اپنے ایک جاری بیان میں حماس کا کہنا تھا کہ امریکہ کو چاہئے کہ وہ خطے میں عدم استحکام کو ہوا دینے والی قابض صیہونی رژیم کی پالیسیوں کو روکے۔ اسلام ٹائمز۔ فلسطین کی مقاومتی تحریک "حماس" نے امریکہ کے اس اقدام کی شدید مذمت کی جس میں واشنگٹن نے یمن کی مقاومتی تحریک "انصار الله" کو دہشت گرد قرار دیا۔ حماس نے کہا کہ انصار الله نے صیہونی بربریت کے مقابلے میں فلسطینی عوام کا شاندار ساتھ دیا جس پر اسے امریکی انتقام کا سامنا ہے۔ حماس نے ان خیالات کا اظہار آج شام اپنے ایک جاری بیان میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ امریکی حکومت کے اس فیصلے سے خطے میں امن و استحکام کو خطرہ ہی لاحق ہو سکتا ہے۔ صیہونی رژیم اور اس کے حامی ایک مجرم کی سربراہی میں اپنی توسیع و تسلط پسندانہ پالیسی کی وجہ سے خطے میں اشتعال پھیلا رہے ہیں۔

حماس نے امریکہ سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے اس فیصلے اور یکطرفہ پالیسی سے پچھے ہٹے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کو چاہئے کہ وہ خطے میں عدم استحکام کو ہوا دینے والی قابض صیہونی رژیم کی پالیسیوں کو روکے۔ واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرامپ کی قیادت میں نئی امریکی انتظامیہ نے گزشتہ صبح یمن کی انصار الله کو غیر ملکی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کر دیا۔ وائٹ ہاؤس نے ایک بیان میں دعویٰ کیا کہ مشرق وسطیٰ میں حوثیوں کی سرگرمیاں شہریوں اور امریکی اہلکاروں کی سلامتی کے لئے خطرہ ہیں جس وجہ سے انہیں دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: انصار الله

پڑھیں:

ڈونلڈ ٹرمپ اور طاقت کا وہم

اسلام ٹائمز: لیکن اگر امریکہ کے نو منتخب صدر نے طاقت کے وہم کا شکار ہو کر اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف جارحانہ اقدامات انجام دینے کی کوشش کی تو فطری بات ہے کہ ایرانی قوم اور حکومت ایسے اقدامات کو برداشت نہیں کرے گی۔ ایران میں رونما ہونے والے اسلامی انقلاب کی شاندار تاریخ نے اچھی طرح ثابت کیا ہے کہ ملت ایران کسی بھی عالمی اور علاقائی تبدیلی سے متاثر نہیں ہوتی لیکن اگر مغربی طاقتوں نے ایران سے احترام کی بنیاد پر رویہ اپنایا تو اس طرح دونوں کے درمیان مثبت فضا پیدا ہونے کا زمینہ فراہم یو سکتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران سے متعلق امریکہ اور مغرب کے رویوں میں تبدیلی کا مطلب ایران کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت، خطے کی مسلمان اقوام کے ارادے کا احترام اور امریکہ کی جانب سے شدت پسندانہ رویوں سے پرہیز ہے۔ ایران کی جانب سے گذشتہ جوہری معاہدے کے اندر رہتے ہوئے مغربی ممالک سے تعاون کی یہی شرائط ہیں۔ تحریر: حسن ہانی زادہ
 
نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار سنبھالتے ہی کانگریس میں ایک عوام فریبی پر مبنی لمبی تقریر کی جس میں انہوں نے دعوی کیا ہے کہ قاتلانہ حملے میں ان کے زندہ بچ جانے کا صرف ایک ہی مطلب ہے اور وہ یہ کہ یہ ایک معجزہ ہے جس کا مقصد امریکہ کو نجات دلانا اور اس کی ماضی کی شان و شوکت دوبارہ بحال کرنا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی پہلی تقریر میں مزید کہا: "امریکہ کا سنہری دور آج سے شروع ہو چکا ہے، امریکہ پہلی ترجیح ہو گا، ہم اپنے ملک میں سیکورٹی، حکومتی رٹ اور انصاف بحال کریں گے، امریکہ عنقریب ہمیشہ سے زیادہ طاقتور اور مستحکم ہو جائے گا، ہمیں ان چیلنجز کے بارے میں صادق ہونا چاہیے جن سے ہم روبرو ہیں اور ہمارے دشمن بہت سے امور میں ہم پر اثرگذار ہونا چاہتے ہیں، اس لمحے سے امریکہ کا انتشار رک گیا ہے۔"
 
امریکہ کے نو منتخب صدر، 78 سالہ ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریب حلف برداری کے دوران تاریخ کی شدید ترین سیکورٹی تدابیر انجام پائیں جن کے تحت امریکی کانگریس کی عمارت "کیپیٹول" میں تقریباً 12 ہزار کے لگ بھگ سیکورٹی اہلکار موجود تھے۔ امریکہ کے 47 ویں صدر نے اپنے نائب جی ڈی وینس کے ہمراہ حلف برداری کی رسم ادا کی اور اس کے بعد وائٹ ہاوس میں جانے کے بعد چند دستاویزات پر دستخط بھی کیے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے صدر بننے کے بعد اپنے سب سے پہلے اقدام کے طور پر ان 1600 افراد کو عام معافی دے دی جن پر 2020ء میں کانگریس کی عمارت پر حملہ کرنے کا الزام تھا اور اس الزام کے تحت ان کے خلاف عدالتی کاروائی چل رہی تھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کانگریس میں اپنی پہلی تقریر میں ملک کے اندرونی مسائل، اقتصادی مشکلات اور مہاجرین جیسے موضوعات پر بات کی۔
 
ڈونلڈ ٹرمپ اس سے پہلے 2016ء سے 2020ء تک بھی امریکہ کے صدر رہ چکے ہیں اور ان کی پہلی مدت صدارت بہت زیادہ چیلنجز، اتار چڑھاو اور مہم جوئی پر مبنی تھی۔ اب وہ ایسے وقت دوبارہ وائٹ ہاوس میں داخل ہو رہے ہیں جب گذشتہ تقریباً ڈیڑھ برس کے دوران غزہ جنگ میں اسرائیل کی بھرپور مدد اور پشت پناہی کے باعث امریکی حکومت عالمی رائے عامہ میں شدید نفرت اور گوشہ نشینی کا شکار ہو چکی ہے۔ حلف برداری کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے کانگریس میں جو پہلی تقریر کی ہے وہ بہت ہی غم انگیز اور غیر سیاسی تھی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنے دوسرے دور صدارت میں پہلے دور سے مختلف قسم کی پالیسیاں اختیار کریں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اپنی نئی مدت صدارت میں زیادہ تر اندرونی مسائل پر توجہ دیں گے۔
 
اس وقت جو ایشوز ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے پہلی ترجیح کے حامل ہیں ان میں اقتصادی مسائل، غیر قانونی مہاجرین کا مسئلہ اور عالمی سطح پر تناو کم کر کے امریکہ کی پوزیشن مضبوط بنانے جیسے امور شامل ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی نئی کابینہ میں ایسے چہرے شامل نہیں کیے ہیں جو ان کی گذشتہ مدت صدارت میں متنازعہ ثابت ہوئے تھے جس کی ایک مثال سابق امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپئو ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی خارجہ پالیسی بھی ماضی کی نسبت بہت مختلف ہو گی۔ امریکہ کے ارب پتی ایلن ماسک کا خصوصی مشیر کے طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی کابینہ میں موجود ہونا ظاہر کرتا ہے کہ نئے امریکی صدر کی نظر میں اقتصاد اور معیشت پہلی ترجیح رکھتی ہے۔
 
ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018ء میں سابق امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپئو اور صیہونی لابی کے دباو میں آ کر ایران اور مغربی طاقتوں کے درمیان طے پانے والے جوہری معاہدے سے دستبرداری کا اعلان کیا تھا۔ ان کا یہ اقدام عالمی برادری کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنا تھا۔ اگرچہ اسلامی جمہوریہ ایران نے اپنی پالیسیاں کبھی بھی امریکی صدور مملکت کی ترجیحات اور پالیسیوں کو مدنظر قرار دے کر تشکیل نہیں دیں لیکن امریکہ کی جانب سے ایران اور مغربی طاقتوں کے درمیان انجام پانے والے جوہری معاہدے میں ممکنہ واپسی ایران اور مغرب کے درمیان تعلقات پر اثرانداز ہو سکتی ہے۔ اگرچہ ایرانی قوم کی نظر میں ڈونلڈ ٹرمپ ایک نفرت انگیز اور مجرمانہ چہرہ رکھتے ہیں اور یہ تصور یونہی باقی رہے گا لیکن ایرانی عوام سے متعلق امریکی رویے میں تبدیلی نئے حالات کو جنم دے سکتی ہے۔
 
لیکن اگر امریکہ کے نو منتخب صدر نے طاقت کے وہم کا شکار ہو کر اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف جارحانہ اقدامات انجام دینے کی کوشش کی تو فطری بات ہے کہ ایرانی قوم اور حکومت ایسے اقدامات کو برداشت نہیں کرے گی۔ ایران میں رونما ہونے والے اسلامی انقلاب کی شاندار تاریخ نے اچھی طرح ثابت کیا ہے کہ ملت ایران کسی بھی عالمی اور علاقائی تبدیلی سے متاثر نہیں ہوتی لیکن اگر مغربی طاقتوں نے ایران سے احترام کی بنیاد پر رویہ اپنایا تو اس طرح دونوں کے درمیان مثبت فضا پیدا ہونے کا زمینہ فراہم یو سکتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران سے متعلق امریکہ اور مغرب کے رویوں میں تبدیلی کا مطلب ایران کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت، خطے کی مسلمان اقوام کے ارادے کا احترام اور امریکہ کی جانب سے شدت پسندانہ رویوں سے پرہیز ہے۔ ایران کی جانب سے گذشتہ جوہری معاہدے کے اندر رہتے ہوئے مغربی ممالک سے تعاون کی یہی شرائط ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • حماس کی جانب سے انصاراللہ یمن کو دہشت گرد قرار دینے کے امریکی فیصلے کی مذمت
  • لوگوں کی اپنے گھروں کو واپسی اسرائیل کی ایک اور ناکامی ہے، حماس
  • ہمیں مغربی کنارے میں اسرائیلی کارروائیوں پر تشویش ہے، ہیومن رائٹس ہائی کمشنر
  • غزہ میں جنگ بندی کے بعد طاقت کے توازن میں تبدیلی
  • امریکہ: عدالت نے پیدائشی حق شہریت پر ٹرمپ کے حکم کو روک دیا
  • امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یمن کے حوثیوں کو ایک بار پھر دہشتگرد گروپ قرار دے دیا
  • ڈونلڈ ٹرمپ بائیڈن کیجانب سے لکھا گیا خط سامنے لے آئے
  • یمن نے گلیکسی لیڈر کے عملے کو رہا کر دیا
  • ڈونلڈ ٹرمپ اور طاقت کا وہم