غزہ کے باشندوں کا اپنے گھروں کو واپس جانا اسرائیل کے لیے ایک اور شکست ہے، حماس
اشاعت کی تاریخ: 25th, January 2025 GMT
تحریک حماس کے ترجمان نے کہا کہ اسرائیلی حکومت غزہ کے لوگوں کو زبردستی علاقے سے نکالنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن وہ اس مقصد میں بھی ناکام رہی۔ اسلام ٹائمز۔ حماس کی تحریک کے ترجمان نے کہا کہ اسرائیلی رژیم غزہ کے لوگوں کو اس علاقے سے زبردستی نکال کر باہر بھیجنے کی کوشش کر رہی تھی، لیکن اس مقصد میں بھی وہ ناکام ہو گئی۔ فارس نیوز کے مطابق، حماس کے تحریک کے ترجمان خلیل الحیہ نے کہا کہ غزہ کے شمالی علاقے کے باشندوں کا اپنے گھروں کو واپس جانا، جنگ کے ایک مقصد یعنی غزہ کے عوام کو فلسطین کی سرزمین سے بے دخل کرنے میں شکست کا اظہار ہے۔
انہوں نے شهاب نیوز ایجنسی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے لوگوں کی غزہ میں شجاعت اور مقاومت کی قوت نے اسرائیلی منصوبہ کے آخری حملے کو ناکام بنا دیا جو فلسطینی عوام کو ان کی سرزمین سے بے دخل کرنا چاہتا تھا۔ خلیل الحیہ نے مزید کہا کہ ہمارے لوگوں کا اپنی سرزمین پر جڑیں گہری کرنا، بے مثال جنگ اور قتل و غارت کے باوجود، فلسطین کے وجود کی جنگ کو ہمارے عوام کے حق میں جیتنے کا باعث بنا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ غزہ کے لوگوں کی خواہشات واضح اور عادلانہ ہیں اور ان کا حق ہے کہ وہ اپنے آزاد کیے گئے علاقے میں ایک آزاد ریاست قائم کریں۔ حماس کے ترجمان نے مزید کہا کہ کوئی بھی طاقت ہمارے لوگوں کے آزادی اور خود مختاری کے راستے کو ختم نہیں کر سکتی، غزہ میں تباہ کن جنگ ہمارے لوگوں کے اپنے وطن میں ریاست کے قیام کے حق کی گواہی ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ہمارے لوگوں کے ترجمان کہا کہ غزہ کے
پڑھیں:
سرنگوں اور ملبے سے اُبھرتی ہوئی حماس
حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ اسرائیل کے لئے ایک دل شکن مرحلہ اور حماس کے لئے ایک ہدف کی تکمیل کے مترادف ہے ۔یہ معاہدہ بالادست اور زیر دست کے شائبے سے قطعی آزاد اور ایک جنگ کے دوفریقوں کا رنگ لئے ہوئے ہے ۔یوں اس میں اسرائیل اور حماس دو مساوی فریقوں کے طور پردکھائی دے رہے ہیں اور یہی حماس کی طاقت اور فتح ہے۔اسرائیل حماس کے ساتھ کسی قسم کی جنگ بندی کا مخالف تھا کیونکہ وہ اس بار حماس کو تہس نہس کئے بغیر اپنا ہاتھ نہ روکنے کا تہیہ کئے ہوئے تھا مگر سیکڑوں یرغمالیوں کے رشتہ داروںکے دبائو اس کے نتیجے میں اسرائیل میں پھیلنے والی بے چینی کے خوف اور عالمی قوتوں کی تکرار نے اسرائیل کو یہ کڑوا گھونٹ پینے پر مجبور کر دیا ۔یہی نہیں بلکہ سہولت کار وں نے اسرائیل کو حماس کے ساتھ بٹھا کر معاہدے کا ایسا متن لکھا جس میں کسی طور بھی اسرائیل کی شبیہہ ایک فاتح کی نہیں بن سکی بلکہ وہ جنگ سے تھکے ہوئے ایک فریق کی حیثیت کے ساتھ سامنے آیا۔ اس معاہدے کے بعد اسرائیل کی ڈیفنس فورسز یعنی مسلح افواج کے سربراہ نے حالات کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے مستعفی ہونے کا اعلان کیا۔ جسے یرغمالیوں کے رشتہ داروں نے ’’بہترین ابتدا‘‘ قرار دیتے ہوئے حقائق جاننے کے لئے ایک تحقیقاتی کمیشن کے قیام کا مطالبہ دہرایا۔ حماس کا مقصد اسرائیل کی بڑھتی ہوئی دھاک کو نقصان پہنچانا اور اسرائیل کی طاقت کی چکا چوند سے مرعوب عرب حکمرانوں کو ایک ایک کرکے اسرائیل کے آگے ڈھیر ہونے سے روکنا تھا۔ اپنے دو سربراہوں اسماعیل ہنیہ اور یحییٰ سنوار سمیت ہزاروں افراد کی قربانی اور املاک کی تباہی کے بعد وہ اس مقصد میں کامیاب رہے۔ یہی نہیں بلکہ یہ لڑائی خطے اور ہمسائیگی میں ان کے سب سے بااعتماد اتحادی حزب اللہ کے قائد حسن نصراللہ سے محرومی پر منتج ہوئی۔ اسرائیل کا پہلا مقصد حماس کو کچلنا تھا۔ اس جنون میں وہ اپنے یرغمالیوں کی رہائی اور صحت وسلامتی کے معاملے سے بھی بے نیاز ہوگیا تھا۔ اسرائیل کو یہ پروا نہیں رہی کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان یرغمالیوں کا انجام کیا ہوتا ہے۔ اسرائیل نے اس موقع کو حماس کو کچل ڈالنے کے لیے استعمال ہوا۔ اسی لیے وہ جنگ بندی کی ہر علاقائی اور بین الاقوامی کوشش کو ناکام بناتا چلا گیا۔ جنگ بندی کا مرحلہ آیا تو حماس پوری قوت کے ساتھ میدان میں موجود تھی اور وہ ایک دبدبے کے ساتھ اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کر رہی تھی۔ اسرائیل کے اخبار یروشلم پوسٹ میں سیتھ جے فریزٹمین نے اس حوالے سے ایک اہم مضمون لکھا ہے۔ جس کا عنوان ہے غزہ کی سرنگوں سے حماس کا اُبھرنا یہ بتا رہا ہے کہ اس نے غزہ پر اپنا کنٹرول کھویا نہیں‘‘۔ اس مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسرائیل حماس کی قوت اور کمر کو توڑنے میں بری طرح ناکام ہوا ہے۔ مضمون نگار لکھتے ہیں کہ حماس غزہ کی سرنگوں اور ملبے سے نمودار ہو رہی ہے جو یہ بتا رہاہے کہ پندرہ ماہ کی لڑائی کے باوجود حماس نے کبھی بھی غزہ پر اپنی گرفت ڈھیلی نہیں کی۔ اگرچہ حماس کو اسرائیلی فوج کی طرف سے پے درپے کئی دھچکے لگے مگر اس کے باوجود یہ ثابت ہو رہا ہے کہ تنظیم نئی بھرتیاں کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔ ان کے پاس سڑکوں پر آنے کے لیے گاڑیاں اور ٹرک بھی ہیں۔ غزہ سے آنے والی وڈیوز سے پتا چلتا ہے کہ ان کے پاس سفید پک گاڑیاں بھی ہیں جن میں حماس کے مسلح افراد بھرے ہوئے ہیں۔ وڈیوز بتا رہی ہیں کہ ان گاڑیوں کے اوپر کھڑے اور اندر بیٹھے مسلح افراد کی بڑی تعداد ہجوم کی طرف ہاتھ ہلا رہی ہے ۔ اب حماس پولیس کے افراد بھی دوبارہ دکھائی دینے لگے ہیں۔ جنگ کے دوران کچھ علاقوں میں ان کی موجودگی دکھائی نہیں دیتی تھی۔ اس دوران ریلیف کا کام کرنے والی این جی اوز شکایت کر رہی تھیں کہ حماس پولیس کی عدم موجودگی کے باعث ان کے لیے امن وامان کا مسئلہ پیدا ہو رہا ہے۔ اس لیے یہ این جی اوز حماس پولیس کے ساتھ مل کر کام کرنے کو ترجیح دیتی تھیں۔ مضمون نگار کے مطابق فلسطینی میڈیا قدس نے غزہ سے آنے والی وڈیوز کو اپنی فتح بنا کر پیش کیا ہے۔ وہ دکھا رہے ہیں کہ سویلین بندوق برداروں کے گرد جشن منا رہے ہیں۔ شہاب میڈیا نے بھی غزہ کی تصویریں دکھا کر جو اسی مقصد اور لمحے کے لئے بنائی گئی ہیں۔ جن میں ایک شخص سرنگ کے اندر سے نکل رہا ہے۔ شہاب نے ایک تصویر دکھائی ہے کہ جس میں حماس کے لوگ اسرائیل کے ایک تباہ ہونے والی ٹینک کے اندر سے زخمی اسرائیلی فوجی کو باہر نکال رہے ہیں۔ پیغام واضح ہے کہ حماس غزہ کی سرنگوں اور ملبے کے اندر سے ظہو ر پزیر ہو رہی ہے۔ مارچ2024ء میں واشنگٹن پوسٹ نے اسرائیل کے فوجی ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے 24 میں سے 20 حماس بٹالینز کو مسمارکر دیا ہے مگر اس کے ساتھ ہی یہ تسلیم کیا گیا تھا کہ مسمار کرنے کا مطلب تباہ کرنا نہیں۔ ان دعوؤں کے باوجود حماس بہت جلد ہی اُبھر کر سامنے آئی ہے۔ یہ کسی طور پر ایسی تنظیم دکھائی نہیں دیتی جو پے در پے کئی دھچکوں کا سامنا کر چکی ہو۔ مضمون نگار کے مطابق اسرائیل حماس کی سرنگوں پر حملوں کا ریکارڈ رکھتا ہے۔ اسی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اسرائیل نے حماس کی زیر زمین میٹرو اور سرنگوں کو پیس کر رکھ دیا ہے اور یہ کہ اسرائیل نے حماس کی ایک سو کلومیٹر سرنگیں تباہ کی ہیں جبکہ 25 اعلیٰ کمانڈر مار دیے گئے ہیں۔ اس سب کے باوجود حماس غزہ میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا کر سامنے آچکی ہے۔ حماس اس واپسی کو اپنی ایک بڑی فتح بنا کر پیش کرنا چاہتی ہے۔ وہ ان علاقوں میںکوئی خلاء نہیں چھوڑنا چاہتی جہاں اس کی گرفت ڈھیلی ہوئی تھی۔ مضمون نگار کے مطابق اسرائیلی فوج جنگ بندی کے بعد جن علاقوں سے انخلاء کرتی ہے حماس وہاں واپس پہنچ جاتی ہے۔ وہ کسی کو یہ کہنے کا موقع نہیں دینا چاہتی کہ حماس غزہ میں کمزور ہوچکی ہے۔ حماس لوگوں کو اب بھی اس انداز سے متحرک کر سکتی ہے کہ وہ اس کے لیے سڑکوں پر نکل آئیں اور تالیاں بجائیں۔ حماس تعمیر نو سے پہلے میڈیا کو تباہی دکھانا چاہتی ہے۔ حماس کا میڈیا بتائے گا کہ لوکل میڈیا سے ہسپتالوں اور اسکولوں تک حماس غزہ کے چپے چپے پر پوری قوت سے موجود ہے۔ یہ سب حالات پر اس بات کی ملمع کاری کریں گے کہ حماس اس جنگ کی فاتح ٹھیری ہے۔ اسرائیل کے اخبار کی یہ رپورٹ خطرناک جنگی ٹیکنالوجی کے حامل اسرائیل کے مقابلے میں حماس کا سخت جان ثابت ہونا دنیا میں طاقت کے مقابل نفسیاتی کمزوری کا شکار ہوتی ہوئی مزاحمتی تحریکوں کے لیے حیات ِنو کا ایک پیغام ثابت ہوسکتی ہے۔ جنگ کا انداز اور جنگ بندی کا طریقہ دونوں اپنے اندر مزاحمتی تحریکوں کے لئے گہراپیغام لئے ہوئے ہے ۔