اسلام آباد: وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم کے تحت موجودہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کام جاری رکھیں گے۔
 اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ چیف الیکشن کمشنر کا تقرر آئین کے مطابق ہوگا اور آئین اجازت دیتا ہے جب تک نئی تعیناتی نہیں ہوتی یہ کام جاری رکھ سکتے ہیں۔
 وزیر قانون کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئئی نے یہ تعیناتیاں ڈیڑھ سال تک روک کر رکھی تھیں۔
واضح رہے کہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی مدت ملازمت 26 جنوری کو ختم ہو رہی ہے، اس حوالے سے وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان مشاورتی عمل ہونا ہے۔
 چند روز قبل، قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پاکستان تحریک انصاف کے قائد حزب اختلاف کے رہنما عمر ایوب اور شبلی فراز نے نئے چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کے لیے پارلیمانی کمیٹی جلد از جلد تشکیل دینے کا مطالبہ کیا تھا۔
 خط میں کہا گیا تھا کہ آرٹیکل 215 کے تحت چیف الیکشن کمشنر سلطان سکندر راجا کی مدت 26 جنوری کو ختم ہو رہی ہے۔ آئین کے آرٹیکل 213 کے تحت آئینی تقاضا پورا کرنے کیلیے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

پڑھیں:

حُسن نیّت: ہم دردی، اخلاص و ایثار کا جوہر

اسلام میں اخلاص اور حُسن نیّت کو بڑی اہمیت حاصل ہے، اسلام اپنے ماننے والوں کو تمام حالات میں خلوصِ نیّت کی ترغیب دیتا ہے۔

قرآنِ مجید میں اﷲ تعالیٰ نے اور احادیث نبوی میں رسول اکرم ﷺ نے اہل ایمان کو تمام ظاہری و باطنی اقوال و افعال اور اعمال و احوال میں نیّت کو مستحضر رکھنے، اُس کو ٹٹولتے رہنے اور اُس میں اخلاص کی چاشنی کو باقی رکھنے کی تعلیم دی ہے۔ بلاشبہ! تمام اعمال کا دار و مدار اخلاصِ نیّت پر ہی ہوتا ہے اور اچھی نیّت ہی تمام اعمال و افعال کی جڑ اور بنیاد ہوتی ہے۔ چناں چہ نیّت اگر خالص ہوگی تو اعمال جان دار ہوں گے اور نیّت اگر خراب ہوگی تو اعمال میں وزن نہیں رہے گا۔

اچھی نیّت سے اعمال اچھے اور بُری نیّت سے اعمال بُرے ہوجاتے ہیں۔ نیّت صاف ہو تو انسان کی منزل اُس کے لیے آسان ہوجاتی ہے اور اگر نیّت خراب ہو یا اُس میں فتور واقع ہوجائے تو قدم قدم پر انسان کو ٹھوکریں کھانی پڑتی ہیں، ذلیل و خوار ہونا پڑتا ہے اور بالآخر منزل مقصود تک پہنچنا اُس کے لیے ناممکن ہوکر رہ جاتا ہے۔

اخلاصِ نیّت کی اہمیت پیش نظر قرآنِ مجید میں اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں، مفہوم:

’’اور اُنہیں اِس کے سوا اور کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا کہ وہ اﷲ کی عبادت اِس طرح کریں کہ بندگی کو بالکل یک سُو ہوکر صرف اُسی کے لیے خالص رکھیں، اور نماز قائم کریں، اور زکوٰۃ ادا کریں اور یہی سیدھی سچی اُمت کا دین ہے۔‘‘ (سورۃ البینہ)

مفہوم: ’’اﷲ کو نہ اُن کا گوشت پہنچتا ہے، نہ اُن کا خون، لیکن اُس کے پاس تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔‘‘ (سورۃ الحج)

مفہوم: ’’اے رسول (ﷺ)! لوگوں کو بتا دو کہ جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے تم اسے چھپاؤ یا ظاہر کرو، اﷲ اسے جان لے گا۔‘‘ (سورۂ آلِعمران)

اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی اخلاصِ نیّت کی بڑی اہمیت وارد ہوئی ہے، چناں چہ ایک حدیث میں آتا ہے، حضورِ اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’ہر عمل کا دار و مدار نیّت پر ہے، اگر نیت درُست ہے تو اجر کا مستحق ہے، جو اﷲ اور رسول ﷺ کے لیے ہجرت کرتا ہے تو اُس کی ہجرت اﷲ اور رسول ﷺ کے لیے ہوتی ہے، لیکن اگر دُنیا یا کسی عورت کے لالچ میں ہجرت کرتا ہے تو جس غرض کے لیے ہجرت کرتا ہے اُس کی ہجرت اسی غرض کے لیے شمار کی جاتی ہے۔‘‘ (بخاری۔ مسلم)

حضورِ اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’اﷲ تعالیٰ وہی عمل قبول کرتا ہے، جس کی بنیاد خلوص پر ہو۔‘‘ (سنن نسائی)

حضورِ اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’آخر زمانے میں ایک لشکر کعبہ پر چڑھائی کرے گا، لیکن جب یہ ’’بیداء‘‘ نامی مقام میں پہنچے گا تو زمین میں دھنسا دیا جائے گا، پھر یہ لوگ قیامت میں اپنی نیّتوں کے موافق اُٹھائے جائیں گے، اِس لشکر میں بعض لوگ ایسے بھی ہوں گے، جو زبردستی شریک کر لیے گئے تھے، اُن کی نیّت کعبہ پر حملہ کی نہ تھی، ایسے لوگوں سے کوئی مؤاخذہ نہ ہوگا۔‘‘ (بخاری۔ مسلم)

حضورِ اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’ایک شخص کے پاس مال بھی ہے اور علم بھی، اور یہ اچھے کام کرتا ہے اور غرباء کا حق سمجھتا ہے، تو قیامت میں یہ اعلیٰ منازل میں ہوگا، لیکن ایک شخص کے پاس مال اور علم تو نہیں، لیکن اُس کی یہ نیّت ضرور ہے کہ اگر میرے پاس مال اور علم ہوتا، تو میں بھی یہی کام کرتا جو فلاں شخص کر رہا ہے تو قیامت میں دونوں کو اَجر برابر ملے گا۔‘‘ (جامع ترمذی)

حضورِ اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’اگر کسی شخص نے نیکی کرنے کی نیّت کی، لیکن اُس کی نیکی کا وقوع نہیں ہُوا، تب بھی اُس کے لیے ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے۔‘‘ (بخاری۔ مسلم)

حضورِ اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’ایک شخص نے بستر پر لیٹتے وقت یہ نیّت کی کہ رات کو تہجّد کی نماز پڑھوں گا، مگر رات کو آنکھ نہیں کھلی، یہاں تک کہ صبح ہوگئی، تو اُس کے لیے تہجّد کا ثواب لکھ دیا جاتا ہے، اور یہ سونا اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اُس بندے پر احسان کے طور پر رہا۔‘‘ (سنن نسائی)

جہانگیر بادشاہ نے اپنی ’’تزک‘‘ میں لکھا ہے کہ ایک سلطان گرمی کے موسم میں ایک باغ کے دروازہ پر پہنچا، وہاں ایک بوڑھا باغبان کھڑا تھا، اُس کو دیکھ کر سلطان نے پوچھا: ’’ کیا اِس باغ میں انار ہے؟‘‘

باغبان نے کہا: ’’جی موجود ہے‘‘

سلطان نے کہا: ’’ایک پیالا انار کا رَس لاؤ!‘‘

باغبان کی ایک لڑکی جو صورت کے جمال اور سیرت کے حسن سے بھی آراستہ تھی، باغبان نے اُس سے انار کا رَس لانے کو کہا، وہ گئی اور ایک پیالا بھر کر انار کا رَس لے آئی، پیالے پر انار کی کچھ پتیاں رکھی ہوئی تھیں، سلطان نے اُس کے ہاتھ سے پیالا لیا اور پورا پی گیا، پھر لڑکی سے پوچھا: ’’پیالے کے رَس کے اوپر تم نے پتیاں کس لیے رکھ دی تھیں؟‘‘

لڑکی نے عرض کیا: ’’اِس گرمی میں آپ پسینے میں غرق تھے، رَس کا ایک سانس میں پی جانا آپ کے لیے مناسب نہ تھا، میں نے احتیاطاً اِس پر پتیاں ڈال دی تھیں کہ آپ آہستہ آہستہ اِس کو نوشِ جان فرمائیں۔

سلطان کو یہ حسن ادا بہت پسند آئی، اُس کے بعد اُس باغبان سے پوچھا کہ تم کو ہر سال اِس باغ سے کیا حاصل ہوتا ہے؟‘‘

اُس نے جواب دیا: ’’تین سو دینار‘‘

سلطان نے پوچھا: ’’حکومت کو کیا دیتے ہو؟‘‘

 باغبان نے کہا: میرا بادشاہ درخت سے کچھ نہیں وصول کرتا، بل کہ کھیتی سے عشر لیتا ہے۔‘‘

سلطان کے دل میں یہ خیال گزرا کہ میری مملکت میں بہت سے باغ اور درخت ہیں، اگر باغ سے بھی عشر لیا جائے تو کافی رقم جمع ہوسکتی ہے اور رعیت کو بھی زیادہ نقصان نہیں پہنچے گا، اِس لیے میں حکم دوں گا کہ باغات کے محصولات سے بھی خراج لیا جائے، یہ سوچ کر اُس نے انار کا رَس پھر پینے کو مانگا، لڑکی رَس لانے گئی تو بہت دیر میں آئی، جب پیالا لائی تو سلطان نے کہا: ’’پہلی بار تم گئیں تو بہت جلد آئیں، اِس بار دیر بھی کی اور رَس بھی کم لائیں۔‘‘

لڑکی نے کہا: ’’پہلی بار ایک انار میں پیالا بھر گیا تھا، اِس بار میں نے پانچ چھے انار نچوڑے پھر بھی رَس پورا نہیں ہُوا۔‘‘

یہ سن کر سلطان کو حیرت ہوئی، باغبان نے عرض کیا: ’’محصول کی برکت بادشاہ کی نیک نیّت پر منحصر ہے، میرا خیال ہے کہ آپ باد شاہ ہیں، آپ نے جس وقت باغ کی آمدنی مجھ سے پوچھی، اُسی وقت آپ کی نیّت میں تبدیلی پیدا ہوئی اور پھل سے برکت چلی گئی۔‘‘

یہ سن کر سلطان متاثر ہُوا اور دل سے باغ کی آمدنی کا خیال دُور کردیا، اِس کے بعد پھر انار کا رَس مانگا ، لڑکی گئی اور جلد ہی پیالا بھر کر انار کا رَس لے آئی، تب سلطان نے باغبان کی فراست کی داد دی، اپنے دل کی بات بتائی اور اُس لڑکی کا خواست گار ہُوا۔ (بہ حوالہ: تزکِ جہانگیری)

یقیناً اِنسان کی نیّت کا اثر اُس کی زندگی کے تمام حالات پر پڑتا ہے، نیّت اچھی اور خالص ہوگی تو زندگی بھی اچھی اور آسان گزرے گی، اہل و عیال میں برکت نصیب ہوگی، مال و دولت میں فراوانی حاصل ہوگی، عبادات ادا کرنے کی توفیق ملے گی، اﷲ تعالیٰ کا دھیان اور اُس کا قرب نصیب ہوگا، اور اگر نیّت خراب ہوئی اور اُس میں فتور ہُوا تو زندگی سے سکون اُٹھ جائے گا، مال و دولت میں کمی واقع ہوجائے گی، عبادات کی توفیق چھن جائے گی، اور اﷲ تعالیٰ کی ناراضی اور اُس کی خفگی مقدر بنے گی اور انسان کو زمین اپنی وسعتوں کے باوجود تنگ ہوتی نظر آئے گی۔

متعلقہ مضامین

  • پشاور، امتحانی مرکز میں طلبہ کو نقل فراہم کرنے میں پورا عملہ ملوث، تاحیات نااہل کردیا گیا
  • پشاور: امتحانی مرکز میں طلبہ کو نقل فراہم کرنے میں پورا عملہ ملوث، تاحیات نااہل کردیا گیا
  • بورڈنگ پاس اور چیک ان کا خاتمہ؟ عالمی فضائی سفر کی انڈسٹری میں بڑی تبدیلیوں کا امکان
  • پاکستانی شہری (کل )پنک مون کا نظارہ کر سکیں گے
  • اسٹبلشمنٹ سے مذاکرات، پی ٹی آئی جنرل سیکرٹری سلمان اکرم راجہ نے حیران کن بیان جاری کر دیا 
  • کئی لیگز کھیلا ہوں، پی ایس ایل ٹاپ تھری میں شامل ہے: سکندر رضا
  • جنگ کا نتیجہ کچھ بھی ہوسکتا ہے!
  • بیرسٹر سلطان محمود چوہدری سے چیف جسٹس آزاد جموں وکشمیر راجہ سعید اکرم کی ملاقات
  • حُسن نیّت: ہم دردی، اخلاص و ایثار کا جوہر
  • سکندر کی ناکامی کے بعد سلمان خان کی بجرنگی بھائی جان کے سیکوئل کیساتھ واپسی کی تیاری ؟