پیپلزپارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی نے دریائے سندھ میں نئی نہریں بنانے کی مخالفت کردی
اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT
سٹی 42 : پیپلزپارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے ارکان نے دریائے سندھ پر چھ نہریں تعمیر کرنے کے فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے اس عمل کو سندھ میں آگ لگانے کے مترادف قرار دیا ہے ۔
زرداری ہاؤس میں بلاول بھٹو کے زیرِ صدارت پاکستان پیپلزپارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس ہوا، جس میں سی ای سی کے تمام اراکین نے شرکت کی، اجلاس میں ویڈیو لنک کے ذریعے بھی اراکین نے شرکت کی ۔
وی وی آئی پیز پروٹوکول میں شامل گاڑیوں میں ٹریکر لگوانے کا فیصلہ
اجلاس میں وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ، گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر خان ، اعتزاز احسن، قمر زمان کائرہ، پی پی ترجمان شازیہ مری، گورنر گلگت بلتستان، فاروق ایچ نائیک، خورشید شاہ، آخوند زادہ چٹان، محمد علی بابا اور دیگر رہنما شریک ہوئے ۔
اجلاس میں ملکی سیاسی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا گیا، اس موقع پر خصوصی کمیٹی نے اراکین کو حکومت سے مذاکرات پر بریفنگ دی۔ سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اراکین کا سیاسی صورت حال اور خصوصی کمیٹی کی بریفنگ پر مختلف تجاویز پیش کیں ۔
وزیراعظم شہباز شریف سے آذربائیجان کے وزیر ووگر مصطفائیف کی ملاقات، باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال
اجلاس میں ارکان نے دریائے سندھ پر چھ نہریں تعمیر کرنے کا معاملہ اٹھا دیا، ارکان کی جانب سے دریائے سندھ پر نہروں کی تعمیر کی مخالفت کی گئی۔ ارکان نے نہروں کی تعمیر پر شدید ردعمل کا اظہار کیا کرتے ہوئے نہروں کی تعمیر کو سندھ میں آگ لگانے کے مترادف قرار دیا ۔ ارکان کا کہنا تھا کہ نہروں کی تعمیر سے متعلق حکومت ہمارے تحفظات دور نہیں کر رہی ۔
سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے آرکان نے نہروں کی تعمیر کا معاملہ حکومت کے ساتھ اعلی سطح پر اٹھانے کا مطالبہ کردیا ۔
ترک صدر رجب طیب اردوان آئندہ ماہ پاکستان کا دورہ کریں گے
حال ہی میں وفاقی حکومت نے ’گرین پاکستان انیشی ایٹیو‘ کے تحت پاکستان ایریگیشن نیٹ ورک کے لیے ٹیلی میٹری سسٹم کے نفاذ، ارسا پالیسی کی ازسر نو تشکیل کے ساتھ چھ نئی نہروں کی تعمیر کا متنازع فیصلہ کیا ۔ مجوزہ نہروں میں سندھ میں رینی نہراور تھر نہر، پنجاب میں چولستان نہر ، گریٹر تھل نہر، بلوچستان میں کچھی نہر اور خیبر پختون خوا میں چشما رائیٹ بینک کینال (سی آر بی سی) شامل ہیں۔
پاکستان میں دریائے سندھ کے پانی کی تقسیم کے نگران وفاقی ادارے انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) سے متعلق قانون میں ترامیم کی تجویز اور دریائے سندھ سے چھ نئی نہریں نکالنے سے متعلق فیصلے پر جنوبی سندھ کی مختلف سیاسی جماعتیں سراپا احتجاج ہیں۔
لاہور ہائیکورٹ کی پانی کی سنگین کمی کے معاملے پر پی ڈی ایم اے کی کارکردگی پر اظہار ناراضگی
.ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی نہروں کی تعمیر دریائے سندھ اجلاس میں
پڑھیں:
دریائے سندھ میں پانی کی سطح میں خطرناک حد تک کمی ریکارڈ
کراچی(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔12 اپریل ۔2025 )ملک بھر میں جاری پانی کی قلت کے باعث دریائے سندھ کے مختلف مقامات پر پانی کی سطح میں خطرناک حد تک کمی ریکارڈ کی گئی ہے تفصیلات کے مطابق محکمہ آبپاشی سندھ نے انڈس رور سسٹم میں پانی کی موجودگی اور بیراجز پر پانی کی آمد و اخراج کے اعداد شمار کے مطابق ملک بھر میں جاری پانی کی قلت کے باعث دریائے سندھ کے مختلف مقامات پر پانی کی سطح میں خطرناک حد تک کمی ریکارڈ کی گئی ہے، تربیلا ڈیم میں پانی کی سطح 1413.73 فٹ ریکارڈ کی گئی، جہاں پانی کی آمد 35,600 کیوسک جبکہ اخراج 20,000 کیوسک رہا.(جاری ہے)
کابل ندی سے دریائے سندھ میں 30,300 کیوسک پانی کی آمد ریکارڈ کی گئی ہے، کالا باغ بیراج پر پانی کی آمد 63,081 کیوسک اور اخراج 60,831 کیوسک ریکارڈ کیا گیاجبکہ چشمہ بیراج پر پانی کی آمد 54,140 کیوسک اور اخراج 39,000 کیوسک رہا. تونسہ بیراج پر پانی کی آمد 31,880 کیوسک اور اخراج 31,630 کیوسک، تریموہ بیراج پر 5,063 کیوسک آمد اور 2,303 کیوسک اخراج، جبکہ پنجند کے مقام پر صرف 1,553 کیوسک پانی کی آمد اور اخراج صفر کیوسک ریکارڈ کیا گیا گڈو بیراج پر پانی کی آمد و اخراج 27,034 کیوسک، جبکہ سکھر بیراج پر پانی کی آمد 23,730 کیوسک اور اخراج صرف 6,600 کیوسک رہا کوٹری بیراج پر صورتحال مزید خراب ہے جہاں پانی کی آمد صرف 4,600 کیوسک اور اخراج محض 190 کیوسک رہا، سکھر بیراج پر رواں ہفتے پانی کی سطح میں اگرچہ 5,000 کیوسک کا اضافہ ہوا ہے تاہم اب بھی 41 فیصد پانی کی قلت موجود ہے. سکھر بیراج کے لیفٹ بینک سے نکلنے والی نہروں میں پانی کی فراہمی میں جزوی اضافہ کیا گیا ہے لیکن روہڑی کینال کو 12,000 کیوسک کے بجائے صرف 7,500 کیوسک، اور نارا کینال کو 12,400 کیوسک کے بجائے 7,500 کیوسک پانی فراہم کیا جا رہا ہے اسی طرح خیرپور ایسٹ کینال میں صرف 1,160 کیوسک اور ویسٹ کینال میں 970 کیوسک پانی فراہم کیا جا رہا ہے جو کہ فصلوں کی کاشت اور آبپاشی کے لیے ناکافی تصور کیا جا رہا ہے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پانی کی یہ صورتحال برقرار رہی تو سندھ کے زراعتی شعبے کو شدید نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے، جس کے اثرات عام آدمی تک بھی پہنچ سکتے ہیں.