یوٹیوبر رجب بٹ کو 50 ہزار جرمانہ اور جانوروں کے حقوق پر ماہانہ ویڈیو بنانے کی سزا
اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT
لاہور کے جوڈیشل مجسٹریٹ حامدالرحمن نے یوٹیوبر رجب بٹ کو قانونی تقاضے مکمل کیے بغیر شیر کا بچہ رکھنے کے جرم میں مجرم گردانتے ہوئے 50 ہزار روپے جرمانے کے ساتھ ساتھ ایک سال تک کمیونٹی سروس کرنے کی سزا سنائی ہے۔
عدالت نے کہا کہ اس عرصہ کے دوران وہ ہر مہینے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر جانوروں کے حقوق کے تحفظ کے بارے میں ویڈیوز بنا کر اپ لوڈ کیا کریں گے، اگر مجرم اس پر عمل کرنے میں ناکام رہا تو اسے قید کی سزا بھی سنائی جاسکتی ہے۔
محکمہ وائلڈ لائف کی جانب سے رجب بٹ کے خلاف درج ہونے والے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے کہا کہ اس مقدمے میں مؤقف اپنایا گیا کہ ملزم رجب بٹ نے اپنی شادی کے موقع پر شیر کا بچہ بطور تحفہ قبول کیا جبکہ ’قانون کے مطابق جب تک شیر کا بچہ رکھنے کے حوالے سے متعقلہ محکمے سے لائسنس حاصل نہ کیا جائے اور شیر کا بچہ پالنے کے لیے مناسب اقدامات نہ ہوں تو ایسا اقدام جنگلی جانوروں کے لیے بنائے گئے قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
مزید پڑھیں: ’ان کا پیسہ ہے وہ جو چاہیں کریں‘ مشی خان رجب بٹ کے دفاع میں آ گئیں
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ شادی کے موقع پر بھی شیر یا کسی بھی جنگلی جانور کے بچے کو بطور تحفہ قبول نہیں کیا جا سکتا۔ مجرم رجب بٹ نے اپنا جرم تسلیم کیا ہے اور خود کو عدالت کے رحم وکرم پر چھوڑا تھا۔
رجب بٹ وائلڈ لائف قوانین کی شق 21 کے تحت مجرم گردانے گئے ہیں، اس کے تحت جرم ثابت ہونے پر 2 سال قید اور 10 ہزار روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔ چونکہ رجب بٹ نے اپنا جرم تسلیم کیا ہے اور خود کو عدالت کے رحم وکرم پر چھوڑا ہے اس لیے عدالت انہیں 50 ہزار روپے جرمانے کے ساتھ محکمہ وائلڈ لائف کے حوالے کرتی ہے۔ مجرم تحریری طور پر محکمہ کو لکھ کر دے گا کہ وہ آئندہ کسی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث نہیں ہوگا۔
مجرم اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم سے جنگلی جانوروں کے تحفظ اور ان کا شکار روکنے سے متعلق مواد ویڈیو کی شکل میں ہر ماہ کے پہلے ہفتے میں اپ لوڈ کرنے کا پابند ہے جس کا دورانیہ 5 منٹ کا ہوگا اور اس کی تفصیلات محکمہ وائلڈ لائف کے حکام کے ساتھ شیئر کرنے کا پابند ہوگا۔ عدالتی فیصلے کے مطابق کمیونٹی سروس کی سزا پر عمل درآمد فروری 2025 سے جنوری 2026 تک ہوگا۔
مزید پڑھیں: رجب بٹ کو گرفتار کروانے والا گھر کا بھیدی کون تھا؟
عدالت نے محکمہ وائلڈ لائف کے حکام کو کہا ہے کہ وہ اس کام کو مجرم کی ڈیجیٹل حاضری کے طور پر تسلیم کرے۔ اگر مجرم ذمہ داریاں ادا کرنے میں ناکام ہو تو عدالت کو آگاہ کریں جس پر عدالت مجرم کو سمن کرکے ان سے عدالتی فیصلے پر عمل درآمد نہ کرنے کی وجوہات پوچھے گی۔
عدالت نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ کمیونٹی سروس کی سزا پوری کرنے کے بعد متعقلہ محکمہ رجب بٹ کو ایک سرٹیفکیٹ جاری کرے گا جس کا مقصد ہوگا کہ رجب بٹ نے کوئی جرم کیا ہی نہیں۔ بازیاب ہونے والا شیر کا بچہ تاحکم ثانی سفاری پارک میں ہی رہے گا۔
یاد رہے کہ دسمبر 2024 میں رجب بٹ کی شادی پر انہیں ایک دوست نے شیر کا بچہ بطور تحفہ دیا تھا۔ تاہم کچھ افراد کی جانب سے اس کی اطلاع محکمہ وائلڈ لائف کو دی گئی تھی جس کے بعد محکمہ نے 16 دسمبر کو چھاپہ مار کر ملزم کے قبضے سے شیر کا بچہ برآمد کرکے مقدمہ درج کرلیا تھا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
رجب بٹ شیر کا بچہ لاہور محکمہ وائلڈ لائف یوٹیوبر.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: شیر کا بچہ لاہور محکمہ وائلڈ لائف یوٹیوبر محکمہ وائلڈ لائف جانوروں کے شیر کا بچہ رجب بٹ کو عدالت نے کی سزا
پڑھیں:
وسطی یورپی ممالک میں مویشیوں میں منہ کھر کی وبا، سرحدیں بند
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 اپریل 2025ء) ہنگری میں لیویل نامی شہر سے ہفتہ 12 اپریل کو موصولہ رپورٹوں کے مطابق وسطی یورپ کے ممالک میں اب تک منہ کھر کی وبا سے متاثرہ ہزارہا مویشی تلف کیے جا چکے ہیں مگر حکام کو اب بھی جانوروں کی اس بیماری کے وبائی پھیلاؤ کے مقابلے میں سخت مشکلات کا سامنا ہے۔
اس تازہ ترین وبا کے پہلے واقعے کی تصدیق مارچ کے اوائل میں شمال مغربی ہنگری میں مویشیوں کے ایک فارم میں ہوئی تھی۔
اس کے صرف دو ہفتے بعد ہمسایہ ملک سلواواکیہ میں بھی مویشیوں کے تین فارموں پر اس بیماری نے جانوروں کو متاثر کرنا شروع کر دیا تھا۔برطانیہ نے جرمنی سے مویشیوں کی درآمد پر پابندی لگا دی
ایک خاص متعدی وائرس سے لگنے والی جانوروں کی یہ بیماری بہت تیز رفتاری سے پھیلتی ہے۔
(جاری ہے)
یہ مرض خاص طور پر ایسے جانوروں کو متاثر کرتا ہے، جن کے پاؤں میں کھر ہوتے ہیں۔
یہ مرض جانوروں کے منہ کو بھی بری طرح متاثر کرتا ہے۔ اسی لیے اسے منہ کھر کی بیماری کہتے ہیں اور یہ ایسے مویشیوں کو اپنا شکار بناتی ہے جو دودھ یا گوشت کے لیے پالے جاتے ہیں۔
وبا کی موجودہ صورت حالمارچ کے اوائل میں ہنگری سے شروع ہونے والی مویشیوں کی اس وبا کی سلوواکیہ میں پہلے تین فارموں کے علاوہ اب تک ہنگری میں مزید تین اور سلوواکیہ میں بھی مزید تین فارموں پر موجودگی کی تصدیق ہو چکی ہے۔
یہ خدشات بھی ہیں کہ ان دونوں ممالک سے جانوروں کا یہ وبائی مرض دیگر وسطی یورپی ممالک میں بھی پہنچ سکتا ہے۔ہنگری اور سلوواکیہ میں تو یہ گزشتہ نصف صدی سے بھی زیادہ عرصے میں منہ کھر کی وبا کے اولین واقعات ہیں۔
آئی وی ایف سے پیدا بچھڑا میتھین گیس اخراج کم کرنے میں معاون؟
ہنگری کے ایک چھوٹے سے شہر لیویل میں ایک مقامی شہری نے بتایا، ''یہاں تو دنیا ہی الٹ گئی ہے۔
کسان خوفزدہ ہیں کہ وہ اپنے تمام مویشیوں سے محروم ہو جائیں گے اور وہ قرنطینہ کے سبب اور سرحدیں بند ہونے کی وجہ سے بھی اب صحت مند مویشیوں کو کہیں اور نہیں لے جا سکتے۔‘‘ یہ وبا پھیلتی کیسے ہے؟منہ کھر کی بیماری ایسے مویشیوں کو اپنا شکار بناتی ہے، جن کے پاؤں کے دو کھر ہوتے ہیں، اسی لیے یہ وائرس زیادہ تر گائیوں، بھینسوں، بھیڑوں، بکریوں، سؤروں اور ہرنوں کو متاثر کرتا ہے۔
اس بیماری کا وائرس لگنے کے بعد جانوروں کو بخار ہو جاتا ہے اور ان کے منہ اور کھروں کے ارد گرد شدید قسم کے چھالے بن جاتے ہیں۔ یہ وائرس جانوروں کے ایک دوسرے کے قریب آنے سے ایک سے دوسرے مویشی میں منتقل ہو جاتا ہے۔
لیکن جانوروں میں یہی وائرس ہوا کے ذریعے بھی پھیلتا ہے اور یہی متاثرہ یورپی علاقوں میں حکام کے لیے سب سے زیادہ تشویش کی بات ہے۔
یہ وائرس انسانوں کے لیے بہت کم خطرناک ہوتا ہے۔ تاہم ڈیری فارمنگ اور لائیو اسٹاک کے لیے یہ وبا ہوش ربا مالی نقصانات کی وجہ بنتی ہے کیونکہ وائرس سے متاثر ہو جانے کی صورت میں ایسے ہزاروں بلکہ لاکھوں مویشی تلف کرنا پڑ جاتے ہیں۔
قومی سرحدوں کی بندشمنہ کھر کی اس وبا کے پیش نظر سلوواکیہ کی حکومت نے اسی ہفتے ہنگری کے ساتھ اپنی 16 مشترکہ گزر گاہوں کو بند کرنے کا اعلان کر دیا۔
ساتھ ہی سلوواک حکومت نے آسٹریا کے ساتھ بھی اپنی ایک بارڈر کراسنگ بند کر دی۔قبل ازیں آسٹریا نے بھی، جس کی سرحد جرمنی سے بھی ملتی ہے، ہنگری اور سلوواکیہ کے ساتھ اپنی 23 سرحدی گزرگاہیں بند کر دی تھیں۔ آسٹریا میں ابھی تک مویشیوں کے اس وبائی مرض کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا۔
ان حالات میں چیک جمہوریہ نے، جو ہنگری اور سلوواکیہ کے اس وبا سے متاثرہ علاقوں سے کافی دور ہے، اپنے ہاں سخت حفاظتی انتظامات کا اعلان کر دیا ہے۔
چیک حکومت نے ان تمام پانچ بارڈر کراسنگز پر، جہاں سے مال بردار ٹرک اس ملک میں داخل ہوتے ہیں، ایسے اقدامات متعارف کرا دیے ہیں، جن کے تحت مال بردار گاڑیوں کو جراثیموں سے پاک کیا جا رہا ہے۔ چیک جمہوریہ میں بھی اب تک منہ کھر کی بیماری کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا۔
ادارت: امتیاز احمد