“ڈرل بے بی ڈرل” سے بڑھ کر تعاون کرو
اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT
” میگا ” ” میگا “) میک امریکہ گریٹ اگین) کا نعرہ ۔تو ہمارے بارے میں کیا؟ اس دنیا کے بارے میں کیا؟
ڈونلڈ ٹرمپ واپس آ گئے! مقامی وقت کے مطابق 20 جنوری کو ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کے سینتالیسویں صدر کی حیثیت سے حلف اٹھایا اور عہدہ سنبھالنے کے پہلے ہی روز انہوں نے تقریباً 200 ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کیے جن میں معیشت، امیگریشن، توانائی اور قومی سلامتی جیسے کئی شعبوں کا احاطہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ ان حکم ناموں کا مقصد امریکہ کی مکمل تعمیر نو اور اسے دوبارہ عظیم بنانا ہے۔
اگر آپ خود کو دنیا کا لیڈر سمجھتے ہیں تو آپ کو پوری دنیا کی فلاح و بہبود کے لئے سوچنا اور کام کرنا ہوگا۔ تاہم اب ٹرمپ “امریکہ فرسٹ”، اور ” میگا ” کا نعرہ لگاتے ہوئے ، خلیج میکسیکو کو خلیج امریکہ بنانے، گرین لینڈ اور کینیڈا کو امریکہ میں شامل کرنے ، ٹیڑف میں اضافہ اور امریکہ کی جانب سے غیر ممالک کو دی جانے والی امداد ختم کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ ان کی حلف برداری کی تقریب میں مدعو کیے گئے یورپی سیاست دان انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کے رہنما ہیں جو مضبوط قوم پرستی اور قدامت پسندی کی وکالت کرتے ہیں ۔یوں دنیا بھر کے لوگ فکر کیے اور سوال کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ محترم ڈونلڈ ٹرمپ، ہمارے بارے میں کیا خیال ہے؟ پائیدار ترقی کے عالمی اہداف کے بارے میں کیا خیال ہے؟ اس دنیا کے بارے میں کیا خیال ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ بہت زیادہ پریشان ہونے کی بھی ضرورت نہیں کیوں کہ دنیا کا تعلق صرف ایک امریکہ سے ہی نہیں ہے۔ اگرچہ عالمگیریت کے عمل کو مشکلات کا سامنا ہے تاہم اب یہ وقت کا رحجان ہے کہ سیاست دانوں کے یہ نعرے ترقی اور خوشحالی کے حصول میں دنیا بھر کے ممالک کے لئے مل کر کام کرنے کے خوبصورت وژن اور کوششوں کو روک نہیں سکتے اور دنیا کی دو بڑی معیشتوں یعنی چین اور امریکہ کے درمیان تعاون ،بلاشبہ مندرجہ بالا اہداف کے حصول میں فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے، لہٰذا اگر ”امریکہ فرسٹ” اور ”میگا ” کے نعرے بلند تر بھی ہوتے رہے تو بھی یہ حقیقت اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ حقیقت پسند ٹرمپ اور ان کی ٹیم نے تعاون کے دروازے مکمل طور پر بند نہیں کیے اور چین اور امریکہ دونوں نے ایک دوسرے کو بروقت کچھ مثبت اشارے دیے ہیں ۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ عہدہ سنبھالنے سے قبل ٹرمپ نے کہا تھا کہ چین اور امریکہ مل کر دنیا کے تمام مسائل کو حل کر سکتے ہیں جو دراصل چین امریکہ تعاون کی اہمیت کے بارے میں ان کی سنجیدہ تفہیم کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے عہدہ سنبھالنے کے 100 دن کے دوران چین کا دورہ کرنے کی امید ظاہر کی جس پر چینی وزارت خارجہ نے بھی مثبت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے چین امریکہ تعلقات میں مزید پیش رفت کو فروغ دینے کے لیے امریکہ کے ساتھ مل کر کام کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا اور ٹرمپ کی حلف برداری کی تقریب میں چین کے اعلیٰ سطحی وفد کی شرکت نے بھی دوطرفہ تبادلوں اور تعاون کو مضبوط بنانے کے حوالے سے چین کے مثبت رویے کو واضح طور پر ظاہر کیا۔
چین اور امریکہ دنیا کی کل معیشت کا ایک تہائی سے زیادہ حصہ ، دنیا کی کل آبادی کا تقریباً ایک چوتھائی اور دنیا کی دو طرفہ تجارت کے حجم کے تقریباً پانچویں حصے کے مالک ہیں۔ امریکہ کے سابق نائب وزیر خارجہ رابرٹ ہارمیٹس نے حال ہی میں امریکہ چین تعلقات کے حوالے سے چائنا انسٹی ٹیوٹ ان امریکہ کی جانب سے منعقدہ اجلاس میں کہا کہ اگر امریکہ اور چین آب و ہوا، صحت کی دیکھ بھال، تعلیم، تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں تعاون کریں تو دنیا بہتر ہوگی۔ اگر دونوں فریق محاذ آرائی کی طرف بڑھتے ہیں تو دنیا کو شدید نقصانات ہونگے۔
وسیع تر نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو چین اور امریکہ کا مل کر چلنا بڑی حد تک دنیا کی سمت کا تعین کرے گا ۔ دونوں ممالک کے مستحکم تعلقات عالمی امن و استحکام کی بنیاد ہیں اور چین امریکہ تعاون موسمیاتی تبدیلی، خوراک کے بحران اور صحت عامہ کے عالمی مسائل سے نمٹنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے ۔ چین اور امریکہ کے درمیان بات چیت اور تعاون کا مضبوط ہونا بھی تمام فریقوں کے مفاد میں بہترین انتخاب ہے۔ امریکہ چین تعلقات سے متعلق امریکی قومی کمیٹی کے چیئرمین اسٹیفن اولینز نے نشاندہی کی کہ امریکہ اور چین کے تعلقات جتنے زیادہ مشکل ہوں گے، دونوں ممالک کے درمیان تعاون کو فروغ دینے کے لئے اتنی ہی جرات کی ضرورت ہوگی اور ان کے درمیان تعمیری اور نتیجہ خیز تعلقات سے امریکی عوام کو بھی ٹھوس فوائد حاصل ہوں گے۔
ٹرمپ اپنی دوسری صدارتی مدت کا آغاز کر رہے ہیں، دنیا تمام متعلقہ فریقوں سے توقع کرتی ہے کہ وہ “زیرو سم گیم” اور سرد جنگ کی ذہنیت کو ترک کریں، بات چیت اور مواصلات کو مضبوط کریں، اختلافات کو مناسب طریقے سے حل کریں، باہمی فائدہ مند تعاون اور مشترکہ طور پر تعاون کو وسعت دیں، تاکہ دنیا کے اتحاد اور ترقی اور عالمی پیداواری چین اور سپلائی چین کے استحکام اور اصلاح میں حصہ لیا جاسکے۔ لہذا ہم اب بھی ٹرمپ اور ان کی ٹیم سے اپیل کرنا چاہتے ہیں کہ ، صرف “ڈرل بے بی ڈرل” جیسے عارضی مقاصد اور امریکہ کے اندرونی امور کے بارے میں نہ سوچیں بلکہ دنیا کو ایسی بلند نگاہی سے دیکھیں جو دور اندیش ہو اور جو تمام رکاوٹوں کو ختم اور غلط فہمیوں کو دور کرنے کا حل دیکھ سکے۔دنیا کو تعاون کی ضرورت ہے، لیکن ،”ڈرل بے بی ڈرل” کے نعرے سے بڑھ کر .
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
ڈونلڈ ٹرمپ اور طاقت کا وہم
اسلام ٹائمز: لیکن اگر امریکہ کے نو منتخب صدر نے طاقت کے وہم کا شکار ہو کر اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف جارحانہ اقدامات انجام دینے کی کوشش کی تو فطری بات ہے کہ ایرانی قوم اور حکومت ایسے اقدامات کو برداشت نہیں کرے گی۔ ایران میں رونما ہونے والے اسلامی انقلاب کی شاندار تاریخ نے اچھی طرح ثابت کیا ہے کہ ملت ایران کسی بھی عالمی اور علاقائی تبدیلی سے متاثر نہیں ہوتی لیکن اگر مغربی طاقتوں نے ایران سے احترام کی بنیاد پر رویہ اپنایا تو اس طرح دونوں کے درمیان مثبت فضا پیدا ہونے کا زمینہ فراہم یو سکتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران سے متعلق امریکہ اور مغرب کے رویوں میں تبدیلی کا مطلب ایران کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت، خطے کی مسلمان اقوام کے ارادے کا احترام اور امریکہ کی جانب سے شدت پسندانہ رویوں سے پرہیز ہے۔ ایران کی جانب سے گذشتہ جوہری معاہدے کے اندر رہتے ہوئے مغربی ممالک سے تعاون کی یہی شرائط ہیں۔ تحریر: حسن ہانی زادہ
نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار سنبھالتے ہی کانگریس میں ایک عوام فریبی پر مبنی لمبی تقریر کی جس میں انہوں نے دعوی کیا ہے کہ قاتلانہ حملے میں ان کے زندہ بچ جانے کا صرف ایک ہی مطلب ہے اور وہ یہ کہ یہ ایک معجزہ ہے جس کا مقصد امریکہ کو نجات دلانا اور اس کی ماضی کی شان و شوکت دوبارہ بحال کرنا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی پہلی تقریر میں مزید کہا: "امریکہ کا سنہری دور آج سے شروع ہو چکا ہے، امریکہ پہلی ترجیح ہو گا، ہم اپنے ملک میں سیکورٹی، حکومتی رٹ اور انصاف بحال کریں گے، امریکہ عنقریب ہمیشہ سے زیادہ طاقتور اور مستحکم ہو جائے گا، ہمیں ان چیلنجز کے بارے میں صادق ہونا چاہیے جن سے ہم روبرو ہیں اور ہمارے دشمن بہت سے امور میں ہم پر اثرگذار ہونا چاہتے ہیں، اس لمحے سے امریکہ کا انتشار رک گیا ہے۔"
امریکہ کے نو منتخب صدر، 78 سالہ ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریب حلف برداری کے دوران تاریخ کی شدید ترین سیکورٹی تدابیر انجام پائیں جن کے تحت امریکی کانگریس کی عمارت "کیپیٹول" میں تقریباً 12 ہزار کے لگ بھگ سیکورٹی اہلکار موجود تھے۔ امریکہ کے 47 ویں صدر نے اپنے نائب جی ڈی وینس کے ہمراہ حلف برداری کی رسم ادا کی اور اس کے بعد وائٹ ہاوس میں جانے کے بعد چند دستاویزات پر دستخط بھی کیے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے صدر بننے کے بعد اپنے سب سے پہلے اقدام کے طور پر ان 1600 افراد کو عام معافی دے دی جن پر 2020ء میں کانگریس کی عمارت پر حملہ کرنے کا الزام تھا اور اس الزام کے تحت ان کے خلاف عدالتی کاروائی چل رہی تھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کانگریس میں اپنی پہلی تقریر میں ملک کے اندرونی مسائل، اقتصادی مشکلات اور مہاجرین جیسے موضوعات پر بات کی۔
ڈونلڈ ٹرمپ اس سے پہلے 2016ء سے 2020ء تک بھی امریکہ کے صدر رہ چکے ہیں اور ان کی پہلی مدت صدارت بہت زیادہ چیلنجز، اتار چڑھاو اور مہم جوئی پر مبنی تھی۔ اب وہ ایسے وقت دوبارہ وائٹ ہاوس میں داخل ہو رہے ہیں جب گذشتہ تقریباً ڈیڑھ برس کے دوران غزہ جنگ میں اسرائیل کی بھرپور مدد اور پشت پناہی کے باعث امریکی حکومت عالمی رائے عامہ میں شدید نفرت اور گوشہ نشینی کا شکار ہو چکی ہے۔ حلف برداری کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے کانگریس میں جو پہلی تقریر کی ہے وہ بہت ہی غم انگیز اور غیر سیاسی تھی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنے دوسرے دور صدارت میں پہلے دور سے مختلف قسم کی پالیسیاں اختیار کریں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اپنی نئی مدت صدارت میں زیادہ تر اندرونی مسائل پر توجہ دیں گے۔
اس وقت جو ایشوز ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے پہلی ترجیح کے حامل ہیں ان میں اقتصادی مسائل، غیر قانونی مہاجرین کا مسئلہ اور عالمی سطح پر تناو کم کر کے امریکہ کی پوزیشن مضبوط بنانے جیسے امور شامل ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی نئی کابینہ میں ایسے چہرے شامل نہیں کیے ہیں جو ان کی گذشتہ مدت صدارت میں متنازعہ ثابت ہوئے تھے جس کی ایک مثال سابق امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپئو ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی خارجہ پالیسی بھی ماضی کی نسبت بہت مختلف ہو گی۔ امریکہ کے ارب پتی ایلن ماسک کا خصوصی مشیر کے طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی کابینہ میں موجود ہونا ظاہر کرتا ہے کہ نئے امریکی صدر کی نظر میں اقتصاد اور معیشت پہلی ترجیح رکھتی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018ء میں سابق امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپئو اور صیہونی لابی کے دباو میں آ کر ایران اور مغربی طاقتوں کے درمیان طے پانے والے جوہری معاہدے سے دستبرداری کا اعلان کیا تھا۔ ان کا یہ اقدام عالمی برادری کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنا تھا۔ اگرچہ اسلامی جمہوریہ ایران نے اپنی پالیسیاں کبھی بھی امریکی صدور مملکت کی ترجیحات اور پالیسیوں کو مدنظر قرار دے کر تشکیل نہیں دیں لیکن امریکہ کی جانب سے ایران اور مغربی طاقتوں کے درمیان انجام پانے والے جوہری معاہدے میں ممکنہ واپسی ایران اور مغرب کے درمیان تعلقات پر اثرانداز ہو سکتی ہے۔ اگرچہ ایرانی قوم کی نظر میں ڈونلڈ ٹرمپ ایک نفرت انگیز اور مجرمانہ چہرہ رکھتے ہیں اور یہ تصور یونہی باقی رہے گا لیکن ایرانی عوام سے متعلق امریکی رویے میں تبدیلی نئے حالات کو جنم دے سکتی ہے۔
لیکن اگر امریکہ کے نو منتخب صدر نے طاقت کے وہم کا شکار ہو کر اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف جارحانہ اقدامات انجام دینے کی کوشش کی تو فطری بات ہے کہ ایرانی قوم اور حکومت ایسے اقدامات کو برداشت نہیں کرے گی۔ ایران میں رونما ہونے والے اسلامی انقلاب کی شاندار تاریخ نے اچھی طرح ثابت کیا ہے کہ ملت ایران کسی بھی عالمی اور علاقائی تبدیلی سے متاثر نہیں ہوتی لیکن اگر مغربی طاقتوں نے ایران سے احترام کی بنیاد پر رویہ اپنایا تو اس طرح دونوں کے درمیان مثبت فضا پیدا ہونے کا زمینہ فراہم یو سکتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران سے متعلق امریکہ اور مغرب کے رویوں میں تبدیلی کا مطلب ایران کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت، خطے کی مسلمان اقوام کے ارادے کا احترام اور امریکہ کی جانب سے شدت پسندانہ رویوں سے پرہیز ہے۔ ایران کی جانب سے گذشتہ جوہری معاہدے کے اندر رہتے ہوئے مغربی ممالک سے تعاون کی یہی شرائط ہیں۔