بنگلا، برمی اور بہاری کمیونٹی کے شناختی کارڈ اجرا میں رکاوٹیں دُور کی جائیں، منعم ظفر خان
اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT
کراچی:امیرجماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان نے ہے کہا کہ جماعت اسلامی بنگلا، برمی اور بہاری کمیونٹی کے ساتھ ہے، انہیں محب ِ وطن ہونے اور پاکستانی ثابت کرنے کے لیے کسی سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں۔ان سے امتیازی سلوک اور نادرا میں قومی شناختی کارڈ کے حصول میں غیر ضروری اور ناجائز رکاوٹیں کسی صورت قبول نہیں، ہم ہر فورم پر ان کا مقدمہ لڑیں گے، ضرورت پڑی تو احتجاج اور دھرنا بھی دیں گے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے پبلک ایڈ کمیٹی کے تحت ادارہ نور حق میں بنگالی، برمی اور بہاری کمیونٹی کے شناختی کارڈ بنوانے میں ایک بار پھر سے رکاوٹوں اور مشکلات و پریشانیوں کے حوالے سے مشاورتی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اجلاس سے صدر پبلک ایڈ کمیٹی جماعت اسلامی و نائب امیر جماعت اسلامی کراچی سیف الدین ایڈووکیٹ،سیکرٹری پبلک ایڈ کمیٹی نجیب ایوبی،نائب صدر پبلک ایڈ کمیٹی قطب احمد،آصف آزاد ایڈووکیٹ نے بھی خطاب کیا۔
اجلاس میں متاثرہ کمیونیٹیز سے وابستہ افراد نے بڑی تعداد میں شرکت کی اور بتایا کہ نادرا کے دفاتر میں ان کے ساتھ ایک بار پھر سے سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا جارہا ہے، بنگالی، برمی اور بہاری کمیونٹی کو خاص ٹارگٹ کیا جارہا ہے۔ ہمیں جماعت اسلامی سے امید ہے کہ وہ ہمارے شناختی کارڈ بنوانے میں اپنا کلیدی کردار ادا کرے گی۔
متاثرین نے کہا کہ ہم محب وطن ہیں لیکن ہمیں غیر ملکی سمجھا جاتا ہے اور ہماری شناخت پوچھی جاتی ہے،ہمیں ثابت کرنا پڑتا ہے کہ ہم پاکستانی ہیں۔انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ انٹیلی جینس اسپیشل برانچ کی گھر گھر چیکنگ کا عمل فوری روکا جائے، اب تک جتنے لوگوں کا ڈیٹا جمع کیا گیا ہے اور ان کے شناختی کارڈ کلیئر ہیں ان کومکمل تحفظ فراہم اوران کے ڈیٹا کا کوئی غلط استعمال نا کیا جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بنگلا زبان بولنے والے محب وطن پاکستانیوں کے ساتھ امتیازی سلوک بند، نادرا کے آفسز میں خاص کر لوگوں کو تنگ کرنا بند کیا جائے، کارڈ کی تجدید کرانے جانے والوں کو بے جا تنگ نہ کیا جائے۔ جن بچوں کے ب فارم نہیں اور اس کی وجہ سے اسکولوں میں داخلے نہیں ہو رہے ان کے ب فارم جاری کیے جائے۔ زونل بورڈز میں سالوں سے زیر التواء کیسز یا پھر IB کے پاس ہیں ان کو فوری پروسس کیا جائے۔
منعم ظفر خان نے اس موقع پر کہا کہ مشرقی پاکستان سے آنے والوں نے وطن کی محبت میں ہی دو دفعہ ہجرت کی۔ جماعت اسلامی نے بنگلا و برمی زبان بولنے والوں کو تنہا نہیں چھوڑا اور ہمیشہ ان کا ساتھ دیا۔
انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم 1986 سے آج تک ہر حکومت کا حصہ رہی ہے۔ یہ جب چاہتی تھی 10 منٹ میں پورا شہر بند ہوجایا کرتا تھا لیکن کراچی کے شہریوں سمیت بنگلا، برمی اور بہاری کمیونٹی کے لیے عملاً کچھ نہیں کیا ۔ کراچی میں جو بگاڑ پیدا ہوا ہے اس میں ایم کیو ایم ہی کا کردار رہا ہے۔
امیر جماعت کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی گزشتہ 35 سال سے کراچی پر قابض ہے لیکن اس نے بھی بنگالی، برمی اور بہاریوں کا مسئلہ ہی حل نہیں کیا ہے، ادارہ نور حق میں طویل عرصے سے قائم نادرا ڈیسک ہفتہ وار جمعہ کوکام کر رہی ہے اورہم کراچی کے تمام اضلاع میں بھی نادراڈیسک قائم کر رہے ہیں۔
منعم ظفر خان نے کہا کہ جماعت اسلامی نے حافظ نعیم الرحمن کی قیادت میں نادرا کے ہیڈ آفس اور تمام ڈسٹرکٹ دفاتر پر دھرنے دیے، جماعت اسلامی نے ہمیشہ ظلم کے خلاف آواز بلند کی ہے۔ کوئی بھی ادارہ تنگ کرے یا پاکستانی ہونے کا ثبوت مانگے تو اس کے لیے جماعت اسلامی کے دفاتر موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آل انڈیا مسلم لیگ ڈھاکا میں بنی اور قرارداد مقاصد پیش کرنے والے بھی بنگلا زبان بولنے والے تھے، اس لیے بنگالی، برمی اور مشرقی پاکستان سے آنے والوں سے کوئی بھی ان کی شناخت نہیں پوچھ سکتا۔
سیف الدین ایڈووکیٹ نے کہاکہ جماعت اسلامی کے سوا کوئی بھی سیاسی پارٹی بنگالی، بہاری اور برمی کمیونٹی سے وابستہ افراد کے لیے بات نہیں کرتی بلکہ یہی پارٹیاں ہیں جنہوں نے ان لوگوں کے لیے مسائل پیدا کیا ہے۔ حافظ نعیم الرحمن کی قیادت میں طے کیا تھا کہ ہم اپنی مدد آپ کے تحت مسائل حل کریں گے، جماعت اسلامی کی جدوجہد سے ہی ایک لاکھ سے زائد لوگوں کے بلاک شدہ شناختی کارڈز کو بحال کروایا گیا تھا۔ ہم آئندہ بھی بھرپور جدوجہد کریں گے اور مسائل حل کروائیں گے۔
نجیب ایوبی نے کہاکہ ہمارے دل بنگالی، برمی اور بہاری کمیونٹی کے ساتھ دھڑکتے ہیں، ہم ہر صورت ان کے ساتھ ہیں، کسی بھی صورت میں ان کے ساتھ ظلم و زیادتی نہیں ہونے دیں گے۔
قطب احمد نے کہا کہ ہر شہری کا حق ہے کہ اس کا قومی شناختی کارڈ بنے، جو بھی بنگلا دیش سے پاکستان آیا ہے وہ پاکستانی ہے اور اسے پاکستان میں رہنے کا حق ہے اور اس کی شناخت ایک پاکستانی کی ہے، ماضی میں بھی بنگالی، برمی اور بہاری کمیونٹی سے وابستہ افراد کے لیے جماعت اسلامی نے بھرپور تحریک چلائی اور ایس او پی تبدیل کروائی، سندھ پر ایسے لوگوں کی حکمرانی ہے جو ظالم اور جابر ہیں، جو ظلم کر کے اپنی حاکمیت کو قائم کرتے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم وفاقی حکومت میں شامل ہیں۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم دونوں مل کر عوام کا استحصال کررہے ہیں۔
.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان کھیل جماعت اسلامی نے شناختی کارڈ ایم کیو ایم نے کہا کہ کیا جائے انہوں نے کے ساتھ ہیں ان ہے اور کے لیے
پڑھیں:
ڈاکٹر خورشید احمد بھی ہم سے جدا ہو گے
جماعت اسلامی کے سابق سینیٹر ڈاکٹر خورشید احمد انتقال فرماگئے ۔انا للہ وانا الیہ راجعون
پاکستان میں اسلامی جماعتیں بھی بہت ہیں اور اسلامی سیاسی جماعتیں بھی بہت مگر جماعت اسلامی نے اسلام اور پاکستان کے دامن میں جو رتن جمع کئے ہیں وہ جماعت اسلامی پر بس ہیں ۔ڈاکٹر صاحب کا تعلق ایک علمی ،دینی خانوادے سے تھا ، مذہبی گھرانے میں 23مارچ 1932ء میں پیدا ہوئے،علم دوست ماحول میں پرورش پانے کی وجہ سے دینی فکر کے ساتھ پروان چڑھے ۔پندرہ برس کے تھے کہ ہندوستان تقسیم ہوگیااور آگ کا دریا پار کرکے پاکستان آگئے ۔
ابتدائی تعلیم علم کے مرکز دلی میں حاصل کی ،ہجرت کے بعد کراچی میں سیٹل ہوئے تو ایم اے تک کی تعلیم کراچی میں حاصل کی ۔علم کی پیاس برطانیہ لے گئی جہاں لیسٹر یونیورسٹی سے اسلامی معیشت میں پی ایچ ڈی کیا ۔اسلامیات اور فلسفے میں خصوصی دلچسپی رکھتے تھے جبکہ اسلامی معیشت دان کی حیثیت سے بین الاقوامی سطح پر ایک مضبوط حوالہ بنے ۔سود سے پاک معاشی نظام کا مربوط تصور پیش کیا اور اسے نظام کی تشکیل کے لئے ثابت قدم ہو گئے۔پاکستان میں اسلامی معیشت کے قیام کے لئے متعد دسفارشات مرتب کیں ۔ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز ISP اسلام آباد کے بانی چیئرمین ٹھہرے اور دہائیوں کی خدمات سے ادارے کی بین الاقوامی شناخت قائم کر نے میں اہم اور کلیدی کردار ادا کیا۔اس کے لئے انہوں نے دنیا بھر کی یونیورسٹیز میں سینکڑوں لیکچر دے کر یہ اجاگر کیا کہ اسلام ہی وہ کامل نظام زندگی ہے جو حلال معیشت کی بنیاد پر دنیا کو خوشحالی اور امن و سکون کا گہوارہ بنا سکتا ہے ۔
ڈاکٹر خورشید احمد کی ہمہ گیریت کا کرشمہ تھا کہ ایک ہی وقت میں وہ اسلامی نظریاتی کونسل اور مختلف مشاورتی کمیٹیوں میں بھرپور خدمات سر انجام دیتے رہے ۔وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی کی وزارت کا قلمدان سنبھالا تو اپنی شب روز کی محنت سے افکار و نظریات اور پاکستان کے وقار کو عظمت ورفعت کی تازہ تصویر بنادیا۔یوں دنیا بھر کے بڑے اعزازات ان کے گلے کا ہار اور ملک کے لئے عزت و وقار بنے۔
دنیا میں اپنے آپ کو عالمی ماہر معاشیات کے طور پر منوایا ۔ڈاکٹر خورشید احمد 1950 ء کے لگ بھگ مولا سید ابوالاعلی مودودی کے افکار نظریات سے ہم آہنگی کی بنا پر جماعت اسلامی سے منسلک ہوگئے اور جماعت کے نائب امیر کے منصبدار تک گئے ،جماعت کے منشور کی تیاری اور دیگر سیاسی اخلاقی روایات تک کی اساسی ہیئت بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
2002 ء میں سینیٹ آف پاکستان کے رکن منتخب ہوئے تو ادارے کی مختلف کمیٹیز کی بھرپور فعالیت کے لئے خصوصی محنت کی اور معاشی و تعلیمی حوالے سے ملکی نظام میں انقلابی تبدیلیاں لانے کی جستجو ئے پیہم کی۔ڈاکٹر صاحب نے فقط اداروں کی تہذیب کی ذمہ داریاں ہی نہیں نبھائیں بلکہ تحقیق و تدریس کی شمعیں بھی روشن رکھیں اور پوری ملت اسلامیہ میں علم و دانش کے فروغ میں تاریخی کردار ادا کیا۔یہ کہنا بھی تعلی کے زمرے میں نہیں آتا کہ انہوں نے جماعت اسلامی کو مقبولیت کی رفعتوں تک پہنچایا اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ہر صالح نوجوان کی سوچ کا اولین نقطہ ارتکاز وہی ہوتے۔پاکستان میں سود سے پاک بنکاری کے فروغ کی راہ انہوں ہی نے ہموار کی ۔ انہوں نے جہاں اندرون و بیرون ملک لیکچر ز کے لئے وقت نکالا وہیں بہت سارا تحریری ورثہ بھی امت مسلمہ کو عطا کر گئے۔
عالمی سطح پر ان کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب “Elimination of Riba from the Economy ” جس کا اردو ترجمہ ’’معیشت میں ربا کا خاتمہ‘‘ اردو میں اس موضوع پر آنتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔ربا پر لکھی گئی اس کتاب میں سودی معاشرے کی ہولناکیوں کا تفصیلی احاطہ کیا گیا ہے اور ڈاکٹر صاحب نے یہ دعویٰ کیا ہے سودی نظام معیشت ہی انسانی معاشروں میں عدم تحفظ ،عدم مساوات اور استحصال کا بنیادی شاخسانہ ہے جو اقوام کی تباہی و بربادی کی سب سے بڑی وجہ ہے ۔
13 اپریل 2025 ء کا دن امت مسلمہ کیلئے بہت بھاری گزرا ہے کہ یہ ڈاکٹر خورشید احمد کو ہم سے جدا کر گیا ہے ۔اللہ مرحوم کو غریق رحمت فرمائے اور ان کے درجات کو بلند فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔