کوئی قانون سے بالاتر نہیں، ریاست ملک ریاض پر ہاتھ ڈالے گی،ہر صورت پاکستان لائیں گے: وزیر دفاع Real estate tycoon Malik Riaz waves as he leaves the Supreme Court on his contempt of court case in Islamabad June 21, 2012. Pakistan's top court stopped short of indicting the son of its chief justice and a billionaire businessman, kicking into the long grass corruption allegations that damage its credibility.

In a case that has captivated the Pakistani political and media elite, Supreme Court judges asked the attorney general to investigate Arsalan Iftikhar Chaudhry, Malik Riaz and his son-in-law in corruption allegations. AFP PHOTO / Aamir QURESHI (Photo by Aamir QURESHI / AFP) WhatsAppFacebookTwitter 0 24 January, 2025 سب نیوز

اسلام آباد (آئی پی ایس )وزیر دفاع خواجہ آصف نے جمعے کو کہا ہے کہ ریاست نے پراپرٹی ٹائیکون اور بحریہ ٹان کے مالک ملک ریاض کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا ہے، اگر کوئی سمجھتا ہے کہ وہ قانون سے بالاتر ہے تو وہ وقت چلا گیا، اب ریاست ان پر ہاتھ ڈالے گی۔اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے خواجہ آصف کا کہنا تھا: اگر کوئی سمجھتا ہے کہ وہ قانون سے بالاتر (ان ٹچ ایبل) ہے تو وہ وقت چلا گیا، اب ریاست ان پر ہاتھ ڈالے گی۔ ان کے جتنے بھی کاروبار ہیں پاکستان کے اندر، اس میں حکومتی سطح پر ان کو ملک واپس لانے پر بھی کام کیا جائے گا، ہمارا متحدہ عرب امارات کے ساتھ ملزمان کے تبادلے کا معاہدہ ہے۔

ملک ریاض اور بحریہ ٹان کے حوالے سے میڈیا کوریج کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ ملک ریاض کے حوالے سے ہمارا میڈیا دوہرے معیار کا شکار ہے۔ میں اس موضوع پر بات کرنے لگا ہوں جسے صحافتی زبان میں شجرہ ممنوعہ کہا جاتا ہے۔ میڈیا جس شخص کا نام لینے کی جرات نہیں کرسکتا تھا، اب احتساب کا سلسلہ وہاں تک بھی پہنچ گیا، عوامی مسائل پر فوکس کے لے میڈیا 10 سیکنڈ کا پیغام نہیں چلا سکتا، لیکن دوسروں پر کیچڑ اچھالتا رہتا ہے، خود بہت سے میڈیا مالکان کا دامن صاف نہیں۔

وزیر دفاع نے کہا کہ پاکستان میں دوغلا پن جاری رہے گا تو جمہوریت کا سلسلہ اصل روح کے مطابق نہیں آسکتا۔ صحافت، سیاست اور عدلیہ میں دوغلے پن کا خاتمہ ہونا چاہیے، آج کی پریس کانفرنس میں صحافی اور ان کے کیمرے بھی کم ہیں، معلوم نہیں میری بات سنائی بھی جائے گی، یا نہیں، میری بات چیت کہیں سیلف سینسر شپ کی نذر نہ ہوجائے۔انہوں نے کہا کہ صحافی حضرات پیکا (ایکٹ) پر تو احتجاج کرتے ہیں، اس بات پر بھی احتجاج کریں کہ میڈیا اداروں کے مالکان کو بزنس دینے والے آدمی کے خلاف بیانات نہیں چلائے جاتے، سیاست دان میڈیا کا سافٹ ٹارگٹ ہیں۔

وزیر دفاع نے بحریہ ٹان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 30 سال تک یہ سلسلہ چلتا رہا ہے، ایک شخص نے پورے پاکستان میں جو زمینیں خریدی ہیں، سوسائٹیوں کی منظوریاں لی ہیں، اس معاملے میں کئی پردہ نشینوں کے نام آتے ہیں، ملک بھرمیں بننے والے بحریہ ٹانز کی ٹرانزیکشنز غیر قانونی ہیں، یتیموں، بیواں اور غریبوں کی زمینوں پر قبضے کیے گئے، اب وہ وقت چلا گیا جب ملک ریاض پر کوئی ہاتھ نہیں ڈال سکتا تھا۔ریاست نے ملک ریاض کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا ہے، اگر کوئی سمجھتا ہے وہ قانون سے بالا ہے تو وہ وقت چلا گیا، اب ریاست ان پر ہاتھ ڈالے گی۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا: القادر ٹرسٹ کو حسن نواز کے کیس سے جوڑا جا رہا ہے، حسن نواز کی پراپرٹی کی بھی این سی اے (نیشنل کرائم ایجنسی) نے تحقیقات کیں، حسن نواز والے معاملے کی تحقیقات میں کچھ نہیں چھپایا گیا، یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ انہیں کسی قسم کا ریلیف ملے گا، ملک ریاض کو پاکستان لایا جائے گا اور ان پر تمام مقدمات چلائے جائیں گے۔خواجہ آصف نے کہا کہ اگر کوئی پاکستانی ملک سے باہر بھی بحریہ ٹان کے کسی منصوبے میں پیسہ لگاتا ہے، تو اسے بھی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس کا پیسہ ڈوب جائے گا۔

وزیر دفاع خواجہ آصف نے یہ پریس کانفرنس ایک ایسے وقت میں کی ہے، جب 21 جنوری کو قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے بحریہ ٹان کے مالک ملک ریاض کے حوالے سے دھوکا دہی، فراڈ، سرکاری اور نجی زمینوں پر قبضے کے معاملات پر تحقیقات اور عوام کو بحریہ ٹان کے منصوبوں میں سرمایہ کاری سے تنبیہ کا بیان سامنے آیا۔

نیب کا کہنا تھا: دبئی میں روپوش ملک ریاض کی حوالگی کے حوالے سے دبئی حکام سے رابطے میں ہیں۔ پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض اور دیگر افراد کے خلاف دھوکا دہی اور فراڈ کے کئی مقدمات زیر تفتیش ہیں، لہذا عوام بحریہ ٹان کے دبئی پروجیکٹ میں سرمایہ کاری نہ کریں۔

اس کے اگلے روز ملک ریاض نے ایکس پر اپنے ردعمل میں 190 ملین پانڈز کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایک گواہی کی ضد کی وجہ سے بیرون ملک منتقل ہونا پڑا۔ میرا کل بھی یہ فیصلہ تھا، آج بھی یہ فیصلہ ہے۔ چاہے جتنا مرضی ظلم کر لو، ملک ریاض گواہی نہیں دے گا۔ نیب کی پریس ریلیز کو بلیک میلنگ قرار دیتے ہوئے ملک ریاض کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کاروبار کرنا آسان نہیں، سالوں کی بلیک میلنگ، جعلی مقدمے اور افسران کی لالچ کو عبور کیا، نیب کا آج کا بے سروپا پریس ریلیز دراصل بلیک میلنگ کا نیا مطالبہ ہے۔ میں ضبط کر رہا ہوں لیکن دل میں ایک طوفان لیے بیٹھا ہوں، اگر یہ بند ٹوٹ گیا تو پھر سب کا بھرم ٹوٹ جائے گا۔

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: قانون سے بالاتر وزیر دفاع ملک ریاض

پڑھیں:

ملک ریاض اور پاکستان کی ریاست و سیاست

القادر ٹرسٹ کیس کے فیصلے میں انصاف کے تقاضے پورے ہوئے یا نہیں اس پر ملک بھر میں بحث جاری ہے۔ اس موضوع پر گیان بانٹنے کے لیے جغادری سیاستدان، وکیل، صحافی، اینکرز اور یوٹیوبرز ہمارے درمیان موجود ہیں، جو اپنی اپنی ذہنی استعداد اور افتاد طبع کے مطابق آئین و قانون کی تشریح  کررہے ہیں جس سے عوام اپنی سیاسی وابستگی کے اعتبار سے اکتساب کرتے ہیں۔

 بھانت بھانت کی بولیاں سنتے ہوئے  میں ملک ریاض کی اپنے حکمرانوں اور نظام پر مضبوط گرفت کے بارے میں مسلسل سوچتا رہا اور اس حوالے سے کئی واقعات میرے حاشیہ خیال میں آئے، ملک ریاض کے نام سے کسی کا نام جڑ جائے تو وہ انسان قانونی مقدمہ بعد میں ہارتا ہے اخلاقی مقدمے میں اسے  شکست پہلے ہوتی ہے۔

ملک ریاض کے بارے میں برسوں پہلے عمران خان نے کیسی خدا لگتی بات کہی تھی کہ اس شخص نے ملک کو نیلام گھر بنارکھا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:شفقت محمود کا سیاسی سفر، بےنظیر بھٹو سے عمران خان تک

جرنیلوں، ججوں، سیاستدانوں، صحافیوں اور وکیلوں میں کون ہے جس نے ملک ریاض  کے عزائم کی راہ میں رکاوٹیں دور کرنے میں ان  کی اعانت نہیں کی اور اس کے  بدلے میں اسے نوازا نہ گیا ہو۔

القادر ٹرسٹ کیس ملک ریاض کی اپنے کام کے بدلے میں  بندہ پروری کی ہی ایک مثال ہے جس پر عمران خان اور ان کی اہلیہ کی پکڑ بھی اس لیے ممکن ہوسکی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان کی لڑائی ہے۔ ہمارے ہاں ماضی و حال کے حکمرانوں کو سزا اسی وقت ملتی ہے جب اسٹیبلشمنٹ سے ان کی ٹھن جائے۔ یہ پاکستان کی تاریخ ہے۔ القادر ٹرسٹ کیس کا فیصلہ بھی اسی کا تسلسل ہے لہذا اس سے حکمرانوں کے احتساب کی راہ کھلنے کی بات نقش برآب ہی ہے۔

 فروغِ علم کے لیے سیاستدانوں کو یونیورسٹی کے دام میں لانا ملک ریاض کا پرانا وتیرہ ہے۔ 2014 میں جناب نے حیدر آباد میں الطاف حسین کے نام پر یونیورسٹی بنانے کا اعلان کیا تھا، جس کے لیے وہ ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو گئے تو ان کا پُرتپاک سواگت ہوا۔ کارکنوں نے مہمان کے آنے کی خوشی میں ڈھول کی تھاپ پر رقص کیا، اس موقعے پر بانی ایم کیو ایم کے فرموداتِ عالیہ کی ایک ہلکی سے جھلک ملاحظہ کیجیے۔

یہ بھی پڑھیں: ’کتاب گزرے زمانوں تک لے جانے والی سرنگ ہے‘

’اللہ تعالیٰ نے ملک ریاض کو حیدرآباد کے عوام کے لیے رحمت کا فرشتہ بنا کر بھیجا ہے، ملک ریاض نے نائن زیرو آنے سے پہلے آصف زرداری سے رابطہ کیا، آصف زرداری نے ملک ریاض کوخوشی خوشی حیدرآباد میں یونیورسٹی بنانے کی اجازت دی۔‘

افسوس صد افسوس یہ عظیم الشان علمی منصوبہ الطاف حسین کے اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات بگڑنے کی وجہ سے ٹھپ ہو گیا اور ان کے نام پر یونیورسٹی تو کجا میڈیا میں ان کا نام لینے پر ہی پابندی لگ گئی اور انہیں بانی ایم کیو ایم کہا جانے لگا، جس طرح اب  عمران خان  ‘بانی پی ٹی آئی’ ہو گئے ہیں۔

ملک ریاض کا نام بھی میڈیا میں لینے پر ممانعت رہی ہے لیکن الطاف حسین اور عمران خان کی طرح اس سے ان کی کمزوری نہیں طاقت اور رسوخ کا اظہار ہوتا ہے، جب کبھی ملک ریاض اور ان کے بحریہ ٹاؤن کے بارے میں منفی خبرنکلی، میڈیا کے بڑے حصے کے لیے ان کا نام پراپرٹی ٹائیکون ہو گیا اور بحریہ ٹاؤن نجی ہاؤسنگ سوسائٹی بن گئی۔

یہ بھی پڑھیں: القادر ٹرسٹ کیس کا فیصلہ، ملک ریاض کو سزا کیوں نہ ہوئی؟

اب ہم آجاتے ہیں پاکستانی حکمرانوں سے ملک ریاض کے خفی اور جلی روابط کی طرف جس میں آصف علی زرداری کو کوئی نہیں کاٹ سکتا۔ ان کی دوستی کی ایک پکی نشانی بحریہ ٹاؤن لاہور کا بلاول ہاؤس ہے، جس کے بارے میں کبھی عمران خان نے فرمایا تھا:

 ’اسلام آباد (آئی این پی) تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے صدر آصف علی زرداری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ قوم کو آگاہ کریں کہ بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض کی جانب سے تحفے میں دیے گئے 5 ارب روپے کے لاہور میں تعمیر کیے گئے محل بلاول ہاؤس کے عوض انہوں نے ملک ریاض کو کیا فائدے دیے ہیں، اپنے ایک بیان میں عمران خان نے کہا کہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل پاکستان کے مطابق بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض نے صدر زرداری کو لاہور میں 200 کنال پر محیط ایک محل تحفہ کے طورپر دیا ہے، ملک ریاض کے اس قیمتی تحفہ کا نہ تو چیئرمین نیب نے نوٹس لیا اور نہ کسی اور قانون نافذ کرنے والے ادارے نے اس جانب توجہ کی۔‘

پاکستان کی تاریخ کے طالب علموں کے لیے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ ملک ریاض جن کا اپنا دامن صاف نہیں ہے ان کی مرضی سے انسدادِ کرپشن کے لیے قائم  نیب کے سربراہوں کی تقرری بھی ہوتی رہی ہے، ان میں سے ایک تو ایڈمرل(ر) فصیح بخاری ہیں جن کا تذکرہ عمران خان  اس وقت زبان پر لائے تھے جب ملک ریاض نے بلاول ہاؤس زرداری کو دان کیا تھا۔ عمران خان کے بقول ’چئیرمین نیب کی معنی خیز خاموشی ان سوالات کو تقویت دیتی ہے جن میں فصیح بخاری کی ملک ریاض کی سفارش پر چیئرمین نیب تقرری کا ذکر کیا گیا تھا۔‘

یہ بھی پڑھیں: القادر ٹرسٹ کیس، سپریم کورٹ سے بڑا ریلیف؟ عمران خان کے لیے پیشکش

فصیح بخاری کے زمانے میں ہی ملک ریاض کے خلاف لینڈ فراڈ کیس، اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ سے نیب کو منتقل کروا کر پراپرٹی ٹائیکون کو کلین چٹ دی گئی تھی جس کے بارے میں بعد میں سپریم کورٹ نے تحقیقات کا حکم بھی دیا تھا۔

فصیح بخاری کی طرح جسٹس ( ر) جاوید اقبال کی چئیرمن نیب کے طور پر تقرری میں بھی ملک ریاض کا کردار رہا اور خیر سے  ان کا نام بھی پیپلز پارٹی کی طرف سے آیا تھا اور حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے اسے قبول کرلیا تھا۔

2019 میں اسلام آباد میں ایک رپورٹر نے جاوید اقبال سے ملک ریاض کے پینڈنگ کیسز کے بارے میں استفسار کیا اور  اس الزام کی حقیقت بھی جاننی چاہی تھی کہ کیا چئیرمین  نیب بننے سے پہلے ان کی ملک ریاض اور آصف علی زرداری سے ملاقات ہوئی تھی؟ اس سوال کا جواب چئیرمین نیب سے بن نہیں پایا تھا۔

ایک زمانہ اگر وہ  تھا جس میں نیب چئیرمین کی تعیناتی میں ملک ریاض کی رضا شامل ہوتی تھی تو اب ایک زمانہ یہ ہے جس میں نیب ان کے خلاف جاری اعلامیے میں بتاتی ہے کہ اس  کے پاس ملک ریاض کے خلاف سرکاری اور نجی زمینوں پر قبضے کے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: جب پاکستان کے زخمی کھلاڑیوں نے ویسٹ انڈیز کو ڈھیر کیا

ان سب کھلی حقیقتوں کی روشنی میں آپ پیپلز پارٹی کے کسی جیالے سے اگر کبھی  پوچھ لیں کہ ملک ریاض نے آصف علی زرداری کو عالی شان رہائش کس حساب میں دی ہے اور دونوں میں ہمدمی کی بنیاد کیا ہے  تو  وہ اس بات کا برا مان کر اس  کی کوئی نہ کوئی  تاویل کرے گا۔

اب ایسا ہی معاملہ تحریک انصاف کے حامیوں کا ہے جو القادر ٹرسٹ کیس کے سقم بیان کریں گے، جج کی  اہلیت پر انگلیاں اٹھائیں گے، ان حالات کا تذکرہ کریں گے جن میں کیس کی سماعت ہوتی رہی، اور تو اور اس کیس میں سے مذہبی کارڈ بھی نکال لیں گے۔  لیکن اس سوال کا جواب نہیں دیں گے کہ ملک ریاض کے ساتھ عمران خان کی وزارت عظمیٰ کے زمانے میں ایک مشکوک اور متنازع ڈیل کیوں ہوئی؟ جس کے بعد ملک ریاض کی عنایات خسروانہ کا سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا۔

ملک ریاض سے سیاستدانوں سے تعلقات کا خلاصہ  یوسف رضا گیلانی نے وزیراعظم کی حیثیت سے پریس کانفرنس میں ایک سوال کے جواب میں بیان کر دیا تھا۔ ‘ملک ریاض کے صرف آصف زرداری اور رحمان ملک سے نہیں نواز شریف اور شہباز شریف سمیت تمام سیاستدانوں سے تعلقات اور دوستی ہے۔’

طاقت کے حقیقی مرکز اور اہل سیاست سے  دوستی کی وجہ سے ملک ریاض نے کئی دفعہ وچولے کا کردار بھی نبھایا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:حمید اختر کی ‘کال کوٹھری’ اور آج کا پاکستان

نواز شریف کا کہنا ہے کہ  2014 میں  دھرنے کے دوران آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل ظہیر الاسلام نے انہیں استعفا دینے کا پیغام بھجوایا جسے انہوں نے رد کر دیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ وزیراعظم تک یہ اہم پیغام ملک ریاض ہی لے کر گئے تھے، اس سے پہلے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے درمیان معاہدہ بھوربن کے وقت بھی ملک ریاض خاصے سرگرم رہے تھے۔

2017 میں ملک ریاض نے نواز شریف اور شہباز شریف سے جاتی عمرہ میں ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی تھی جس کے بارے میں ڈان اخبار کے نمائندے  نے اپنی رپورٹ میں لکھا تھا:۔

 ‘ذرائع کے مطابق ’موجودہ سیاسی صورتحال میں شریف برادران کی ملک ریاض سے ہونے والی یہ ملاقات انتہائی اہمیت کی حامل ہے، کیوںکہ برطرفی کے بعد نواز شریف اور ان کی پارٹی کے سامنے آنے والے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے سابق وزیراعظم کو پی پی پی کی مدد درکار ہے، ذرائع نے مزید بتایا کہ نواز شریف نے جمہوری نظام کو مستحکم کرنے کے لیے درکار تعاون کا پیغام آصف زرداری تک پہنچانے کے لیے ملک ریاض پر بھروسہ کیا۔’

شہباز شریف کے ملک ریاض سے تعلقات میں اتار چڑھاؤ کی کہانی بھی ڈان کی اس رپورٹ میں شامل ہے۔

اب ایک مثال عدالت میں نقب لگانے کے لیے پیش کی جاتی ہے۔ ملک ریاض نے عدلیہ کے ’افتخار‘ کے بیٹے کو مہرہ بنانے کے لیے اس پر بھاری سرمایہ کاری کی اور جب مطلوبہ نتائج نہ نکلے تو یہ راز سارے زمانے پر کھول دیا  اور  اپنے لٹنے کی دہائی دی۔ البتہ یہ بتانا پسند نہ فرمایا کہ ملک کے چیف جسٹس کے فرزند ارجمند پر پانی کی طرح پیسہ کیوں بہایا جا رہا تھا اور ادھر افتخار چودھری جن کو دنیا جہان کے معاملات کی خبر تھی وہ  اپنے بیٹے کی ملک ریاض کے پیسوں سے ہوس سیرو تماشا و خریداری سے بے خبر ہی رہے۔

یاد رہے کہ افتخار محمد چودھری اور ملک ریاض کی اس کھلی عداوت میں عمران خان نے افتخار چودھری کا ساتھ دیا اور یہ مطالبہ کیا تھا:

‘ ملک ریاض نے پاکستان کو نیلام گھر بنا دیا ہے، وہ قرآن ہاتھ میں پکڑ کر بتائیں کہ اب تک کن سیاستدانوں ،جرنیلوں، بیورو کریٹس اور صحافیوں کو پیسے دیے۔’

ملک ریاض کے کارناموں کا قصہ طولانی ہے جس کے بیان کے لیے ایک کالم ناکافی ہی رہے گا،  البتہ ہم  نے ان کی پہنچ اور  کارگزاریوں کی ہلکی سی جو جھلک دکھائی ہے، اس سے آپ یہ ضرور جان سکتے ہیں کہ ان حضرت نے ملک کے ساتھ کیا کھلواڑ کیا ہے، جس میں انہیں ہمارے رکھوالوں اور منتخب نمائندوں کی سپورٹ حاصل تھی۔

ملک ریاض کے سیاہ کاموں کا ایک پرچہ  کل نیب نے بھی آوٹ کیا ہے۔ ایک نظر اسے بھی دیکھ لیجیے ۔

آخر میں یہ گزارش کرنی ہے کہ سیاسی جماعتوں کے کارکنان اور سپورٹرز ملک ریاض ٹائپ کی شخصیات سے اپنے رہنماؤں کی قربت کو سخت تنقیدی نظر سے دیکھیں اور انہیں ایسے لوگوں سے دور رہنے  پر مجبور کریں تاکہ ان کی  لیڈری کا بھرم قائم رہ سکے۔

 انگریزی کا یہ فرمودہ  عام فرد سے کہیں زیادہ سیاسی رہنماؤں کے لیے بامعنی ہے: A man is known by the company he keeps(آدمی اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے)

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

محمود الحسن

گزشتہ دو دہائیوں سے مختلف قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں سے وابستہ ہیں۔ کتابوں میں 'شرفِ ہم کلامی 2017'، 'لاہور شہر پُرکمال 2020'، 'گزری ہوئی دنیا سے 2022' اور 'شمس الرحمٰن فاروقی ,جس کی تھی بات بات میں اک بات' شائع ہو چکی ہیں۔

القادر ٹرسٹ کیس بحریہ ٹاؤن بشریٰ بی بی پی ٹی آئی عمران خان ملک ریاض

متعلقہ مضامین

  • ریاست نے 25 سال بعد ملک ریاض پر ہاتھ ڈال دیا ہے، اب ان کا بچنا مشکل: خواجہ آصف
  • ریاست نے ملک ریاض پر ہاتھ ڈال دیا ہے، اب ان کا بچنا مشکل ہے، خواجہ آصف
  • حکومت ملک ریاض پر ہاتھ ڈالے گی اور انہیں یو اے ای سے واپس لائے گی، وزیر دفاع
  • حکومت ملک ریاض پر ہاتھ ڈالے گی اور انہیں یو اے ای سے واپس لائے گی، خواجہ آصف
  • ملک ریاض کے اثاثوں کی قومی سطح پر تحقیقات ہونی چاہئیں، خواجہ آصف
  • پی ٹی آئی کی جانب سے مذاکرات سے انکار کی کوئی بنیاد نہیں، خواجہ آصف
  • ملک ریاض اور پاکستان کی ریاست و سیاست
  • جتنا مرضی ظلم کرلو، گواہی نہیں دوں گا،ملک ریاض
  • جتنا مرضی ظلم کرلو، گواہی نہیں دوں گا، ملک ریاض