حیدرآباد ،محکمہ بجلی میں خالی آسامیاں پر کرنے کا مطالبہ
اشاعت کی تاریخ: 25th, January 2025 GMT
حیدرآباد (اسٹاف رپورٹر) آل پاکستان واپڈا ہائیڈرو الیکٹرک ورکرز یونین سی بی اے کے مرکزی صدر عبداللطیف نظامانی نے محکمہ بجلی میں ایک لاکھ سے زائد ملازمین کی جگہیں خالی ہیں جن پر حکومت نے بھرتیاں بند کی ہوئی ہیں، جبکہ کام کا دبائو دن بدن بڑھ رہا ہے جس کے باعث ایک ملازم سے 10 کا کام لیا جا رہا ہے، شدید قلت کے باوجود ملازمین کے واجبات کی ادائیگیاں اور مراعات کو کٹ لگایا جا رہا ہے، اوقات کار بالائے طاق رکھ کر تعطیلات بھی نہیں دی جا رہی ہیں جس کی وجہ سے ملازمین پر شدید دبائو ہے جو حادثات کا باعث بن رہا ہے، یونین نے ان حالات میں بھی جدوجہد کرکے 62 لائن اسٹاف کو ترقیاں دلائیں جبکہ کئی ملازمین کو آفیسر گریڈ میں ترقیاں دلائی گئی ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے آپریشن سرکل حیسکو میرپورخاص زون کے چیئرمین شاہد قائمخانی، شاہد کاظمی، سکندر مہر، غلام رسول، یوسف سومرو، اکبر لغاری و دیگر نمائندگان کی جانب سے منعقدہ واپڈا ملازمین کے بڑے جلسے سے مقامی ہال میں خطاب کرتے ہوئے کیا۔ جلسے کے مہمانِ خصوصی سپرنٹنڈنگ انجینئر آپریشن سرکل حیسکو میرپورخاص امیر احمد میمن تھے، جبکہ دیگر مہمانان گرامی میں میرپورخاص کے میئر عبدالرئوف غوری، یونین کے صوبائی جنرل سیکرٹری اقبال احمد خان کے علاوہ یونین کے صوبائی میڈیا کو آرڈینیٹر محمد حنیف خان، الادین قائمخانی، نور احمد نظامانی، حامد کے کے، شفیق بابو شامل تھے۔ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے صدر یونین نے کہا کہ یونین نے LM-II کو LM-I اور LM-I کو LS-II جبکہ بہت سارے ملازمین کو SDO کی ترقیاں جبکہ 17 گریڈ میں اپ گریڈیشن بھی کرایا ہے، ہمارے ملازمین نے کمی کے باوجود دن رات کام کرکے میرپورخاص کے 17 فیڈرز کو فری لوڈ شیڈنگ کیا اور ابھی مزید کے لیے کام جاری ہے، سمجھتے ہیں کہ جن علاقوں میں بجلی چوری نہیں ہے وہاں بجلی کی مسلسل روانی ہونی چاہیے، بجلی چوری کا خاتمہ کرنا اور ادارے کو پروان چڑھانا منشور ہے کیونکہ اگر ادارہ ہوگا تو ہم بھی ہوں گے۔ انہوں نے پورے حیسکو ریجن میں میرپورخاص سرکل کو ریکوری میں ٹاپ کرنے پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ یہ کامیابی آپ کی ہے جو آپ کی جدوجہد کے باعث ممکن ہوا۔ جلسے سے ایس ای امیر احمد میمن نے خطاب میں کہا کہ میرے دروازے یونین نمائندگان کے لیے ہمیشہ کھلے ہیں اور ہم آپس میں تعاون و اتفاق سے سرکل کو آگے بڑھا رہے ہیں اور مزید اسے آگے لے کر جائیں گے اور ملازمین کے جائز مسائل کو حل کیا جائے گا۔ جلسے سے یونین کے صوبائی سیکرٹری اقبال احمد خان نے منتظمین کو کامیاب جلسے کے انعقاد پر مبارکباد پیش کی، انہوں نے کہا کہ یونین ادارے کی نجکاری نہیں ہونے دے گی، ادارے میں گاڑیوں کی ضرورت کو پورا کیا جائے، ان کے واجبات دلائے جائیں گے۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
پاکستان سولر پینلز درآمد کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک بن گیا
برطانوی توانائی تھنک ٹینک “ایمبر” کی عالمی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پاکستان دنیا کا سب سے بڑا سولر پینلز درآمد کرنے والا ملک بن گیا ہے۔
اِس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نہ کوئی بڑی قانون سازی ہوئی، نہ عالمی سرمایہ کاری کی یلغار اور نہ ہی وزیرِاعظم نے سبز انقلاب کا اعلان کیا، اس کے باوجود 2024 کے آخر تک پاکستان نے دنیا کے تقریباً تمام ممالک سے زیادہ سولر پینلز درآمد کیے۔
پاکستان نے صرف 2024 میں ہی 17 گیگا واٹ کے سولر پینلز درآمد کیے، جس سے وہ دنیا کی صفِ اول کی سولر مارکیٹس میں شامل ہو گیا ہے، یہ اضافہ 2023 کی نسبت دوگنا ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان کی سولر درآمدات کی یہ وسعت خاص طور پر اِس لیے حیران کن ہے کیونکہ یہ کسی قومی پروگرام یا بڑے پیمانے پر منظم منصوبے کے تحت نہیں ہوا بلکہ صارفین کی ذاتی کوششوں سے ہوا ہے۔
زیادہ تر مانگ گھریلو صارفین، چھوٹے کاروباروں اور تجارتی اداروں کی طرف ہے جو مہنگی اور غیر یقینی سرکاری بجلی کے مقابلے میں سستی اور قابلِ اعتماد توانائی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق سولر پر منتقلی اُن لوگوں اور کاروباروں کی بقاء کی کوشش ہے جو غیر مؤثر منصوبہ بندی اور غیر یقینی فراہمی کے باعث قومی گرڈ سے باہر ہوتے جا رہے ہیں، یہ پاکستان میں توانائی کی سوچ میں ایک بنیادی تبدیلی کی علامت ہے۔
صرف مالی سال 2024 میں ہی پاکستان کی سولر پینلز کی درآمدات ملک بھر میں بجلی کی کُل طلب کا تقریباً نصف بنتی ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اب قومی گرڈ کو اپنی اہمیت برقرار رکھنے کے لیے خود کو ڈھالنا پڑے گا کیونکہ موجودہ انفرااسٹرکچر اس تیز رفتار تبدیلی کے ساتھ قدم نہیں ملا پا رہا، اس منتقلی کو پائیدار اور منظم بنانے کے لیے نظام کی اپڈیٹڈ منصوبہ بندی ناگزیر ہے۔
صنعتی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ ریگولیٹرز نے نیٹ میٹرنگ کی اجازت دی ہے اور درآمدات پر کچھ نرمی بھی کی گئی ہے، لیکن پاکستان کی سرکاری گرڈ سے منسلک سولر پیداوار اب بھی بہت کم ہے، جو ظاہر کرتی ہے کہ زیادہ تر نئی تنصیبات گرڈ سے باہر کام کر رہی ہیں اور قومی بجلی کے اعدادوشمار میں شامل نہیں ہو رہیں۔
Post Views: 1