اسلامی سماج اور عورت کا حقِ وراثت
اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT
آج ایک انتہائی اہم سماجی مسئلہ پر روشنی ڈالنے کا ارادہ ہے اور وہ مسئلہ ہے مسلمان معاشرے میں بہنوں بیٹیوں کی حق تلفی اور وراثت سے جبرا محرومی کا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے کچھ عرصہ قبل وراثت کے ایک کیس میں جو ریمارکس دیے تھے وہ خوش آئند اور قابل توجہ ہیں کہ ’’ہمارے معاشرے کی روایت بنتی جا رہی ہے کہ بہنوں بیٹیوں کو وراثت میں سے کچھ بھی نہیں دیا جاتا۔بلکہ انہیں ڈرا دھمکا کر وراثت سے کچھ بھی نہ لینے پر قائل کر لیا جاتا ہے۔ زمینوں اور جائدادوں سے پیار کرنیوالے بعض اوقات سگی بیٹیوں اور بہنوں کے وجود تک سے انکاری ہو جاتے ہیں۔ اسلام نے خواتین کو جو حقوقِ وراثت عطا کیے ہیں ان سے کوئی انکار کی جرئت نہیں کرسکتا۔ وقت آگیا ہے کہ بہنوں اور بیٹیوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے‘‘
موت ایک ایسی اٹل حقیقت ہے جس کا انکار کوئی ذی شعور نہیں کر سکتا۔ ہر انسان دنیا کی زندگی گزارنے کیلئے کوئی نہ کوئی کاوش اور جد و جہد کرکے مال و اسباب اکٹھا کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ بعد از مرگ اس کے زیر ملکیت منقولہ و غیر منقولہ جائداد کو کس طرح تقسیم کیا جائے؟ اسلام وہ دین ہے جس نے سب سے پہلے مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کو بھی وراثت میں حق دار ٹھہرایا۔ حالانکہ اس وقت کے جزیرۃ العرب کے معروضی حالات عورتوں کے حوالے سے فرسودہ نظریات کے حامل تھے۔ بچیوں کو زندہ درگور کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے۔ ایسے ماحول میں اسلام کے متوازی نظام اقتصاد کی خوبیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس سلسلے میں عورتوں کے حقوق کو مالی تحفظ دیا گیا ۔ اسلام نے عورت کو ماں، بہن بیٹی اور بیوی کے طور وہ مثالی حقوق عطا کیے جن کی مثال کسی تہذیب و مذہب میں نہیں ملتی۔ لیکن بد قسمتی سے ہمارے معاشروں میں ہماری بہن بیٹی عملا ان حقوق سے محروم ہے جن کا بیاں قرآن کی آیات اور نبیﷺ کے ارشادات میں موجود ہے۔ اسلام عورت کو وراثت کا حقدار بتاتا ہے جب کہ معاشرہ جبر کر کے ان کے حقوق کو سلب کر رہا ہے۔ دنیا دار تو دنیا دار رہے بڑے بڑے دیندار اور جبہ و دستار کے حامل دیندار بھی عورتوں کو جائداد میں سے ان کا شرعی حصہ دینے میں کنی کترانے سے باز نہیں آتے۔ جہیز کے نام پر چند برتن دے کر جائداد سے بہنوں بیٹیوں کو محروم رکھنے کی روایت ہمارے معاشرے کا حصہ بن چکی ہے۔ یاد رکھیں قرآنی ارشاد کے مطابق جس طرح زندہ دفنائی گئی بچیوں سے پوچھا جائے گا کہ کس جرم کی پاداش میں انہیں زندہ درگور کر دیا گیا تھا۔ اسی طرح عورتوں کو وراثت کے حق سے محروم کرنیوالوں سے بھی پوچھا جائے گا کہ تم نے یہ ظلم کیوں کیا۔ مسلمان کو قطعا زیب نہیں دیتا کہ عورتوں کو حق وراثت سے محروم کرے۔ ہمارے ہاں صدیوں سے رواج چلا آرہا ہے کہ بہنوں کو ڈرا دھمکا کر یا بلیک میل کر کے حق وراثت معاف کروا لیا جاتا ہے۔ یہ معافی دل سے نہیں ہوتی بلکہ بھائیوں اور خاندان کے دوسرے لوگوں سے سوشل بائیکاٹ سے بچنے کی غرض سے ہوتی ہے۔ چاہیے تو یہ کہ پہلے بہنوں اور بیٹیوں کا جو حصہ بنتا ہے وہ دے دیا جائے۔ بعد ازاں از خود وہ معاف کردیں یا واپس کردیں تو ان کی مرضی۔ کچھ صورتوں میں شادیوں کے بعد بہنیں تنگدستی کی وجہ سے انتہائی مشکل کی زندگی گزارتی ہیں لیکن ماں باپ کی وراثت میں سے ان کے حصے پر قابض بھائی عیش و عشرت کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ وراثت کا حق وہ حق ہے جو معاف کردینے سے بھی ساقط نہیں ہوتا بلکہ عورت جب چاہے مطالبہ کر کے لے سکتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے سے فرسودہ رسم و رواج کو ختم کر کے ہر حقدار کو اس کا حق دلایا جائے۔ سیاسی تنظیمیں عورتوں کے حقوق وراثت کو اپنے منشور کا حصہ بنائیں۔ علما ئے کرام محراب و منبر سے اپنی بہنوں بیٹیوں کے حقوق میراث کی آواز بلند کر کے اپنے حصے کا قرض چکائیں۔ ذرائع ابلاغ کے ذریعے اس بات کو عام کیا جائے کہ عورتوں کو ان کے شرعی حقوق وراثت سے لازمی حصہ دیا جائے۔ تقسیم میراث میں کوہتاہیاں عام ہو چکی ہیں۔ کوئی فوت ہو جائے تو جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے تحت بندر بانٹ کر لیتے ہیں جبکہ شرعی اصولوں کے مطابق تقسیمِ جائداد کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ ہر روز اتنی طلاقیں نہیں ہوتیں جتنے کہ لوگ فوت ہوتے ہیں لیکن مفتیان شرع کے پاس طلاق کے مسائل کے ڈھیر لگے ہوتے ہیں جبکہ اکا دکا وراثت کا مسئلہ کوئی پوچھتا ہے کیونکہ اس کو اہمیت نہیں دیتے۔ کسی کا حق کھانا حرام ہے۔ اس کی سزا آخرت میں تو ہے ہی لیکن یاد رکھیں ’’زندگی خود بھی گناہوں کی سزا دیتی ہے‘‘۔ جو لوگ سود، چوری، رشوت اور جھوٹ سے بچتے ہیں۔ یہاں تک کہ کسی کی اجازت کے بغیر ایک الائچی کھانا بھی حرام سمجھتے ہیں۔بد قسمتی سے وہ بھی جائداد کی تقسیم میں صرف نظر یاکوتاہی کے مرتکب نظر آتے ہیں۔ لوگ رواج نہیں چھوڑتے مگر شریعت کی پرواہ نہیں کرتے۔ جہیز رواج ہے اس لیے ضرور دیتے ہیں لیکن وراثت فرض ہونے کے باوجود اس میں سستی اور کاہلی سے کام لیتے ہیں۔
عموما اسلام میں عورتوں کے حق وراثت کے حوالے سے ایک سوال یہ اٹھایا جاتا ہے کہ مرد کے مقابلے میں عورت کا حصہ آدھا کیوں؟ ڈاکٹر صلاح الدین سلطان مصری نژاد فاضل ہیں ، جو جامعہ اسلامیہ امریکہ میں استاذ ہیں ، انھوں نے اس موضوع پر ’’ میراث المرأۃ و قضیۃ المساواۃ‘‘ کے عنوان سے قلم اُٹھا یا ہے اور ثابت کیا ہے کہ تیس سے زیادہ حالتیں ایسی ہیں جن میں عورت مرد کے برابر یا اس سے زیادہ حصہ پاتی ہے یا وہ تنہا حصہ دار ہوتی ہے اور مرد محروم ہوتا ہے ، جب کہ چار متعینہ حالتیں ہیں ، جن میں عورت کا حصہ بہ مقابلہ مرد کے آدھا ہوتا ہے ، اگر اس پس منظر میں عورت کی میراث کے مسئلہ پر غور کیا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ سمجھنا کہ عورت کو مرد کے مقابلہ کم حصہ دیا جاتا ہے ، محض غلط فہمی ہے ، اور جن صورتوں میں عورت کا حصہ کم ہے ، ان میں فرق محض فرائض اور ذمہ داریوں کے لحاظ سے رکھا گیا ہے۔ بلکہ اس میں بھی عورتوں ہی کی رعایت ملحوظ ہے کیوں کہ مرد پر سارے خاندان کی کفالت کی ذمہ داری ہے ، عورت پر خود اپنی کفالت کی ذمہ داری بھی نہیں ، اس لحاظ سے بظاہر عورت کا حصہ نصف سے بھی کم ہونا چاہئے ؛ لیکن عورت کی فطری کمزوری کی رعایت کرتے ہوئے اسے نصف کا مستحق قرار دیا گیا ہے ۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: بہنوں بیٹیوں عورت کا حصہ عورتوں کو عورتوں کے کیا جائے جاتا ہے کے حقوق نہیں کر کہ عورت سے بھی مرد کے
پڑھیں:
بارڈر کراسنگ سرکاری سرپرستی کے بغیر ممکن نہیں، جماعت اسلامی
فیصل آباد (جسارت نیوز) جماعت اسلامی کے رہنمائوں پروفیسر محبوب الزماں بٹ، میاں طاہر ایوب، یاسر کھارا ایڈووکیٹ نے اسپین جانے والے تارکین وطن کی کشتی کے حادثے میں درجنوں پاکستانی نوجوانوں کے جاں بحق ہونے پر دُکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس قسم کے حادثات میں مسلسل اضافہ تشویشناک ہے، نوجوان اپنے ملک میں مناسب روزگار کے مواقع میسر نہ ہونے پر اتنے بھیانک سفر کا فیصلہ کرتے ہیں، ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ عوام کے لیے روزگار کے مواقع فراہم کرے تاکہ عوام کو ایسے جان لیوا فیصلوں کی ضرورت ہی نہ پڑے، انسانی اسمگلنگ کرنے والا پورا مافیا ہے جسے روکنے میں حکومت ناکام ہے، مافیا کی سرپرستی کرنے والی بیورو کریسی میں چھپی کالی بھیڑوں کو بھی بے نقاب کرکے قانون کے دائرے میں لایا، مکروہ عمل میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ مہنگائی کے بڑھنے اور پاکستانی کرنسی کے گرنے سے لوگوں میں ملک سے باہر جا کر روزگار کے لیے جانے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے، یہ افراد مقامی ایجنٹوں کو رقم کی ادائیگی کرکے بیرونِ ملک جانے کی کوشش کرتے ہیں جس میں انہیں غیر قانونی طریقے سے بارڈر کراسنگ کرائی جاتی ہے، یہ غیر قانونی عمل کسی سرکاری سرپرستی کے بغیر ممکن نہیں۔