UrduPoint:
2025-01-24@23:19:11 GMT

حکومت کا نیا قانون، قومی سلامتی کا لفظ ایک خطرہ؟

اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT

حکومت کا نیا قانون، قومی سلامتی کا لفظ ایک خطرہ؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 جنوری 2025ء) اس قانون سازی کا اہم پہلو ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی (ڈی آر پی اے) کا قیام ہے، جسے غیر قانونی مواد ہٹانے، سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے اور خلاف ورزیوں پر جرمانے عائد کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔

تاہم ماہرین کا ماننا ہے کہ حکومت پیکا ایکٹ کے ذریعے بظاہر تو غلط خبروں کو روکنا چاہتی ہے لیکن بل کی مبہم زبان ظاہر کرتی ہے کہ بل صحافیوں کو ایک دھمکی ہے اور حکومت کسی بھی بات کو فیک یا قومی سلامتی کے خلاف کہہ کر کسی کو بھی سزا دے سکتی ہے۔

ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ حکومت ایک طرف تو فیک نیوز اور پراپیگنڈا روکنے کی بات کرتی ہے لیکن دوسری طرف معلومات کے بہاؤ میں روڑے بھی اٹکائے جاتے ہیں اور صحیح معلومات دیے بغیرملک میں افواہوں کی گردش کو کیسے روکا جا سکتا ہے۔

(جاری ہے)

حکومت کی کسی بھی ویب سائٹ پر کسی مسئلے یا فیصلے سے متعلق مکمل معلومات نہیں ملتیں اور نہ ہی حکومت اور اس کے ادارے کسی بھی موضوع پر پوچھے گئے سوالات کا جواب دیتے ہیں۔

ماہرین کا ماننا ہے کے یہ قانون حکومت نے صرف اپنے مخالف آوازوں کو دبانے کے لیے بنایا ہے۔

سینئیر اینکر اور تجزیہ کار عاصمہ شیرازی کہتی ہیں، ''صحیح معلومات دینا حکومت کا فرض ہے اور معلومات کے بہاؤ کو یقینی بنائے بغیر غلط معلومات کے فروغ کو روکنا بہت مشکل ہے۔‘‘

صحافیوں کا یہ بھی شکوہ ہے کہ حکومتی اداروں کے ترجمان جو قانون کے تحت جواب دینے کے پابند ہیں وہ بھی عموما بہت سے سوالوں کا جواب دینے سے گریز کرتے ہیں۔

حکومت نے نیشنل اسمبلی میں کیا قانون پاس کیا ہے اور اس کے اہم پہلو کیا ہیں؟

قانون میں حالیہ کی گئی ترمیمات کے تحت غیر قانونی مواد کی تعریف کو وسعت دی گئی ہے، جس میں تشدد، نفرت، بدنامی کو فروغ دینے یا قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے والا مواد شامل ہے۔ پاس کیے گئے بل کے تحت حکومت کو ایسی ویب سائٹس، ایپلیکیشنز یا مواصلاتی چینلز بلاک کرنے کا اختیار دیا گیا ہے جو ان اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔

نیشنل اسمبلی سے پاس کردہ اس قانون میں جسے ابھی سینیٹ کی منظوری درکار ہے، جھوٹی معلومات پھیلانے پر سخت سزائیں بھی تجویز کی گئی ہیں، جن میں تین سال تک قید اور بیس لاکھ روپے تک جرمانہ شامل ہے۔ مزید برآں، اس قانون کے تحت آن لائن جرائم سے متعلق کیسز کو جلد از جلد نمٹانے کے لیے ایک نیا سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹریبونل بھی قائم کیا جائے گا، جو 90 دن کے اندر فیصلے کرنے کا پابند ہوگا۔

مبہم الفاط

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ تشدد، نفرت، بدنامی اور خاص طور پر قومی سلامتی والے الفاظ مبہم ہیں اور کوئی بھی ان کی زد میں لایا جا سکتا ہے۔ سینئیر وکیل حامد خان کہتے ہیں، ''یہ نیشنل سکیورٹی والا لفظ ہمیشہ سے اس ملک میں استعمال ہوتا آیا ہے اور یہ جہاں استعمال ہو اس کا مقصد ہی بد نیتی ہے۔ باقی جو لفظ استعمال کیے گئے ہیں وہ بھی مبہم ہیں اور ان کی طاقت ور حلقے اپنی مرضی کے مطابق تشریح کریں گے اور کر رہے ہیں۔

‘‘

ملک میں بنائے گئے ہر قانون اور آئین میں بھی بغیر تشریح کیے قومی سلامتی کے لفظ کا استعمال ملک کے سمجھ بوجھ رکھنے والے لوگوں میں ہمیشہ بحث کا مرکز رہا ہے اور مختلف لوگ اس کی زد میں آتے رہے ہیں۔ عاصمہ شیرازی کہتی ہیں، ''قومی سلامتی والا حرف ہمیشہ سے غلط استعمال ہوتا آیا ہے اور مزید ہو سکتا ہے۔ کل اگر میں کسی جنرل کی کرپشن پر خبر کر دوں تو کوئی بعید نہیں کہ اسے قومی سلامتی کا مسئلہ بنا کر پیش کر دیا جائے۔

‘‘ جھوٹی معلومات پر سزا

ماہرین کا کہنا ہے کہ جھوٹی معلومات کا فروغ نہیں ہونا چاہیے، یہ تو ایسی بات ہے جو سب مانتے ہیں لیکن بحث اس بات پر ہے کہ کیا اس کے لیے اس قانون کی ضرورت ہے۔ حامد خان اور عاصمہ شیرازی اس بات پر اتفاق رکھتے ہیں کہ ملک میں ہتک عزت کا قانون پہلے سے موجود ہے اور اس کے کیس بہت لمبا عرصہ چلتے ہیں، حکومت اس پر عدالتوں کو پابند کرے کے 90 دن میں فیصلہ کیا جائے اور اس کے لیے ایک نئی اتھارٹی بنانے کی کیا ضرورت ہے۔

حامد خان کہتے ہیں، ’’یہ ایک شرمناک قانون ہے اور صرف میڈیا کی آزادی سلب کرنے کے لیے اور مخالف بیانیے کو دبانے کے لیے بنایا جا رہا ہے۔‘‘ ایسے قانون کے لیے کن چیزوں کا کو مد نظر رکھنا ضروری ہے

اگرچہ قومی اسمبلی میں اس بل کو بھاری اکثریت سے منظور کیا گیا، لیکن یہ ترمیمات خاص طور پر صحافیوں کے درمیان شدید تنازعے کا باعث بنی ہیں، جو سمجھتے ہیں کہ یہ بل آزادی صحافت کو خطرے میں ڈال سکتا ہے اور تنقیدی رپورٹنگ کو روک سکتا ہے۔

بل کے پیش ہونے پر صحافی تنظیموں نے اس کے خلاف احتجاج کیا اورنہ صرف مبہم زبان پر تنقید کی بلکہ کہا کہ میڈیا سے متعلق کوئی بھی قانون میڈیا کے نمائیندوں کو اعتماد میں لیے بغیر بنانا بنیادی زیادتی ہے۔

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر افضل بٹ نے پیکا قانون پر تنقید کرتے ہوئے کچھ سوالات اٹھائے، ''جھوٹی خبروں کا فیصلہ کون کرے گا؟ اس قانون کے تحت اپیل صرف سپریم کورٹ میں کی جا سکے گی اور نچلی عدالتوں کو ایسے کیسز سننے کا اختیار نہیں ہوگا، جس کا مطلب ہے کہ متاثرہ افراد کو اپنی باری کے لیے طویل انتظار کرنا پڑے گا۔

بیس لاکھ روپے جرمانہ اور تین سال تک کی قید، حتیٰ کہ نیت پر بھی سزا دی جا سکتی ہے، لیکن نیت کا فیصلہ کون کرے گا؟‘‘

افضل بٹ نے مزید کہا کے وہ خود بھی جھوٹی خبروں کے خلاف ہیں، لیکن حکومت کو متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ بیٹھ کر قابل قبول حکمت عملی بنانا چاہیے تھی۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اس قانون کے مبہم نکات کا حکام غلط استعمال کر سکتے ہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ چونکہ سینیٹ نے ابھی بل پاس نہیں کیا اوراسے متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کر دیا ہے، اس لیے کمیٹی ان کو اعتماد میں لے گی۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے قومی سلامتی ماہرین کا اور اس کے قانون کے ملک میں سکتا ہے کے تحت ہے اور کے لیے

پڑھیں:

قومی اسمبلی: پیکا ایکٹ ترمیمی بل منظور، قانون سازی سوشل میڈیا کیلئے ہے: عطا تارڑ

اسلام آباد (وقائع نگار+ نوائے وقت رپورٹ) قومی اسمبلی نے متنازع پیکا ترمیمی بل 2025ء کثرت رائے سے منظور کر لیا۔ جمعرات کو ایوان زیریں میں ترمیمی بل وفاقی وزیر رانا تنویر نے پیش کیا۔ جبکہ صحافیوں اور اپوزیشن نے پیکا ترمیمی بل کے خلاف ایوان زیریں سے واک آؤٹ کیا۔ سائبر کرائم قوانین میں تبدیلیوں کا تازہ ترین مسودہ جس کا عنوان ’الیکٹرانک جرائم کی روک تھام (ترمیمی) بل 2025‘ تھا، کو ایک روز قبل وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے قومی اسمبلی میں پیش کیا تھا۔ اپوزیشن جماعت جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن) کے ارکان نے بھی بل کی مخالفت کی۔ پاکستان تحریک انصاف کے اراکین پارٹی کے بانی عمران خان کی نظربندی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے پہلے ہی ایوان کی کارروائی سے واک آؤٹ کر چکے تھے۔ علاوہ ازیں صحافیوں کی مختلف تنظیموں نے اپنے الگ الگ بیانات میں پیکا ترمیمی بل کی مذمت کی ہے۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) اور آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی (اے پی این ایس) سمیت صحافیوں کے حقوق کے گروپوں کی نمائندگی کرنے والی تنظیم جوائنٹ ایکشن کمیٹی (جے ای سی) نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا ہے جس میں اس ترمیم کی مذمت کی گئی۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’جوائنٹ ایکشن کمیٹی پیکا کی کسی بھی ایسی ترمیم کو مسترد کرتی ہے جو میڈیا اداروں کے ساتھ مشاورت کے بغیر منظور گئی۔ واضح رہے کہ وفاقی حکومت نے گزشتہ روز پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 قومی اسمبلی میں پیش کیا تھا جس کے تحت سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی قائم کی جائے گی، جھوٹی خبر پھیلانے والے شخص کو 3 سال قید یا 20 لاکھ جرمانہ عائد کیا جاسکے گا۔ حکومت کی جانب سے قومی اسمبلی میں پیش کیے جانے والے پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 کے مطابق سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی کا مرکزی دفتر اسلام آباد میں ہو گا، جبکہ صوبائی دارالحکومتوں میں بھی دفاتر قائم کیے جائیں گے۔ ترمیمی بل کے مطابق اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی رجسٹریشن اور رجسٹریشن کی منسوخی، معیارات کے تعین کی مجاز ہو گی جبکہ سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم کی سہولت کاری کے ساتھ صارفین کے تحفظ اور حقوق کو یقینی بنائے گی۔ پیکا ایکٹ کی خلاف ورزی پر اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے خلاف تادیبی کارروائی کے علاوہ متعلقہ اداروں کو سوشل میڈیا سے غیر قانونی مواد ہٹانے کی ہدایت جاری کرنے کی مجاز ہوگی۔ سوشل میڈیا پر غیر قانونی سرگرمیوں کا متاثرہ فرد 24 گھنٹے میں اتھارٹی کو درخواست دینے کا پابند ہو گا۔ قبل ازیں ایوان کا اجلاس شروع ہوا تو اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے نقطہ اعتراض پر بات کرنے کی اجازت چاہی تو سپیکر نے انہیں منع کردیا۔ جس پر پی ٹی آئی اراکین اپنی نشتوں پر کھڑے ہوگئے اور انہوں نے ہنگامہ آرائی شروع کردی۔ پی ٹی آئی اراکین نے گو گو کے نعرے لگائے، ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑیں اور ڈیسک بجاکر احتجاج کیا۔ قائد حزب اختلاف نے کہا ہم احتجاج میں ہیں۔ پیکا ایکٹ ترمیمی بل میں پی پی اور ایم کیو ایم نے مجلس قائمہ میں بل کی مخالفت کی تاہم آج ایوان میں جب بل پیش ہوا تو انہوں نے بل کی حمایت میں ووٹ دے دیا ہے۔ اپوزیشن نے احتجاج کرتے ہوئے ایوان کی کارروائی کا بائیکاٹ کیا اور واک آوٹ کرگئے۔ سپیکر نے بل کی منظوری کے بعد اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردیا۔ علاوہ ازیں نوائے وقت رپورٹ کے مطابق وفاقی وزیراطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ نے پیکا ایکٹ میں ترامیم کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ سوشل میڈیا کے حوالے سے ہے اور اس کی وجہ سے ورکنگ جرنلسٹس کو تحفظ ملے گا۔ تاہم صحافیوں کی تنظیمیں آئیں اور اس پر بات کریں۔ وفاقی وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑنے پارلیمنٹ ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پیکا ترمیمی بل صحافیوں کے تحفظ کی جانب اہم قدم ہے، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا سے متعلق قواعد و ضوابط موجود ہیں، ڈیجیٹل میڈیا کے بارے میں قواعد وقت کی ضرورت ہیں۔ ڈیجیٹل میڈیا پر کوئی کچھ بھی کہہ دیتا ہے، ڈیجیٹل میڈیا پر صحافت کے نام پر الزام تراشی کی جاتی ہے، پیکا ترمیمی بل ڈیجیٹل میڈیا کے لیے ہے، ڈیجیٹل میڈیا پر جھوٹ اور پروپیگنڈے کی کوئی جواب دہی نہیں ہے۔ ترمیمی ایکٹ میں سوشل میڈیا کی تعریف وضع کی گئی ہے، پیکا ترمیمی ایکٹ کا دائرہ کار ڈیجیٹل میڈیا تک محدود ہے، ترمیمی ایکٹ سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا متاثر نہیں ہوگا۔ قانون سازی سے ورکنگ جرنلسٹس کو تحفظ ملے گا، صحافتی تنظیموں سے مشاورت پر یقین رکھتے ہیں، پی آر اے، جوائنٹ ایکشن کمیٹی، پی بی اے اور اے پی این ایس سمیت سب کو دعوت ہے کہ وہ آئیں اس پر بات کریں۔ سوشل میڈیا سے لاکھوں کمانے والے ٹیکس کیوں نہیں دیتے؟ کیا وجہ ہے جو انتہاپسندانہ نکتہ نظر جو کہیں بیان نہیں ہو سکتا وہ سوشل میڈیا پر زیادہ وائرل ہوتا ہے۔ عطاء اللہ تارڑ نے کہا کہ ڈیجیٹل میڈیا پر الزام تراشی اور کردار کشی ہوتی ہے لیکن کوئی نوٹس نہیں ہوتا، ترمیمی بل سے ذمہ دارانہ صحافت کو فروغ ملے گا، ورکنگ جرنلسٹس کو موقع ملے گا کہ وہ اپنا روزگار محفوظ کر سکے۔ سوشل میڈیا پر خود ساختہ صحافی نفرت پھیلانے کے علاوہ کچھ نہیں کرتے۔

متعلقہ مضامین

  • پیکا ترمیمی بل بدنیتی پر مبنی کالا قانون ہے، لیاقت بلوچ
  • قومی اسمبلی: پیکا ایکٹ ترمیمی بل منظور، قانون سازی سوشل میڈیا کیلئے ہے: عطا تارڑ
  • امن کوششوں کے لیے اقوام متحدہ اور عرب لیگ کے تعاون میں اضافہ، خالد خیری
  • ’’ہاف مون جنوری‘‘:گوگل کا نیا تخلیقی ڈوڈل
  • عمرایوب نے چیئرمین قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی آئی ٹی کو ڈیجیٹل نیشن ایکٹ پر خط لکھ دیا
  • فیک نیوز کی شکایت پر 5 سال کی سزا دی جاسکے گی، پیکا ایکٹ ترمیمی بل قومی اسمبلی میں پیش
  • فیک نیوز پر 5 سال کی سزا ہو گی ، پیکا ایکٹ ترمیمی بل قومی اسمبلی میں پیش کردیا گیا
  • سلامتی کونسل: افریقہ میں دہشت گردی کے بڑھتے خطرات پر بحث
  • پارلیمانی شفافیت پر فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک کی نئی جائزہ رپورٹ جاری