ایم ڈبلیو ایم رہنما و تحصیل میئر پاراچنار مزمل فصیح گرفتار
اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT
آغا مزمل حسین فصیح کو مظلومین پاراچنار کے حقوق، محاصرے کے خاتمے اور شیعہ سنی وحدت کیلئے جدوجہد کرنے کی پاداش میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے گرفتار کرکے صدہ منتقل کردیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ وفاقی وصوبائی حکومتوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ظلم وجبر کی حد پار کردی ہے۔ ضلع کرم میں امن کی بھیک مانگنے والے شیعہ سنی عوام کی جان ومال کے تحفظ کیلئے آواز بلند کرنے والے مجلس وحدت مسلمین ضلع پاراچنار کے صدر اور تحصیل میئر اپر کرم آغا مزمل حسین فصیح کو پر امن دھرنا دینے کے جرم میں گرفتار کرلیا گیا۔ آغا مزمل حسین فصیح کو مظلومین پاراچنار کے حقوق، محاصرے کے خاتمے اور شیعہ سنی وحدت کیلئے جدوجہد کرنے کی پاداش میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے گرفتار کرکے صدہ منتقل کردیا ہے۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کرنے والے
پڑھیں:
مشکوک کالز ریکارڈ کرنے سے متعلق فیصلے کیلئے جسٹس فاروق حیدر جج نامزد
مشکوک کالز ریکارڈ کرنے سے متعلق فیصلے کیلئے جسٹس فاروق حیدر جج نامزد WhatsAppFacebookTwitter 0 24 January, 2025 سب نیوز
لاہور(آئی پی ایس ) چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس مس عالیہ نیلم نے مشکوک کالز ریکارڈ کرنے سے متعلق فیصلے کیلئے جسٹس فاروق حیدر کو جج نامزد کردیا۔خفیہ اداروں کی درخواست پر ملک دشمن عناصر کی کالز ریکارڈ کرنے کی اجازت دینے یا نہ دینے کا فیصلہ جسٹس فاروق حیدر کریں گے ، جسٹس فاروق حیدر کو انویسٹی گیشن فار فیئر ٹرائل ایکٹ 2013 کے تحت ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔سال 2013 میں انویسٹی گیشن فار فیئر ٹرائل ایکٹ منظور کیا گیا، قانون کے تحت ملک دشمن عناصر اور ملکی مفاد کے خلاف کام کرنے والے افراد کی کالز اور ڈیجیٹل موجودگی پر نظر رکھنے کی اجازت دی گئی ہے۔
مذکورہ قانون کے تحت خفیہ اداروں کو ریکارڈ کی گئی کالز و دیگر چیزوں کو عدالت میں بطور ثبوت پیش کرنے کی اجازت حاصل ہے، متعلقہ اداروں کو اگر کسی شخص پر شک ہو جو ملکی مفاد کے خلاف کام کررہا ہو تو اس کی ڈیجیٹل نگرانی یعنی اس کی کالز ریکارڈ کرنے کے لیے طریقہ کار وضع کیا گیا ۔کال ریکارڈنگ کے وارنٹ کی اجازت کے لیے ادارے کو ایک آفیسر مقرر کرنا ہوگا، متعلقہ آفیسر کو وفاقی وزیر داخلہ کو کال ریکارڈنگ کی درخواست دینا ہوگی، وزیر داخلہ کو درخواست پیش کرنے سے قبل متعلقہ ادارے کو مشکوک شخص کے خلاف مواد بھی اکٹھا کرنا ہوگا۔
قانون کے مطابق وزیر داخلہ سے اجازت کے حصول کے لیے مشکوک شخص سے متعلقہ مواد پیش کرنا ہوگا، وزارت داخلہ مواد اور درخواست کو سامنے رکھتے ہوئے کال ریکارڈنگ کی درخواست منظور یا مسترد کر سکتی ہے، وزیر داخلہ کی اجازت کے بعد اادرے کا افسر متعلقہ ہائیکورٹ کے متعلقہ جج کو درخواست پیش کرے گا۔ہائیکورٹ کا متعلقہ جج ادارے کے افسر کی درخواست و دلائل کی روشنی میں کال ریکارڈنگ کی درخواست منظور یا مسترد کر سکتا ہے، درخواست کی منظوری کی صورت میں متعلقہ جج سیل بند لفافے میں اپنی اجازت متعلقہ افسر کے حوالے کریں گے۔
یہ قانون بننے کے 12سال بعد اس وقت عمل درآمد شروع ہوا جب پراسیکیوٹر جنرل پنجاب سید فرہاد علی شاہ نے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ مس عالیہ نیلم کو مراسلہ لکھا کہ اس قانون کو بنے 12سال گزر گئے لیکن کسی چیف جسٹس نیا س پر عمل کرکے ہائیکورٹ کے جج کو نامزد نہیں کیا۔پراسیکیوٹر جنرل پنجاب نے کہا کہ اس وجہ سے ملک دشمن عناصر کے خلاف اہم ثبوت پراسیکیوشن اکٹھے نہیں کر سکی اور انہیں سخت سزائیں نہیں ہوسکیں،چیف جسٹس عالیہ نیلم نے فوری طور پر قانون پر عمل درآمد کرتے ہوئے جسٹس فاروق حیدر کو نامزد کردیا۔
سید فرہاد علی شاہ نے جج کی نامزدگی پر چیف جسٹس مس عالیہ نیلم کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس نے قانون پر عمل نہ ہونے کا بروقت ایکشن لیا جس سے متعدد کیسز میں کارروائی آسانی سے آگے بڑھے گی۔