سندھ کی 44رکنی کابینہ سرکاری خزانے پربوجھ بن گئی!
اشاعت کی تاریخ: 25th, January 2025 GMT
کراچی (رپورٹ /واجد حسین انصاری)ملکی اور غیر ملکی قرضوں کے بوجھ تلے دبے سندھ کی 44 رکنی کابینہ صوبائی خزانے پر بوجھ بن گئی ہے۔ 18 وزراء، 4مشیروں اور 22معاونین خصوصی کے ساتھ صوبائی حکومت کے 18ترجمان مقرر کرکے پیپلزپارٹی نے ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ وزیراعلیٰ سندھ سمیت کابینہ ارکان کو تنخواہوں اور دیگر مراعات کی مد میں سالانہ 150ملین روپے سے زائد کی رقم قومی خزانے سے ادا کی جاتی ہے۔تفصیلات کے مطابق آئین کی 18ویں ترمیم کے آرٹیکل 130(6) کے مطابق، وفاقی کابینہ کا حجم پارلیمنٹ کے کل اراکین کا 11 فیصدمقرر ہے۔ آئین کے مطابق صوبوں میں بھی کابینہ کی تعداد 15 اراکین یا 11 فیصد تک محدود ہوگی۔ وزیراعلیٰبالکل وزیراعظم کی طرح، 5 سے زیادہ مشیر مقرر کرنے کے مجاز نہیں ہیںجبکہ اس کے برعکس سندھ حکومت نے اپنے پارٹی رہنماؤں کو نوازنے کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے صوبے میں ایک بڑی کابینہ تشکیل دی ہوئی ہے جو عوام کے ٹیکسوں سے ماہانہ کروڑوں روپے اپنی مراعات پر خرچ کررہی ہے۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ سندھ حکومت پر ملکی و غیرملکی قرضوں میں مالی سال 2023-24کے دوران 26فیصد اضافہ ہوا ہے اورقرضوں کی مالیت ایک ہزار 57ارب روپے سے بڑھ کر ایک ہزار 341ارب روپے تک پہنچ گئی لیکن اس کے باوجود سندھ حکومت کے غیر ترقیاتی اخراجات میں کوئی کمی نہیں آرہی ہے۔ذرائع کے مطابق سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت نے 18ترجمان مقرر کرکے ایک نیا ریکارڈ قائم کیا ہے جبکہ کسی بھی صوبے میں 22معاونین خصوصی کام نہیں کررہے ہیں۔ذرائع کے مطابق باعث پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت اپنے منظر نظر افراد کو کابینہ میں شامل کرکے انہیں خوش کررہی ہے لیکن اس سے صوبے کے مالی بوجھ میں اضافہ ہوراہے۔ذرائع نے بتایا کہ اس وقت وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ ماہانہ تنخواہ ،رہائش گاہ ،رہائش کی مرمت اور مختلف الاؤنسز کی مد میں 3لاکھ 60ہزار سے زائد کی رقم وصول کرتے ہیں جبکہ اس کے علاوہ ٹرانسپورٹ ،لامحدود پٹرول ،یوٹیلٹی بلز ،ٹیلی فون ،سفری الاؤنس ،اہل خانہ کے میڈیکل کے اخراجات الگ سے ہیں۔اس طر ح مجموعی طور پر وزیراعلیٰ سندھ کے ماہانہ سرکاری اخراجات 6لاکھ روپے سے بھی تجاوز کرجاتے ہیں۔ذرائع کے مطابق اسپیکر سندھ اسمبلی بھی اسی طرح کی مراعات سے فیضیاب ہورہے ہیں جن کو تنخواہ ،الاؤنسز ،رہائش ،ٹرانسپورٹ اور دیگر مراعات کے لیے قومی خزانے سے تقریباً5لاکھ روپے ماہانہ ادا کیے جاتے ہیں۔ذرائع نے مزید بتایا کہ صوبائی حکومت کے وزراء کو تنخواہ ،الاؤنس ،پیٹرول ،ٹرانسپورٹ سمیت دیگر کے لیے 2لاکھ 70ہزار روپے کی ادائیگی کی جاتی ہے جبکہ میڈیکل اور دیگر سہولیات اس کے علاوہ ہیں۔اسی طرح صوبائی مشیروں کو بھی اسی طرح کی تنخواہیں اور مراعات حاصل ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ صوبے میں 22معاونین خصوصی تمام سرکاری سہولیات سے فیضیاب ہورہے ہیں اور ان کو حکومت کی جانب سے 2لاکھ روپے سے زائد کی رقم قومی خزانے سے اد ا کی جاتی ہے۔حکومت سندھ کے مقرر کردہ 18ترجمانوں میں سے کوئی بھی عوام کو صوبائی حکومت کی کارکردگی سے آگاہ کرتے ہوئے دکھائی نہیں دیتا ہے لیکن ان کو بھی تمام مراعات حاصل ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ سمیت کابینہ ارکان کو سالانہ بنیادوں پر 150ملین روپے سے زائد کی ادائیگی ہوتی ہے۔اس ضمن میں شہری حلقوں کا کہنا ہے کہ ایک جانب تو صوبے کے عوام کو پینے کا صاف پانی سمیت دیگر بنیادی سہولتیں میسر نہیں، آج بھی عوام مسائل و مشکلات کا شکار ہیں۔ دوسری جانب وزراء، مشیروں اور معاونین خصوصی کی تنخواہوں اور مراعات میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے، پیپلزپارٹی کی اپنے ارکان کو نوازنے کے لیے بڑی کابینہ کی تشکیل قومی خزانے پر بڑا بوجھ اور عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: سے زائد کی ہیں ذرائع کے مطابق روپے سے
پڑھیں:
سرکاری نرخ مسترد، ڈیری فارمرز ایسوسی ایشن کا دودھ کی قیمت میں اضافے کا اعلان
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)ڈیری فارمرز ایسوسی ایشن نے سرکاری نرخ مسترد کرتے ہوئے دودھ کی قیمت میں اضافہ کردیا ہے۔
ڈیری فارمرز ایسوسی ایشن پنجاب نے دودھ کی قیمتوں میں یکطرفہ اضافے کا اعلان کیا ہے، یکم مئی سے دودھ کی قیمت میں 10 روپے کا اضافہ ہوجائے گا۔
ڈیری فارمرز ایسوسی ایشن کی جانب سے دودھ کی قیمت میں اضافے کے اعلان کے بعد یکم مئی سے بھینس کے دودھ کا ہول سیل ریٹ 10 روپے بڑھ کر 220 فی لیٹر ہوجائے گا، گائے کا دودھ 170 فی لیٹر، گائے اور بھینس کے مکس دودھ کی قیمت 195 روپے فی لیٹر ہوجائے گی۔
اس اقدام سے مارکیٹ اور سرکاری نرخوں کے درمیان فرق بڑھ گیا ہے، ڈپٹی کمشنر کی جانب سے فی لیٹر دودھ کی قیمت 170 روپے مقرر کی گئی تھی۔
ڈیری فارمرز ایسوسی ایشن کے صدر رفیق گجر نے کہا کہ نظرثانی شدہ قیمتیں ایک سال تک لاگو رہیں گی۔
اس کے جواب میں موٹر سائیکل دودھ فروش یونین نے گوالہ کالونی میں احتجاجی مظاہرہ کیا اور قیمتوں میں اضافے کو بلاجواز قرار دیا۔
یونین کے صدر ارشاد گجر نے وزیر اعلیٰ پنجاب سے مداخلت کا مطالبہ کرتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر فیصلہ واپس نہ لیا گیا تو شہر میں دودھ کی سپلائی معطل کردی جائے گی۔
مزید پڑھیں: بجلی کی قیمت میں 7 روپے 41 پیسے کمی کا اطلاق کب سے ہوگا؟ بڑی خبر آ گئی