افواج کا جانی نقصان اور گولہ بارود کا خرچ کم کرنے کیلیے روبوٹ ویپن سسٹم تیار
اشاعت کی تاریخ: 25th, January 2025 GMT
مہران یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی (شہید زوالفقار علی بھٹو) خیرپور کیمپس کے طلبہ نے پاکستان کی دفاعی خود انحصاری کو مضبوط بنانے کے لیے مصنوعی ذہانت سے چلنے والا روبوٹ وہیکل تیار کرلیا، جس پر نصب لیزر گن سیکنڈوں میں اپنے ہدف کو جلاکر بھسم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
یہ تخلیقی آئیڈیا عملی شکل اختیار کرنے کی صورت میں سیکیورٹی اہلکاروں اور افواج کے جانی نقصان کو کم کرتے ہوئے روایتی گولہ بارود کے خرچ کو کم کرے گا۔
مصنوعی ذہانت کے ذریعے دوست اور دشمن کی شناخت کرتے ہوئے متحرک اور غیرمتحرک اہداف کو زمین سے زمین، فضاء سے زمین یا زمین سے فضاء میں انتہائی درستگی کے ساتھ نشانہ بنانے کی صلاحیت کا حامل ہوگا۔
مہران یونیورسٹی کے خیرپورکیمپس کے طلباء کی ٹیم نے اپنا منفرد تخلیقی آئیڈیا کراچی ایکسپو سینٹر میں منعقدہ چوتھے ریسرچ اینڈ ٹیکنالوجی شوکیس میں پیش کیا، جسے وزیر اعلیٰ سندھ نے بھی بے حد سراہا۔
اس تخلیق کو نیکسٹ جنریشن روبوٹک کومبیٹ سسٹم ود انرجی کا نام دیا گیا ہے، مہران یونیورسٹی ڈپارٹمنٹ آف الیکٹرانکس خیرپور کیمپس کے طالب علم سید اویس احمد نے بتایاکہ انھوں نے روبوٹ لیزر گن کا پروٹوٹائپ بنایا ہے جو روایتی بیلسٹک ویپن سسٹم کا بہترین متبادل بن سکتا ہے۔
اس سسٹم کی افادیت یہ ہے کہ اس میں گولا بارود استعمال نہیں ہوگا بلکہ لیزر شعاؤں کی بیم سے ہدف کو روشنی کی رفتار سے نشانہ بنایا جاسکے گا، سید اویس احمدنے بتایاکہ پروٹو ٹائپ کیمرا سینسرز اور آئی آر (ریڈار) سینسرز پر مشتمل ہے اور مختلف قسم کے لینسز استعمال کیے گئے ہیں۔
اس وقت اس کی رینج چھ فٹ ہے جسے بہتر اور بڑے ماڈیولر استعمال کرکے اس حد تک بڑھایا جاسکتا ہے کہ فضائی حملے کے دوران دشمن کے میزائلوں کو بھی فضاء میں ہی لیزر شعاعوں سے ناکارہ کیا جاسکتا ہے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
دنیا میں 30 لاکھ بچے ادویات اثر نہ کرنے کے سبب چل بسے، اصل وجہ کیا ہے؟
سنہ 2022 میں دنیا بھر میں 30 لاکھ سے زیادہ بچے اینٹی بائیوٹکس کے خلاف مزاحم انفیکشنز کے نتیجے میں جان کی بازی ہارگئے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں نومولود بچوں کی اموات میں کمی کا ’کینگرو مامتا‘ منصوبہ ہے کیا؟
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق بچوں کی صحت کے 2 سرکردہ ماہرین کی ایک تحقیق سے پتا چلا ہے کہ افریقہ اور جنوب مشرقی ایشیا میں بچے اس مسئلے کا سب سے زیادہ شکار رہے۔
اینٹی مائکروبیل مزاحمت جسے AMR کے نام سے جانا جاتا ہے اس وقت نشوونما پاتا ہے جب انفیکشن کا سبب بننے والے جرثومے اس طرح تیار ہوتے ہیں کہ اینٹی بائیوٹک ادویات مزید کام نہیں کرتی ہیں۔
اس کی شناخت دنیا کی آبادی کو درپیش صحت عامہ کے سب سے بڑے خطرات میں سے ایک کے طور پر کی گئی ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) اور ورلڈ بینک سمیت متعدد ذرائع سے ڈیٹا کا استعمال کرتے ہوئے رپورٹ کے مصنفین نے اندازہ لگایا ہے کہ سنہ 2022 میں 30 لاکھ سے زیادہ بچوں کی موت ادویات کے خلاف مزاحمت کے انفیکشن سے ہوئی تھی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ نئی تحقیق صرف 3 سالوں میں بچوں میں AMR سے متعلق انفیکشن میں 10 گنا سے زیادہ اضافے کو نمایاں کرتی ہے۔
اینٹی بائیوٹکس کا زیادہ استعمالاینٹی بایوٹک کا استعمال بیکٹیریل انفیکشن کی ایک بڑی حد کے علاج یا روک تھام کے لیے کیا جاتا ہے۔
انہیں بعض اوقات انفیکشن کے علاج کے بجائے احتیاط کے طور پر بھی دیا جاتا ہے۔
اینٹی بایوٹک کا عام سردی، فلو یا کوویڈ جیسی بیماریوں کے وائرل انفیکشن پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔
ان کے زیادہ اور غیر محتاط استعمال کے باعث کچھ بیکٹیریا اب کچھ ادویات کے خلاف مزاحمت پیدا کر چکے ہیں۔
مزید پڑھیے: دنیا بھر میں فضائی آلودگی سے روزانہ کتنے بچوں کی اموات ہوتی ہیں؟
رپورٹ کے مرکزی مصنفین آسٹریلیا میں مرڈوک چلڈرن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ڈاکٹر یانہونگ جیسیکا ہو اور کلنٹن ہیلتھ ایکسیس انیشی ایٹو کے پروفیسر ہرب ہارویل اینٹی بائیوٹکس کے استعمال میں نمایاں اضافہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں جن کا مقصد صرف انتہائی سنگین انفیکشن کے لیے روکا جانا ہے۔
سنہ2019 اور سنہ 2021 کے درمیان ’واچ اینٹی بائیوٹکس‘ کے استعمال میں مزاحمت کے زیادہ خطرہ والی ادویات، جنوب مشرقی ایشیا میں 160 فی صد اور افریقہ میں 12 فی صد تک بڑھ گئیں۔
مصنفین نے خبردار کیا ہے کہ اگر بیکٹیریا ان اینٹی بائیوٹکس کے خلاف مزاحمت پیدا کرتے ہیں تو ملٹی ڈرگ مزاحم انفیکشن کے علاج کے لیے بہت کم متبادل ہوں گے۔
پروفیسر ہارویل اس ماہ کے آخر میں ویانا میں یورپی سوسائٹی آف کلینیکل مائیکروبائیولوجی اور متعدی امراض کی کانگریس میں نتائج پیش کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ AMR ایک عالمی مسئلہ ہے اور یہ سب کو متاثر کرتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے یہ کام واقعی اس غیر متناسب طریقے پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے کیا جس میں AMR بچوں کو متاثر کرتا ہے۔
اس مسئلے کا حل کیا ہے؟ڈبلیو ایچ او اے ایم آر کو عالمی صحت کے سب سے سنگین خطرات میں سے ایک کے طور پر بیان کرتا ہے جس کا ہمیں سامنا ہے لیکن پروفیسر ہارویل نے خبردار کیا کہ کوئی آسان جواب نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایک کثیر الجہتی مسئلہ ہے جو طب کے تمام پہلوؤں اور واقعی انسانی زندگی تک پھیلا ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اینٹی بایوٹکس ہمارے ارد گرد ہر جگہ موجود ہیں، وہ ہمارے کھانے اور ماحول میں ختم ہوتے ہیں اور اس لیے ایک ہی حل آسان نہیں ہے۔
مزید پڑھیں: امریکی امدادی پروگرامز میں تعطل سے 5 لاکھ بچوں کی زندگیاں داؤ پر لگ گئیں
انہوں نے مزید کہا کہ مزاحم انفیکشن سے بچنے کا بہترین طریقہ انفیکشن سے مکمل طور پر بچنا ہے جس کا مطلب ہے کہ حفاظتی ٹیکوں کی اعلی سطح، پانی کی صفائی اور حفظان صحت کی ضرورت ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اینٹی بایوٹکس کا زیادہ استعمال ہونے والا ہے کیونکہ زیادہ لوگ ہیں جن کو ان کی ضرورت ہے لیکن ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ان کا مناسب استعمال کیا جائے اور صحیح دوائیں استعمال کی جائیں۔
کنگز کالج لندن میں مائکرو بایولوجی کے سینیئر لیکچرر ڈاکٹر لنڈسے ایڈورڈز نے کہا کہ نئی تحقیق پچھلے اعداد و شمار کے مقابلے میں ایک اہم اور تشویشناک اضافہ کی نشاندہی کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ نتائج صحت کے عالمی رہنماؤں کے لیے ایک ’ویک اپ کال‘ کے طور پر کام کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ فیصلہ کن کارروائی کے بغیر AMR بچوں کی صحت، خاص طور پر دنیا کے سب سے زیادہ کمزور خطوں میں کئی دہائیوں کی ترقی کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بچوں کی اموات کی بڑی وجہ بے اثر ادویات دنیا میں بچوں کی اموات