا میں آج کل جو اور گندم وغیرہ سے بنے برتنوں کا چلن عام ہورہا ہے۔
پلاسٹک کی بوتلوں اور استعمال شدہ اشیا کے ریپرز کی ری سائیکلنگ میں بھارت نے درجنوں سٹارٹ اَپس شروع کیے ہیں جن میں وہ ملبوسات سے لیکر پرس اور جوتے تک بنارہے ہیں ان میں بہت زیادہ پراجیکٹس خواتین نے شروع کیے ہیں۔
ہم نے کیوں مرد و زن کے فکروعمل کے میدان کو محدود کررکھا ہے۔ میری شدید خواہش ہے کہ ہمارے لوگ بالخصوص ہماری خواتین بھی پرانے کاموں کے ساتھ ساتھ جدید ٹیکنالوجی کو بھی زیر استعمال لاکر اپنا اور اپنے ارد گرد لوگوں کا معیار زندگی بلند کریں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ابنِ فاضل اسینڈرڈ الیکٹرانکس بھارت بوتلیں پاکستان پرنٹرز پلاسٹک ٹوتھ پکس چین خواتین فیکٹریاں لیپ ٹاپ مشینیں.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: الیکٹرانکس بھارت پاکستان پلاسٹک چین خواتین فیکٹریاں لیپ ٹاپ بنائی جاسکتی ہیں ہر 3 ماہ بعد ہیں اور نہیں کر
پڑھیں:
ججز کمیٹی کو توہین عدالت نوٹس دے سکتے ہیں، مگر ایسا کریں گے نہیں، جسٹس منصور
اسلام آباد:سپریم کورٹ نے بینچز اختیارات کیس کی سماعت مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کرلیا، جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ فل کورٹ تشکیل دینے کیلیے چیف جسٹس پاکستان کو معاملہ بھجوا سکتے ہیں، آگے انکی مرضی فل کورٹ بنائیں یا نہ بنائیں۔
دوران سماعت عدالتی معاون احسن بھون نے کہا کہ اس کیس میں جتنے عدالتی فیصلوں کے حوالے دیے جا رہے ہیں 26 ویں ترمیم کے بعد وہ غیر موثر ہو چکے ہیں، آپ ججز کمیٹی کا حصہ ہیں، آپ بیٹھیں یا نہ بیٹھیں یہ الگ بات ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ میں تو جوڈیشل کمیشن کا بھی ممبر ہوں، احسن بھون نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن اجلاس میں ججز بھی لگائے جا رہے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہم جو ججز نامزد کرتے ہیں انھیں تو ایک ہی ووٹ ملتا ہے، وہ بھی ہمارا ہی ہوتا ہے، باقیوں کو گیارہ گیارہ ووٹ پڑ جاتے ہیں، یہ تو گپ شپ لگتی رہے گی۔
ہم ریگولر ججز کمیٹی کے دو ممبران (چیف جسٹس پاکستان،سربراہ آئینی بنچ ) کو توہین عدالت کا نوٹس بھی جاری کر سکتے ہیں لیکن ایسا کریں گے نہیں۔ بادی النظر میں دو رکنی ججز کمیٹی نے جوڈیشل آرڈر کو نظرانداز کیا،سپریم کورٹ رولز 1980 کے تحت فل کورٹ چیف جسٹس پاکستان بنائیں گے یا کمیٹی بنائے گی ،کیا جوڈیشل آرڈر کے ذریعے فل کورٹ کی تشکیل کیلئے معاملہ ججز کمیٹی کو بھجوایا جا سکتا ہے؟
عدالتی معاون احسن بھون نے کہا ماضی میں عدالتوں نے تشریح کے نام پر آئین سبوتاژ کیا ، سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ اس کی مثال ہے۔
جسٹس منصور شاہ نے کہا آپ کہہ رہے ہیں کہ ماضی بڑا خراب تھا، کیا حال ٹھیک ہے؟ احسن بھون نے کہا حال تو آپ لکھیں گے اور ایسا فیصلہ نہیں کریں گے۔
جسٹس منصور شاہ نے کہا ہم نے کیا فیصلہ کرنا ہے ہم کونسا آئینی کورٹ ہیں ۔ احسن بھون نے کہا ہم اسی لیے کہتے تھے کہ آئینی عدالت بنائی جائے۔ جسٹس منصور نے کہا تھوڑا دھکا اور لگا دیتے۔ احسن بھون نے کہا کہ آئینی بینچ کے سوا کسی دوسرے بینچ کو آئینی قانونی معاملات پرکھنے کا اختیار نہیں۔
جسٹس منصور شاہ نے کہا ہم اسی سوال کا جائزہ لینے بیٹھے تھے کہ ہم سے کیس ہی لے لیا گیا، کیا ایسا ہوسکتا ہے؟ اگر غیر آئینی بینچ کی کوئی وزڈم ہوتی ہے، ہم صرف یہ جائزہ لینے بیٹھے کمیٹی ہم سے مقدمہ آرٹیکل 191کے تحت واپس لے سکتی ہے یا نہیں۔
جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ بینچ کمیٹی ہی نے تشکیل دیا تھا، ہم نے تو نہیں بنایا، اس بینچ نے جوڈیشل آرڈر جاری کیا، ساری شرارت ہمارے اس آرڈر کی ہے۔
عدالتی معاون خواجہ حارث نے کہا آرٹیکل 191اے آئین کا حصہ ہے جسے کسی جوڈیشل فورم نے کالعدم قرار نہیں دیا گیا، اگر آپکا پچھلا عدالتی بنچ آئینی سوالات پر فیصلہ دیتا تو وہ خلاف قانون ہوتا، یہ معاملہ ججز کمیٹی کو بھیجنا چاہیے تھا، اس اختیار کے استعمال کو جوڈیشل آرڈر کی خلاف ورزی پر نہیں پرکھنا چاہیے، پریکٹس اینڈ پروسیجر آج بھی نافذالعمل قانون ہے، سپریم کورٹ کا بنچ قانون کے مطابق ہی کوئی حکم جاری کر سکتا ہے۔
جسٹس منصور شاہ نے کہا آئینی بنچ نان جوڈیشل فورم کے ذریعے بنائے گئے، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو اس لیے درست قرار دیا کہ عدلیہ بنچ بنائے گی۔ خواجہ حارث نے کہا آئین میں درج ہے آئینی بنچ کیسے بنے گا، دو رکنی ریگولر بنچ توہین عدالت کیس میں فل کورٹ نہیں بنا سکتی، سپریم کورٹ رولز 1980 کے تحت چیف جسٹس سے گزارش کی جا سکتی ہے۔
جسٹس عقیل عباسی نے کہا کل کہیں لوگ یہ نہ کہیں سپریم کورٹ اپنے اختیارات سے تجاوز کر رہی ہے۔ نذر عباس نے اپنے جواب میں کہا مجھے قربانی کا بکرا بنایا گیا، ہمیں کوئی شوق نہیں ہے توہین عدالت کا۔ اٹارنی جنرل نے دلائل میں کہا توہین عدالت کی کارروائی محدود ہوتی ہے، اگر عدالت نے اس کارروائی سے باہر نکلنا ہے تو معاملہ چیف جسٹس کو بجھوایا جائے، آپکے پاس اختیار سماعت محدود ہے، معاملہ کمیٹی کو بھیجنا چاہیے، اگر عدالت آرٹیکل 184 یا اپیل سن رہی ہوتی تو الگ بات تھی۔ بعد ازاں عدالت نے سماعت مکمل کرکے فیصلہ محفوظ کر لیا ۔