حماس کی جانب سے انصاراللہ یمن کو دہشت گرد قرار دینے کے امریکی فیصلے کی مذمت
اشاعت کی تاریخ: 25th, January 2025 GMT
اسلامی مزاحمتی تحریک حماس نے امریکی حکومت کی جانب سے یمن کی انصار اللہ کو دہشت گردی کی نام نہاد فہرست میں شامل کرنے کے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے اسے انتقامی کارروائی قرار دیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ اسلامی مزاحمتی تحریک حماس نے امریکی حکومت کے اس فیصلے کی مذمت کی ہے، جس کے تحت انصاراللہ یمن کو نام نہاد دہشت گردی کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے، اور اسے ایک انتقامی اقدام قرار دیا ہے۔ فارس نیوز کے مطابق، اسلامی مزاحمتی تحریک حماس نے ایک بیان میں امریکی حکومت کے اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام یمن کو اس کے عظیم کردار کی سزا دینے کے مترادف ہے، جو اس نے فلسطینی عوام کی حمایت میں اور صہیونی جنگ کے خلاف ادا کیا ہے۔
حماس نے جمعہ کی شب جاری کردہ بیان میں زور دیا کہ یہ فیصلہ امریکہ کے دعوے کے برعکس، خطے میں امن و استحکام کے قیام میں کوئی مدد نہیں کرے گا۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ اصل دہشت گردی اور خطے میں کشیدگی کی اصل جڑ صہیونی ریاست اور اس کی حکومت ہے، جو ایک جنگی مجرم کے زیر قیادت جارحانہ اور توسیع پسندانہ پالیسیوں پر عمل پیرا ہے۔
حماس نے امریکی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس بے بنیاد فیصلے سے پیچھے ہٹے اور صہیونی دشمن کی انتہا پسند پالیسیوں کی حمایت ترک کرے، کیونکہ یہ پالیسی خطے میں مزید کشیدگی اور عدم استحکام کا باعث بن رہی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی حکومت نے گزشتہ روز انصاراللہ یمن کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کرنے کا اعلان کیا تھا۔
وائٹ ہاؤس نے اپنے بیان میں دعویٰ کیا کہ انصاراللہ کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کر دیا گیا ہے۔ حوثیوں کی سرگرمیاں مشرق وسطیٰ میں عام شہریوں اور امریکی فوجی اہلکاروں کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: فہرست میں امریکی حکومت کی حکومت کو دہشت یمن کو
پڑھیں:
اسرائیل نواز رکن امریکی کانگریس جو ولسن کی غزہ مظالم پر ہٹ دھرمی برقرار
واشنگٹن: غزہ اور مغربی کنارے میں بچوں کے قتل عام پر امریکی رکن کانگریس جو ولسن کو انسانی حقوق کے کارکنوں کی جانب سے سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑا، لیکن انہوں نے بار بار صرف "حماس انسانی ڈھال کے طور پر بچوں کو استعمال کر رہی ہے" کا جواب دہرایا۔
برطانوی میڈیا کے مطابق، ایک انسانی حقوق کارکن نے سوال کیا کہ "غزہ میں روزانہ مرنے والے بچوں کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟"، تو جو ولسن نے جواب دیا، "حماس انسانی ڈھال استعمال کر رہی ہے۔"
کارکن نے پھر پوچھا: "کیا آپ کو بچوں سے کوئی ہمدردی ہے؟ ہمیں ڈاکٹروں نے بچوں کے سروں پر اسنائپر کے نشان دکھائے ہیں، کیا یہ بھی حماس کا قصور ہے؟" لیکن جو ولسن نے ہر سوال کے جواب میں صرف حماس پر الزام عائد کیا۔
ایک اور سوال میں مغربی کنارے میں 14 سالہ امریکی فلسطینی بچے کے قتل کی بات کی گئی، مگر ولسن نے اس پر بھی حماس کو ہی موردِ الزام ٹھہرایا۔
خیال رہے کہ ریپبلکن رکن کانگریس جو ولسن کو اسرائیل نواز لابی AIPAC کی مالی حمایت حاصل ہے، جس پر انہیں ماضی میں سخت تنقید کا سامنا رہا ہے۔
جو ولسن امریکی ایوان نمائندگان کی خارجہ امور اور آرمڈ سروسز کمیٹیوں کے رکن بھی ہیں، اور پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان کے حق میں بھی سرگرم رہ چکے ہیں۔
انہوں نے فروری میں اعلان کیا تھا کہ وہ عمران خان کی سزا کے خلاف پاکستانی حکام پر پابندی کے لیے “پاکستان ڈیموکریسی ایکٹ” تیار کر رہے ہیں، جو مارچ میں کانگریس میں پیش کر دیا گیا تھا۔