لاہور (نیوز ڈیسک) پاکستان تحریک انصاف کے رہنما بیرسٹر علی ظفر نے بانی پی ٹی آئی کی جانب سے مذاکرات ختم کرنے کے اعلان کی وجہ بتادی۔

تفصیلات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے رہنما بیرسٹر علی ظفر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کل بانی پی ٹی آئی سےاڈیالہ جیل میں ملاقات ہوئی، ملاقات میںانہوں نے کہا حکومت کے پاس نہ اختیار ہے نہ مذاکرات کامیابی میں انکی مرضی، حکومت کی نیت ٹھیک نہیں اس لئے میں مذاکرات کو ختم کرتا ہوں۔

علی ظفر نے بتایا کہ انہوں نے ہدایت کی آگے جا کر سول ڈس اوبیڈیئنس کی تحریک شروع ہو گی اور کہا تمام ہاؤسز میں بھی احتجاج کریں،اپوزیشن کا کام ہے جہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو وہاں آواز اٹھائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ میں بھی اس کی اجازت نہیں تو واک آوٹ ہی ہو گا، پیکا قانون میں ایسی شقیں ہیں جوآزادی اظہاررائےکو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔

پیکا قانون پر بیرسٹر علی نے کہا کہ حکومت کو چاہیے تھا تمام اسٹیک ہولڈرز کو بٹھاتی اور کوئی دستاویزسامنے آتا، جس طرح چھپا کر ترامیم کی جا رہی ہے یہ ظاہر ہے آئینی حق کونقصان پہنچایاجا رہا ہے۔

رہنما پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ چاہے کوئی بھی حکومت ہو، کسی دوسرے ملک کو اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی، انسانی حقوق کی خلاف ورزی دنیا میں کہیں بھی ہوتو ہر ملک اسکے خلاف کھڑا ہوگا، پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پرمختلف ممالک ہمارے ساتھ کھڑے ہوں گے۔
مزیدپڑھیں:توشہ خانہ کیس : آصف زرداری اور نواز شریف بڑی مشکل میں پھنس گئے

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: بیرسٹر علی علی ظفر نے

پڑھیں:

عالمی برادری نظربند کشمیریوں کی رہائی کیلئے اقدامات کرے

ریاض احمدچودھری

ڈی ایف پی کے ترجمان ایڈووکیٹ ارشد اقبال نے سرینگر میں جاری ایک بیان میں نامساعد موسم ، بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی اور اپنے گھروں سے دور بھارتی جیلوں میں نظربندسینکڑوں کشمیریوں کو درپیش سنگین صورتحال کو اجاگرکرتے ہوئے کہاکہ کشمیری نظربندوں کو پینے کے صاف پانی، صحت بخش خوراک اور مناسب طبی دیکھ بھال جیسی بنیادی ضروریات سے محروم رکھا گیا ہے جس سے انہیں صحت کے سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ بہت سے نظربند بے چینی، ڈپریشن اورذہنی تنائو سمیت صحت کے مختلف مسائل سے دوچار ہیں جو سورج کی روشنی، مناسب غذائیت اور علاج ومعالجے کے فقدان کی وجہ سے سنگین رخ اختیارکررہے ہیں۔ڈی ایف پی نے انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں سے مطالبہ کیاکہ وہ کشمیری نظربندوں کو خاص طور پر تہاڑ جیل میںجہاں نظربندوں کو ان کے اہل خانہ سے ہزاروں کلومیٹر دور رکھا جارہا ہے، درپیش صورتحال کی تحقیقات کریں۔ انسانی حقوق کے اداروں کو موثر کارروائی کرنی چاہیے اور موقع پر جاکرجائزہ لینا چاہیے۔ مسئلہ کشمیر حل نہ ہونے کی وجہ سے خطے میں بڑے پیمانے پرانسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہورہی ہیں۔
گزشتہ برس جنیوا میں کمیشن برائے انسانی حقوق کے ہیڈ کوارٹر کے سامنے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں،حریت قیادت کو مسلسل جیلوں میں بند رکھنے، کشمیریوں کی جائیدادوں پر بھارتی فوج کا قبضہ، غیر کشمیری باشندوں کو آباد کرنے پر تحریک کشمیر یورپ کے زیر اہتمام احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ مظاہرین نے مختلف بینرز اور کتبے اٹھا رکھے تھے اور وہ مطالبہ کر رہے تھے کہ کمیشن برائے انسانی حقوق کشمیریوں کا قتل عام بند کرائے، حریت کانفرنس کے چیئرمین مسرت عالم، یاسین ملک، شبیر شاہ،نعیم خان، ڈاکٹر قاسم فکٹو،آسیہ اندرابی، ایاز اکبر، نہیدا نسرین، پیر سیف الدین، فہمیدہ صوفی اور دیگر رہنماؤں کی رہائی کیلئے ٹھوس اقدامات کرے ۔انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں، میڈیا پر مقبوضہ کشمیر میں داخلے پر عائد پابندیاں ختم کی جائیں۔
حریت رہنماؤں نے خطاب کرتے ہوئے کہا بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو جیل خانے میں تبدیل کر رکھا ہے، حریت قیادت سمیت 10لاکھ کشمیری غیر قانونی طور پر جیلوں میں بند ہیں، کشمیریوں کے ساتھ انتہائی ظالمانہ سلوک کیا جارہا ہے، عالمی برادری اپنی خاموشی توڑے، کشمیر یوں کی نسل کشی اور قتل عام بند کرایا جائے۔ بھارت کا اصل روپ دنیا کے سامنے بے نقاب ہوچکا، مودی انسانیت کا دشمن اور قاتل ہے، بھارت نام نہاد جمہوریت کے لبادے میں دنیا کو دھوکہ دے رہا ہے، کشمیری اپنے حق خودارادیت کیلئے جدوجہد کررہے ہیں، یہ حق انہیں عالمی امن کے علمبرداروں اور اقوام متحدہ نے دیا ہے، بھارت کے ناپاک عزائم اور سازشوں کو نہ روکا گیا تو خطے میں تباہی اور بربادی کی ذمہ داری اقوام متحدہ پر ہوگی۔
اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق کشمیر پر اپنی رپورٹوں پر عمل درآمد کرائے، اپنے وفد کو مقبوضہ کشمیر بھیج کر حالات کا خود مشاہدہ کرے اور بھارت کے ظلم کا سختی سے نوٹس لیا جائے۔دہلی پولیس کے خصوصی سیل نے 14/ستمبر 2020ء کو جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے سابق طالب علم عمر خالد کو فروری 2020ء میں شمالـمشرقی دہلی میں ہوئے فسادات میں ان کے مبینہ کردار کے لیے سخت غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (UAPA) کے تحت گرفتار کیا تھا۔ پولیس کا دعویٰ تھا کہ وہ ان فسادات کے اہم سازشی ہیں۔ چار سال مکمل ہونے کے بعد بھی وہ کسی ضمانت یا ٹرائل کے بغیر تہاڑ جیل کی انتہائی سیکیورٹی کی حامل قید میں ہیں۔ ان چار سالوں میں عمر خالد نے ضمانت کی خاطر مختلف عدالتوں سے رجوع کیا۔ (واضح رہے کہ) سپریم کورٹ نے متعدد مواقع پر (ضمانت کو ) ایک ”قاعدے” کے طور پر بیان ہے، ایک ایسا قاعدہ جو یو اے پی اے جیسے خصوصی قوانین کے لیے بھی لائق اطلاق ہے۔ 36 سالہ جہد کار، جو ہنوزمجرم قرار نہیں دیے گئے ہیں بلکہ صرف ایک ملزم ہیں، کہتے ہیں کہ انہوں نے صرف ایک پرامن احتجاج میں حصہ لیا تھا۔
فسادات کے بعد مختلف کیسوں کے تحت دہلی پولیس نے چند مہینوں کے اندرون 2500 افراد کو گرفتار کیا۔ ان مقدمات کی سماعت کرتے ہوئے گذشتہ چار سالوں میں نچلی عدالتوں نے اکثر مواقع پر پولیس کو ناقص تفتیش پر ڈانٹ لگاتے ہوئے 2000 سے زائد افراد کو ضمانت دے دی ہے۔ 2020ء کے فسادات سے متعلق مقدمات میں ایک بڑا سازشی مقدمہ وہ ہے جس میں پولیس نے مسٹر خالد کو دیگر 17 افراد کے ساتھ ملزم قرار دیا ہے، جن میں سے کئی ضمانت پر رِہا ہیں۔قید کے تقریباً ڈیڑھ سال بعد پہلی مرتبہ انہیں مارچ 2022ء میں کارکاردوما عدالت کی جانب سے ضمانت دینے سے منع کر دیا گیا تھا۔ بعدازاں انہوں نے دہلی ہائی کورٹ کا رخ کیا۔ ہائی کورٹ نے بھی اکتوبر 2022ء میں انہیں اس حوالے سے کسی بھی قسم کی راحت فراہم کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد خالد نے ضمانت کی عرضی سپریم کورٹ میں داخل کی۔ فروری 2024ء تک سپریم کورٹ میں ان کی درخواست سماعت سے پہلے ہی 11 مہینوں میں 14 دفعہ ملتوی کی جا چکی تھی۔ یہ التوا کبھی فریقین میں سے کسی وکیل کی غیر حاضری کے باعث ہوا تو کبھی استغاثہ کی درخواست پر۔
اگست 2023ء میں جسٹس اے ایس بوپنا اور پی کے مشرا کی ایک بینچ نے عمرخالد کی سماعت کو یہ کہتے ہوئے ملتوی کر دیا کہ ”(ججوں کے) اس مجموعے میں سماعت نہیں کی جاسکتی”۔ بعد ازاں 5 ستمبر 2023ء کو مقدمہ ایک بینچ کو منتقل کر دیا گیا جس کی قیادت جسٹس بیلا. آم. ترویدی کر رہے تھے جسے خالد کے وکیل کی درخواست پر ملتوی کر دیا گیا۔ اگلے موقع پر 12/ اکتوبر کو بینچ نے ”وقت کی کمی” کا حوالہ دیتے ہوئے معاملے کو ملتوی کر دیا۔ نومبر میں ”متعلقہ سینئر وکلاء کی عدم دستیابی” کے باعث ضمانت کی عرضی کو دوبارہ ملتوی کر دیا گیا۔

متعلقہ مضامین

  • سزائے موت اسلامی قانون کا حصہ ہے، طالبان رہنما کا موقف
  • عالمی برادری نظربند کشمیریوں کی رہائی کیلئے اقدامات کرے
  • بھارت, وقف ترمیمی بل کے خلاف جھارکھنڈ میں احتجاجی مظاہرہ
  •  وزیراعلی پنجاب خاتون ہیں، انھیں احتجاج کرنے والی خواتین کا کیوں خیال نہیں؟ حافظ نعیم الرحمن 
  • کرک میں پی ٹی آئی یوتھ کنونشن بد نظمی کا شکار، کارکنوں کا اپنی ہی حکومت کے خلاف احتجاج
  • غزہ کی مظلومیت پر خاموشی کیوں؟
  • جمیعت اہلحدیث پاکستان کا 18 اپریل کو فلسطین مارچ کرنے کا اعلان
  • حکومت سے مذاکرات کیلئے کمیٹی بنانے کی کوئی ہدایت نہیں ملی، بیرسٹر گوہر
  • حکومت سے مذاکرات کے لیے کوئی کمیٹی بنانے کی ہدایت نہیں ملی، بیرسٹر گوہر
  • کسی سے کوئی مذاکرات نہیں ہورہے، خبریں پروپیگنڈا ہیں، پی ٹی آئی