سپریم کورٹ کے اعلامیہ کے مطابق 27 جنوری کو کورٹ روم نمبر 2  میں 26ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں کی سماعت ہوگی۔ 

اسلام آباد سے عدالت عظمیٰ کے اعلامیہ کے مطابق 26ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں پر سماعت کے موقع پر سکیورٹی انتظامات کیے گئے ہیں۔  

سپریم کورٹ اعلامیہ کے مطابق 26ویں آئینی ترمیم کیخلاف کیس کی سماعت لارجر بینچ کرے گا۔ 

سپریم کورٹ اعلامیہ کے مطابق کورٹ روم نمبر 2 میں داخلہ خصوصی پاسز سے مشروط ہوگا اور انہیں کو داخلے کی اجازت ہوگی جن کے کیسز مقرر ہیں۔ 

اعلامیہ کے مطابق وکلا اور صحافی جو روزانہ کی بنیاد پر سپریم کورٹ آتے ہیں ان کو بھی پاسز جاری ہوں گے، دیگر وکلا اور صحافی کورٹ روم نمبر 6 اور 7 میں آڈیو لنک پر عدالتی کارروائی سن سکتے ہیں۔ 

اعلامیہ کے مطابق سپریم کورٹ بلڈنگ میں داخلے کی اجازت جامہ تلاشی کے بعد ہی دی جائے گی۔ 

اعلامیہ کے مطابق کمرہ عدالت میں موبائل فون لے جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔

.

ذریعہ: Jang News

کلیدی لفظ: 26ویں آئینی ترمیم کیخلاف اعلامیہ کے مطابق سپریم کورٹ

پڑھیں:

’عورت‘ کی تعریف پیدائشی جنس کی بنیاد پر ہوگی، برطانوی سپریم کورٹ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 اپریل 2025ء) برطانیہ کی سپریم کورٹ نے اپنے ایک متفقہ فیصلے میں کہا ہے کہ ''عورت‘‘ کی قانونی تعریف پیدائش کے وقت کسی شخص کی جنس پر مبنی ہے۔ یہ ایک ایسا تاریخی عدالتی فیصلہ ہے، جس کےٹرانس جینڈرز کے حقوق سے متعلق جاری تلخ بحث پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔

یہ فیصلہ اسکاٹ لینڈ کے صنف سے متعلق تنقیدی مہم چلانے والوں کے لیے ایک جیت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جو اس مقدمے کو سماعت کے لیے برطانیہ کی اعلیٰ ترین عدالت تک لائے تھے۔

لندن میں قائم سپریم کورٹ کے پانچ ججوں نے متفقہ طور پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا، ''مساوات ایکٹ 2010 میں 'عورت‘ اور 'جنس‘ کی اصطلاحات سے مراد ایک حیاتیاتی عورت اور حیاتیاتی جنس ہے۔

(جاری ہے)

‘‘

عدالت نے مزید کہا کہ یہ ایکٹ ٹرانس جینڈر افراد کو امتیازی سلوک کے خلاف بھی تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اس عدالتی حکم کا مطلب یہ ہے کہ ایک ٹرانس جینڈر شخص، جو ایک سرٹیفکیٹ کے سہارے خود کو ایک عورت تسلیم کرتا ہے، اسے صنفی مساوات کے تحت عورت نہیں سمجھا جانا چاہیے۔

لیکن عدالت نے مزید یہ بھی کہا کہ اس فیصلے کا مقصد ٹرانس جینڈر افرادکو تحفظ سے محروم کرنا نہیں ہے، کیونکہ وہ ''جنس کی تبدیلی کی بنیاد پر امتیاز کے خلاف تحفظ‘‘ رکھتے ہیں۔ یہ مقدمہ اسکاٹش پارلیمنٹ کے 2018ء میں منظور کردہ اس قانون سے جڑا ہوا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ اسکاٹ لینڈ کے سرکاری اداروں کے بورڈ میں خواتین کو 50 فیصد نمائندگی حاصل ہونی چاہیے۔

اس قانون میں خواتین کی تعریف میں ٹرانس جینڈر خواتین کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

خواتین کے حقوق کے ایک گروپ خواتین اسکاٹ لینڈ (FWS) نے یہ دلیل دیتے ہوئے اس قانون کو چیلنج کیا تھا کہ اس میں عورت کی نئی تعریف پارلیمنٹ کے اختیارات سے باہر ہے۔ لیکن اسکاٹش حکام نے اس کے بعد نئے رہنماخطوط جاری کیے، جس میں کہا گیا کہ عورت کی تعریف میں جنس کی شناخت کا سرٹیفکیٹ رکھنے والا شخص شامل ہے۔

لیکن ایف ڈبلیو ایس نے عدالت میں کامیابی کے ساتھ اپنےموقف کا دفاع کیا۔ اس گروپ کایہ بھی کہنا ہے کہ اس مقدمے کے نتیجہ کا اسکاٹ لینڈ، انگلینڈ اور ویلز میں صنفی حقوق کے ساتھ ساتھ جنس کی بنیاد پر سہولیات جیسے بیت الخلا، ہسپتال کے وارڈوں اور جیلوں پر بھی اثر انداز ہو سکتا تھا۔

ایف ڈبلیو ایس کی ڈائریکٹر ٹرینا بج کا کہنا تھا، ''جنس کی تعریف کو اس کے عام معنی سے نہ جوڑنے کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ عوامی بورڈز میں ممکنہ طور پر 50 فیصد مرد اور 50 فیصد ایسے مرد شامل ہوں، جن کے پاس خواتین ہونے کے سرٹیفکیٹ ہوں، اور اس طرح وہ قانونی طور پر خواتین کی نمائندگی کے اہل ہوں۔

‘‘

یہ چیلنج 2022 میں ایک عدالت نے مسترد کر دیا تھا، لیکن پچھلے سال اس گروپ کو سپریم کورٹ میں مقدمہ لے جانے کی اجازت مل گئی۔ ایف ڈبلیو ایس کے وکیل ایڈن او نیل نے سپریم کورٹ کے تین مرد اور دو خواتین ججوں پر مشتمل بینچ سے کہا کہ مساوات ایکٹ کے تحت ''جنس‘‘ سے مراد حیاتیاتی جنس ہونی چاہیے، جیسا کہ ''عام، روزمرہ کی زبان‘‘ میں سمجھا جاتا ہے۔

اس وکیل کا مزید کہنا تھا، ''ہماری رائے میں انسان کی جنس مرد، عورت، لڑکا یا لڑکی پیدائش سے پہلے ہی ماں کے پیٹ میں طے ہو جاتی ہے اور یہ اس جسمانی حقیقت کا حصہ ہے، جو کبھی نہیں بدلتی۔‘‘

خواتین کے حقوق کی اس تنظیم کی حامیوں میں مشہور برطانوی مصنفہ جے کے رولنگ بھی شامل ہیں، جنہوں نے اس کی مدد کے لیے بڑی رقم عطیہ کی۔

رولنگ کا کہنا ہے کہ ٹرانس خواتین کے حقوق، پیدائشی خواتین کے حقوق پر اثر انداز نہیں ہونے چاہییں۔

دوسری جانب ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دیگر تنظیموں نے اس مؤقف کی مخالفت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹرانس افراد کو تحفظ نہ دینا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ ایمنسٹی نے عدالت میں بتایا کہ اسے برطانیہ اور دنیا بھر میںٹرانس جینڈر افراد کےحقوق پر پڑنے والے منفی اثرات پر تشویش ہے۔

تنظیم نے اپنے ایک بیان میں کہا، ''ٹرانس خواتین کو خواتین کی مخصوص خدمات سے مکمل طور پر باہر نکال دینا کوئی مناسب یا جائز قدم نہیں ہے۔‘‘

شکور رحیم اے ایف پی، اے پی کے ساتھ

ادارات: افسر اعوان

متعلقہ مضامین

  • ’عورت‘ کی تعریف پیدائشی جنس کی بنیاد پر ہوگی، برطانوی سپریم کورٹ
  • سویلینز کا ملٹری ٹرائل کالعدم قرار دینے کیخلاف کیس کی سماعت کل تک ملتوی
  • اسلام آباد ہائیکورٹ بار کا ٹرانسفر ججز کیخلاف درخواست واپس لینے کا فیصلہ
  • فواد چوہدری، شہریار آفریدی اور صنم جاوید کیخلاف 9 مئی سے متعلق کیسوں کی سپریم کورٹ میں سماعت
  • عورت ہے، اسکا جسمانی ریمانڈ  کیوں درکار ہے؟ صنم جاوید کیخلاف مقدمے میں چیف جسٹس کا استفسار
  • عورت ہے، اسکا جسمانی ریمانڈ کیوں درکار ہے؟ صنم جاوید کیخلاف مقدمے میں چیف جسٹس کا استفسار
  • صدر سپریم کورٹ بارکی وفدکے ہمراہ آئی ایم ایف حکام سے ملاقات
  • سپریم کورٹ آئینی بینچ نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں ٹرانسفر ججوں کو کام سے روکنے کی استدعا مسترد کردی
  • اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی سنیارٹی  سپریم کورٹ کا آئینی بنچ آج سماعت کریگا
  • اسلام آباد ہائیکورٹ ججز سینیارٹی تنازع، سپریم کورٹ کا 5رکنی بینچ کل سماعت کریگا