کبھی آپ نے سوچا ہے… توبہ توبہ ہم بھی کیا اناب شناب پوچھنے لگے ہیں آپ سے اس’’کام‘‘ کے بارے میں پوچھ رہے ہیں جو کبھی آپ سے سرزد نہیں ہوا اور سرزد ہو بھی تو کیسے؟کہ اسے آپ نے سیکھا ہی نہیں اور دنیا کے سارے ڈاکٹروں نے آپ کو مکمل پرہیز لکھا ہوا ہے، اگر آپ کو سوچنا آتا اگر آپ نے سوچنا سیکھا ہوتا اگر آپ سوچنے کی تکلیف گوارا کرتے تو آج آپ کا یہ حال ہوتا ؟راہبر تو دور کی بات ہے آپ راہزن کو پہچانتے نہیں جو آپ کے سامنے ہے اور سو بار اپنے فن کا مظاہرہ آپ پر کر چکا ہے بلکہ بار بار آتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ میں پھر تجھے لوٹنے آیا ہوں تیار ہوجاؤ۔اور آپ پھر لوٹنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں ۔
لیکن کیا کریں ہم بھی بندہ بشر اور آپ کے قدوبت کو دیکھ کر دھوکا کھا جاتے ہیں کہ شاید بھول چوک ہی میں سے آپ سے سوچنے کی بدپرہیزی ہوجائے کوشش کرلینے میں کیا حرج ہے۔ وہ کسی جنگل صحرا میں دو آدمیوں کا ملن ہوا، ایک کے پاس نہایت شاندار گھوڑا تھا۔ساتھ ہی اس پر زین اور دوسرے قیمتی لوازمات جب کہ دوسرے کے پاس ایک لاغر اور زخمی اور لڑکھڑاتا ہوا گدھا تھا۔
باتوں باتوں میں گدھے والے نے گھوڑے والے سے پوچھا سواری بدلنے کے بارے میں کیا خیال ہے اگر راضی ہو تو میں اپنا گدھا تمہارے گھوڑے سے بدلنے کو تیار ہوں۔اس پر گھوڑے والا حیران ہوکر بولا، یہ کیا کہہ رہے رہو کیا میں تجھے احمق نظر آتا ہوں۔ گدھے والے نے کہا کیا پتہ تم ہو کوشش کرنے میں کیا حرج ہے۔آپ بھی ہیں یہ ہمیں معلوم ہے لیکن پھر بھی کوشش کرلینے میں کیا برائی ہے۔ٹھیک ہے آپ’’سوچنے‘‘پر ناراض ہوتے ہیں تو یہ پوچھ لیتے ہیں کہ آپ نے کبھی دیکھا ہے؟کیونکہ کھوپڑی خالی سہی یہ اتنی بڑی اُلو جیسی آنکھیں تو ہیں نا آپ کے چہرے پر، تہمت کی طرح لگی ہوئیں۔
مطلب یہ کہ یہ اردگرد جو ہورہا ہے آپ کو نہیں لگتا کہ دنیا میں عموماً اور پاکستان میں خصوصاً نفرتوں کا گراف انتہائی حدوں کو پہنچ رہا ہے، ایسا لگتا ہے جیسے لوگ باقی سب کچھ بھول چکے ہوں، محبت، رشتے ناطے، انسانیت، رحم، کرم اور بھائی چارہ ، عفوو درگزر، برداشت، افہام وتفہیم۔دنیا سے مکمل طور پر اٹھ چکے ہوں۔اور انسان نفرتوں، کدورتوں اور دشمنیوں کا مجسمہ ہوکر رہ گیا ہو۔اس سوکھے خس وخاشاک کی طرح جس پر تیل بھی چھڑکا گیا ہو اور جو ایک چھوٹی سی چنگاری سے بھڑک اٹھتا ہو۔
اب تک تو یہ آگ ذرا دور رہتی تھی کشمیر، فلسطین، یمن یہاں وہاں نہ جانے کہاں کہاں۔لیکن اس کرم ایجنسی کو ہم کیا کہیں گے؟اس پاکستانی سیاست میں نفرتوں کی انتہا کو کیا سمجھیں گے بلکہ شہر شہر، گاؤں گاؤں، مسجد مسجد اور فرقہ فرقہ، برادری برادری اور پیشے پیشے میں یہ جو زہر ہلاہل بہنے لگا ہے اسے کیا سوچیں کیا سمجھیں اور کیا کہیں۔
اور یہ جو ساری دنیا کو مار مار کر پیٹ پیٹ کر، توڑ پھوڑ کر مسلمان بنانے کا رجحان ہے اسے ہم کیا سمجھیں گے کیا مساجد میں بلاسٹ کرکے،اسکولوں میں خون کی ہولیاں کھیل کر، بازاروں میں دھماکے کرنے سے، پولیس والوں کو اڑانے سے’’اسلام‘‘ نافذ ہوجائے گا ۔ تحقیق کا ایک سیدھا سادا اصول ہے۔جب کوئی جرم ہوتا ہے فرض کرلیجیے قتل ہوجاتا ہے۔تو سب سے پہلے موٹیو ڈھونڈا جاتا ہے کہ آخر اس قتل کا محرک کیا تھا۔اگر موٹیو صاف اور سامنے ہو یعنی دشمنی انتقام یا اتفاقی جھگڑا یا پرانی دشمنی ہو تو ٹھیک ہے لیکن اگر وجہ نامعلوم ہو تو پھر دیکھا جاتا ہے کہ اس قتل سے ’’فائدہ‘‘کس کو پہنچ رہا ہے یا پہنچا ہے۔
کیا کشمیر، فلسطین اور ایسے دوسرے معاملات سے برسرمیدان لڑنے والوں کو کوئی فائدہ پہنچ رہا ہے۔؟تو پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان دونوں کو نقصان ہی نقصان ہورہاہے دونوں ہی اپنے عوام کا پیٹ کاٹ کاٹ کر ہتھیار جمع کرنے پر مجبور ہیں تو فائدہ کس کو ہوا؟۔چلیے دور دور جانے کے بجائے اپنے قریب ترین اور تازہ ترین کرم ایجنسی کے تازہ ترین واقعے پر سوچتے ہیں اس میں فائدہ کس کو پہنچا بلکہ یہ پہلا واقعہ نہیں اس سے پہلے بھی یہاں تصادم ہوتے رہے۔
ان سب میں کسی کو کوئی معمولی فائدہ پہنچا ہے نقصان ہی نقصان تباہی ہی تباہی بربادی ہی بربادی ہوتی رہی ہے کسی بھی فریق کو کوئی بھی فائدہ نہیں پہنچا ہے۔ تو پھر کیوں یہ بے فیض خونریزیاں ہورہی ہیں اور اگر اس پر ’’موٹو‘‘کی روشنی میں غور کیا جائے تو صاف صاٖف مجرم کا پتہ چل جاتا ہے کہ وہی ہے جس کو اس سے فائدہ ہورہا ہے وہی جس کا اسلحہ مارکیٹ ہورہا ہے کوئی بھی مرے جیئے تباہ ہوجائے اسلحہ تو ان کا بک جاتا ہے اور تب تک بکتا رہے گا جب تک دنیا میں جذباتی بے وقوف موجود ہیں۔
وہ کسی بزرگ نے کہا ہے کہ اگر دنیا میں احمق نہ ہوتے تو عقل مند بھوکوں مرجاتے۔اور احمق جذباتی ہوتا ہے چاہے جذبات کسی بھی شکل میں ہوں۔کیوں کہ جب جذبات کسی سر میں موجود ہوں یا آجاتے ہیں تو عقل رخصت ہوجاتی ہے۔وہ عام سی بات تو آپ نے سنی ہوگی کہ کسی نے غصے سے کہا کہ تم کہاں رہتے ہو بولا ’’سر‘‘میں۔مگر وہاں تو عقل رہتی ہے۔بولا جب میں آجاتی ہوں وہ بھاگ جاتا ہے اور آخر میں ایسا ہی ایک دوسرا قصہ۔کہ افیونی نے دکاندار سے دو پیسے کی افیون مانگی۔ دکاندار نے کہا کہ دو پیسے کی افیون سے کیا نشہ ہوگا۔ افیونی نے کہا نشہ، میرے سر میں بہت ہے بس تھوڑے سے دھکے کی ضرورت ہے۔ اور وہ تھوڑا سا دھکا اسلحہ فروش کسی نہ کسی طرح دے ہی دیتے ہیں۔ اب اس’’سر‘‘ کا پتہ لگانا تو اتنا مشکل نہیں ہے نا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: جاتا ہے میں کیا نے کہا ہے اور
پڑھیں:
غزہ کی جنگ بندی
اسلام ٹائمز: اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت اہل غزہ کے شامل حال ہے۔ اس لیے صیہونی انہیں شکست نہ دے سکے، جبکہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ عرب کے چھ (6) ممالک چھ 6 روز کی جنگ (حرب الایام الستہ) میں 6 دن بھی اسرائیل کے سامنے نہیں ٹھہر سکتے تھے۔ اللہ نے اہل غزہ کو حوصلہ عطا فرمایا۔ اسرائیلی درندے اتنے بڑے ظلم کے باوجود مقاومت کے ان عظیم مجاہدین کو نہ جھکا سکے۔ اسرائیل کو مجبوراً جنگ بندی کے معاہدے کی طرف آنا پڑا۔ وہ غزہ پر قبضہ جمانا چاہتا تھا، مگر ایسا نہ کرسکا۔ وہ حماس کو ختم کرنا چاہتا تھا، مگر ناکام ہوا۔ وہ حزب اللہ کو بے اثر کرنا چاہتا تھا۔ مگر حزب اللہ حضرت سید حسن نصراللہ جیسے عظیم قائد کو کھو کر بھی کمزور نہ ہوئی۔ اہل مقاومت نے اسرائیل کے آئرن ڈوم کو شکست دی۔ اسکے مرکاوہ ٹینکس تباہ کیے اور اسکے تمام دفاعی نظاموں کو تاراج کرکے بتا دیا کہ رب ہمارے ساتھ ہے، وہ ہمیں کبھی تنہاء نہیں چھوڑے گا۔ تحریر: مفتی گلزار احمد نعیمی
غزہ میں جنگ بندی ہوچکی ہے۔ 400 دن تک جاری رہنے والی جنگ نے غزہ کو ایسی تباہی سے دو چار کر دیا ہے، جس کی نظیر ماضی قریب میں ہمیں دور دور تک دیکھنے کو نہیں ملتی۔ انسانیت کا اتنا بڑا قتل عام چشم فلک نے کم کم ہی دیکھا ہوگا۔ اقوام متحدہ کی ایک خصوصی کمیٹی نے اسرائیل کی اہل غزہ پر جارحیت حد کو اپنی رپورٹ میں بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان جنگی کارروائیوں کو کم از کم بھی اگر کوئی نام دیا جائے تو وہ قاتل عام ہی ہوسکتا ہے۔ غزہ میں اس تاریخی قتل عام کے ساتھ ساتھ اسرائیل مقبوضہ غرب اردن میں نسلی امتیاز کی پالیسی پر بھی عمل پیرا ہے اور یہاں وہ یہودیوں کو بسانے کی کوشش کر رہا ہے۔ جنگ بندی کا اعلان تو ہوچکا ہے مگر جب ہم اس جنگ بندی سے پہلے کے مناظر کو دیکھتے ہیں تو ہمارے ذہن خوفناک صورتحال سے دوچار ہو جاتے ہیں۔ ان 400 دنوں میں 50 ہزار سے زائد معصوم لوگ شہید ہوئے۔ ان شہداء میں خواتین اور بچوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ظالم یہودیوں نے مجاہدین کے علاوہ علماء، قراء، حفاظ، مریضوں اور مجبور و مقہور لوگوں کا قتل عام کیا۔
اس کے علاوہ ان صیہونی درندوں نے بھوک کو بطور جنگی ہتھیار استعمال کیا۔ شمالی اور جنوبی غزہ میں ایک قحط کی سی صورت حال پیدا ہوچکی ہے۔ جب زمین پر رزق کے تمام دروازے بند کرکے اسلحہ اور بارود کے ساتھ کسی قوم کو نشانہ بنایا جائے تو یہ صورت حال کسی قیامت سے کم نہیں ہوتی۔ ان چار سو دنوں کو جس صبر و استقامت کے ساتھ اہل غزہ نے گزارا وہ بھی بے مثال ہے۔ جس طرح یہ لوگ راضی برضائے رب ہوئے، اس پر ان کی جرات کو سلام ہے۔ وہ آج بھی اللہ سبحانہ و تعالیٰ پر مکمل بھروسہ کیے ہوئے ہیں۔ وہ رحمت خداوندی سے مایوس نہیں ہوئے، وہ جانتے ہیں کہ ان کی یہ قربانیاں ایک نہ ایک دن ضرور رنگ لائیں گی۔ فلسطینی آج بھی پرامید ہیں کہ جبر و استبداد کی تاریک راتوں کی بساط بہت جلد لپیٹ دی جائے گی اور بہت عنقریب آزادی کا سویرا طلوع ہوگا۔
یہ حقیقت بالکل واضح ہے کہ اہل فلسطین نے حماس اور حزب اللہ کی قیادت میں یہ جنگ مخص اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت سے لڑی ہے۔ انہوں نے اپنے پیاروں کی لاشیں اپنے ہاتھوں سے اٹھائیں، مگر اللہ سے شکوہ و شکایت نہیں کی۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کیا اور اللہ تعالیٰ نے انہیں رسوا نہیں ہونے دیا۔ وہ صیہونیوں کے ظلم و ستم کے سامنے مغلوب نہ ہوئے بلکہ اسرائیل کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے کہ اگر اللہ تمہاری مدد کرے تو تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا۔ فرمان خداوندی ہے "اِنْ یَّنْصُرْكُمُ اللّٰهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْۚ-وَ اِنْ یَّخْذُلْكُمْ فَمَنْ ذَا الَّذِیْ یَنْصُرُكُمْ مِّنْۢ بَعْدِهٖؕ-وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ"(160) فرمایا: "اگر اللہ تمہاری مدد کرے تو تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا اور اگر وہ تمہیں رسوا کرے تو اس کے بعد کون ہے، جو تمہاری مدد کرے۔ تو مومنین کو صرف اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیئے۔"
اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت اہل غزہ کے شامل حال ہے۔ اس لیے صیہونی انہیں شکست نہ دے سکے، جبکہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ عرب کے چھ (6) ممالک چھ 6 روز کی جنگ (حرب الایام الستہ) میں 6 دن بھی اسرائیل کے سامنے نہیں ٹھہر سکتے تھے۔ اللہ نے اہل غزہ کو حوصلہ عطا فرمایا۔ اسرائیلی درندے اتنے بڑے ظلم کے باوجود مقاومت کے ان عظیم مجاہدین کو نہ جھکا سکے۔ اسرائیل کو مجبوراً جنگ بندی کے معاہدے کی طرف آنا پڑا۔ وہ غزہ پر قبضہ جمانا چاہتا تھا، مگر ایسا نہ کرسکا۔ وہ حماس کو ختم کرنا چاہتا تھا، مگر ناکام ہوا۔ وہ حزب اللہ کو بے اثر کرنا چاہتا تھا۔ مگر حزب اللہ حضرت سید حسن نصراللہ جیسے عظیم قائد کو کھو کر بھی کمزور نہ ہوئی۔ اہل مقاومت نے اسرائیل کے آئرن ڈوم کو شکست دی۔ اس کے مرکاوہ ٹینکس تباہ کیے اور اس کے تمام دفاعی نظاموں کو تاراج کرکے بتا دیا کہ رب ہمارے ساتھ ہے، وہ ہمیں کبھی تنہاء نہیں چھوڑے گا۔
عرب ممالک نے اہل غزہ کی مدد نہیں کی، مسلم ممالک بھی خاموش رہے اور بین الاقوامی طور پر بھی ان کی دادرسی نہیں کی گئی۔ اسرائیل جرائم پر جرائم کرتا رہا لیکن پوری دنیا نے شرق سے لیکر غرب تک اور شمال سے لے کر جنوب تک اہل غزہ کی کوئی قابل ذکر مدد نہیں کی۔ وہ اپنے رب کے آسرے پر لڑتے رہے اور اللہ نے انہیں سرخرو فرمایا۔ وہ تمام ممالک جو شر کے عالمبردار تھے، وہ اپنے ناجائز بچے (اسرائیل) کے پشت پناہ رہے اور دوسری طرف لبنان کی حزب اللہ، غزہ کی حماس، عراق کے الحشد الشعبی اور یمن کی انصاراللہ اور مقاومت کا سرخیل اسلامی جمہوریہ ایران تھے، انہوں نے کل شر کو ناکوں چنے چبوائے۔ اسرائیل نے ایک ظالم اور جارح کے طور پر تو اپنا نام پیدا کر لیا ہے مگر وہ فاتح قرار نہ پا سکا۔ بلکہ اگر دیکھا جائے تو اخلاقی میدان میں اسے بری طرح شکست فاش ہوئی۔
اس تمام قضیے میں ہمیں امت کے حکمرانوں کا کردار بہت قابل افسوس بلکہ شرمناک نظر آتا ہے۔ وہ امریکہ کی غلامی کو اپنے لیے اعزاز سمجھتے ہیں۔ ہمارے بے حس حکمران یہ سمجھتے ہیں کہ ہم پر صرف وہی جہاد فرض ہے، جو امریکہ بہادر کی سرپرستی میں کیا جائے یا جو امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے ہو۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب روس نے افغانستان پر حملہ کیا تو چشم زدن میں امت پر جہاد فرض ہوگیا تھا۔ دنیائے اسلام کے کم و بیش تمام ممالک اس امریکی جہاد میں شامل ہوگئے، الا ما شاء اللہ۔ لیکن غزہ میں 50 ہزار سے زائد معصوم فلسطینی مسلمان شہید ہوگئے، مگر ابھی تک امت پر جہاد فرض نہیں ہوا۔ فرق بالکل واضح ہے کہ دنیا کا شیطان اعظم اسرائیل کی سرپرستی کر رہا ہے۔ خدا جانے غیرت مسلم مر گئی ہے یا اسے مار دیا گیا ہے۔ غیرت اور خودی کا مسلمانوں نے خود ہی جنازہ نکال دیا ہے۔ حکمران دل مردہ کے ساتھ چلتی پھرتی لاشیں ہیں، جو غیرتمند مسلمانوں کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں۔ علامہ اقبال نے کہا تھا:
اگر خودی کی حفاظت کریں تو عین حیات
نہ کر سکیں تو سراپا فسوں و فسانہ
ہوئی ہے زیر فلک امتوں کی رسوائی
خود ہی سے جب ادب و دین ہوئے بے گانہ