روس نے 757 یوکرینی فوجیوں کی لاشیں واپس کر دیں
اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 جنوری 2025ء) روس نے فروری 2022 میں یوکرین میں اپنی افواج کو متحرک کیا تھا۔ یوکرین میں جنگی قیدیوں کے علاج کے لیے قائم کردہ کوآرڈینیشن ہیڈ کوارٹرز کے مطابق تقریباً تین سالہ جنگ کے دوران ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ یوکرینی فوجیوں کی اتنی بڑی تعداد میں لاشیں واپس لائی گئی ہیں۔ یہ تعداد شدت کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی عیاں کرتی ہے کہ اس جنگ کی کتنی بھاری قیمت ادا کی جا رہی ہے۔
کوآرڈینیشن ہیڈ کوارٹرز نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں لکھا، ''757 ہلاک ہونے والے فوجیوں کی لاشیں یوکرین کو واپس کر دی گئی ہیں۔‘‘
اس بیان میں مزید واضح کیا گیا کہ 451 لاشیں ''ڈونیٹسک کی سمت‘‘ سے واپس لائی گئیں۔
(جاری ہے)
یہ اشارہ پوکروسک کے علاقے کی طرف تھا، جو کان کنی اور ٹرانسپورٹ کا مرکز ہے۔
پوکروسک میں کبھی 60 ہزار کے قریب باشندے آباد تھے لیکن اب کئی مہینوں کی روسی بمباری سے یہ تباہ ہو چکا ہے اور اس وقت کریملن کی اولین فوجی ترجیح ہے۔
بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 34 ہلاک شدگان کی لاشوں کو روس کی سرحد کے اندر واقع مردہ خانے سے واپس لایا گیا ہے۔ گزشتہ برس اگست میں یوکرین نے روس کے مغربی علاقے کروسک پر ایک حملہ کیا تھا۔ روس اکتوبر کے بعد سے کم از کم پانچ مرتبہ یوکرینی فوجیوں کی لاشیں واپس کر چکا ہے۔یوکرین: ایزیوم میں اجتماعی قبریں دریافت، سینکڑوں لاشیں برآمد
فوجی ہلاکتوں کی تعداد روس اور یوکرین دونوں ملکوں میں راز ہیں لیکن یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے گزشتہ دسمبر میں انکشاف کیا تھا کہ سن 2022 سے اب تک 43 ہزار یوکرینی فوجی ہلاک اور تین لاکھ ستر ہزار زخمی ہو چکے ہیں۔
تاہم مجموعی تعداد کافی زیادہ ہونے کا امکان ہے۔دوسری جانب روس نہ تو اپنے فوجیوں کی لاشوں کی واپسی کا اعلان کرتا ہے اور نہ ہی یوکرین میں لڑائی کے دوران ہلاک ہونے والے فوجیوں کی تعداد کے بارے میں کوئی معلومات دیتا ہے۔
نیٹو اتحاد کو بحیرہ بالٹک میں اجارہ داری قائم کرنے نہیں دیں گے، روسدریں اثنا ایک سینیئر روسی عہدیدار نے کہا ہے کہ اگر مغربی فوجی اتحاد نیٹو کی جانب سے بحیرہ بالٹک پر تسلط قائم کرنے کی کوئی بھی کوشش کی گئی تو اس کا مقابلہ کیا جائے گا۔
روس کے نائب وزیر خارجہ الیگزانڈر گروشکو نے جمعہ کو ایک روسی ٹیلی ویژن کو بتایا کہ نیٹو نے بالٹک کے اردگرد گشت بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے اور یہ مغربی اتحاد کی طرف سے ''بحیرہ بالٹک کو نیٹو جھیل میں تبدیل کرنے کی خواہش‘‘ کا مزید ایک ثبوت ہے۔ان کا مزید کہنا تھا، ''یہ بہت سی وجوہات کی بناء پر نہیں ہو گا اور ایک اہم وجہ یقیناً یہ ہے کہ روسی فیڈریشن اس کی اجازت نہیں دے گی۔‘‘
یاد رہے کہ فن لینڈ اور سویڈن کی نیٹو میں شمولیت سے بحیرہ بالٹک پر روس کی پوزیشن کمزور ہوئی ہے۔
ا ا/ا ب ا (ڈی پی اے، اے ایف پی)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے یوکرینی فوجی فوجیوں کی
پڑھیں:
روس سے معاہدے سے پہلے ٹرمپ یوکرین کا دورہ کریں، زیلنسکی
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 14 اپریل 2025ء) جرمنی کے ممکنہ اگلے چانسلر فریڈرش میرس نے یوکرین کے شہر سومے میں روسی میزائل حملے میں بچوں سمیت کم از کم 34 افراد کی ہلاکت کے بعد روسی صدر ولادیمیر پوٹن پر جنگی جرم کے ارتکاب کا الزام عائد کیا ہے۔
میرس نے اتوار کے روز جرمن پبلک براڈکاسٹر اے آر ڈی سے گفتگو کے دوران کہا کہ یہ ہلاکت خیز روسی میزائل حملہ "دانستہ اور سمجھ بوجھ کے ساتھ کیا گیا جنگی جرم" ہے۔
میرس نے کہا، "حملے دو بار ہوئے اور دوسری بار (حملہ) اس وقت ہوا، جب ایمرجنسی ورکرز متاثرین کی دیکھ بھال کر رہے تھے۔"
انہوں نے جرمنی میں ان لوگوں کا تذکرہ کرتے ہوئے، جو پوٹن کے ساتھ امن مذاکرات کی حمایت کر رہے ہیں، مزید کہا، "یہ (پوٹن کا) جواب ہے، جو ان کے ساتھ جنگ بندی کی بات کرتے ہیں پوٹن ان لوگوں کے ساتھ یہی کرتے ہیں ۔
(جاری ہے)
"میرس نے کہا، "ان کے ساتھ بات چیت کرنے کی ہماری رضامندی کو امن کی سنجیدہ پیشکش کے طور پر نہیں بلکہ کمزوری سے تعبیر کیا جاتا ہے۔"
یوکرینی شہر سومے پر روسی میزائل حملہ، تیس سے زائد ہلاکتیں
یوکرین کو ٹورس میزائل فراہم کرنے کا اشارہمیرس نے یوکرین کو طویل فاصلے تک مار کرنے والے ٹورس میزائلوں کی فراہمی کے لیے اپنی حمایت کا بھی اعادہ کیا۔
تاہم انہوں نے اس کے لیے یہ شرط بھی رکھی اس سمت میں بھی کوئی اقدام یورپی اتحادیوں کے ساتھ مربوط طریقے کیا جانا چاہیے۔انہوں نے نوٹ کیا کہ برطانیہ، فرانس اور امریکہ جیسے بعض ممالک، پہلے ہی یوکرین کو میزائل فراہم کر چکے ہیں۔ واضح رہے کہ عنقریب اپنے عہدے سے سبکدوش ہونے والے جرمن چانسلر اولاف شولس نے تنازعہ بڑھنے کے خطرات کے پیش نظر یوکرین کو ٹورس میزائل فراہم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
یوکرین پر روسی فضائی حملوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، زیلنسکی
سنٹر لیفٹ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) کے رکن شولس نے اس سے قبل سومے پر حملے کو "ظالمانہ" قرار دیا تھا اور کہا تھا: "اس طرح کے حملے اس بات کو عیاں کرتے ہیں کہ روس کے امن سے متعلق دعووں کی حقیقت کیا ہے۔"
ٹرمپ کو یوکرین کے دورے کی دعوتیوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے جنگ کے خاتمے کے لیے روس کے ساتھ کسی بھی طرح کے معاہدے سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ کو کییف کا دورہ کرنے کی دعوت دی ہے۔
زیلنسکی نے سی بی ایس کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، "براہ کرم، کسی بھی قسم کے فیصلے، کسی بھی قسم کے مذاکرات سے پہلے، تباہ شدہ یا مردہ لوگوں، عام شہریوں، جنگجوؤں، ہسپتالوں، گرجا گھروں، بچوں کو دیکھنے کے لیے تشریف لائیں۔"
یہ انٹرویو یوکرین کے شہر سومے پر اتوار کے روز تباہ کن روسی میزائل حملے سے پہلے ریکارڈ کیا گیا تھا، جس میں دو بچوں سمیت 34 افراد ہلاک اور 117 زخمی ہوگئے۔
اس دوران صدر ٹرمپ نے اس حملے کو "نہایت برا" قرار دیا۔ حملے سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں امریکی صدر نے کہا کہ یہ "نہایت برا" تھا اور انہیں "بتایا گیا ہے کہ انہوں نے ایک غلطی کی ہے۔" تاہم انہوں نے اس غلطی کی وضاحت نہیں کی۔
روسی حکومت یوکرین امن معاہدے کو سبوتاژ کر رہی ہے، نیٹو
اس سے قبل یوکرین کے لیے ٹرمپ کے خصوصی ایلچی ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل کیتھ کیلوگ نے کہا تھا کہ یہ حملہ مناسب رویے شرافت کی کسی بھی حد کو عبور کر گیا ہے۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے روس پر "انسانی جانوں، بین الاقوامی قانون اور صدر ٹرمپ کی سفارتی کوششوں کی صریح بے عزتی کرنے" کا الزام لگایا۔
انہوں نے کہا کہ روس پر جنگ بندی نافذ کرنے کے لیے سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔ "فرانس اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر اس مقصد کے لیے انتھک محنت کر رہا ہے۔"
زیلنسکی کا روس کے بیلگوروڈ میں یوکرینی فوج کی موجودگی کا اعتراف
یورپی کمیشن کی صدر ارزولا فان ڈیئر لائن کہا: "روس بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے، جارح تھا اور رہے گا۔
جنگ بندی کو نافذ کرنے کے لیے فوری طور پر سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔ یورپ اپنے شراکت داروں سے صلاح و مشورہ جاری رکھنے کے ساتھ ہی روس پر اس وقت تک سخت دباؤ برقرار رکھے گا، جب تک کہ خونریزی ختم نہیں ہو جاتی۔"ص ز/ ا ا (اے ایف پی، ڈی پی اے)