چینی نئے سال کے استقبال کے لئے ایف اے او ہیڈکوارٹر میں خصوصی تقریب کا انعقاد
اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT
چینی نئے سال کے استقبال کے لئے ایف اے او ہیڈکوارٹر میں خصوصی تقریب کا انعقاد WhatsAppFacebookTwitter 0 24 January, 2025 سب نیوز
اقوام متحدہ () اقوام متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن نے اٹلی کے شہر روم میں اپنے صدر دفتر میں چینی نئے سال کی استقبالیہ تقریب منعقد کی۔
تقریب میں 500 سے زائد افراد نے شرکت کی جن میں ایف اے او کے رکن ممالک کے نمائندے، مبصرین کے نمائندہ دفتر کے سفراء، اٹلی میں مختلف ممالک کے سفراء، بین الاقوامی تنظیموں کے سربراہان، ایف اے او کے ایگزیکٹوز اور دیگر افراد شامل تھے۔
استقبالیہ میں اقوام متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (ایف اے او) کے عملے نے چانیز نیو ایئر کے نغمے پیش کیے۔ فنکاروں نے چینی مارشل آرٹس، موسیقی، روایتی رقص اور دیگر پرفارمنسز بھی پیش کیں، جس سے شرکاء کو چینی جشن بہار کا خصوصی تجربہ فراہم کیا گیا۔
ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: ایف اے او
پڑھیں:
طالبان کے اخلاقی قوانین یا انسانی حقوق کی پامالی؟ اقوام متحدہ کی رپورٹ جاری
اقوام متحدہ نے طالبان کے زیرِ اقتدار افغانستان میں نافذ کیے گئے اخلاقی قوانین پر ایک چشم کشا رپورٹ جاری کی ہے، جس میں ان قوانین کے نتیجے میں خواتین اور عام شہریوں کے انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کو اجاگر کیا گیا ہے۔
افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن (UNAMA) کی رپورٹ کے مطابق، اگست 2024 سے طالبان حکومت کی جانب سے قائم کردہ وزارت "امر بالمعروف و نہی عن المنکر" کے تحت افغان عوام پر سخت پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ اس وزارت نے ملک کے 28 صوبوں میں 3,300 سے زائد اہلکار تعینات کیے ہیں اور ہر صوبے میں گورنر کی سربراہی میں خصوصی کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں تاکہ ان ضوابط کو زبردستی نافذ کیا جا سکے۔
رپورٹ کے مطابق، خواتین کی سیاسی، سماجی اور معاشی زندگی کو نشانہ بنایا گیا ہے، ان کی نقل و حرکت، تعلیم، کاروبار اور عوامی زندگی میں شمولیت پر سخت پابندیاں لگائی گئی ہیں۔ صرف محرم کے بغیر سفر کرنے کی ممانعت سے خواتین کی آمدنی میں کمی، کاروباری روابط میں رکاوٹ اور فلاحی اداروں کی امدادی سرگرمیوں پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
اقوام متحدہ نے انکشاف کیا کہ 98 فیصد علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم بند ہے جبکہ خواتین کی عوامی وسائل تک رسائی 38 فیصد سے بڑھ کر 76 فیصد تک محدود ہو چکی ہے۔ مزید برآں، 46 فیصد خواتین کو فیلڈ وزٹ سے روکا گیا اور 49 فیصد امدادی کارکنان کو مستحق خواتین سے ملاقات کی اجازت نہیں ملی۔
اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ طالبان کی یہ پالیسیاں نہ صرف عالمی انسانی حقوق کے قوانین کی خلاف ورزی ہیں بلکہ ایک مکمل ریاستی جبر کی صورت اختیار کر گئی ہیں۔ یہ سوال اب شدت سے اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا عالمی برادری ان مظالم پر خاموش تماشائی بنی رہے گی یا کوئی عملی اقدام کرے گی؟