روحی بانو، شہرت سے گمنامی تک کا سفر
اشاعت کی تاریخ: 25th, January 2025 GMT
مایوس، بے بس اور ناامیدی کے بھنور میں ڈوبی ہوئی روحی بانو نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا کہ ایک دور ایسا بھی آئے گا کہ سب اپنی نگاہیں پھیرلیں گے۔ وہ اداکار جن کے سنگ زندگی کے بہترین لمحات گزارے تھے انہیں روحی بانو کی باتیں اس قدر بوجھل اور بور کریں گی کہ وہ دھیرے دھیرے دور ہوتے چلے جائیں گے۔
کئی تو ایسے بھی تھے جو روحی بانو کو کسی محفل میں دیکھ کر راہیں بدل لیتے، پروڈیوسرز کی بھی دلچسپی اب ان میں کم سے کم ہوتی جا رہی تھی۔
ذرائع ابلاغ جو کبھی ان کے حسن اور اداکاری کے گن گاتے تھے انہیں روحی بانو کی زندگی میں کوئی کشش دکھائی نہیں دیتی تھی۔ عروج سے زوال کا یہ دور، یہ لمحات اور یہ برس روحی بانو کو درد، کرب اور تکلیف کا ایسا احساس دیتے جن سے وہ بچنا چاہتیں تھی۔ خاص کر ایسے میں جب ان کی کل کائنات یعنی ان کا ہونہار بیٹا علی رضا بے رحمانہ قتل کا شکار ہوا۔
سال 2005 ہی دراصل وہ برس تھا جس نے روحی بانو کی زندگی کو دہرے دکھ اور درد کا صدمہ دیا۔ جواں سال بیٹے علی رضا کے قتل کی تکلیف سے ابھی نبرد آزما ہی تھیں کہ اس عرصے میں والدہ کی سوختہ لاش کراچی کے کلثوم کورٹ کے فلیٹ سے ملی، جسم پر جلنے کے شدید نشانات تھے۔
بس پھر کیا تھا، روحی بانو تو ایک کے بعد ایک ملنے والے ان زخموں سے وقت سے پہلے بڑھاپے کی دہلیز پر پہنچ گئیں۔ دماغی بیماری شیزوفرینیا میں ایسی مبتلا ہوئیں کہ پھر لوٹ کر زندگی کی طرف نہ آسکیں۔
2015 میں یہ خبر بھی دیکھی گئی کہ روحی بانو پر لاہور میں قاتلانہ حملہ ہوا، پولیس کی تفتیش میں یہ بات سامنے آئی کہ حملہ آور کوئی اور نہیں، مرحوم بیٹے علی کا دوست تھا۔ جس نے روحی بانو پر دباؤ ڈالا کہ وہ گھر بیچ دیں، انکار کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں۔
بعد میں وہ اس قدر مشتعل ہوگیا کہ روحی بانو پر حملہ آور ہوگیا۔ یہ روحی بانو ہی تھیں جو اپنوں کی بے رخی کے بعد ٹوٹ پھوٹ کر بکھر سی گئی تھیں۔ جن کو اگر کبھی کوئی ٹی وی چینل یاد کرتا اور ملاقات کا اہتمام ہوتا تو روحی بانو کی بہکی بہکی اور بے تکان باتوں سے وہ یہی اندازہ لگاتا کہ روحی بانو ذہنی طور پر حد سے زیادہ منتشر ہوچکی ہیں۔
کیسے کوئی اُن تصاویر کو بھول سکتا ہے جب ایک دور کی خوبصورت اور حسین و جمیل اداکارہ کو انہوں نے بے ڈھنگے اور بے ترتیب بال، پرانے کپڑوں اور ان گنت سوالوں میں گھری آنکھوں اور چہرے پر بڑھاپے کی لکیروں کے ساتھ دیکھا۔
یہ روحی بانو کے اُن پرستاروں کو دل گرفتہ کرگیا جو کسی زمانے میں اُن کے حسن کے دیوانے تھے۔ وہ روحی بانو جنہوں نے 70اور پھر 80کی دہائی میں ٹی وی ڈراموں پر راج کیا۔ وہ روحی بانو جنہوں نے کرن کہانی، زرد گلاب، دروازہ، کانچ کا پل، دہلیز اور کارواں میں اپنی اداکاری سے ہر ایک کو متاثر کیا۔
صرف ٹی وی ڈرامے ہی نہیں ان کی فنی خدمات تو پردہ سیمیں پر بھی دیکھنے کو ملیں۔ 1981میں جب انہیں حکومت کی طرف سے پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا گیا تو ہر جانب بس ان کا ہی چرچا تھا ۔
لاہور کے گورنمنٹ کالج سے نفسیات میں ماسٹرز کرنے والی روحی بانو کو کیا معلوم تھا کہ مستقبل میں وہ خود ان گنت نفسیاتی مسائل سے جنگ کریں گی۔
روحی بانو کو کیا علم تھا کہ پی ٹی وی کے سنہری دور کی ساتھی کی زندگی ایک وقت میں خود بے نور ہوجائے گی۔ اپنی دلچسپ اور بامعنی گفتگو سے ہر کسی کو گرویدہ کرنے والی بدقسمت اداکارہ 2بار دلہن بننے کے باوجود اس رشتے کی اصل روح اور تعلق سے محروم رہیں۔
ذہن تو وہ منظر بھی مٹا نہیں پاتا جب ذرائع ابلاغ میں روحی بانو رنج و الم میں ڈوبی ہوئی ہاتھوں میں پلے کارڈ اٹھائے، بیٹے کے قاتلوں کو گرفتار کرنے کی دہائی دیتے ہوئے در بدر کی ٹھوکریں کھاتی ملیں۔
پھر سب نے وہ منظر بھی دیکھا جب روحی بانو نفسیاتی علاج کے لیے سینٹر میں داخل ہوئیں۔ کبھی وہ کسی شیلٹر ہاؤس میں پناہ لینے کی خبروں کی زینت بنیں۔
بھارتی طبلہ نواز اللہ رکھا کی بیٹی اور حال ہی میں زندگی کی بازی ہار جانے والے استاد ذاکر حسین کی سوتیلی بہن روحی بانو کو شکوہ اُن سے رہا جو ان کے کبھی دوست تھے، کبھی غم گسار تھے اور کبھی ہمدرد تھے۔
جن سے وہ یہی شکایت کرتیں کہ نفسیاتی الجھنوں میں گھری روحی بانو کو وہ تنہا چھوڑ گئے ہیں۔ کہتے ہیں کہ دل جوئی کی جاتی تو ممکن ہے کہ روحی بانو زندگی کی طرف لوٹ آتیں۔ لیکن وہ دل برداشتہ ہو کر لوٹ کر گئیں تو ترک شہر استنبول میں اپنی بہن کے پاس۔
استنبول ہی سے 25 جنوری 2019 کو یہ بری خبر سننے کو ملی کہ روحی بانو اب اس دنیا میں نہیں رہیں۔ 10 دن تک وہ مصنوعی سانسوں کے ساتھ وینٹی لیٹر پر رہیں اور پھر ہر غم اور دکھ سے آزاد ہو کر دوسرے جہاں پہنچ گئیں۔
روحی کے انتقال پر پرانے ساتھیوں نے بڑھ چڑھ کر یادیں تازہ کیں۔ ان کے ڈراموں، کردار اور شخصیت پر اظہار خیال کیا۔ لیکن افسوس کہ ان کی زندگی میں کوئی روحی بانو کے دل کے بند اور زنگ لگے دروازوں کو کھول کر یہ نہ جان سکا کہ انہیں کیا غم اندر ہی اندر زخم دے رہا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
سفیان خانسفیان خان کئی اخبارات اور ٹی وی چینلز سے وابستہ رہے ہیں۔ کئی برسوں سے مختلف پلیٹ فارمز پر باقاعدگی سے بلاگز بھی لکھتے ہیں۔
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: روحی بانو کی روحی بانو کو کہ روحی بانو کی زندگی
پڑھیں:
افسردگی اور مایوسی کا نبوی علاج
ڈپریشن، جسے افسردگی اور مایوسی بھی کہتے ہیں، آج کے دور کا ایک اہم مسئلہ ہے جو ہر عمر اور طبقے کے افراد کو متاثر کر رہا ہے۔ یہ بیماری صرف جسمانی کم زوری یا وقتی پریشانی کا نتیجا نہیں بل کہ ایک گہری نفسیاتی کیفیت ہے جو انسان کی زندگی کے ہر پہلو پر اثر ڈالتی ہے۔
اسلام نہ صرف روحانی سکون فراہم کرتا ہے بل کہ زندگی کے ہر مسئلے کا حل بھی پیش کرتا ہے۔ ڈپریشن کے مسئلے کو سمجھنے اور اس کا حل تلاش کرنے کے لیے سیرت نبوی ﷺ ایک مثالی راہ نما ہے۔
ڈپریشن کی وجوہات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم زندگی کے مختلف پہلوؤں پر غور کریں۔ مادی خواہشات، دنیاوی ناکامیاں، تعلقات میں دراڑیں اور روحانی خلا وہ بنیادی اسباب ہیں جو انسان کو افسردگی کی جانب دھکیل سکتے ہیں۔ موجودہ دور میں مادیت پسندی اور خدا سے دوری انسان کو ذہنی دباؤ میں مبتلا کرنے کا سب سے بڑا سبب ہیں۔ انسان دنیاوی خواہشات کی دوڑ میں خود کو الجھا لیتا ہے اور جب ان خواہشات کی تکمیل ممکن نہیں ہوتی تو وہ مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔
نبی کریم ﷺ کی سیرت ہمیں زندگی کے ہر مسئلے کا حل فراہم کرتی ہے اور اس میں ڈپریشن کا مسئلہ بھی شامل ہے۔ سب سے پہلے یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ نبی اکرم ﷺ کی حیات طیبہ میں کئی ایسے مراحل آئے جب آپ کو شدید مشکلات اور غموں کا سامنا کرنا پڑا۔
والدین کی کم عمری میں وفات، چچا اور زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کی رحلت، مکہ مکرمہ میں دعوت کے دوران شدید مخالفت، اور طائف کا دل خراش واقعہ، یہ تمام آزمائشیں ایسی تھیں جو کسی بھی انسان کو انتہائی دباؤ اور غم میں مبتلا کر سکتی تھیں۔ لیکن ان تمام مشکلات کے باوجود نبی کریم ﷺ نے صبر، استقامت اور اﷲ پر مکمل بھروسے کا مظاہرہ کیا۔
ڈپریشن کے مسئلے کا حل قرآن مجید اور نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات میں واضح طور پر موجود ہے۔ سب سے پہلے اﷲ تعالیٰ پر توکل اور اس کی رضا پر قناعت انسانی ذہن کو سکون فراہم کرتی ہے۔
قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے، مفہوم: ’’جان لو! اﷲ کی یاد ہی سے دل چین پاتے ہیں۔‘‘ (سورۃ الرعد)
اس آیت مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ دل او ر دماغ کی بے چینی کا علاج اﷲ کے ذکر میں ہے۔ جب انسان اﷲ کا ذکر کرتا ہے تو وہ اپنے آپ کو اس ذات سے جوڑ لیتا ہے جو ہر قسم کی پریشانی، غم اور خوف سے بے نیاز ہے۔ اس قربت سے انسان کو یہ یقین حاصل ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی مشکل میں اکیلا نہیں ہے بل کہ ایک ایسی طاقت اس کے ساتھ ہے جو ہر شے پر قادر ہے۔
ڈپریشن سے بچنے کے لیے ایک اور اہم نکتہ عبادات اور اﷲ کے قریب ہونے کا عمل ہے۔ نماز، روزہ، قرآن کی تلاوت اور دیگر عبادات دل کو سکون پہنچاتی ہیں۔
حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے منقول ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے۔‘‘ (سنن نسائی)
اسی طرح نبی اکرم ﷺ نے بھی مختلف اذکار اور دعاؤں کے ذریعے غم اور پریشانی کو دور کیا اور امت کو بھی اس کی تعلیم دی۔ حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ کی کچھ دعائیں ایسی تھیں جنہیں آپ پڑھنا نہیں چھوڑتے تھے، اُن میں یہ دعا بھی شامل تھی، مفہوم: ’’اے اﷲ! میں فکر اور پریشانی سے، عاجزی و سستی سے، کنجوسی و بزدلی سے اور لوگوں کے غالب آنے سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔‘‘ (سنن نسائی)
اس دعا سے معلوم ہوتا ہے کہ زندگی کی مشکلات میں اﷲ تعالیٰ کی جانب رجوع کرنا، اس کی رحمت پر بھروسا رکھنا اور ذکر و اذکار کو اپنانا دل و دماغ کو سکون اور اطمینان بخشنے کے لیے نہایت اہم ہیں۔
سیرت نبوی ﷺ سے ہمیں یہ بھی سبق ملتا ہے کہ زندگی میں مثبت رویہ اور مقصدیت انسان کو ذہنی سکون فراہم کرتی ہے۔ آپ ﷺ نے ہمیشہ اپنی امت کو تعلیم دی کہ ہر حال میں شکر گزاری اور اﷲ کی رضا پر صبر کریں۔ جب انسان اس بات کو تسلیم کر لیتا ہے کہ ہر چیز اﷲ کی رضا کے تحت ہو رہی ہے تو وہ اپنی زندگی میں مایوسی اور دباؤ سے بچ سکتا ہے۔
قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے، مفہوم: ’’اﷲ کسی جان پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔‘‘ (سورۃ البقرۃ) یعنی اﷲ تعالیٰ ہر انسان کو اتنی ہی آزمائش دیتا ہے جتنی وہ برداشت کر سکتا ہے۔ یہ یقین انسان کے دل سے مایوسی کو ختم کرتا ہے۔
ڈپریشن کے علاج کے لیے سماجی تعلقات بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ نبی اکرم ﷺ نے ہمیشہ صحابہ کرامؓ کے ساتھ محبت اور ہم دردی کا مظاہرہ کیا اور ان کے مسائل کو سمجھا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جس شخص نے کسی مومن سے دنیا کی کوئی تکلیف دور کی تو اﷲ اس سے قیامت کے دن کی کوئی تکلیف دور فرما دے گا، جس شخص نے کسی تنگ دست پر آسانی کی تو اﷲ اس پر دنیا و آخرت میں آسانی فرمائے گا، جس نے کسی مسلمان کی عیب پوشی کی تو اﷲ اس کی دنیا و آخرت میں عیب پوشی فرمائے گا، اﷲ بندے کی مدد فرماتا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا رہتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم)
اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ زندگی میں دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرنا نہ صرف ان کی مدد کرنا ہے بل کہ ہمیں اﷲ کے قریب کرتا ہے اور ہمارے دلوں کو سکون اور اطمینان سے بھر دیتا ہے۔ جب ہم کسی تنگ دست پر آسانی کرتے ہیں یا کسی کی عیب پوشی کرتے ہیں تو اس عمل سے ہمارے دل کو ایک انوکھا سکون ملتا ہے کیوں کہ یہ اعمال ہماری روحانی ترقی اور دنیاوی اطمینان کا ذریعہ بنتے ہیں۔
دوسروں کے ساتھ ہم دردی اور ان کی مدد کرنے سے دل پر بوجھ کم ہوتا ہے، ذہن کے منفی خیالات دور ہوتے ہیں اور ایک روحانی خوشی پیدا ہوتی ہے جو دنیا کی کسی چیز سے حاصل نہیں ہو سکتی۔ یہ حدیث مبارکہ ہمیں ایک ایسا عملی نسخہ فراہم کرتی ہے جو نہ صرف دنیا میں سکون کا ذریعہ ہے بل کہ آخرت میں بھی کام یابی کی ضمانت دیتا ہے۔
نبی اکرم ﷺ کی حیات طیبہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ جسمانی صحت کا خیال رکھنا بھی ذہنی صحت کے لیے ضروری ہے۔ آپ ﷺ نے صحت مند خوراک، اعتدال پسند طرز زندگی اور جسمانی مشقت کو اہمیت دی۔ ڈپریشن کے علاج میں بھی متوازن خوراک، ورزش اور نیند کا اہم کردار ہے۔ ڈپریشن کا ایک اور سبب مادی خواہشات کی بھرمار ہے۔ آج کے دور میں لوگ دنیاوی کام یابیوں اور دولت کے پیچھے بھاگتے ہیں جو اکثر انہیں مایوسی اور دباؤ کی طرف لے جاتی ہیں۔
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’مال داری کثرتِ مال و اسباب کا نام نہیں، بل کہ حقیقی مال داری دل کی مال داری ہے۔‘‘ (صحیح بخاری)
اس حدیث مبارکہ سے سبق ملتا ہے کہ اصل خوشی اندرونی سکون اﷲ کی رضا میں ہے نہ کہ مادی چیزوں کے حصول میں۔
مختصر یہ کہ نبی اکرم ﷺ کی سیرت ہمارے لیے کامل راہ نمائی فراہم کرتی ہے جو ہمیں سکھاتی ہے کہ آزمائشوں اور غموں کا سامنا صبر و حوصلے کے ساتھ کیسے کیا جائے۔ آپ ﷺ نے ہمیں سکھایا کہ اﷲ پر ایمان، صبر، شکر گزاری اور دوسروں کے ساتھ ہم دردی ہی وہ اصول ہیں جو انسان کو ذہنی دباؤ سے نجات دلا سکتے ہیں۔ ڈپریشن کا علاج صرف ادویات یا مشوروں میں نہیں بل کہ اﷲ سے قربت، عبادات اور مثبت طرز زندگی میں بھی پوشیدہ ہے۔